۱۵اگست کا جشن منائیں کیسے؟؟ یہ داغ داغ اُجا لا یہ شب گزیدہ سحر کامریڈ کرشن دیوسیٹھی
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کاسفینہ
دنیاہے تری منتظر اے روز مکانات
(اقبال)
15اگست کو غیر ملکی انگریزحکمرانوں کو ہندستان سے گئے ہوئے 65سال بیت چکے ہیں۔ 15 اگست 1947ء کو آزادی کااعلان ہوا تھا۔ لال قعلے پریونین جیک کے بجائے ترنگا جھنڈا لہرایاگیاتھا۔ سفید فام حاکموں کے بجائے سیاہ فام اور گندمی رنگ کے حاکم تخت دہلی پر فروکش ہوئے تھے۔ اس موقع پر خوشی ومسرت کے شادیانے بجائے گئے تھے اور ہر کس وناکس نے سمجھا تھا کہ اب خوشحالی کا دور شروع ہوگیا ہے۔ مصائب وآلام کے دن چلے گئے ہیں۔ اب اپنا راج ہے۔ عوام تمام دکھوں سے نجات پائیںگے۔ اس تاریخی واقعہ کو نصف صدی اور پندرہ سال کاعرصہ گزر چکاہے، اس لئے سوچنے اور غو روفکر کرنے کا موقع ہے کہ ہندوستانی عوام نے جس آزادی کا خواب دیکھاتھا،اس کی تکمیل ہوئی ہے؟
ہندوستانی عوام نے حصول آزادی کے لئے بھر پور قربانیاںدی تھیں، ہزاروں لوگ گولیوں کا نشانہ بنے تھے، سینکڑوں لوگ تختۂ دار پر لٹک گئے تھے، ان گنت لو گوں کو تازیانے لگائے گئے تھے،لاکھوں افراد نے جیل خانوں کی تاریک کوٹھریوں میں زندگیاں کاٹی تھیں۔ کیا اتنی قربانیوں کے بعد ان کے تصور کی آزادی سے ہندستانی عوام ہمکنار ہوئے ہیں؟ ہندستانی عوام نے خواب دیکھاتھا کہ یہ ملک مکمل طورپر آزاد ہوگا، سامراج کے تمام نشانات مٹ جائیںگے، ہندستان کو مکمل سرداری اور خود مختاری حاصل ہوگی، لوٹ کھسوٹ اور استحصال کا خاتمہ ہو جائے گا، بیرونی سامراجی لوٹ کھسوٹ کے علاوہ مقامی گماشتہ سرمایہ داری کی لوٹ کاخاتمہ ہوگااور مزدوروں کو کم از کم ضرورت کے مطابق اُجرت ملے گی، بے روزگاری کاانسداد ہوگا رشوت اور بھرشٹاچار حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا، کنبہ پروری اوراقرباء نوازی کا نام ونشان باقی نہیں رہے گا انصاف کا بول با لاہوگا اور بے انصافی ختم ہوجائے گی،جمہوریت قائم ہوگی اور جابرانہ قوانین ختم ہوجائیںگے،فرقہ وارانہ دنگے بند ہوجائیںگے اور قومی یک جہتی کا دور دورہ ہوگا، چھوٹی بڑی قومیتوں کو برابری کا درجہ ملے گا، قومی خوشحالی اور فارغ البالی ہوگی ،انقلاب انگیز تبدیلیا ںواقع ہوںگی اور نیا ہندستان وجود میںآجائے گا۔ آج کے دن غور وخوض کر نے کا موقع ہے کہ 65سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی کیا ہندوستانی عوام کی تمنائیں بر آئی ہیں؟ غور سے دیکھئے تو ایسا کچھ بھی نہیںہواہے۔ صرف حکمران بدلے ہیں۔ سفید فام انگریز حکمران کی جگہ سیاہ فام اور گندمی رنگ کے ہندوستانی حکمران سرکاری مسندوں پربیٹھے ہیں۔ عوام کی حالت بدستور وہی ہے۔ یہ درست ہے کہ براہ راست غیر ملکی اقتدار ختم ہوگیاہے۔ ایک حد تک تک سیاسی آزادی بھی حاصل ہوئی ہے لیکن بنیادی طورپر ہندستان میںنیم آبادیاتی اور نیم جاگیردارانہ نظام قائم ہے جو کہ سامراج پر انحصار رکھتاہے۔ ملک پرعوامی جمہوریت کے بجائے سامراج گماشتہ سرمایہ داری اور جاگیر داری کا راج ہے۔ انتخابات ضرور ہوتے ہیں لیکن عملاً ہر سہ محولہ بالا طبقوں کی حکمرانی اس ملک میں قائم ہے۔ دولت پر ان ہی طبقوں کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے مزدور، کسان، کم تنخواہ سرکاری ملازم، غریب عوام بدستور قعر مزلت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کروڑوں لوگوں کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا میسر نہیں ، سرچھپانے کے لئے جھونپڑی دستیاب نہیں، پیٹ بھرنے کے لئے دو وقت کا روکھا سوکھا کھانا میسر نہیں ، جبر و تشدد بدستور جاری ہے، ظالمانہ قوا نین حسب سابق موجو د ہیں، رشوت اور بھرشٹاچر کا دور دورہ ہے، کنبہ پروری بام عروج پر ہے، ساری دولت چند ہاتھوں میں جمع ہے،کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں آبادی کی اکثریت غربت کی حد سے نیچے کی زندگی بسرکررہی ہے۔
سوچنے کا مقام ہے کہ ایسا کیوں ہے؟لٹیرے حکمران طبقوں کے ترجمان اس کی غلط تاویلیں بیان کرکے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ وہ تاویلِ مسائل کو بہانہ بنا کر لوٹ کھسوٹ میںمصروف ہیں اور غریب اور مفلوک الحال عوام کو صبر کی تلقین کررہے ہیں۔ وہ عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے کبھی فرقہ وارانہ تنازعے کھڑے کرتے ہیں،کبھی ذات برادری کے اڑنگے اڑادیتے ہیں۔ کبھی جنگ بازانہ نعرہ بازی کرکے شاد نزم پید اکردیتے ہیں،کبھی جمہوریت کا راگ الاپ کر گمراہی پھیلادیتے ہیں۔ سارے اخبارات ، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور تما م ذرائع نشر واشاعت ان کے قبضے میں ہیں جن کے ذریعے وہ عوام کو اصل مسائل سے روشناس ہونے ہی نہیںدیتے اور ان کی توجہ غلط سمت ڈال کر حقیقی جدوجہد کی طرف مائل ہی نہیںہونے دیتے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سیاسی آزادی کے باوجود معاشی طورپر ملک سامراج خصوصی طورپر امریکی سامراج کے زیر نگیں ہے۔ تجارت اور صنعت پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ ہے۔ مالی طورپر ورلڈ بنک بنک انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ وغیرہ سامراجی مالی ا دارے مالیات پر کنٹرو ل کرتے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائیزیشن کا جزو بن کر ساری صنعت اور زراعت کو سامراجی تحویل میں دے دیاگیاہے، جس سے ظاہرہے کہ ہندستان کی دولت کابڑاحصہ بیرونی سرمایہ داروں اور سامراجیوں کی جیب میں چلا جاتاہے۔ باقی ہندستان کی گماشتہ سرمایہ داری ہڑپ کر جاتی ہے۔ زمینوں پر لینڈ لارڈوں کو بدستور قبضہ ہے جن سے کسان اورکاشت کار مفلوک الحال ہیں۔ سامراجی اشاروں پر چھٹنی اور تخفیف کی جارہی ہے۔ بے روزگاروں کو روزگارمہیا کرنا تودور کی بات ہے۔
جمہوریت برائے نام ہے ۔شہری آزادیاں اور شہری حقوق صرف کتابوں میںدرج ہیں۔ انسانی حقوق پائمال ہورہے ہیں۔ پیدائشی حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے عوام کو گولیوں کا نشانہ بناکر مسلح مقابلوں کو نام دیا جاتاہے۔ عوامی جدوجہد کو دبانے کے لئے بھر پور جبرو تشدد سے کام لیا جاتاہے۔ فیڈرل ازم برائے نام ہے۔ اصل میں وحدانی طرز حکومت قائم ہے۔ چھوٹی قومتیوں کو حقوق سے محروم کردیا گیاہے۔ فرقہ وارانہ بلوے روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ عوام کے کسی حصہ کی زندگی محفوظ نہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہے؟ کیونکہ اقتدار پر سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈلارڈوں کا قبضہ ہے۔ کسی پارٹی کی بھی حکومت برسر اقتدار آئے،اصل میں اقتدار ان ہی طبقوں کے زیر قبضہ ہے۔ جب تک اقتدار ان طبقوں سے چھین کر محنت کش طبقے اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے تب تک ان کے حق میںکوئی تبدیلی ممکن نہیں ۔ یہ امر اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے قابل ہے۔ ایسی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب محنت کش طبقاتی تنظیموں میںمنظم ہوکر طبقاتی حقوق کے لئے جدوجہد کریں۔ اس جدوجہد کوانقلابی جدوجہد سے منسلک کریں۔ا نقلابی جدوجہد کے ذریعہ عوامی جمہوری انقلاب لائیں۔ اس کے بغیر کوئی مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ پارلیمانی راستہ سے نہیں، پارلیمانی راستہ ترک کرکے انقلابی راستہ اختیار کرکے ہی محنت کشوں کو ہندستان میںراج اور اقتدار قائم ہوسکتاہے۔ اس کے قیام سے حقیقی آزادی بھی قائم ہوسکتی ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا نظام بھی ختم ہوسکتاہے اور محنت کشوں کے لئے خوشحالی بھی آسکتی ہے۔ اس سے ہندستان کی آزدی کاسنہر اخواب دیکھنے والے سرفروشوں کی تمنائوں اور خوابوں کی تعبیر بھی ہوسکتی ہے۔ لٹیرے حکمران طبقوں کے ترجمانوں نے اپنی کرتوتوں سے ہندستان کو جہنم زار بنا رکھاہے۔ اسے جنت ارضی بنانے کے لئے انقلابی جدوجہد آزادی جمہوری انقلاب کی ضرورت ہے۔ وگرنہ صورت اس شعر کے مطابق رہے گی ع
جو کچھ کہ دیکھا خواب تھاجو سنا افسانہ تھا
فیضؔ نے دپرست ہی کہا ؎
یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تونہیں
یہ و ہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے کہ آج یا کل مل جائے گی کہیں نہ کہیں
krishandevsethi@gmail.com
|
Search This Blog
Tuesday, 14 August 2012
15 AUGUST KA JASHN MANEIN KAISE - KRISHN DEV SETHI
Labels:
SELECTED ARTICLES
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment