عید کی خوشیاں
-عبدالجبار خان
’’اجی! آج اکیسواں روزہ تھا۔ عید سر پر ہے، بچے کہہ رہے تھے نئے کپڑے بنوانے ہیں، جوتے اور دوسرا سامان بھی لینا ہے۔‘‘ غلام رسول صاحب گھر آئے تو افطاری کے بعد ’’بیگم رانی‘‘ نے بچوں کی فرمائشیں پیش کردیں۔ ’’ہاں رانو! آپ کو تو ابھی خیال آیا ہے اور مجھے پہلے روزے سے ہی اس کی فکر تھی۔ تمہیں تو معلوم ہے کہ میں ایک معمولی پولیس ملازم ہوں، تنخواہ سے بمشکل دال روٹی چلتی ہے، کوشش تو بہت کی کچھ بچت ہوجائے لیکن…‘‘ غلام رسول کی آواز بھر آئی… لفظ ’’لیکن‘‘ کے بعد جو کچھ غلام رسول کہنا چاہ رہے تھے، بیگم اُسے اچھی طرح سمجھ گئی تھیں۔ غلام رسول محکمہ پولیس کے ایک معمولی ملازم تھے، رشوت سے کوسوں دور، ہمیشہ ایک ایک پائی میں حلال کا خیال رکھتے تھے، تبھی تو آج عید کے کپڑوں کے لیے رقم کا بندوبست نہیں ہورہا تھا… ’’تو پھر کوئی انتظام ہوسکتا ہے؟‘‘ بیگم، کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں اور کپ میں چائے ڈالنے لگیں… انتظام! غلام رسول کے کانوں میں دوستوں کی آوازیں گونجنے لگیں، رفیق کہہ رہا تھا: ’’یار آج جیک لگ گیا ہے، پورے 25 ہزار لے کر ’’کالو خان‘‘ کو فرار کردیا ہے، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ذوالفقار بتارہا تھا ’’اس دفعہ تو اپنی عیدی بن ہی گئی ہے، پوری ایک کلو چرس شیدے پہلوان سے برآمد ہوئی تھی، دس ہزار وصول کرکے چھوڑ دیا۔‘‘ ندیم کیسے پیچھے رہتا، بولا: ’’آج ایک آدمی سے میں نے موبائل چھین لیا، آخر پولیس کی وردی میں تھا، بے چارہ کانپ گیا، شریف صورت آدمی تھا، بہت منتیں کیں اور پھر چپ ہوکر اپنی راہ لی، پورے چھ ہزار کا بیچا ہے، ایسے دو چار اور شریف ہاتھ لگ گئے تو اپنی عیدی پکی۔‘‘ رشوت، بدعنوانی، فراڈ، لوٹ مار… نہیں نہیں، ہرگز نہیں، یہ نہیں ہوگا، اللہ کو منہ دکھانا ہے… غلام رسول دوستوں کی باتیں سوچ کر بری طرح جھنجھلا گیا۔ ’’کیوں نا ہم قرض لے لیں، تنخواہ میں تھوڑا تھوڑا بچا کر واپس کردیںگے‘‘ بیگم نے رائے دی۔ ’’رانو بیگم! عید قریب ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، کس کے پاس اتنی رقم ہے جو ہمیں قرض دے گا!‘‘ غلام رسول کے چہرے سے مایوسی نمایاں تھی… ’’آخر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے‘‘… ’’اچھا بیگم! آج ایک آدمی کے پاس جاتا ہوں، کافی کھاتا پیتا ہے، امید ہے قرض دے دے گا۔‘‘ ………٭……… ’’سلطان صاحب! آپ کو پتا ہے کہ میں ایک معمولی ملازم ہوں، عید سر پر ہے، بچوں کے کپڑے بنوانے ہیں، کچھ رقم قرض کے طور پر چاہیے۔‘‘ ’’جناب والا! واپس کب کرو گے؟‘‘ ’’سلطان جی! آئندہ ماہ جو تنخواہ ملے گی، آپ کا قرض چکا دوں گا۔‘‘ سلطان نے اپنے دونوں پائوں ٹیبل پر دراز کیے اور سگریٹ کا ایک بڑا کش لگاتے ہوئے دھواں سامنے بیٹھے غلام رسول کی طرف پھونکا اور کہا: ’’غلام رسول! زندگی اور موت کا کیا بھروسا، تم آئندہ ماہ تک زندہ رہنے کا تحریری ثبوت دے دو، میں تمہیں رقم دے دیتا ہوں۔‘‘ یہ سلطان وہی تھا، جس نے ایک مرتبہ غلام رسول کو ایک ناجائز کام کرانے کے عوض رشوت کی پیش کش کی تھی اور غلام رسول نے انکار کردیا تھا، آج اس نے پورا پورا بدلہ لیا تھا۔ غلام رسول کی زبان گنگ ہوگئی۔ وہ الٹے پائوں گھر واپس آگیا۔ ’’جی رقم کا بندوبست ہوا؟‘‘ بیگم نے امید بھری نظروں سے غلام رسول کو دیکھا۔ ’’نہیں بیگم! بچوں سے کہہ دو کہ تمہارا باپ تمہیں عید کے لیے نئے کپڑے بنواکر نہیں دے سکتا۔‘‘ غلام رسول چارپائی پر بیٹھا منہ دیوار کی طرف کیے ہوئے تھا اور ڈھیر سارے بے بسی کے آنسو اس کی خالی جھولی کو تر کررہے تھے۔ آخر پرانے کپڑوں میں ہی غلام رسول اور اس کے بچوں نے عید کی نماز ادا کی۔ گھر آئے تو سب سے پہلے بڑا بیٹا ابوہریرہ باپ سے ملنے آیا: ’’ابا جان! عید کی ڈھیروں خوشیاں مبارک ہوں۔‘‘ بیٹے کو عید والے دن پرانے کپڑوں میں دیکھ کر غلام رسول اپنے آنسو ضبط نہ کرسکا اور بولا: ’’بیٹا! تم کہتے ہو گے کہ باپ کتنا ظالم ہے، ہمیں عید والے دن بھی نئے کپڑے بناکر نہیں دے سکا۔‘‘ سعادت مند بیٹا جس کی رگوں میں حلال کمائی کا خون دوڑ رہا تھا، بڑے تحمل سے بولا: ’’نہیں ابا جان! آج ہمارا سر فخر سے بلند ہے کہ ہمارے باپ نے لوگوں کے مال میں خیانت نہیں کی، کبھی رشوت نہیں لی، لوٹ مار اور فراڈ نہیں کیا، ہمیشہ ہمیں حلال اور پاکیزہ لقمہ کھلایا۔ ابا جان! ہم آپ کی اس ایمان داری اور جرأت کو سلام کرتے ہیں۔‘‘ ’’شاباش میرے بچو! مجھے تم سے اسی جواب کی امید تھی۔‘‘ یہ سعادت مند گھرانہ دسترخوان پر بیٹھا دودھ والی سویاں کھاتے ہوئے عجب لطف محسوس کررہا تھا اور ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھا۔ اب ہر طرف مسکراہٹ ہی مسکراہٹ تھی، کیونکہ ان لوگوں نے عید کی حقیقی خوشیاں پالی تھیں۔ |
No comments:
Post a Comment