Search This Blog

Tuesday, 7 August 2012

AMAN DUSHMAN AMERIKI SAMRAJ - KRISHN DEV SETHI

امن دشمن امریکی سامراج
فتن وفساد سے بھر ی دنیا پہ کس کا راج؟؟

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میںنہیں جُزاز نوائے قیصری
                                     اقبالؔ
اس وقت عراق، افغانستان اور فلسطین وغیرہ میں جنگ اور جارحیت کے شعلے بھڑک ہی رہے ہیںجب کہ شام میں خون ریز خانہ جنگی جاری ہے ۔ اس سب کے پیچھے امریکی سامراج کی کرم فرمائی ایک عیاں وبیاں حقیقت ہے جو اپنے حقیرمفادات کے لئے اقوام متحدہ کو حسب سابق استعمال کر کے دمشق کے خلاف تحت براہ راست مسلح بیرونی مداخلت کے ضمن میں زور دار کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکی سامراج اور سامراجی میڈیا شام میںانسانی حقوق کی پائمالی کا شور کچھ اس طرح مچارہاہے جیسے ان کے دل میں ساری انسانیت کا درد اترا ہو اور یہ بذات خود دودھ کے دھلے ہو ں۔ اس دکھا وے اور مگر مچھ کے ان آ نسو ؤں میں جذ بۂ خلو ص یاہمدردی کی مٹھاس گندھی ہوئی نہیں بلکہ یہ صاف طور دکھا رہا ہے کہ شام کے افسوس ناک حالا ت دیکھ کر ان کے منہ سے سامراجی مفادات کی رال ٹپک رہی ہے ۔ اس بات سے انکا ر نہیں کہ شامی صدر بشار الا سدکی سرکار کچھ فاش غلطیاں کر رہے ہوں لیکن اس زمینی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بنیادی طورپر سامراجی یلغار کی وجہ دمشق کی طرف سے امریکی سامراج اور اسرائیل کے مکروہ عزائم کی مزاحمت ہے۔ جس طرح لیبیامیں کرنل قذافی اورعراق میں صدام حسین کی حکو متو ں کے خلاف انسانی حقوق کی پائمالی کے خلاف واویلا کرکے بیرونی مسلح مداخلت کی راہ ہموار کرکے ان ممالک میں امریکی غلبہ قائم کیاگیا، اسی طرح کے سازشی ہتھکنڈے شام میںآ زما ئے جار ہے ہیں اور اگر یہ جا رحیت پسندانہ سلسلہ سامراجی ایجنڈے کے عین مطابق جارہی رہا تو اس کے بعد ایران کی باری آ نی ہی آ نی ہے۔ بہرصورت جدید دنیامیں مختلف تضادات اور تنا زعات کے پس منظر میں امریکی سامراج کے عزائم بدکی جانکاری حا صل کر نا اور دنیامیں مختلف برسر پیکار قوتوں کے توازن کو ذہن نشین کرنا اشد ضروری ہے۔
 کامریڈ مائوزے تنگ نے ’’تین دنیائوں‘‘ کاتصور پیش کیاتھا اور کہاتھا کہ دنیابھر کے عوام کومتحدہ ہوکر پہلی دنیا یعنی بڑی سامراجی طاقتوں کے خلاف جدوجہد کرنی چاہے۔ دنیا اسی تصور کے مطابق گھوم رہی ہے۔
 موجودہ عالمی صورت حال کوصحیح طورپر سمجھنے کے لئے مناسب ہوگا کہ کرئہ ارض زمین کی تین دنیائوں میں تفریق اور دنیا میں تین بڑے متضاد نظریات کا مختصر ساجائزہ لے لیاجائے۔
 پہلی دنیا:
