Search This Blog

Tuesday 7 August 2012

BURMA KE MUSALMANON KI HALATE ZAR

برماکے مسلمانوں کی حالتِ زار

عالمگیر آفریدی 
-’’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘‘ کے مصداق آج ایک بار پھر ایک ایسی قوم اور مذہب کے پیروکاروں کی جانب سے روہنگیا (اراکان، برما) کے مسلمانوں کا خونِ ناحق بہایا جارہا ہے جنہیں فلسفۂ عدم تشدد کا پرچارک سمجھا جاتا ہے اور جن کی امن پسندی اور انسان دوستی کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ بدھ مت کے ان پیروکاروں نے گزشتہ دہائیوں کے دوران بالعموم اور گزشتہ دو ماہ کے دوران بالخصوص جس بڑے پیمانے پر برمی مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اس پر عالمی ضمیر کی پراسرار خاموشی اور ان تمام واقعات کو برما کا اندرونی معاملہ قرار دے کر مسلمان ممالک کا اس پوری صورت حال پر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا باعثِ تشویش ہی نہیں قابلِ مذمت بھی ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں ایک طرف برما کی حکومت اپنے شہری ماننے کے لیے تیار نہیں ہے تو دوسری جانب بنگلہ دیشی حکومت بھی لٹے پٹے روہنگیا مسلمان خاندانوں کو اپنے ہاں اسلامی اور انسانی بھائی چارے کی بنیاد پر پناہ دینے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ان کی سرحد پر پاکستان جیسی کسی اسلامی نظریاتی مملکت کا وجود نہیں ہے۔ بظاہر تو روہنگیا کے مسلمانوں کے اکثریتی علاقے اراکان کی سرحد بنگلہ دیش سے لگی ہوئی ہے لیکن بنگلہ دیش حکومت نے اپنی روایتی طوطا چشمی اور اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف برما کے ساتھ اپنی سرحد مکمل طور پر سیل کررکھی ہے بلکہ اراکان اور بنگلہ دیش کے درمیان واقع خلیج بنگال میں بھی اپنے کوسٹ گارڈز کی تعداد میں اضافہ کرکے سمندر کے راستے اراکانی مسلمانوں کے بنگلہ دیش میں داخلے کے تمام بحری راستوں کو بند کردیا ہے۔ بنگالی حکومت کی اس بے حسی اور برما حکومت کی اس سفاکی اور انتہاپسندی کے باعث آٹھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کی زندگیاں اور ان کی شناخت بہت بڑے المیے سے دوچار ہیں۔ غیر جانب دار بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق اب تک 20 ہزار سے زائد بے گناہ اور نہتے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جاچکا ہے، ہزاروں مسلمان مائوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار کی جاچکی ہیں، ہزاروں بچے یتیم اور ہزاروں خواتین بیوہ بنادی گئی ہیں، مسلمان نوجوانوں کو چن چن کر ہلاک کیا گیا ہے، مسلمان بستیوں کو فوج اور پولیس کی نگرانی میں آگ لگا کر خاکستر کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روہنگیا مسلمان بے بسی اور مایوسی کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اولاً تو انہیں اپنا قصور معلوم نہیں ہے کہ انہیں کس جرم میں مارا جارہا ہے، ثانیاً پوری مہذب دنیا بالخصوص اقوام متحدہ اور عالم اسلام اس سفاکی اور انسانیت سوز مظالم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر روہنگیا کے مسلمانوں کا جرم کیا ہے جس کی انہیں اتنی بڑی سزا دی جارہی ہے! روہنگیا کے مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ مسلمانوں کی وہ نسل ہے جو انتہائی امن پسند اور غیر متشدد واقع ہوئی ہے۔ ان سے اب تک ایسی کوئی بات یا واقعہ منسوب نہیں جس کی بنیاد پر ان کے خلاف تاریخِ جدید کی مغربی اصطلاحات یعنی تشدد پسندی، انتہا پسندی یا عسکریت پسندی کا الزام لگایا جاسکے۔ روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ یہاں نویں صدی عیسوی میں آباد ہوئے۔ برما کی حکومت نے شروع دن سے ان علاقوں کی ترقی اور ملکی معاملات میں ان کی شمولیت سے گریز کی پالیسی اپنائی، جس سے یہ علاقے نہ صرف انتہائی پسماندگی سے دوچار ہوئے بلکہ برما کی قومی وحدت کا حصہ بننے سے بھی محروم رہے۔ سانحہ سقوطِ ڈھاکا تک روہنگیا کے مسلمان کسی نہ کسی طرح مشرقی پاکستان کے ساتھ اپنے رشتے ناتے بر قرار رکھنے میں کامیاب رہے، لیکن بنگلہ دیش کے قیام کے بعد چونکہ وہاں خالص بنگلہ قوم پرست سیکولر عناصر چھا گئے اس لیے اُن کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی پشت پناہی اور تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا گیا، اس کے علاوہ ان کے خلاف برمی حکومت کی درخواست پر بعض سخت اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ برما کے مسلمانوں کا قضیہ سیاسی اور انسانی المیے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان ہے۔ اگر انہیں ایک مؤثر قیادت دستیاب ہوجاتی ہے اور پوری کمیونٹی اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قیادت کے پیچھے کھڑی ہوجاتی ہے تو تمام تر مسائل اور مشکلات کے باوجود وہ نہ صرف دنیا سے اپنا وجود منوانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے لاسکتے ہیں اور ان مظالم کے خلاف پُرامن سیاسی جدوجہد کے ساتھ مسلح مزاحمت کا مسلمہ حق بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ روہنگیا کے مسلمان اقوام متحدہ کی ہر تعریف کی رو سے نہ صرف اپنا ایک الگ مذہبی، لسانی اور قومی تشخص رکھتے ہیں بلکہ برمی حکومت کے مظالم کے خلاف انہیں اپنی بقا، خودمختاری، حتیٰ کہ آزادی کا بنیادی حق بھی حاصل ہے۔ برما کے مسلمان ویسے تو کئی حوالوں سے بدقسمت اور لاچار واقع ہوئے ہیں، لیکن ان کے ساتھ اسلامی ممالک نے جس بے رخی اور بے مروتی کا مظاہرہ کیا ہے وہ یقینا دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ عالم اسلام کے حکمران جو امریکی تابعداری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، اور جو امریکی شہہ پر اپنے ہی مسلمان شہریوں اور برادر اسلامی ممالک کے خلاف مسلح جارحیت سے بھی دریغ نہیں کرتے ان کی جانب سے روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اور اس ضمن میں اب تک اسلامی کانفرنس تنظیم کے حرکت میں نہ آنے سے اس بے جان اور بے روح تنظیم نے اپنی نااہلی اور اسلام دشمنی ایک بار پھر ثابت کردی ہے۔ سعودی عرب، ترکی،انڈونیشیائ، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے بڑے اسلامی ممالک کی روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اور ان مظالم کے خلاف اپنی اپنی حکومتوں کی سطح پر آواز بلند نہ کرنے سے عام مسلمانوں میں اپنے بے ضمیر اور بے حس حکمرانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کے جذبات میں یقینا اضافہ ہوگا۔ امریکا کو چین، ایران اور شمالی کوریا وغیرہ میں انسانی اور مذہبی حقوق پامال ہونے پر تو ہر وقت تشویش لاحق رہتی ہے لیکن اس کی جانب سے روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اُس کی روایتی اسلام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ برما کے مسلمانوں کی نسل کشی پر اب تک اقوام متحدہ نے جو منفی کردار ادا کیا ہے اُس نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی ہے کہ اقوام متحدہ کا کام محض امریکی مفادات کی تکمیل ہے۔ امریکہ کو جب بھی اپنے مفادات کے لیے کسی اسلامی ملک کے خلاف ننگی جارحیت کا مرحلہ درپیش ہو تاہے وہ اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کرکے پوری دنیا کو دھونس اور طاقت سے اپنے ساتھ ملا کر اسلامی ممالک کے خلاف تباہی و بربادی کا محاذ کھول دیتا ہے۔ عراق، افغانستان، صومالیہ، لیبیا، شام، سوڈان اور یمن اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے دوغلے اور منافقانہ کردار کا اندازہ اس کی جانب سے انڈونیشیا اور سوڈان میں عیسائی اکثریتی علاقوں مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں وہاں کی حکومتوں کی مرضی اور منشا کے خلاف دو آزاد عیسائی ریاستوں کے قیام میں امریکی باندی کا کردار ادا کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کو فلسطین اور        کے 65سال پرانے تنازعات تو نظر نہیں آتے لیکن مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے تنازع کو راتوں رات حل کردیا جاتا ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام اور وہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سرگرمیوں کا آغاز، نیز وہاں کے مسلمانوں کو ان کے مذہب اور رسم و رواج کے مطابق عزت و آبرو کی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنا نہ صرف اقوام متحدہ کا فرض ہے بلکہ یہ اس کے مینڈیٹ کا بنیادی تقاضا بھی ہے۔ لہٰذا اگر اقوام متحدہ خود پر سے جانبداری اور اسلام دشمنی کا لیبل اتارنا چاہتی ہے تو اسے جہاں دیگر اسلامی خطوں کے مسائل پر توجہ دینا ہوگی وہیں روہنگیا کے مسلمانوں کی دادرسی اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے بھی آگے بڑھ کر اپنا نام نہاد عالمی کردار ادا کرنا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment