Search This Blog

Friday, 3 August 2012

KHOON KI PEYASI DUNIYA MEIN

خون کی پیا سی دنیامیں
دامنِ اسلام میں آ ؤ امن عزت تحفظ پاؤ

دُنیا کے مختلف حصوں سے مسلمانوںکے تعلق سے جو اند ہ ناک خبریں آرہی ہیں ، وہ صاف طورپر اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ پوری دنیا میں مسلمان سخت حالات سے گزررہے ہیں اور وہ ظلم وتشدد کے شکار ہیں۔ ان ممالک میں جہاں حکومتیں ان کی نہیں ہیں وہاں تو وہ مسائل ومصائب میں مبتلاہیں ہی لیکن جہاں خود ان کی حکومتیں ہیں وہاں بھی انہیں بڑے پیمانہ پر جانی ومالی نقصانات سے گزرنا پڑرہاہے۔مثال کے طورپر شام ایک مسلم مملکت ہے۔وہاں کے حکمران ،عہدیداران ، افواج اور عوام سب مسلمان ہیں۔ البتہ صورت حال گزشتہ سال مارچ سے یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی دن ایسا نہیں گزررہا ہے جس میں درجنوںمسلمان نہ مارے جاتے ہوں۔خود شام کی افواج حکومت مخالف سروںکو کچلنے کے لئے بڑھ چڑھ کر حملے کررہی ہیں۔ عوام اور حکومت کے مابین ٹکرائو کے نتیجہ میںقریب گزشتہ ایک سال کے دوران 20ہزارافراد مارے جاچکے ہیں۔پچھلے چند ہفتوںمیں شام کے اندر جس بڑے پیمانہ پرکشت وخون کے واقعات رونما ہوئے ہیں ، ان کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں شام کے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں اورشام کے مسلمانوںکو اس سے بھی کہیں زیادہ جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔شام میں نظم ونسق کی صورت حال پوری طرح سے بگڑگئی ہے ،ملک میں موجوددوسرے ممالک کے لوگوںنے وہاں سے اپنے گھروں کی طرف واپسی شروع کردی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق شام کے 34ہزارشہریوںنے لبنان میں پناہ لے لی ہے۔اگلے چند ہفتوںمیں پناہ گزینوںنے کی تعدادمیں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔
عراق ، لبنان، افغانستان اور مصرکے حالات میں بھی مستحکم نہیں ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران عراق میں 10؍لاکھ سے زیادہ مسلمان مارے جاچکے ہیں، ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں عراق کی ترقی تودورکی بات ، بنیادی ڈھانچہ کی درستگی کی بابت بھی سوچنا عجیب معلوم ہوتاہے۔اگر بات افغانستان کی جائے تو وہاں کے حالات بھی کچھ مختلف نظرنہیں آتے۔ ناٹو افواج کے ذریعہ افغانستان کے عوام پر مظالم کی خبریں آئے دن منظرعام پر آتی رہتی ہیں۔اس کے علاوہ افغانستان کے باشندوںکے مابین باہمی جنگ وجدال کی کیفیت بنی ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں ہلاکتوںکا سلسلہ ہنوز تواتر کے ساتھ جاری ہے۔قتل وغارت گری سے پاکستان بھی پاک نہیں ہے۔سیاسی عدم استحکام کا معاملہ تو پاکستان میں اسی وقت سے چل رہا ہے جب سے پاکستان کا وجود عمل میں آیا لیکن اس سے بھی زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ خود وہاں کے گروہ ، جماعتیں اور مسالک باہم دگر متصادم ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ غیرملکی سازشوں نے بھی پاکستان کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ڈرون حملوںمیں پاکستان کے قبا ئلی عوام کو بے دردی سے ماراجارہا ہے۔ امریکہ کے یہ ڈرون حملے صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دیگرممالک میں بھی جاری ہیں۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ڈرون حملوںکے نتیجہ میں جونقصان ہوا ہے اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ ڈرون حملوںمیں عوام کو زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ لیبیا میں اگرچہ انقلاب آچکا ہے،کرنل معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے اور عوام سیاسی سطح پرجو تبدیلی چاہتے تھے ، وہ رونما ہوچکی ہے لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ لیبیااپنی سابقہ حالت یعنی امن وامان پر واپس آچکا ہے اور وہاں امن وآ شتی قائم ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ لیبیا میں نہ تو ابھی استحکام ہوا ہے اور نہ ہی ابھی بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط کیا جاسکا ہے۔ مصرکے حالات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔عوامی سیلاب میں حسنی مبارک کے اقتدار کا محل بھلے ہی بہہ گیا ہواور عوامی خواہش کی بنیا د پر محمد مرسی مصر کے صدر کیوں نہ بن گئے ہوں لیکن مصر میں اتھل پتھل کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۔ فوج کی طرف سے صدر کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے اشارات مل رہے ہیں کہ حکومت اور فوج کے درمیان رسہ کشی قائم ہوسکتی ہے۔
ان ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں مسلمانوںکو انتہائی کربناک حالات سے گزرنا پڑرہا ہے بلکہ بعض مقامات پر تو مسلمانوں کی جان پر بن آئی ہے اور وہاں انہیں اپنا جانی، مالی ، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی سطح پرتحفظ دشوار ہورہا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال میانمار کے روہنگیا مسلمانوںکی ہے جن پر عرصۂ حیات تنگ کردیاگیا ہے۔ انہیں ملک سے نکالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، بعض رپورٹوںکے مطابق گزشتہ دنوںوہاں ہزاروںمسلمانوںکا اجتماعی قتل کیا گیا۔ جو تصاویر منظرعام پر آئی ہیں وہ اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ میانمار میں دوسرے طبقات اور خود حکومت وہاں کی مسلم اقلیت کے وجود کوبرداشت نہیں کررہی ہے۔اجتماعی طورپر لاشوں کو نذر آتش کرنا، انہیں سینکنا، ان کی تصاویر لینا اس بات پردلالت کرتا ہے کہ برماکی حکومت اور وہاں کے دیگر طبقات مسلمانوںسے نا کر دہ گناہوں کا انتقام لینا چاہتے ہیں اور لے دے کے انہیں وہاںسے نکال دینا چاہتے ہیں ۔
ہمارے ملک میں بھی بعض گروہوںکی یہ کوشش ہے کہ ہندوستان کی سرزمین کو مسلمانوںکے لئے تنگ کردیا جائے۔ یہ گروہ کبھی فرقہ پرستی کی زد میں لے کر مسلمانوںکو نقصان پہنچاتے ہیں اور کبھی دہشت گردی کی آڑمیں۔ ان فسادی گروہوںکے ذریعہ ملک میں اب تک ہزاروں فسادات ہوچکے ہیں جن میں منظم طورپر مسلمانو ں پر مظالم ڈھائے گئے۔ فی الوقت فرقہ پرستوںکا قہر آسام کے مسلمانوںپر جاری ہے۔یہاں مختلف اضلاع میں مسلمانوں کاجانی ومالی نقصان ہوا۔ آسام میں جس طرح مسلمانوںکی گھیرا بندی کی گئی ، اس نے گجرات فساد کی یاد تازہ کردی جس میں ہزاروںمسلمانوںکو چن چن کرقتل کیا گیاتھا۔اترپردیش میں بھی فرقہ پرستی عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ غرض یہ کہ ہندوستان بھرمیں مسلمان فسادات کے شکارہیںاور سخت خوفزدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مسلمانوںمیںعدم تحفظ کا احساس بڑھتاجارہاہے۔
مغربی ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں مسلمانوںپر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔اگرچہ مسلمان ا ن ممالک میں آباد ہیں اور ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خو ف کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں ۔یہ ممالک عام طورپر مسلمانوںکی معاشرت پر درپردہ حملے کررہے ہیں ۔ان ممالک میں مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اور ان پر سختی کی جاتی ہے۔ وہاںاب ایسے قوانین بنائے جانے لگے ہیں جن سے مسلمانوںکی آزادی سلب ہوسکتی ہے اور ان کے لئے ان ممالک میں اپنے تشخص کو برقرار رکھنا دشوار ہوسکتا۔حیران کن امر یہ ہے کہ وہ مسلمان جو دنیا بھرمیں مظالم ، تشدد اور مسائل کے شکار ہیں، انہیں دہشت گرد، خونخوار، ظالم اور جابر بتایاجارہاہے۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک اس الزام کے تحت دنیا بھر میں کروڑوںمسلمانوںکی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔ہزاروں مسلمانوںکو قید کیاجاچکا ہے اور ہزاروںلاکھوںکو ماراجاچکاہے ۔
یہ صورت حال ساری دنیا کے مسلمانوںکے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔ ان حالات سے باہر آنے کے لئے ملت اسلامیہ کو بہت کچھ سوچنے اورکرنے کی ضرورت ہے۔مسلمانوں کو ان اسباب پر بہرحال نظرڈالنی ہوگی کہ آج وہ قعرمذلت کے شکار کیوںہیں اور اقوام عالم ان پر کیوںجھپٹ رہی ہیں؟ اسباب کو تلاش کرنے کے بعد انہیں اس صورت حال سے باہر نکلنے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔اگرمسلمان چاہیں تویہ کام ان کے لئے بہت زیادہ مشکل نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس دین کی روشنی موجود ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھ کر اپنے مسائل کا وہ بہتر حل تلاش کرسکتے ہیں۔مثال کے طورپر مسلمانوںمیں آج اتحاد کا فقدان پایاجاتاہے جب کہ قرآن مجید میں تمام مومنوں کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیاہے۔آج مسلمان فکری سطح پرجمودوتعطل کے شکار ہیں جب کہ قرآن میں بار بار غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے۔آج کے مسلمانوںمیںہمت وحوصلے اور حکمت عملی کی بھی کمی پائی جارہی ہے حالانکہ اسلام حوصلہ کی زبردست تعلیم دیتا ہے ۔ اسلام میں تعلیم کے حصول پر زوردیا گیا ہے لیکن مسلمان دیگر اقوام کی بہ نسبت تعلیم میں بہت پیچھے ہیں۔غرض اگر مسلمان نازک حالات سے باہر آنے کے لئے اسلامی تعلیمات پر عمل کریں تویقیناًانہیں کامیابی ملے گی۔ساری دنیا کے مسلمانوںکو یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ان کے سامنے کامیابی کا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیںہے کہ وہ اسلام کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیںاور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرلیں ۔
(نوٹ:-مضمون نگار ممبر پارلیمنٹ ہیں)

No comments:

Post a Comment