جب تین دنیائوں کی تفریق کا نظریہ پیش کیاگیاتھا۔ اس وقت سوویت یونین اورا مریکہ دو بر تر طاقتیں تھیںجو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے گتھم گتھا تھیں اور سرگرمی سے نئی جنگ کے لئے تیاری کررہی تھیں۔ یہ صورتحال پہلی دنیا کی تشکیل کرتی تھی۔یہ دنیاسب سے بڑے بین الاقوامی ظالم، جابر ، جارح ، استحصال کے شیدائی اور دنیا کی تمام اقوام کے مشترکہ دشمن کے طورپر وجود میںآچکی تھی۔ دونوںبلا کو ں کے درمیان دشمنی لازماً نئی عالمی جنگ کی طرف لے جارہی تھی۔ دونوں میںعالمی برتری یاچودھراہٹ کا سکہ جما نے کے لئے عالمی لڑائی تمام ملکوں کے لئے خطرہ بنی ہوئی تھی۔سوویت یونین اب زوال پذیر ہوچکی ہے۔ اب صرف امریکہ ہی سپر پاور کی حیثیت سے باقی ہے جو بدستور ایک خطرہ ہے اور عوام اس کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں ۔یہ آج کی عالمی سیاست کے لئے ایک  درد سر والامسئلہ بن چکاہے۔
 دوسری دنیا:
  ترقی یافتہ ممالک جاپان، یوروپ، اور کنیڈا درمیانی سیکشن کا تعلق دوسری دنیا سے ہے۔ یہ ملک تیسری دنیا کی مظلوم اور مجبور قوتوں پر ظلم وجبر کرتے ہیں اور ان کااستحصال کرتے ہیں۔ جب کہ امریکہ اور اس وقت کی سوویت یونین دوسری دنیا کے ملکوں کو بھی ڈراتے دھمکاتے اور کنٹرول کرتے تھے لیکن سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکہ واحد سپر پارو کی حیثیت سے انہیں اب بھی ڈراتا دھمکاتا رہتاہے اور کنٹرول کرتاہے۔ لہٰذا دوسری دنیا کے ملکوں جاپان، یوروپ اور کنیڈا کا کردار دوغلہ ہے۔ ان کا تضاد پہلی اور تیسری دنیا کے ساتھ بنتاہے لیکن پھر بھی وہ ایک طاقت ہیںجنہیں اپنی طرف جیتا جاسکتاہے یا جن کے ساتھ سپر طاقت امریکہ کے خلاف جدوجہد میں اتحاد کیا جاسکتاہے۔
تیسری دنیا:
 ہم تیسری دنیا ہیں۔ تیسری دنیا ایک بہت بڑی آبادی کی دنیاہے۔ سوائے جاپان کے ایشیاء کا تعلق تیسری دنیا سے ہے۔ سارا افریقہ تیسری دنیا میں ہے، لاطینی امریکہ بھی۔ چین اوردیگر مظلوم و مجبور قومیںجو دنیا کی گنجان ترین آبادی والی قوموں میں شمار ہوتی ہیں اور نہایت بری طرح استحصال زدہ ہیں اسی تیسر ی دنیا کی تشکیل کرتی ہیں۔ سوویت یونین کے علاوہ مشرقی یوروپ کی ریاستوں کے زوال کے بعد طاقت کے توازن کاجھکائو زیادہ تر امریکہ کی طرف بڑھ گیاہے اور اب برتر طاقت امریکہ کے خلاف عالمی جدوجہد میں تیسری دنیا سب سے اہم قوت کی حیثیت سے آمنے سامنے کھڑی ہے۔
 دنیا میں تین بڑے تضادات:۔
کامریڈ لینن نے جن تین بڑے تضادات کا ذکر کیاتھا وہ اب بھی دنیا میں تین بڑے تضادات ہیں۔ ان میں سے اصل یا بنیادی تضاد کی جونشاندہی کی گئی تھی وہ درج ذیل ہے:۔
(۱)۔ سرمائے اور محنت کے درمیان تضاد
(2) ۔سامراجی طاقتوں کے مابین تضاد
(3) ۔سامراج اور دنیا کے مظلوم ومجبور عوام اور قوموں کے درمیان تضاد۔
تین بڑے تضادات میں سے آخری تضاد اصل تضاد ہے لیکن کیا ان تضادات میںکوئی تبدیلی آئی ہے؟ یا آج کی دنیامیں یہ تضادات کس طرح کام کررہے ہیں؟
