Search This Blog

Monday, 6 August 2012

یہاں صرف قحط رجال ہے

احوال پاکستان  

یہاں صرف قحط رجال ہے

 
-علی خان
آموں کا موسم ہے اور جن کی جیب میں پیسے ہیں وہ کھا بھی رہے ہیں۔ ورنہ تو رمضان المبارک میں ہر پھل کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ دام پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی، ٹھیلے والے کے پاس سے گزر جائو تو بھی وہ صرف نظر ڈالنے کے پیسے مانگ بیٹھتا ہے۔ ہمارے پنجاب میں نعمتوں کے اس ماہِ مبارک میں کیلا 300 روپے درجن بک رہا ہے۔ انگور کا ایک دانہ ایک روپے میں پڑتا ہے۔ وقت آنے والا ہے جب انگور فی دانہ کے حساب سے بکے گا۔ آموں کے بارے میں یاد آیا تو مرزا غالب یاد آگئے جنہوں نے آم کی دو خوبیاں بیان کی تھیں۔ ’’میٹھے ہوں اور بہت سے ہوں۔‘‘ آم بہت سے ہیں اور میٹھے بھی ہوں گے لیکن بیچنے والے دام مانگیں ہیں اور جیب میں پائی نہیں۔ اس پر ڈاکٹر اور حکیم تاکید کرتے ہیں کہ رمضان کریم پھل زیادہ سے زیادہ کھائیں۔ ہمارے حکمرانوں کا خدا بھلا کرے۔ عوام کی تکلیف دیکھ کر پورا ملک ہی بیچنے پر تلے ہوئے ہیں کہ چار پیسے ہی آئیں گے۔ ہمارے رینٹل راجا نے اپنے حلقے میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی کا بندوبست کردیا ہے اور ان کے حلقہ انتخاب کے لوگ بتا رہے تھے کہ بجلی چوبیس گھنٹے دستیاب ہے، اگر کسی فنی خرابی کی وجہ سے جاتی بھی ہے تو چار، پانچ منٹ میں شرمندہ ہو کر خود ہی واپس آجاتی ہے جیسے کوئی دوشیزہ کسی کے بہکاوے میں آکر گھر سے باہر قدم رکھے اور ماں باپ کی عزت کا خیال آتے ہی نکڑ سے پلٹ آئے۔ تاہم اسی حلقے کے ایک صاحب فرما رہے تھے کہ بجلی کوئی کھانے، پینے کی چیز تو نہیں، راجا رینٹل کھانے، پینے کی چیزیں سستی کروائیں۔ راجا صاحب بھی کہتے ہوں گے کہ کیسے ناشکرے ہیں، ملک بھر میں لوگ بجلی کو ترس رہے ہیں اور میں نے اپنے حلقے کے لوگوں کو یہ عیاشی فراہم کردی تو اب کھانے کو مانگتے ہیں۔ وہ راجا رینٹل ہیں۔ ’’راجا کریانوی‘‘ نہیں۔ کھانے، پینے کا شعبہ دوسرا ہے اور وہ یہ کام کیے جارہا ہے۔ اسی لیے سلالہ کے شہیدوں کا سودا کردیا گیا ہے تاکہ کچھ ڈالر مل جائیں اور عوام کے کام آئیں۔ یہ بھی حسب معمول ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے لیکن نادان سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ اب دیکھیے ناں کہ سلالہ ہی نہیں افغانستان میں امریکی دہشت گردی کے نتیجے میں اپنی جان سے گزرنے والے تین ہزار فوجی اور 32 ہزار عوام کی لاشوںکا سودا کرنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ یہ کام صرف اور صرف عوام اور ملک کی خاطر کیا گیا۔ لیکن عوام اس الجھن میں ہیں کہ امریکا سے اب تک ملنے والی امداد ان تک کیوں نہیں پہنچی، راستے میں کہاں رہ گئی، کس کی جیب بھاری ہوئی۔ ایسے سوالات احمقانہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’گھی کہاں گیا؟ کھچڑی میں، اور کھچڑی کہاں گئی؟ پیاروں کے پیٹ میں۔ امریکی ڈالر کسی کے پیٹ میں بھی گئے ہوں، اپنوں ہی کے پاس تو آئے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم بہاولپور کے صادق ڈین ہائی اسکول میں پڑھتے تھے تو امریکی امداد ہم تک بھی پہنچی تھی۔ امریکا سے تحفہ، امداد یا خیرات میں خشک دودھ آتا تھا جس کے جواب میں ہمارے حکمرانوں نے Thank you America کے پرچم لہرا دیے تھے۔ یہ امریکی دودھ سب طالبانِ علم کو کاغذ کے ٹکڑے پر ملا کرتا تھا۔ کاغذ پاکستان کا اپنا ہوتا تھا گو کہ بنتا مغرب ہی میں تھا یا مرحوم مشرقی پاکستان کے کھلنا پیپر مل سے آتا تھا۔ ہم گھر جاتے ہوئے اس دودھ کو چاٹتے اور امریکا سے محبت اور احسان مندی کے جذبات سے سرشار ہوتے چلے جاتے۔ اس طرح بہت سے بچے اپنی مائوں سے دودھ بخشوانے کی زحمت سے بچ گئے۔ حضرت اکبر الہ آبادی نے اس سے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’دودھ تو ڈبے کا ہے اور تعلیم سرکار کی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح طفل میں ماں، باپ کی خو کہاں سے آئے گی۔ یہ نظر بھی آرہا ہے کہ ہم میں ساری خو، بو امریکا اور مغرب کی ہے۔ ہم اس فکر میں ہیں کہ امریکا کا دودھ ’’کھانے‘‘ والے اس سے دودھ کیسے بخشوائیں گے۔ جو لوگ امریکا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں انہوں نے شاید یہ دودھ ہم سے زیادہ کھا لیا ہے اور اب بخشوا رہے ہیں، بخشش میں پورا ملک ہی دے ڈالا ہے مگر امریکا اب بھی بخشنے کو تیار نہیں۔ مرزا غالب والی بات تو رہ ہی گئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ آم میٹھے ہوں اور بہت سے ہوں۔ یہ ہمیں یوں یاد آیا کہ ایک صاحب ہوتے ہیں مظفر اعجاز۔ جسارت میں کالم لکھتے ہیں۔ بہت ہوتے ہیں اور اچھے ہوتے ہیں۔ ان کا ایک کالم پڑھا تھا۔ انہوں نے ٹی وی پر چلنے والے ایک اشتہار سے متاثر ہو کر لکھا تھا۔ اشتہار کا لب لباب یہ ہے کہ جب قیمت اچھی لگ رہی ہو تو سب کچھ بیچ دو۔ انہیں یہ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں تو بِن مول ہی بک رہے ہیں اور قوم کو بیچتے ہوئے یہ خیال نہیں کرتے کہ قیمت کیا مل رہی ہے۔ ہوشیار تاجر گھاٹے میں بھی مال بیچ دیتا ہے کہ ایک طرف تو گاہکوں میں ساکھ بنے گی دوسرے یہ کہ رقم گردش میں رہے گی،نیا مال خریدا جاسکے گا۔ پاکستان کی تاجرانہ ذہنیت رکھنے والی قیادت یہی تو کررہی ہے۔ ملک کو بیچ کر اپنی ساکھ بنا رہی ہے۔ جانے یہ کس کا شعر ہے یا کسی نے شعر میں ڈنڈی ماری ہے کہ: بھاگ ان بردہ فروشوں سے، کہاں کے حاکم بیچ ہی پائیں جو ہم جیسے گداگر پائیں قوم کی قوم گداگر ہی تو ہے اور تیسرے مارشل لا کے چیف جنرل ضیاء الحق نے کہا تھا کہ ’’گداگروں کے پاس انتخاب کا اختیار نہیں ہوتا۔‘‘(Beggars can't be choosers) بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوئی کی۔ مگر رسوائی کی بات تو پرانی ہوگئی۔ ٹی وی پر خبریں چل رہی ہیں کہ گداگر پشاور پر ٹوٹ پڑے، کوئٹہ کے بازاروں میں ہجوم درہجوم دامن گیر ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ یہ گداگر دکھا کر امریکا کے دل سنگ میں شاید کچھ ملائمیت آجائے۔ دوسال پہلے پاکستان نے امریکا کی خدمت کرتے ہوئے اپنے پلے سے جو رقم لگائی تھی، معاہدۂ غلامی پر دستخط ہوتے ہی ایک ارب 10 کروڑ ڈالر مل گئے۔ مبارک ہو۔ ایسے میں ماضی کے شیخ رشید یاد آگئے جو اب بجھا ہوا سگارہیں۔ پرویز مشرف نے جب سر تسلیم خم کیا تھا اور ’’چہ ارزاں فروختند‘‘ کے بجائے سب کچھ مفت میں دے ڈالا تھا تو ان کے نفس ناطقہ جناب شیخ رشید نے قوم کو خوشخبری سنائی تھی کہ ’’اتنے ڈالر آئیں گے کہ گننا مشکل ہو جائے گا۔‘‘ آئے تو ہوں گے۔ مگر گئے کہاں؟ پیاروں کے پیٹ میں؟ ہمارے حکمران تو ایک گوری کے شیریں لبوں سے نکلے ہوئے Sorry پر مر مٹے اور وہ کچھ لٹانے پر تیار ہیں جو ان کا ہے بھی نہیں۔ حکمران طبقہ سینہ چوڑا کرکے برابر یہ دعوے کیے جارہا ہے کہ اس نے سلالہ حملے کے بعد 7 ماہ تک ناٹو رسد کی فراہمی روک کر کمال کر دکھایا۔ اب بحال کرکے بھی کمال کیا گیا ہے۔ ’’نانی نے خصم کیا بُرا کیا، کرکے چھوڑ دیا اور برا کیا۔‘‘ اب تو پکا کام ہوگیا ورنہ تو سارا معاملہ زبانی چل رہا تھا۔ معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ امریکا کی ساری شرائط مان لی گئیں۔ خون دل کی کشید، شہیدوں کے لہو کی سبیل لگا دی گئی۔ معاہدے میں کیا ہے، یہ تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں۔ ضرورت بھی نہیں کیونکہ عوام کو جاننے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اب یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ ہماری ایک نہیں مانی گئی۔ بڑے بڑے دعوے تھے کہ فی کنٹینر ہزاروں ڈالر وصول کریں گے، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کا معاوضہ طلب کریں گے، ناٹو رسد کی بحالی کے لیے امریکا کے ڈرون حملے رکوائیں گے، پہلی بار کوئی حکومت ایک سپرپاور کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے۔ صرف ایک سوری سے غبارے میں سے ہوا نکل گئی۔ امریکا کی خاردار جھاڑیوں میں الجھائے گئے دامن کو تار تار ہونے سے پہلے چھڑانے کا بہترین موقع تھا۔ علامہ اقبالؒ کو جب سر کا خطاب ملا تو اکبر الہ آبادی نے طنز کیا تھا ’’انگریز کی دہلیز پہ سر ہوگئے اقبال‘‘ انگریز کی جگہ امریکیوں نے لے لی ہے اور تمام حکمران نہ صرف سر ہوگئے بلکہ سر قدموں میں رکھ دیا اور اس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ طوطیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوق نے اس حالت کا نقشہ پہلے سے کھینچ کر رکھ دیا تھا کہ وقت ضرورت کام آئے گا: سر بوقت ذبح اس کے زیر پائے ہے یہ نصیب اللہ اکبر، لوٹنے کی جائے ہے ہماری دونوں طرح کی قیادت (قیادت تو اصل میں ایک ہی ہے) اپنے نصیب پر نازاں ہے اور عوام کسی مہجور اور نامراد عاشق کی طرح کہہ رہے ہیں: زلف آوارہ، گریباں چاک، گھبرائی نظر ان دنوں یہ ہے جہاں میں زندگی کا نظام اور نظام کاہے کا؟ اس سے بہتر تو نظام سقّہ تھا کہ ڈھائی گھڑی کی بادشاہت تو مل گئی تھی۔ اس میں بھی چام کے دام چلا دیے تھے۔ یہاں تو گھٹلیوں کے دام بھی نہیں ملے۔ طے یہ ہوا ہے کہ فی کنٹینر ڈھائی سو ڈالر ملیں گے۔ لینا ہے تو لو ورنہ آگے ہو۔ ناٹو کنٹینروں میں اسلحہ بھی جائے گا جو افغان فوجیوں کے لیے ہوگا۔ عبدالرحمن ملک شور مچا رہے ہیں کہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ افغانستان کررہا ہے۔ ایک صاحب ہوتے ہیں طلعت مسعود۔ سنا ہے کہ وہ پاک فوج میں لیفٹننٹ جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور اب ٹی وی کے مبصر بن گئے ہیں۔ وہ غالباً انجینئرنگ کور میں تھے جس کا معرکہ آرائیوں سے عموماً کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ پھر بھی وہ جنگی معاملات پر اس لیے تبصرے کے لیے بلا لیے جاتے ہیں کہ لیفٹننٹ جنرل کا سابقہ لگا ہوا ہے اور آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔ پاک امریکا دستاویز ذلت پر دستخط کے حوالے سے ان کی گفتگو سنی تو کہیں سے نہیں لگا کہ وہ کبھی پاک فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار رہے ہیں۔ ناٹو رسد کی فراہمی کے معاہدے کے حق میں ایسے ایسے دلائل دے رہے تھے کہ شاید ہی کوئی دے سکے۔ وہ بھی ہمارے حکمرانوں کی زبان بول رہے تھے کہ ناٹو رسد کی فراہمی بند کرکے پاکستان تنہا ہوگیا اور تمام ناٹو ممالک اس کے مخالف ہوگئے۔ صاف کہیے کہ پاکستان کی قیادت میں اپنے حق اور اصولی موقف کے لیے کھڑے رہنے کی ہمت ہی نہیں، ان کے گھٹنوں کی ’’مِخ‘‘ نکل گئی ہے۔ یہ عربی کا لفظ ہے اور اس میں میم پر پیش ہے لیکن پنجابی میں میم اسی طرح زیر ہوگیا ہے جیسے ہمارے حکمران امریکا کے سامنے۔ گھٹنوں کا گودا نکل جائے تو کوئی کھڑا رہنے کے قابل نہیں رہتا۔ بیٹھے تو پہلے ہی تھے کہ امریکا جڑوں میں بیٹھ گیا، اب لیٹ گئے ہیں۔ اس پر مستزاد ہمارے دانشور اور ریٹائرڈ فوجی ماہرین قوم کو درس دے رہے ہیں کہ بس لیٹے ہی رہنا۔ اٹھے تو امریکا برا حال کردے گا، عالمی برادری میں حقہ، پانی بند ہو جائے گا۔ چنانچہ ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے۔ آئی ایس آئی کے نئے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام امریکا کا مؤقف سمجھنے کے لیے خود امریکا چلے گئے اور اس اثنا میں معاہدہ تذلیل ہوگیا۔ بھلا کونسا ایسا ملک ہے جس کی فضائی اور زمینی حدود کی مسلسل خلاف ورزی ہوتی رہے اور وہ خوف کے عالم میں دم سادھے پڑا رہے۔ آج امریکا اور ناٹو ممالک سے ڈرایا جارہا ہے، کل کو پاکستان کی بے بسی دیکھ کر بھارت بھی یہی کرنے لگے تو کیا تب بھی ہمارا جواب یہی ہوگا کہ ’’ہمارے دل کو جفا کے تیروں کا ہوسکے تو بنائو ترکش۔‘‘ یہ بھی یاد رہے کہ بھارت کی پشت پر امریکا کا ہاتھ ہے اور وہ ہر طرح سے اسے شہ دے رہا ہے۔ وہ جو ناز کیا کرتے تھے کہ ہم امریکا کی بدمعاشی میں اس کے صف اول کے اتحادی ہیں‘انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اب بھارت اور امریکاایک دوسرے کے اتحادی ہیں اور پاک فوج کی حیثیت سامان ڈھونے والے مزدوروں سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے۔ کسی بھی فوج کی اولین ذمہ داری اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ پاکستان کی سرحدیں روز پامال ہورہی ہیں اور اب تو افغانستان میں تیار کردہ امریکی کٹھ پتلیوں کی جرأت بھی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ بھی پاکستان پر حملے کررہے ہیں۔ امریکا نے 2014ء میں انخلا سے پہلے پاکستان کی گوشمالی کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ وہ افغانستان سے مکمل انخلا نہیں کرے گا اور اس کے اڈے افغانستان میں موجود رہیں گے جہاں سے ڈرون حملے بھی ہوتے رہیں گے۔ پیپلز پارٹی کے قدیم رفیق جن کو اس وفاداری کی بنیاد ہی پر برطانیہ میں پاکستان کا ہائی کمشنر بنایا گیا، وہ تک فرما رہے ہیں کہ ’’ڈرون حملے پاکستان میں جمہوریت کو کمزور اور لوگوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں، پارلیمان کی متفقہ قرارداد کے باوجود ڈرون حملے جاری رہنے پر عوام مذاق اڑا رہے ہیں، پاک فوج کو بے بسی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، مگر امریکا ہماری ایک نہیں سنتا، لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ اتنی بڑی فوج جس پر قومی بجٹ کا بھاری حصہ خرچ ہورہا ہے، وہ ہمارا دفاع کیوں نہیں کرسکتی۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے بھی یہی راگ الاپا کہ ہم سپرپاور کا مقابلہ نہیں کرسکتے، خدا کے لیے امریکا ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی نہ کرے۔ لیکن وہ کیوں نہ کرے۔ جب آپ خود اپنی پارلیمان کی متفقہ قرارداد کو کچرے کے ڈبے میں پھینک دیں اور غیر مشروط طور پر ناٹو رسد کی فراہمی بحال کردیں تو وہ آپ کی درخواست کیوں مانے گا۔ صرف ڈرون حملے ہی تو جمہوریت کو کمزور نہیں کررہے، جمہوریت تو صرف صدر، وزیراعظم اور ان کے ہمنوائوں کے بیانات میں نظر آتی ہے۔ فوج اپنے ہی شہدا کی قربانیوں کو نظر انداز کررہی ہے۔ یا تو آں شورا شوری، یا یں بے نمکی۔ کیسے چڑھ چڑھ کر دعوے کیے تھے۔ سلالہ میں 24 جوان ہی تو شہید ہوئے تھے۔ اس سے کہیں زیادہ اگیاری میں برف کے تودے میں دب کر جاں بحق ہوگئے اور عسکری قیادت خود برف کا تودہ بن گئی۔ جو پیسے خرچ کیے تھے وہ دو سال بعد ملے، مل تو گئے۔ اب نئے سرے سے غلامی کے اصول طے ہورہے ہیں اور یہ سب کچھ ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں۔ جانے یہ ملک کون سا ہے اور یہ قوم کہاںبستی ہے۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ اس رمضان میں اب تک فروٹ چاٹ نہیں بنی۔ شاید ہم تک بھی کبھی دور جام آجائے۔ چلتے چلتے جدہ میں مقیم مجاہد سید کا ایک شعر سن لیجیے: گری جب فصیل دفاع شہر، لہو کا سیل تھا ہر طرف یہاں لشکروں کی کمی نہ تھی، یہاں صرف قحط رجال تھا

No comments:

Post a Comment