او آئی سی کی بے دلانہ کوشش
اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے میانمار میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام پر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس جدہ میں ہوا جس میں میانمار جنرل یونین کے سربراہ ڈاکٹر وقارالدین دھاڑیں مار کر روتے رہے۔ ڈاکٹر وقار نے او آئی سی سے میانمار میں مسلمانوں کی مدد کرنے کی اپیل کی۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین اوگلو نے کہا ہے کہ اجلاس میں میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام پر فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کیلئے میانمار کی حکومت سے جلد رابطہ کیا جائیگا۔ او آئی سی نے میانمار کی صورتحال پر وزارتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ بھی کیا جبکہ مسلمانوں کے قتل عام پر عالمی برادری کی خاموشی پر برہمی کا اظہار کیا۔ او آئی سی نے بنگلہ دیش سے پناہ گزینوں کے بارے میں موقف تبدیل کرنے کی بھی سفارش کی۔
برما کے مسلمانوں پر عرصہ حیات صدیوں سے تنگ ہے‘ تاہم ان پر ڈھائے جانیوالے مظالم میں چند دہائیوں سے اضافہ ہو گیا۔ خصوصی طور پر روہنگیا مسلمان شدید متاثر ہوتے رہے جو بنگلہ دیش سے متصل صوبہ اراکان کے باسی ہیں۔ اراکان کا پرانا نام روہنگ تھا‘ اسی مناسبت سے یہ لوگ روہنگیا کہلاتے ہیں۔ مصدقہ رپورٹس کے مطابق 1984ءکے بدنام زمانہ قانونِ شہریت کی رو سے روہنگیا مسلمانوں کا حق شہریت ختم کردیا گیا‘ انکے اندرون بیرون ممالک نقل و حرکت پر پابندی ہے۔ وہ آزادی سے ایک سے دوسری بستی بھی نہیں جا سکتے۔ فوج اور حکومت ان سے غلاموں جیسا برتاﺅ کرتی ہے۔ انکی جبری ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ 25 لاکھ کے قریب ان مسلمانوں پر سرکاری اداروں حتٰی کہ نجی اداروں تک میں ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ ان پر بدھ مت کے پیروکار‘ فوج اور پولیس رواں سال مئی میں قہر بن کر اس وقت ٹوٹی جب ایک بدھ لڑکی نے اسلام قبول کیا۔ شدت پسند بدھوں نے اسے قتل کرکے مسلمانوں پر الزام لگایا اور مسلم کش فسادات کا سلسلہ طویل ہوتا گیا۔ پہلا حملہ ایک بس پر کیا گیا‘ جس میں سے تبلیغی جماعت کے دس کارکنوں کو نکال کر قتل کردیا گیا۔ اسکے بعد سے اب تک 20 ہزار برمی مسلمانوں کو بچوں اور خواتین سمیت قتل کیا گیا ہے۔ بعض کو جلتی آگ میں پھینک دیا گیا‘ مظلوم مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو شیخ مجیب کی صاحبزادی حسینہ واجد کا بنگلہ دیش ان کو واپس مقتل میں دھکیل دیتا ہے۔ میانمار حکومت نے مقامی اور غیرملکی صحافیوں کو شورش زدہ علاقے سے نکال دیا ہے تاکہ مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم دنیا کی نظروں سے اوجھل رہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کیخلاف مظالم کی تازہ لہر تین ماہ سے جاری ہے‘ اس کا عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے تھا جبکہ اسکے ضمیر کو میانمار جنرل یونین کے سربراہ وقارالدین نے چلا چلا کر جھنجوڑا تو اس نے میانمار (برما) میں مسلمانوں کے قتل عام پر فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین اوگلو نے ”نوید“ سنائی ہے کہ یہ مشن بھیجنے کیلئے جلد رابطہ کیا جائیگا۔ برمی حکومت جو اراکان میں مقامی صحافیوں کی موجودگی بھی برداشت نہیں کر سکتی‘ وہ او آئی سی کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو کیسے آنے دیگی؟ معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ او آئی سی کی یہ بے دلانہ سی کوشش ہے‘ جو ثمرآور نہیں ہو سکتی۔