اس حوالے سے ہی جب ہم مغربی ممالک کی حقیقت پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں توبس یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ( اگر کوئی نوآبادیاتی یا نیم آبادیاتی ملکوں کی بات کرتاہے تو کرنے دیجئے ) وہاںکے محنت کش طبقے پر نہایت منصوبہ بندی اورمنظم طریقے سے حملہ کیاجارہاہے۔ سماجی بہبود ، سلامتی اور پنشن یا اسی طرح کے دیگر فوائد محنت کش طبقے کو فیاضیانہ تحائف کے طورپر نہ دئے گئے تھے بلکہ یہ عشروں کی انتھک جدوجہد اور جانفشانی کے بعد حاصل کئے گئے تھے۔ اب ہرشیٔ حملوں کی زد میں ہے۔ موجودہ حقوق پرحملے ہورہے ہیںاورنام نہاد نئی معیشت ( اصل میںنئی مشقت) محنت کش طبقے کے حقوق خواہ وہ کتنے ہی معمولی کیوں نہ ہوں، واپس چھیننے کے لئے برسرپیکارہے ۔
 مشرقی دنیا کے عوام کے ایک خاصے حصے کو یہ امیدتھی کہ ان کا مستقبل ڈالر اور یورو کے باعث روشن ہوجائے گا۔ سامراجی مجرموں نے غربت اور بے روزگاری سے فائدہ اٹھاکر اقلتیوں کے خلاف بدترین شکل کے تشدد کو ایجاد کیا۔ (جس طرح بھارت کے مغربی صوبہ گجرات میںمسلمانوں کاقتل عام کیاگیا) لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے واقعات اب ماضی کا قصہ بننا شروع ہوگئے ہیں۔ زندگی اپنے آپ کو منوارہی ہے۔ مشرقی یوروپ کا محنت کش طبقہ جس نے مغرب کو فریبِ نظر کے باعث قبول کرلیاتھا۔ اسے اب حقیقت کا سامنا کرنا پڑرہاہے اور محنت بالمقابل سرمایہ کا تضاد جاری ہے۔
 ۲۔سامراجی طاقتوں کے درمیان تضاد:۔
ساری دنیا کو باور کرایاگیاہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد سردجنگ ختم ہوچکی ہے۔ سامراجی طاقتوں کے درمیان کوئی تضاد باقی نہیںرہاہے۔ گویا سب کچھ مختلف ہے اوریکساں بھی، جس طرح برطانیہ من مانی سے انکل سام کی پیروی کرتاہے۔ اگرایسا ہی ہے تو پھر نیٹو کی توسیع کاکیا مقصدہے؟ یورو فوج جس کی بعض ممبران نے ابھی کمزور تجویز پیش کی ہے اور جس کی تیاری ابھی حقیقت سے بہت دور ہے ، اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟ یوروپین یونین کے لئے فرانس اور جرمنی کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ یورو جس کابہت چرچاکیاگیاہے یوروپ کے سارے ملکوں نے اسے قبول کیوںنہیںکیا؟ شک پرستوں اور سٹہ بازوں نے نیٹو کی توسیع کے سلسلے میں اوباما اور پیوٹن کے درمیان معاہدے کے متعلق اپنے تجزئے کے ذریعے پہلے سے ہی ہوا خراب کرناشروع کردیا ہواہے لیکن یہ’’ معاہدۂ کچھ لو اورکچھ دو‘‘ اصل میں کیا ہے ؟ روس کے ساتھ معاہدے کرنے کی ضرورت کیوںپیش آئی؟ صرف اس معاملے میں ہی نہیں بلکہ کئی دیگر صورتوں میں بھی ایسے معاہدے کئے گئے ،جب کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد روس بہت کمزور ہوچکاہے۔ یا یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہوا کہ روس اب بھی دو برترایٹمی طاقتوں میںسے ایک ہے۔
 مختصراً سامراج کا مطلب ہے جنگ ، اس لئے جب تک سامراج باقی ہے جنگ کا خطرہ بھی باقی ہے اور یہ جب اپنے انتہائی عروج کی شکل میں عیاں نہیںہوتا تب بھی کمزور صورت میں اپنے مقامی خدمت گاروں کے توسط سے قائم مقام جنگیں جاری رکھتاہے ۔ بعض اوقات یہ ممکن ہے کہ وہ یا ان میںسے کچھ ساز بازکرلیں لیکن سامراجیوں کے آپس میں تعلقات میں لڑائی جھگڑے کو بنیادی خدو خال کی حیثیت حاصل ہے۔ گو 1980اور 1970کی طرح مقابلے کی صورت کو جوفوقیت حاصل تھی اب نہیںہے لیکن سامراج طاقتوں کے مابین ابتدائی تضادہر طرح سے موجود ہے۔
۳۔جدید دنیا میں اہم ترین اصل تضاد اب بھی وہی ہے جس کی نشاندہی کئی عشرے قبل کی گئی تھی یعنی ایک طرف ساری دنیا کے مظلوم و مجبور عوام اور اقوام اور دوسری طرف امریکی سامراج کی سربراہی میں دیو ہیکل سامراجیت ۔ کہاجاتاہے کہ یوگو سلاویہ اور کا سوؤ کے خلاف جنگ گزشتہ صدی کی آخری جنگ اور افغان جنگ نئے ملنیٔم میں پہلی صدی کی پہلی جنگ ہے لیکن کیا یہ سچ ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر تمام تر فلسطینی عوام اور فلسطینی قوم کے خلاف نسل کشی کی جنگ کو کون سی جنگ کہنا چاہیے ؟اسے کون جاری رکھے ہوئے ہے؟پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کی پشت پناہی اولاً امریکی سامراج اور پھر اس کا چھوٹا حصہ دار برطانیہ بک رہاہے۔ آئے دن عالم گیر یت کی سامراجی منشا کی سرگرم طرفداری کرنے کے لئے ۔ یواین او (یونائٹیڈنیشن ) ڈبلیو ٹی ٹی او ، ڈبلیو بی، آئی ایم ایف جیسے سیاسی اور اقتصادی ادارے موجود ہیں۔ سیاسی اور اقتصادی جارحانہ جنگ کے نام پر اب جارحانہ فوجی کاروائی میںاضافہ کرنے کے بعد اسے برقراررکھنے اور مزید پھیلانے کے مقصد سے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اب جارحانہ فوجی کاروائی کا سلسلہ جاری ہے۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگن کے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد انہیں فرضی بہانے کے طورپر استعمال کرتے ہوئے مکار امریکی سامراجی ،متکبرانہ اور گستاخانہ انداز میں بتارہے تھے :اگر تم ہمارے ساتھ نہیں توپھر تم’’ دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ ہو، لہٰذا تم پر حملہ کر نا واجب ہے۔ وہ ریاستیں یا قومیں جو ان کے ڈاکو اور لٹیرے پن کی مخالفت کرتی ہیں ان پر ’’بدمعاش‘‘ ریاستوں کا لیبل چسپاں کردیا جاتاہے۔ چاہے وہ عراق ہویا شام ہو،شمالی کوریا ہویا کیوبا ہو یا ایران ہو۔گزشتہ صدی کے پچاس ویں اور ساٹھ ویں عشرے میں ان کی’’ مقدس‘‘ جنگ کمیونزم کے خلاف تھی اور موجودہ’’ مقدس جنگ دہشت گردی‘‘ کے خلاف ہے۔
امریکی سامراج دنیا کے عوام کادشمن نمبر ایک ہے۔ سوویت یونین کے خلاف اس نے عالمی کر تا دھرتا بننے کے لئے ’مسلم اتحاد ‘ کا ایجاد کیا۔ پاکستان کے توسط سے برسر پیکار جہادی عناصر کو خبر کئے بغیر بڑے فنکارانہ انداز میں اپنا تابع فرمان بنایالیکن فلسطین میں امریکہ کے کردار نے تمام دنیا میں غصے کی آگ کوبھڑکایا اور بن لادن سعودی عرب سے امریکی فوج کے نکل جانے پر افغانستان میںپائپ لائن کے منصوبہ سے کمائے جانے والے منافع میں حصہ داری کا مطالبہ کرنے لئے امریکہ کی نظرمیں ’’راکھشس‘‘ خیال کئے جانے لگے۔ ان کی مخالفت کرنے کے لئے پاکستان پر تو دبائو ڈالا اور خوف زدہ کیاجاسکتاتھا لیکن اس کے برعکس سعودی عرب جو مشرقی وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لئے کیمپ مرید کی حیثیت رکھتاہے ، نے ایک مرتبہ انہیں سعودی عرب سے باہر نکال دیاتھا، نے بھی فلسطین میں امریکہ کے کردار کی کھلی مخالفت کی۔ کیا سعودی عرب کے حکمران طبقے کا کرداراب بدل گیاتھا؟ نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میںامریکہ کے جرائم کے خلاف عرب عوام کا مزاج نہایت ہی تندوتیز ہے ،اس لئے سعودی حکومت کوعوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کے لئے یہ پوزیشن لینی پڑی۔
گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکہ کے برسر اقتدار طبقے کی طرف سے امریکی قوم کے ضمیر پر ’’معتصب قومی پرستی‘‘ کے خوب تازیا نے برسائے گئے لیکن چند مہینوںکے بعد امریکی دارالحکومت میں سے زیادہ لوگ احتجاج کے لئے جمع ہوئے۔ اسی طرح چالیس ہزار لوگوں نے فرانسسکو میں فلسطینیوں  کے حق میں مظاہرہ کیا۔
سامراج اپنی نشوونما کے دوران نئی شکلیں اور صورتیں اختیار کرتاہے۔ کرۂ ارض پر عوام الناس ایک بہت بڑی تعداد پر جبرا ً اور ان کااقتصادی سیاسی اور ثقافتی اورفوجی طورپر استحصال کرنے کے لئے واحد عالمگیر ریاست کی شکل میں نمود (گلوبلائزڈسٹیٹ) جدوید دور کے سامراج کی خاص علامت بن چکی ہے۔ دنیا جہاں ایک طرف دوسری عالمی جنگ کے آس پاس جمہوری تحریک اور قومی آزادی کی لہر اور دوسری جانب سرد جنگ کے دور میںسامراج کے مابین دشمنی سے متاثرہوئی تھی ، اب امریکی سامراج کی (دوسری قوموں پر) بالاداستی کے جال میںپھنس چکی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کے ذریعہ نمایاں اقتصادی استحکام ، خاص کر امریکی سامراج کی دوسرے اہم سامراجی ملکوں پر فوجی برتری ،کثیر القومی مالیاتی سرمائے کا قومی سرمائے اور تیسری دنیا کی معیشت پر کنٹرول نیز عالم گیر پیمانے پر ثقافتی مداخلت کی بوچھاڑ وغیرہ دیگر ممالک پر بالادستی برقراررکھنے کے اسباب ہیں۔ اس فاشسٹ وضع قطع کے امریکی سامراج کی اساس سنگین نظریاتی بحران پرکھڑی کی گئی ہے۔ سامراجی سرغنے اب قرون وسطیٰ کے بے بصریت وجبریت کی تقلید وحمایت سے حکومت کرناچاہتے ہیں۔
 آج کے سائنسی دورمیں اوباما کی طرف سے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد صلیبی جنگ کا اعلان سامراج کے نظریاتی بحران کی گہرائی کو واضح کرتاہے۔ اس نئے گلوبلائزڈ سامراج کی انسانیت کی ترقی کے نئے دور کے طورپر تشہیر کسی بھی سطح سے کیوں نہ کی جائے ؟اَن گنت زندہ حقائق ،تجربے اور عمل نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ تنگی اور قابل نفریں قسم کی نوآباد کاری کے سواکچھ نہیں۔ نوے کے عشرے کے بعد غربت کے تیز کردہ عمل کے جال میں پھنسنے کے بعد دنیا کے عوام کی اکثریت کا معیار زندگی گر چکاہے۔ تیس ہزار بچے جو ابتدائی علاج سے بچائے جاسکتے تھے، روزانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ عوام الناس کی بہت بڑی تعداد ناقص غذا کے باعث صحت کے مسائل سے دوچار ہے۔ 
 ان میںسے اکثریت ان کی ہے جو بمشکل چالیس سال کی عمر کوپہنچتے ہیں۔ تیسری دنیا کے بے شمار بچے، غلام بچوں کی حیثیت سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کے لئے کام کرنے پرمجبورہیں۔ روزانہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں نوجوان لڑکیوں کو عصمت فروشی کی طرف دھکیلا جارہاہے۔ نوجوانوں کی بے روزگار اکثریت ’’گلوبلائز ڈمزدور منڈی‘‘ میں ذریعۂ معاش کی تلاش میں مارے مارے پھررہی ہے۔ اس طرح انفرادیت پسندی اور آزاد خیالی کا نیا عالمی نظام صر ف اس حقیقت کی غمازی کرتاہے کہ یہ نظام پوری دنیا کے عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کو ایک ہی کڑھائی میںتلنے کے عمل کو تیز کرتا چلاآرہاہے۔
ایک اور پہلو جو قابل توجہ ہے یہ ہے کہ امریکی سامراج کی گلا بلائزڈسٹیٹ ( جس کی افزائش دنیا کے ایک سو چالیس ممالک میں فوجی اڈے قائم کرنے کے باعث ہوئی ہے) قدرتی طورپر عالم گیر مزاحمت اور بغاوت کو معیار کے لحاظ سے لازمی اور ممکن بناچکی ہے ۔آج کسی بھی جمہوری یا قومی آزادی کی تحریک کا دنیا کے کسی بھی ملک میںکامیاب ہونا ممکن نہیں تاوقتیکہ یہ عالمی عوام کی مزاحمت کا لازم وملزوم حصہ بن کر آگے نہ بڑھے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عوام سے لے کر دنیا کے ان تمام براعظموں تک جنہیں گلوبلائز ڈسامراج کے اس قسم کے جبر، جارحیت اور استحصال کا نشانہ بنایاجارہاہے، عراق میں نئے ویت نام کی حیثیت سے افزدوگی پانے والی مزاحمت اور افغانستان سے لے کر نیپال ،انڈیا ، پیرو،ترکی کی اور فلپائن کی انقلابی تحریکوں تک عوامی احتجاج کی زنجیر تک اور امریکہ سے لے کر یوروپ تک عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی، امریکی سامراجی اور اُس کے ایجنٹ اورصرف مقامی حکمران ہی ہر کہیں عوام کے مشترکہ دشمن ثابت ہوئے ہیں۔
تاہم آج کی دنیاکافیصلہ ایک طرف امریکہ سامراج کے ہاتھوںمیں کیا جارہاہے۔ (جو گلوبلائیز ڈریاست کی صورت میں آگے بڑھ رہاہے) اور دوسری طرف ا س کے خلاف عالمی جدوجہدہے۔ بہر حال اکیسویں صدی میںعالمی  فیڈریشن کے تصور کی نشونما تک اور اس کے جھنڈے تلے عوامی تحریکیں اورہر ملک کی قومی آزادی کی جدوجہد کا آغاز آج کی اشد ضرورت ہے۔
 بہر صورت آخرپہ ہم امریکی سامراج کو مائوزے تنگ کے الفاظ میں کاغذی شیر سمجھتے ہیں اور اس سلسلہ میں علامہ اقبال کے فکرانگیزاشعار کو دوہرانا چاہتے ہیں  ؎
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یارہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکارہوگا
 چلاگیاہے وہ دورساقی کہ چھپ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
 بنے گا سارا جہاں میخانہ ہر کوئی بادہ خوارہوگا
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کہ بستی ودکان نہیں ہے
 کھرا  جیسے تم سمجھ رہے ہو وہ اک دن زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
 جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوںگا اپنے درماندہ کاروراںکو
 شررفشاں ہوگی آہ میری نفس میرا شعلہ بار ہوگا 

No comments:

Post a Comment