Search This Blog

Sunday, 12 August 2012

MYNMAR KE MUSALMAN

میانمارکے مسلمان

شاہ نواز فاروقی 
-دنیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ ’’مسلمان‘‘ کیوں ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کیوں رکھتے ہیں؟ وہ قرآن کو دستور حیات کیوںکہتے ہیں؟ وہ اپنی تہذیب اور تاریخ سے کیوں وابستہ رہنا چاہتے ہیں؟ ایسا نہ ہوتا تو دنیا کے ہر ملک میں اقلیتیں ہیں اور اکثر جگہوں پر اقلیتیں پھل پھول رہی ہیں۔ مگر مسلمان جہاں اقلیت میں ہیں وہاں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ فلسطین‘ اسرائیل‘ بوسنیا ہرزیگووینا‘ کشمیر‘ بھارت‘ سری لنکا‘ امریکا‘ یورپ‘ روس‘ چین‘ غرضیکہ اقلیت کی حیثیت سے مسلمانوں کے لیے کہیں جائے پناہ نہیں۔ لیکن میانمار یا برما کے مسلمانوں کا المیہ عجیب ہے۔ اس مسئلے کا المناک ترین پہلو یہ ہے کہ دنیا کیا خود جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو معلوم نہیں کہ میانمار کے مسلمان کون ہیں؟ وہ میانمار میں کہاں آباد ہیں۔ ان کی نسل کشی کب سے ہورہی ہے۔ میانمار کے مسلمان روہنگیا کہلاتے ہیں اور وہ میانمار کے مغربی صوبے اراکان میں آباد ہیں۔ اراکان عربی لفظ ’’رکن‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ستون کے ہیں۔ اراکان کی آبادی 1990ء کے اعداد وشمار کے مطابق 40 لاکھ ہے جس میں 30 لاکھ مسلمان اور باقی دس لاکھ افراد مگھ بدھسٹ اور قبائلی لوگوں پر مشتمل ہیں۔ ارکان کا رقبہ 20 ہزار میل ہے۔ روہنگیا مسلمان عربوں‘ ترکوں‘ ایرانیوں‘ مغلوں‘ پٹھانوں اور بنگالیوں کی نسل سے ہیں اراکان میں مسلمانوں کی آمد 7 ویں صدی میں شروع ہوگئی تھی۔ اس وقت ارکان کا نام روہنگ تھا اور اس بنیاد پر ارکان کے مسلمان آج بھی روہنگیا کہلاتے ہیں۔ اس علاقے میں اسلام تیزی سے پھیلا اور 1430ء میں روہنگیا مسلمانوں نے اپنی سلطنت قائم کرلی۔ جس کے سربراہ شاہ سلیمان تھے۔ لیکن شاہ سلیمان کو برما کے بادشاہ منگی نے اقتدار سے محروم کردیا۔ اس کے بعد علاقے میں مسلمانوں کا اقتدار مختلف مراحل سے گزرا لیکن 1531ء میں زبک شاہ نے ایک بار پھر اراکان میں مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ ہر اعتبار سے ایک مثالی سلطنت تھی جس میں بدھ اقلیت کو کامل مذہبی آزادی تھی اور مسلمان بادشاہ مسجدیں بناتے تھے تو اس کے ساتھ بدھوں کی عبادت گاہیں بھی قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن 1784ء میں برما کے بادشاہ بودا پھایا نے مسلم سلطنت کا خاتمہ کردیا۔ مساجد سمیت مسلمانوں کی تمام علامتوں کو مٹانے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ سیکڑوں مسلمان شہید کردیے گئے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے مسلمانوں کے دین‘ ان کی تہذیب اور تاریخ کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی حالیہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 1949ء سے اب تک میانمار کے مسلمانوں کے خلاف 14 فوجی آپریشن ہوچکے ہیں جن میں 1978ء کا آپریشن اس اعتبار سے بدترین تھا کہ اس کے نتیجے میں 3 لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ تاہم روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تازہ ترین آپریشن بھی کم ہولناک نہیں اس آپریشن میں 300 مساجد بند کردی گئی ہیں۔ درجنوں بستیاں جلاکر خاکستر کردی گئی ہیں۔ میانمار میں اب تک مجموعی طور پر 20 ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں مسلمان جیلوں میں قید ہیں جن کی کوئی داد ہے نہ فریاد۔ اس صورتحال میں روہنگیا مسلمان خاموش نہیں بیٹھے رہے۔ 1947ء میں جعفر حسین قوال نے روہنگیا مسلمانوں کی مسلم جدوجہد کی بنیاد رکھی اس تعلق سے روہنگیا مسلمان انہیں آج بھی ’’مجاہد اعظم‘‘ کہتے ہیں۔ جعفر حسین قوال کو قوال اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مجاہدین کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے قوالیاں بھی گالیا کرتے تھے۔ تاہم 11 اکتوبر 1950ء کو انہیں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ روہنگیا مسلمانوں نے پرامن سیاسی جدوجہد کا راستہ بھی طویل مدت تک اختیار کیا لیکن یہ راستہ بھی روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کا حل فراہم نہ کرسکا اور آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمان میانمار کی سب سے بڑی اقلیت ہیں مگر سیاسی میدان میں کسی سطح پر ان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا اصل المیہ کیا ہے۔؟ روہنگیا مسلمانوں کا اصل المیہ یہ ہے کہ وہ 7 ویں صدی سے اراکان میں موجود ہیں مگر میانمار کا قانون کہتا ہے کہ جو لوگ 1823ء کے بعد میانمار میں آئے ہیں انہیں میانمار کا شہری تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا یہودیوں کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے کہ وہ ڈھائی ہزار سال بعد آکر فلسطین پر اپنا حق جتا سکتے ہیں اور اس پر قبضہ کرکے ریاست قائم کرسکتے ہیں مگر میانمار کے حکمران میانمار کے مسلمانوں کو ایک صدی کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ میانمارکے مسلمان نہ میانمار کے شہری ہیں نہ بنگلہ دیش انہیں اپنا شہری تسلیم کرتا ہے۔ میانمار کے حکمرانوں نے مسلمانوں کی زندگی کتنی دشوار بنائی ہوئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ میانمار کے مسلمانوں کو ایک تھانے کے حدود سے دوسرے تھانے کی حدود میں جانے کے لیے بھی اجازت نامے کی ضرورت ہے۔ وہ آزادی کے ساتھ شادی بیاہ بھی نہیں کرسکتے۔ انہیں شادی کے لیے درخواست دینی پڑتی ہے جوکہ برسوں متعلقہ سرکاری اہلکاروں کے پاس پڑی رہتی ہے۔ میانمار کے حکمران جب چاہتے ہیں مسلمانوں کو مساجد میں عبادت اور مذہبی تعلیم کے حق سے محروم کردیتے ہیں۔ وہ مساجد اور وقف کی املاک کو جلادیتے ہیں۔ منہدم کردیتے ہیں‘ یا ان پر تالے ڈال دیتے ہیں۔ میانمار بدھسٹوں کا ملک ہے اور بدھ ازم میں چڑیا کو مارنا بھی ’’حرام‘‘ ہے اس لیے کہ بدھ ازم کسی بھی جاندار کو کسی بھی حال میں مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن مسلمانوں کے سلسلے میں بدھ ازم کی ساری تعلیمات غیرموثر ہوگئی ہیں اور مسلمانوں کے حوالے سے میانمار کے حکمرانوں کو مہاتمابدھ کی کوئی تعلیم یاد نہیں آتی۔ میانمار کے حکمران تواتر کے ساتھ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے حالات اتنے دشوار بنادیے جائیں کہ وہ میانمار چھوڑنے کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنالیں۔ میانمار کے مسلمان صدیوں بالخصوص گزشتہ ساٹھ سال سے نسل کشی کی زدمیں ہیں مگر ان کا مسئلہ نہ اقوام متحدہ میں موجود ہے۔ نہ اس پر اوآئی سی کے کسی اجلاس میں کبھی کوئی بات ہوئی ہے۔ نہ وہ سارک کے فورم پر کبھی زیر بحث آیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بین الاقومی ذرائع ابلاغ میں بھی کہیں موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میانمار جیسا معمولی ملک بھی میانمار کے مسلمانوں کے لیے ’’سپرپاور‘‘ بن گیا ہے۔ وہ نہ انسانی حقوق سے متعلق کسی ادارے کے اہلکار کو اپنے یہاں آنے دیتا ہے۔ نہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو میانمار کا ویزا دیا جاتا ہے۔ چنانچہ میانمار کے مسلمان ’’مکمل تنہائی‘‘ میں زندگی بسرکررہے ہیں۔ انسان دکھ اور تکلیف سے نہیں مرتا مگر ناامیدی اسے چار دن میں ہلاک کردیتی اور امت مسلمہ کے حکمرانوں‘ رہنمائوں اور رائے سازوں نے اراکان کے مسلمانوں کو نظرانداز کرکے ناامیدی کی دلدل میں دھنسنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں میانمار کے مسلمانوں کی نسل کشی کی اطلاعات آئیں تو جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی جماعت کو اس پر احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کم وبیش دوہفتے تک اس طرح خاموش رہے جیسے انہیں بھی معلوم نہ ہو۔ معمولی معمولی باتوں پر ’’بریکنگ نیوز‘‘ دینے والوں کو میانمار کے مسلمانوں کی حالت زار پر کوئی نیوز ’’بریک‘‘ کرنے کی توفیق نہ ہوسکی۔ میانمار کے حکمرانوں نے مسلمانوں کے قتل عام کا جرم کیا اور بے شمارلوگوں نے قتل عام پر خاموش رہنے کے جرم کا ارتکاب کیا۔ nn

No comments:

Post a Comment