Search This Blog

Monday, 6 August 2012

یہ دنیا چھوڑ جانا ہے

یہ دنیا چھوڑ جانا ہے

-کوثر مسعود
’’دل غافل نہ ہو، یہ دنیا چھوڑ جانا ہے۔‘‘ یاددہانی کے یہ الفاظ میں نے اپنی پیاری فریدہ آپی کی ڈائری کے صفحات پلٹتے ہوئے پڑھے۔ میرے دل کی دنیا عجیب ہوگئی اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ الفاظ انہوں نے لکھے تھے اور خود دنیا چھوڑ کر جاچکی تھیں۔ اللہ نے انہیں نوازا تھا، ہر طرح کی آسائش عطا کی تھی، اور وہ اس میں سے اللہ کا حصہ نکالتی تھیں۔ اپنا وقت‘ اپنی صلاحیتیں‘ مال… سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتی تھیں۔ پروگرامات کے انتظامات‘ الخدمت کی ذمہ داری‘ مدرسہ کی ذمہ داری، گاڑیوں کو شیڈول کے مطابق افراد کے پاس بھیجنا اور دیگر کئی کام سب کچھ اس طرح کرتی تھیں کہ کبھی محسوس نہ ہونے دیتیں کہ وہ کس طرح اتنے کام خاموشی سے کرلیتی ہیں۔ ہمیشہ مسکراکر ملنا‘ ایثار کرنا ان کا طریقہ تھا‘ یعنی عمارت کی ان اینٹوں میں سے تھیں جو زیرزمین ہوتی ہیں مگر جن کی وجہ سے عمارت مضبوط ہوجاتی ہے۔ ہمارے لیے گھنا سایہ تھیں۔ کوئی مسئلہ ہو، آپی سے کہہ دینا ہی کافی ہوتا تھا۔ کوئی مشورہ لینا ہو‘ شعبے کے لیے مالی مدد لینی ہو، بڑے اطمینان سے فون کرتے اور کام ہوجاتا۔ آپی کی عنایتیں ملتی تھیں اور میں اسے اپنا حق سمجھ کر لیتی تھی۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ نعمت چھن بھی سکتی ہے۔ اکثر اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے اچار‘ چٹنی بھیجتی تھیں۔ پورے دن کے اجتماع میں مَیں کبھی کھانا ہمراہ لے جانے کے بارے میں نہیںسوچتی تھی، کیونکہ آپی جو ہوں گی، وہ میرے حصے کا بھی لے کر آتی تھیں، مجھے تلاش کرتیں، دسترخوان پر بٹھاتیں۔ ان کے انتقال سے پہلے جو آخری اجتماعِ ارکان کراچی کی سطح کا ہوا اس میں وہ مجھے نہیں ملیں۔ مجھے یکایک خیال آیا کہ آپی ابھی تک میرے پاس نہیں آئیں۔ میں نے فون کیا: آپی آپ نے کھانا کھالیا؟کہنے لگیں: ہاں۔ میں نے پوچھا: آپ کہاں ہیں؟ بتایا: میں گھر پر ہوں، ڈاکٹر نے ریسٹ بتایا ہے۔ خود سے کبھی بیماری کا تذکرہ بھی نہیں کرتی تھیں۔ اس ریسٹ کے دوران بھی گھر کے جملہ امور انجام دیتی رہیں۔ انٹرکام اور فون اٹھانے اور دروازہ کھولنے کے لیے جانے پر میں نے کہا کہ آپ کو ڈاکٹر نے ریسٹ بتایا ہے، تو خفگی سے کہنے لگیں کہ کیا بالکل بستر پر بیٹھی رہوں! کہا: کم از کم آرام دہ پوزیشن میں تو بیٹھیں، ٹیک لگالیں۔ کہتیں: ٹھیک بیٹھی ہوں۔ بعد میں بیٹی نے بتایا کہ کمر میں اتنا درد تھا کہ کسی طرح آرام نہیں مل رہا تھا۔ میں نے کہا کہ ہم اتنی دیر ساتھ بیٹھے، انہوں نے ذکر تک نہ کیا کہ کہیں تکلیف ہے۔ آپریشن کی تاریخ ملنے کے بعد اجتماع ناظمات میں جاکر سارے حسابات کیے، الخدمت کی ذمہ د اری کے تحت جو امدادی رقوم دینی تھیں وہ دیں، کسی پر اظہار نہ کیا کہ بیمار ہیں۔ انتقال پر آنے والی بہنیں یہ کہہ رہی تھیں کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا بیماری کا ‘ ابھی چند دن پہلے تو ہم ملے تھے۔ کچھ تو یہی گمان کررہی تھیں کہ خبر غلط ہے۔ آپی کا لقب انہیں گھر کے علاوہ جماعت کی بہنوں نے بھی دے رکھا تھا۔ تمام کارکنان فریدہ آپی کہتی تھیں، اور وہ سب کی آپی ہی تھیں۔ ان کا تعلق سب سے بڑی بہن کا سا ہی تھا۔ کبھی کہتیں: مجھے تو ڈرائیور بھی آپی کہتے ہیں۔ بیرونِ شہر سے آنے والی بہنوں کو ٹھیرانے کی ضرورت پیش آتی تو میں ان سے پوچھے بغیر ہی ان کے گھر ٹھیرانے کی ہامی بھرلیتی، اور پھر ان کو اطلاع دیتی کہ اتنے مہمان آئیں گے، اتنے دن ٹھیریں گے۔ وہ خوشدلی سے سن کر انتظامات کردیتیں۔ ان کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کبھی شکوہ شکایت نہیں کرتی تھیں۔ بہنوئی کے انتقال کے بعد یہ فکر تھی کہ آپی کیسے اپنے آپ کو سنبھالیں گی، کیونکہ بہنوئی بہت خیال رکھنے والے تھے، آپی کے سارے کام وہی کرواتے تھے۔ شاپنگ ہو، ڈاکٹر کے پاس جانا ہو، کبھی آپی تنہا نہیں جاتی تھیں۔ مگر ان کے بعد آپی نے کبھی شکوہ نہیں کیا، نہ اپنی تنہائی کا، نہ اور کسی بات کا۔ انہوں نے دین کے کاموں میں خود کو مصروف کرلیا۔ دوسروں کے ساتھ درگزر کا معاملہ کرتی تھیں، جو ماسی ان کے پاس تھی اس کا بہت خیال رکھتی تھیں، جب بھی اس کا ذکر کرتیں تعریفی الفاظ ضرور کہتی تھیں۔ ان کے بعد ماسی کہنے لگی کہ میں 11 سال باجی کے پاس رہی، باجی نے مجھے کبھی جھڑکی نہیں دی۔ اس پر مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یاد آگیا، حضرت انسؓ کہتے تھے کہ میں 10 سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا اور انہوں نے مجھے کبھی یہ نہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں نہ کیا۔ اسی طرح ڈرائیوروں کے ساتھ معاملہ تھا۔ ضلع کی گاڑیوں کو شیڈول کے مطابق بھیجنے کی ذمہ داری تھی۔ ڈرائیور ڈیوٹی کے لیے ان ہی کو فون کرتے۔ دن بھر میں بے شمار فون اس کام کے لیے ہوجاتے، مگر خندہ پیشانی سے نبھاتیں۔ ایک ڈرائیور کہنے لگے: ان کے بعد تو ہم یتیم ہوگئے، میری بچی ان ہی کی وجہ سے تعلیم حاصل کررہی ہے، انہوں نے ہی اسے داخل کروایا تھا، اب وہ نویں جماعت میں ہے۔ الخدمت کے شعبے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ملاقاتیں کرتیں، فنڈنگ کرتیں، قرض حسنہ کی درخواستیں آتیں ان کے لیے علیحدہ انتظام کرتیں۔ ایک علیحدہ فنڈ بنایا ہوا تھا جو صرف قرض حسنہ دینے میں استعمال ہوتا تھا۔ تمام حسابات کا ریکارڈ بہترین طریقے سے درج کرتیں۔ اسپتال جانے سے پہلے سارا ریکارڈ درست کرکے اپنی نائب کے حوالے کرکے گئیں۔ بزرگ تحریکی ساتھیوں کو پروگرامات میں یا دیگر کسی ملاقات وغیرہ کے لیے لے کر جانا‘ رسائل تقسیم کروانا… یہ سب اپنی ذمہ داری بنا رکھا تھا۔ وہ تحریکی بہنیں آنسوئوں کے ساتھ کہتی ہیں کہ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ کس سے کہیں، وہ تو خود فون کرکے پوچھتی تھیں :آپ نے چلنا ہے؟ یہ ساری نیکیاں، گواہیاں ان شاء اللہ بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوں، اور رب ان کو بڑھا چڑھا کر اجر عطا فرمائے۔ آمین

No comments:

Post a Comment