او آئی سی کے حوالے سے ایک تاثر یہ ہے کہ وہ ایک غیرفعال ادارہ ہے‘ دنیا بھر میں مسلمانوں پر توڑے جانیوالے مظالم پر اسکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ متعدد بار اسکی تنظیم نو کے حوالے سے گفتگو چلی لیکن چونکہ اس پر امریکہ نواز ممالک کی اجارہ داری ہے‘ لہٰذا اس سے کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آسکی۔ فلسطین‘ مقبوضہ ‘ افغانستان‘ عراق اور چیچنیا کے مسلمانوں پر کونسا ستم ہے جو نہیں ٹوٹا۔ استعماری قوتوں نے لیبیا پر کس طرح یلغار کی‘ لیکن او آئی سی خوابِ غفلت سے نہ جاگی‘ مسلمانوں کی زبوں حالی پر ہر مسلمان اشکبار ہے لیکن انکی نمائندہ تنظیم خوابیدہ ہے۔ بہزاد لکھنوی نے شاید آج کیلئے ہی کئی دہائیوں قبل کہا تھا۔
اس دور میں اے دست زبوں حالی مسلم
دیکھی نہیں جاتی ہے مگر دیکھ رہا ہوں
ہر چند کہ عرب لیگ جیسے ادارے کا حال بھی او آئی سی سے مختلف نہیں‘ تاہم او آئی سی چونکہ عالم اسلام یعنی 57 ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے‘ اسکی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بڑی ہیں مگر تاحال وہ اپنا کردار نبھانے میں ناکام ہے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کئی معاملات میں اس ادارے نے اسلام دشمن کارروائیوں پر نہ صرف مجرمانہ خاموشی اختیار کی بلکہ مخالفت قوتوں کی حمایت بھی کی۔ درحقیقت او آئی سی کی تشکیل کے اغراض و مقاصد کچھ اور ہی تھے اور یہ امید ہو چلی تھی کہ یورپی یونین‘ آسیان اور شنگھائی تنظیموں جیسی مثالوں کو سامنے رکھ کر ایک ایسا پلیٹ فارم تخلیق کرلیا جائیگا جہاں انکے وسائل کو یکجا کرکے ایک مشترکہ بنک‘ یورو جیسی مشترکہ کرنسی اور نیٹو جیسی مشترکہ فوج قائم کی جائیگی مگر بوجوہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔
سعودی فرمانروا‘ خادم حرمین الشریفین نے 27 رمضان المبارک کو سرزمین حجاز پر اسلامی سربراہی کانفرنس طلب کی ہے‘ جس میں یقیناً امہ کو درپیش مسائل پر غور ہو گا۔ موجودہ حالات میں او آئی سی کو مضبوط تر اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلم حکمرانوں نے مصلحت کا لبادہ اوڑھے رکھا تو استعماری اور سامراجی قوتیں ہر ملک کا حشر افغانستان‘ عراق اور لیبیا جیسا کر دینگی۔ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی مثالیں سامنے ہیں‘ وہاں ان ممالک کو عالمی تھانیداروں نے انڈونیشیا اور سوڈان کو توڑ کر نئی عیسائی مملکتیں قائم کر دیں جبکہ فلسطین میں یہود اور میں کے مظالم پر عالمی بڑے خاموش ہیں اور آج کی خبر کے مطابق تو اسرائیل یروشلم کو اپنا نشانہ بنانے پر تل گیا ہے۔ مسلم امہ کے پاس وسائل افرادی قوت اور ٹیکنوکریٹس کی کمی نہیں‘ ضرورت وسائل کو یکجا کرکے ایک حکمت عملی ترتیب دینے کی ہے‘ کمی صرف قوت ایمانی کی ہے۔ مکہ میں شب قدر کو ہونیوالی کانفرنس میں او آئی سی سے امہ کے سلگتے مسائل پر قابو پانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ او آئی سی نیٹو کی طرز پر تشکیل کردی جائے تو اسکے ذریعے نہ صرف بحرین اور شام میں جاری اندرونی شورش پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ بلکہ اور فلسطین کی آزادی اسی طرح یقینی بنائی جا سکتی ہے جس طرح مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو مغرب نے آزادی دلا دی ۔ پھر کسی ملک میں مسلمانوں پر ظلم ڈھانے کی ایسی جرا¿ت نہیں ہو گی جس طرح میانمار حکومت اراکان کے مسلمانوں پر ڈھا رہی ہے۔ موجودہ حالات میںمضبوط‘ فعال اور بااختیار او آئی سی ہی امہ کے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment