Search This Blog

Showing posts with label AYAZ ARTICLES/REPORTS. Show all posts
Showing posts with label AYAZ ARTICLES/REPORTS. Show all posts

Sunday, 19 August 2012

EID - TAZA DAM HOJA JAHDE MUSALSAL KE LIYE


عیدالفطر ۔ تازہ دم ہو جا جہد مسلسل کے لئے۔۔۔۔
ایاز الشیخ گلبرگہ


حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ۖنے:رمضان میں رکھنے والا روزہ اللہ کی بارگاہ میںپیش ہوگا اور رمضان سفارش و شفاعت کرتے ہوئے کہے گا:اے رب!میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوت سے دن بھر روکے رکھا تھا،اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔اس کی تائید کرتے ہوئے قرآن بارگاہِ ایزدی میں عرض کرے گا:اے رب!میں نے اسے رات کے آرام سے روکے رکھا، تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ اللہ ان دونوں کی سفارش قبول کرے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں بہتر اجر سے نوازے گا۔
چاند رات فرشتوں میں خوشی کے مارے دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العزت ان پر جلوہ فرماتے ہوئے دریافت کرتا ہے کہ بتاو، مزدور اپنی مزدوری پور ی کرچکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں اس کو پوری پوری اجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:  اے فرشتو! تم گواہ رہو میں نے محمد  ۖکے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی۔ اسی لیے یہ رات لیل الجائزہ انعام کی رات کے نام سے مشہور ہے۔ ایک لمحہ رک کر سوچیں!ہم میں سے کتنے ہیں جو اس رات میں پوری مزدوری ضائع کردیتے ہیں؟حدیث پاک میں آپ  ۖ نے ارشاد فرمایا:  جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو شب بیداری کرے گا نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا ، جس دن اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔  اللہ تعالی فرماتا ہے:  اے فرشتو!تم گواہ رہو، ان کے رمضان کے روزے اور نمازوں کی وجہ سے میں اپنے بندوں سے خوش ہوگیا ہوں اور ان کو بخش دیا ہے۔ اور فرماتا ہے:اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا وآخرت کی جو کچھ بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے، تمھاری خطاوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی بزرگی اور عزت کی قسم ہے! نہ تمھیں رسوا وذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو میںنے معاف کردیا، تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی، میں تم سے راضی ہوگیا یہ اعلان اور انعام ِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں۔    
                                                                                        
عیدالفطر کا تہوار اس امر پر خوشی کا اظہار ہے کہ ہم نے رمضان المبارک کے دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت کی فصل اکٹھی کی ہے۔ اس مبارک مہینے کے دوران جو تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا احساس اور اپنے اوپر ضبط حاصل کیا جاتا ہے، اسے سال کے باقی مہینوں میں برقرار رکھا جائے اور اپنی روزمرہ زندگی میں بھی اسے استعمال میں لایا جائے۔  عید درحقیقت ان لوگوں کی ہے جنہوں نیرمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں اور  اس ماہ مبارک  کی تمام عبادتیں  ادا کر کے اپنے دامن مراد کو  نیکیوں سے بھر لیا ہے اور امتحان میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ عید ان لوگوں کی نہیں ہے جنہوں نے اس ماہ کو غفلت اور لاپرواہی میں ضائع کر دیا اور امتحان میں ناکام ہو گئے۔ کسی نے سچ کہا ہے :  لیس العید لمن لبس الجدید۔۔۔۔نما العید لمن خاف الوعید "عید اس کی نہیں  جس نے نئے  اور زرق برق لباس پہن لیے،عید  اس کی ہے جو اللہ کی وعید سے ڈرگیا۔"  یعنی رمضان   المبارک کے روزے رکھ کر متقی  اور پرہیزگار بن گیا  اور ایفائے عہد وذمہ داری  کے امتحان میں کامیاب ہوگیا۔عید کا دن وعید کے دن سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں: کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی (سورہ عبس)۔ تروتازہ اور خوش باش چہروں والے ہی تو ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے صیام و قیام کی نعمت مکمل فرمائی۔ لہذا اس  دن وہ خوش ہوں گے اور یقینا ان کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں۔ دوسری طرف وہ چہرے جن پر کلونس چھائی ہوگی، یہی وہ چہرے ہوں گے جنھوں نے اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی اور قیام و صیام کے بارے میں اللہ تعالی کے حکم کی پروا نہ کی۔ ان کے لیے عید کا دن وعید کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وتیرا ہے کہ ان کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے   سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالی کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔  اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔ اللہ کی کبریائی___ تکبیر، ہم مسلمانوں کی عیدوں کی شان ہے۔ یہ تکبیر ___اللہ اکبر، مسلمانوں کا شعار ہے۔ مسلمان روزانہ پانچ وقت اپنی نماز میں اسی عظیم کلمے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز کے لیے کیا جانے ولا اعلان اذان اسی کلمے سے شروع ہوتی ہے۔ نماز کی اقامت کا آغاز اسی کلمے سے ہوتا ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت مسلمان اسی کلمے کو ادا کرتا ہے۔ یہ بہت عظیم کلمہ ہے___ اللہ اکبر! اللہ اکبر ہر موقع پر مسلمانوں کا شعار ہوتا ہے۔ مسلمان میدانِ جہاد کے معرکے میں داخل ہو تو اللہ اکبر ___ یہ نعرئہ تکبیر دشمن کے دل میں خوف و دہشت طاری کر دیتا ہے۔ اللہ اکبر عید کی شان ہے۔ اسی لیے یہ تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جائو: اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد۔ 

عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالی کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اسے کبھی فنانہیں! جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی! اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے۔اللہ تعالی سورہ محمد ۖ میں فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقوی عطا فرماتا ہے''۔ نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری رہنا ہے، اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔ لہذاللہ  اور اسکے حبیب  ۖکے ساتھ دائمی تعلق استوار کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو۔

امت محمدیہ ۖ کا ایک امتیاز ہے، اور اس امتیاز کی کلید ایمان ہے۔ اسے ایمان کے ذریعے متحرک کیجیے، یہ حرکت میں آجائے گی۔ ایمان کے ذریعے اس کی قیادت
 کیجیے، یہ پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اسے اللہ تعالی پر ایمان کے جذبات کے ذریعے حرکت دی جائے تو ایک بہترین امت تیار ہوسکتی ہے۔ یہ بڑی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرلیتی ہے، مشکل ترین اہداف کو حاصل کرلیتی ہے، اور بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ یہ خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کا دور واپس لاسکتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے اس امت کے دشمن خائف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ امت اسلام کی بنیاد پر متحرک نہ ہوجائے۔
آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو فتنوں کا دور ہے، آزمایشوں کا دور ہے۔ نبی کریم  ۖنے ہمیں اس دور سے ڈرایا ہے جس میں فتنے سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں ماریں گے، جن کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رسول اللہ  ۖفرماتے ہیں: لوگ ان فتنوں کے کاموں کی طرف اس طرح بڑھیں گے جیسے سخت اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر ہوگا، شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہوگا۔ آدمی دنیا کی بہت تھوڑی قیمت پر اپنے دین کو بیچ دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں جن فتنوں سے ڈرایا گیا ہے ان میں عورتوں کا سرکش ہوجانا، جوانوں کا فسق میں مبتلا ہوجانا، جہاد کا ترک کر دیا جانا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہ ہونا، بلکہ ان پیمانوں ہی کا بدل جانا، یعنی لوگوں کا اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگنا بھی شامل ہیں۔اس امت کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ قرآن و سنت رسول ۖ ہی ہے، انسانوں کے وضع کردہ قوانین نہیں۔ کتاب و سنت ہی اسے بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ ہمارے اوپر یہ فرض ہے کہ ہم ان کی طرف واپس آئیں اوران کی ہدایت پر چلیں۔
آج ہمارا عقیدہ، ہمارا دین، ہماری تہذیب، ہمارے مساجد ومدارس، ہماری جان ومال اور عزت  وآبرو سب خطرے میں ہیں۔  اسلام دشمن طاقتیں  ہر سطح پر  مسلمانوں کو ختم کرنے  کے درپے ہیں۔ آج دنیا میں سب سے سستی چیز مسلمان کی جان ہے۔ خون مسلم کی ارازانی کا ہم برما، عراق، شام، فلسطین، افغانستان ، چیچنیا، صومالیہ، مالی ،آسام اور دنیا کے دیگر خطوں میں دیکھ رہے ہیں۔  غور کریں کہ آخر  ایسا کیوں  ہے؟  ایسا اس واسطے  ہے کہ مسلمان دین سے دور ہوگئے ہیں۔ ہم میں اتفاق واتحاد نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ کے ختم  ہو جانے  کے بعد مسلمانوں کا کوئی متحدہ  پلیٹ فارم نہیں۔ آج ان کی کوئی اجتماعی فوج  اور طاقت نہیں۔ ان میں کوئی  رابطہ اور تعاون نہیں۔ سب ایک دوسرے  سے الگ تھلگ ہیں اور ریوڑ سے   الگ  ہو جانے والی بکری کی طرح  باری باری انسان نما بھیڑ یوں کا شکار  ہورہے  ہیں۔ 

 اللہ کا وعدہ ہے کہ "و لینصرن اللہ من ینصرہ"، ) اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے یقینا اللہ اس کی مدد فرماتا ہے)۔رب العالمین تاکید کے ساتھ فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی مدد کروگے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا؛ اگر معمولی اور مادی نگاہوں سے دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ یہ غیر ممکن نظر آئے؛ لیکن بہت سی چیزی بعید از قیاس نظر آتی تھی جو واقع ہوئیں۔دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور جدوجہد کی اللہ نے ان ظلم سے نجات دی۔ مصر، لیبیا، تیونس، مراقش، ترکی اسکی زندہ مثالیں ہیں۔ کیاکچھ عرصہ قبل تک یہ تصور کرسکتے تھے کہ ساری دنیا کی باطل طاقتوں کی پشن پناہی کے باوجود یہ وہا ں کے مسلمانوں کے عزم اور جہد مسلسل کے سامنے نہ ٹک سکے۔ اور راہ فرار اختیار کرلی اور ذلت کا نمونہ بن گئے۔ بقول شاعر : جہاں پناہ ڈھونڈتے ہیں پناہ ۔۔اسی کو گردش لیل و نہار کہتے ہیں۔ 

عیدالفظر کا پیغام شوکت و عروج کا پیغام ہے۔ یہ عروج ہمیں صرف رجوع الی الاسلام کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی ہی ہمیں اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ہم نے غیروں کی پیروی کی، تقلید کی ، نقالی کی۔ ان تمام نے ہمیں کیا دیا؟ شکست، رسوائی، ندامت، نقصان، اخلاقی فساد اور غلامانہ انتشار کے سوا ہمیں کیا ملا ہے! ہمیں نہ معاشی آسودگی میسر آسکی، نہ سیاسی استحکام نصیب ہوا نہ معاشرتی تعلقات میں بہتری آسکی، اور نہ اخلاقی ترقی ہوئی نہ روحانی رفعت حاصل ہوسکی۔اللہ تعالی تعالی فرماتے ہیں۔''اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہوگا تو وہ اس سے ہرگز بھی قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔''
ہمارے پاس اسلامی اصول، ربانی شریعت، محمدی ۖ طریق ہاے کار اور عظیم ورثہ موجود ہے۔ لہذا ہم امیر ہیں اور دوسروں سے ان چیزوں کے معاملے میں بے نیاز ہیں۔ پھر کیوں سب کچھ درآمد کرتے اور بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ ہمیں اپنے قرآن، آسمانی ہدایت اور نبوی ۖ سنت کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسول  ۖاللہ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ ببانگِ دہل توحید کے عقیدے پر کاربند ہوجائیں۔ اسی طرح مسلمان ہوجائیں جیسے کبھی ہوا کرتے تھے، یعنی حقیقی مسلمان، نہ کہ نام کے مسلمان، یا موروثی مسلمان۔ مسلمانوں کو مستعد و متحرک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دین کے راستے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرسکیں، اس دین کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یہ جدوجہد عزم و ہمت اور ارادوں کی جدوجہد ہوگی۔ جس فریق یا عزم و ارادہ زیادہ قوی ہوگا غلبہ اسی ہوگا، غالب وہی ہے۔ جس کا دل اللہ تعالی پر بھروسے اور توکل سے مالامال ہے، وہی غالب ہے۔ ارشاد ہے: "ِن ینصرم اللہ فلا غالِب"؛  (اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا)۔ 

عظیم فیصلے اور عظیم ارادے عظیم دنوں میںہی میں ہوتے ہیں۔ اہلِ اسلام کو عید کے موقع پر اسلام کی نصرت کا عزم کرنا چاہیے۔ روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا: سب سے زیادہ کن لوگوں کا ایمان تمھارے نزدیک عجیب ہوسکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: فرشتوں کا۔ آپ نے فرمایا: وہ کیوں ایمان نہ لائیں گے وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر انبیا کا۔ آپ  ۖنے فرمایا: وہ کیوں نہ ایمان لائیں گے، جب کہ ان کے اوپر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر ہمارا۔ آپ نے فرمایا: تم کیوں ایمان نہ لاتے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ پھر آپ ۖنے فرمایا: سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان ان لوگوں کا ہے جو تمھارے بعد آئیں گے اور کتاب کو پڑھ کر ہی ایمان لے آئیں گے۔ 
اللہ کے رسولۖ کی بشارت ہمارے ساتھ ہیں۔ احساس کمتری سے باہر آئیں۔ اسباب کی دنیا کے سارے وسائل بروئے کار لائیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں علوم اور ٹکنولوجی کو مسخر کریں۔اپنے آپ کو ایمانی اور مادی لحاظ سے طاقتور بنائیں۔ اللہ تعالی ضرور ہماری حالت بدلیں گے، امت مرحوم کودوبارہ عروج نصیب ہوگا۔ساری دنیا دوبارہ امن کا گہوار بنے گی۔ عیدالفطر ہمیں موقعہ فراہم کررہا ہے کہ ہم تجدید عزم کریں اور تازہ دم ہوکر جہد مسلسل کے لئے تیار ہوجائیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم (الرعد)ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ربنا اتنا من لدنک رحمت وھیی لنا من امرنا رشدا (الکہف)ترجمہ :خدایا! ہمیں اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔

Mobile: 9845238812
ayazfreelance@gmail.com

Friday, 22 June 2012

مصر کے انتخابات میں فوجی مداخلت

مصر کے انتخابات میں فوجی مداخلت

-پروفیسر شمیم اختر
مصر میں حسنی مبارک کی آمریت کے خاتمے پر پہلے پارلیمانی، اس کے بعد صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جو فوجی آمریت کے ساٹھ سالہ دور کے انتخابات سے بہت مختلف تھے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ہر مکتبِ فکر کی حامل جماعتوں نے اپنے اپنے نمائندے کھڑے کیے اور انتخابی مہم میں بڑی سرگرمی دیکھنے میں آئی، جبکہ پولیس کی مداخلت کم سے کم رہی، کیونکہ تحریر چوک کے عوامی احتجاج نے رائے دہندگان کے دل سے خوف نکال دیا تھا۔ پارلیمان کے انتخابات کئی مرحلے طے کرتے ہوئے جنوری میں اختتام کو پہنچے تو498 رکنی اسمبلی میں اخوان کی حمایت یافتہ الحریہ والعدالہ اور سلفیوں کی تنظیم النور کو بالترتیب 232 اور 80 نشستیں حاصل ہوئیں، چنانچہ پارلیمان نے 100 رکنی دستور ساز کمیٹی بنائی جس کے نصف ارکان پارلیمان سے اور باقی مختلف اداروں اور مزدور انجمنوں سے منتخب کیے گئے تھے۔ اس میں چھ عدد قبطی عیسائی اور پانچ خواتین بھی شامل تھیں۔ کمیٹی کا اجلاس 28 مارچ کو منعقد ہوا جس میں سعدکتاتنی کو سربراہ بنایا گیا۔ انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ مجوزہ دستور تمام مصریوں کے لیے بنایا جائے گا اور یہ عمل غیر جانبدارانہ ہوگا۔ لیکن مصر کی عدالت عظمیٰ نے اپنے نمائندے کو یہ کہہ کر واپس بلالیا کہ دستور ساز کمیٹی متنازع ہوگئی ہے (ڈان 29 مارچ 2012ئ)۔ جبکہ 10 اپریل کو مصر کی انتظامی عدالت نے اس کمیٹی کو غیر آئینی قرار دے کر معطل کردیا اور اس کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیے اسے عدالت عظمیٰ کے حوالے کردیا۔ مذکورہ عدالت کا مؤقف تھا کہ رائے شماری میں دستور سازی کے بارے میں جو اعلان کیا گیا تھا اس میں یہ شق نہیں تھی کہ پارلیمان کے ارکان اس کے رکن بن سکتے ہیں (ڈان 11 اپریل 2012ئ)۔ تاہم جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے مصر کے مقتدر حلقوں کے دبائو کے باوجود دستور ساز کمیٹی کے افتتاحی اجلاس میں 74 ارکان موجود تھے جنہوں نے اس کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیا۔ (29 مارچ 2012ئ)
یہ مروجہ جمہوری روایت کے بالکل منافی ہے کہ دستور ساز اسمبلی کی دستور سازی میں مزاحمت کی جائے۔ اس ضمن میں یہود و نصاریٰ بہت سرگرم تھے اور یہ پروپیگنڈا کررہے تھے کہ اخوان کے برسراقتدار آنے سے غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک برتا جائے گا، جبکہ مصریوں کی شخصی آزادی سلب کرلی جائے گی، لیکن فوجی جنتا اور اس کی آلہ کار عدلیہ کی جمہوری عمل میں مداخلت کے باوجود اخوان نے صبر و تحمل سے کام لیا اور تین مرحلوں میں ہونے والے صدارتی انتخاب کی تیاری میں لگ گئے۔ اس مرحلے پر مغربی، صہیونی، سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع ابلاغ نے فوجی جنتا کے ساتھ ہم آواز ہوکر اخوان کی کردارکشی کی مہم شروع کردی اور یہ تاثر دیا کہ انہوں نے تحریر چوک کے انقلاب میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اخوان نے جمہوری تحریک میں فعال کردار اس لیے ادا نہیں کیا تھا کہ اس سے مصر کی فوجی جنتا اور اس کے امریکی آقا ساری جدوجہد کو مذہبی انتہا پسندی قرار دے کر سختی سے کچل دیں گے۔ یوں تو مصر کی فوجی جنتا کی اخوان نے ساٹھ سال تک شدید مزاحمت کی تھی، جبکہ وفد، سوشلسٹ، کمیونسٹ اور سیکولر قوتیں یا تو سیاست سے کنارہ کش ہوگئی تھیں یا فوجی جنتا میں شامل ہوگئی تھیں۔ حسنی مبارک کے تین عشروں پر محیط دورِ اقتدار میں اخوان المسلمون کی سرگرمیوں پر اتنی پابندیاں عائد کردی گئیں کہ وہ عملاً مفلوج ہوکر رہ گئی۔ انہیں اپنے جھنڈوں پر لاالہ الا اللہ، محمد الرسول اللہ لکھنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ کیا مصر کی کوئی سیکولر پارٹی یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ مصر کے ساٹھ سالہ فوجی آمریت کے دور میں اخوان المسلمون کے جتنے کارکنوں اور رہنمائوں کو پھانسی، حبسِ دوام، ماورائے عدالت قتل، ایذا رسانی کی سزائیں دی گئیں، ان کی عشر عشیر سزائیں بھی ان کے حامیوں کو ملیں؟ کیا یہ اخوان کے ایثار اور قربانی کا ثبوت نہیں ہے؟ حسن الہضیبی، عبدالقادر عودہ سے لے کر سید قطب اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کو شمار نہیں کیا جائے گا؟
شاہ فاروق نے اخوان کے رہبر اور بانی حسن البنا کو فروری 1949ء میں قتل کرایا، جبکہ جمال عبدالناصر نے عبدالقادر عودہ اور سید قطب کو شہید کیا۔ اخوان کے مقابلے میں وفد، سوشلسٹ اور کمیونسٹ، اور تحریر چوک کے احتجاج میں خودرو جماعتوں نے مصر میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے کتنے شہید پیدا کیے؟ بڑی ستم ظریفی ہے کہ دو ہفتے شور شرابہ مچانے اور ہنگامہ آرائی کرنے والے انقلابی کہلائیں، اور ساٹھ سال سے ستونِ دار پر چراغ کے سر رکھنے والے رجعت پسند بلکہ انقلاب شکن کہلائیں؟ کیا عمر سلیمان کی سربراہی میں مصر کی خفیہ ایجنسی نے اخوان کے کارکنوں کو حراست میں لے کر ان کی نظروں کے سامنے ان کی مائوں، بہنوں اور بیویوں کی عصمت دری نہیں کی؟ آج محمد برادعی کہتا ہے کہ مصر پارلیمانی جمہوریت اور انتخاب کے لیے سازگار نہیں ہے۔ تو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی IAEA سے فارغ ہونے کے بعد اس نے کس لیے اپنی سیاسی جماعت بنائی تھی؟ کیا اُس وقت اس کا ارادہ انتخاب لڑنے کا نہیں تھا؟ اگر مصر جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہے تو اس نے حسنی مبارک کی آمریت کی مخالفت کیوں کی تھی؟ اب جبکہ اُس کی تانگہ پارٹی کا مستقبل تاریک نظر آیا تو جمہوریت شجر ممنوعہ بن گئی؟ ویسے بھی محمد برادعی کے کرتوت کون نہیں جانتا کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایران کی تنصیبات کے معائنے کی آڑ میں جاسوسی کرتا تھا۔ اس نے اسرائیل کے اسلحہ خانے میں چار سو جوہری بموں کے انبار پر اس کی بازپرس کیوں نہیں کی؟ بلکہ اس پر چشم پوشی کرتا رہا۔ عمرو موسیٰ تو صدارتی امیدوار بن کر انتخاب کے میدان میں خم ٹھونک کر اترا تھا۔ وہ فوجی جنتا کا تنخواہ دار وزیر خارجہ تھا اور اس کی خدمات کے عوض میں خلیج کے فرماں روائوں نے اسے نیم مفلوج صم بکم لایرجعون عرب لیگ کا سیکریٹری جنرل بنادیا، اور اس نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کے سدباب کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں کیا۔ اگر حسنی مبارک کی معزولی کے بعد فوجی جنتا اور اس کے تابع سارے اداروں انتخابی کمیشن، عدلیہ، حتیٰ کہ جامعہ ازہر کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے ہر ایک کی یہی کوشش رہی کہ کسی طرح جمہوری عمل کو ناکام بنادیا جائے۔ انتخابی کمیشن نے تو کھل کر جانب داری کا مظاہرہ کیا اور حسنی مبارک کے دورِ حکومت میں اہم عہدوں پر فائز وزرا مثلاً سابق وزیراعظم احمد شفیق کو جو مصر کی فضائیہ کا سربراہ بھی رہ چکا ہے، صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل قرار دے دیا جس سے پوری قوم میں مایوسی اور غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ جبکہ الحریہ والعدالہ (اخوان) کے رہنما اور صدارتی امیدوار خیرت الشاطر اور النور کے حازم صلاح ابواسمٰعیل کو نااہل قرار دے دیا۔ اگر الحریہ والعدالہ (اخوان) نے ڈاکٹر محمد مرسی کو امیدوار نامزد نہ کیا ہوتا تو مصر کی سب سے بڑی عوامی پارٹی یعنی اخوان صدارتی انتخاب سے بے دخل کردی گئی ہوتی۔ بدقسمتی سے اخوان کے رہنما عبدالمنعم ابوالفتوح اپنی پارٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صدارتی امیدوار بن گئے جنہیں انتخابی کمیشن نے فوراً اہل قرار دے دیا اور مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کا ہمنوا مصری میڈیا اخوان کے منحرف رہنما عبدالمنعم ابوالفتوح کو معتدل سیاستداں کی حیثیت سے رائے دہندگان کے لیے قابل قبول بنانے میں کوشاں تھے۔ اب انتخابی میدان میں 13 صدارتی امیدواروں میں مقابلہ آرائی ہوئی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ حسنی مبارک کی عوام دشمن حکومت کا سابق سربراہ احمد شفیق خود کو مذہبی رواداری، امن و استحکام کے علم بردار کی حیثیت سے عوام میں متعارف کرانا چاہتا تھا، جبکہ سیکولر اور سوشلسٹ پارٹیوں نے تحریر چوک کی تحریک کا محرک اور رہنما ہونے کا دعویٰ کیا، اور ان دونوں یعنی احمد شفیق اور سیکولر اور روشن خیالی کی داعی جماعتوں نے اخوان پر مذہبی انتہا پسندی کا الزام لگاکر قبطی عیسائیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اخوان کے خلاف فوجی جتنا اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کا محاذ بن گیا، لیکن ان نامساعد حالات کے باوجود 13، 14 مئی کو صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں الحریہ والعدالہ کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کو 25.3 فی صد، جبکہ احمد شفیق کو 24.9 فی صد ووٹ حاصل ہوئے، اور تیسرے نمبر پر پان عرب سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار حمد بن صیاحی کو 21.5 فی صد ووٹ ملے۔ اس طرح تمام ہتھکنڈوں کے باوجود پہلے مرحلے میں ڈاکٹر محمد مرسی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے، اور انہیں احمد شفیق کے مقابلے میں تقریباً ایک لاکھ ووٹوں کی برتری حاصل رہی۔ اب دوسرا مرحلہ باقی تھا جس کے لیے 8 اور 9 جون کو 33 ممالک میں مقیم پانچ لاکھ اندراج شدہ رائے دہندگان میں سے تین لاکھ دس ہزار افراد نے ووٹ ڈالے جس میں الحریہ والعدالہ (اخوان) کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کو دولاکھ بتیس ہزار ووٹ ملے، چنانچہ 16، 17 جون کو اندرون ملک رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ دریں اثنا بیرون ملک مقیم مصری رائے دہندگان کی ڈاکٹر محمد مرسی کی ہمہ گیر اکثریت کی حمایت سے مصر کی فسطائی فوجی جتنا کے ہاتھ پائوں پھول گئے، چنانچہ 14 جون کو عدالت عظمیٰ نے منتخب شدہ پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا اور حسنی مبارک کے ظالمانہ دورِ حکومت میں وزارت عظمیٰ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے احمد شفیق کو انتخاب کا اہل قرار دے دیا۔ (ڈان 15 جون 2012ئ)
اس سے عدلیہ اور فوجی جنتا کی ملی بھگت ظاہر ہوتی ہے۔ چنانچہ طنطاوی جنتا نے عدلیہ کے فیصلے کی آڑ لیتے ہوئے ایک فرمان صادر کیا جس کے ذریعے منتخب پارلیمان کو تحلیل کرکے ازسرنو انتخاب کا اعلان کیا، ریاست کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے، دستور سازی کے لیے ایک کمیٹی مقرر کرنے کا وعدہ کیا اور 30 جون کو منتخب صدر کو اختیارات سونپ دینے کا وعدہ کیا۔ فوجی جتنا کے اس اقدام کی نہ صرف مصر بلکہ دنیا بھر میں مذمت کی گئی اور اسے رجعت پسندانہ اقدام قرار دیا گیا۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل اور بھارت کے انگریزی روزنامے دی ہندو (The Hindu) نے اسے جمہوریت کے منافی قرار دیا۔ اخوان کی درخواست پر مصر کی تمام سیاسی جماعتوں نے ایک بار پھر 19 جون کو فوجی جنتا کے غیر آئینی اور آمرانہ اقدام کی مذمت کی اور ایک بار پھر تحریر چوک کی فضا انقلابی نعروں سے گونج اٹھی۔
تادم تحریر مصر کے انتخابی کمیشن نے صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان نہیں کیا، تاہم اخوان اور دیگر غیر سرکاری ذرائع کے مطابق اخوان کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی نے 52 فی صد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرکے انتخاب جیت لیا ہے، تاہم مصر کے سرکاری ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی، جبکہ احمد شفیق نہایت دیدہ دلیری سے اپنی کامیابی کا اعلان کررہا ہے۔
دراصل حسنی مبارک کی معزولی کے بعد اس کے ماتحت فوجی ٹولے نے ملک کا اقتدار غصب کرلیا اور اس کی کوشش یہی تھی کہ ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کو لڑاکر اقتدار اپنے کسی پٹھو کے حوالے کردے۔ ظاہر ہے یہ صرف فوجی جتنا کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ اس میں اسرائیل اور امریکہ کا ہاتھ ہے جو نہ صرف اخوان بلکہ ہر نمائندہ حکومت سے خائف رہتے ہیں کیونکہ وہ عوام کے دبائو کے باعث صلیبی صہیونی ٹولے کی ہر بات نہیں مانے گی۔
ان واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ جب تک امریکہ کی تنخواہ دار اور تابعدار فوج اور اس کی تابع نوکر شاہی عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کی تطہیر نہیں کی جاتی، ملک پر یہ لعنت مسلط رہے گی۔ یہ اخوان کا ہی دردِسر نہیں ہے، اگر کوئی سیکولر جماعت بھی عوامی حمایت سے برسراقتدار آتی ہے تو اسے بھی اس عفریت کا سامنا کرنا ہوگا۔ لہٰذا مصر کی عوامی فوج (Peoples Army) کی ضرورت ہے جو امریکہ اور اسرائیل سے نہیں اپنی منتخب حکومت سے احکامات لے۔

Saturday, 11 February 2012

ویلنٹائن ڈے Valentine Day


ویلنٹائن ڈے Valentine Day کیا ہے؟؟؟

از۔۔۔۔۔ ایاز الشیخ گلبرگہ



چودہ فروری کو ویلنٹائن ڈے یومِ اظہارِ محبت کی حیثیت سے بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔اس کے آغاز کے بارے میں بہت سے روایات مشہور ہے۔ لوگ اْسے’’ کیوپڈ ‘‘(محبت کے دیوتا)اور ’’وینس‘‘(حسن دیوی)سے موسوم کرتے ہیں جو کیوپڈ کی ماں تھی۔ یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنے محبت کے زہر بجھے تیر نوجوان دلوں پر چلا کر اْنھیں گھائل کرتا تھا۔ ایک دوسرے روایت مے اِس تہوار کے تاریخی پس منظر کودیکھا جائے تو اِس تہوار کا تعلق ’’سینٹ ویلنٹائن‘‘ سے جوڑا جاتا ہے۔ س تہوار کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب رومیوں نے نصرانیت قبول کی اور عیسائیت کے ظہور کے بعد اس میں داخل ہوئے تو تیسری صدی عیسوی میں شہنشاہ کلاڈیس دوم نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کرنے کی پابندی لگا دی کیونکہ وہ بیویوں کی وجہ سے جنگوں میں نہیں جاتے تھے تو اْس نے یہ فیصلہ کیا۔لیکن سینٹ ویلنٹائن نے اِس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے چوری چھپے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا اور جب کلاڈیس کو اِس کا علم ہوا تو اْس نے سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور اْسے سزائے موت دے دی۔کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران ہ سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور سب کچھ خفیہ ہوا کیونکہ پادریوں اور راہبوں پر عیسائیوں کے ہاں شادی کرنا اور محبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہیں۔ اسے 14 فروری 270 عیسوی کے دن پھانسی دے دی گئی۔ روایت کے مطابق اْس دن کی یاد میں محبت کرنے والوں کے درمیان پیار بھرے پیغامات کا تبادلہ ہوگیا۔ یہ ویلنٹائن کی وہ کہانی ہے جو مغرب میں بے انتہا مقبول ہے۔ 



جب سے یہ تہوار عیسائیوں نے شروع کیا ہے اس میں مقصود محبت زوجیت کے دائرے سے باہر رہتے ہوئے عشق اوردل کوعذاب میں ڈالنے والی محبت مراد ہے ، جس کے نتیجہ میں زنا اورفحاشی پھیلے اورعام ہو ، اوراسی لیے کئی اوقات میں عیسائیوں کے دینی لوگوں نے اس کے خلاف آوازاٹھاتے ہوئے اس کیخلاف کام کیا اوراسے باطل قراردیا اوراسے ختم کیا لیکن انیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیاگیا۔ چونکہ عشق کا تعلق انسان کے اندرونی جذبہ سے ہے اسی کا استحصال کرنے کیلئے تجارتی کمپنیوں نے ویلنٹائن ڈے کو ذرائع ابلاغ اورمیڈیا کے ذریعہ خوب شہرت دی اور دلفریب بنا کر پیش کیا۔ اس دن کھربوں ڈالرز کا فائدہ یہ اپنی مصنوعات محبت کے دیوانوں کو فروخت کر کے حاصل کرتی ہیں۔ انہیں کے زیر اثردنیا تمام ذرائع ابلاغ اس دن کوبڑے تزک واحتشام سے نشر کرتے ہیں خصوصا اسلامی ممالک میں براہ راست موسیقی اورگندی تصاویر اوررقص وسرور کی محافل نقل کرتے ہیں جس کی بنا پربہت سے مسلمان لوگ بھی اس کے دھوکہ میں آنا شروع ہوچکے ہیں۔ اسی لئیے پچھلے چند برسوں میں بہت سے مسلمان نوجوان لڑکے لڑکیوں میں بھی یہ دن منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ 

اس دن ایک خاص قسم کے کارڈ کا تبادلہ ہوتا ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے : ( Valentine BeMy) "میرے والنٹائن محبوب بنو"۔ سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ مٹھائیوں، خاص کر سرخ مٹھائیوں اور چاکلیٹ کا تبادلہ ایک دوسرے کو تحائف دینا، تفر یحی مقامات پر جانا اور کھانے کی دعوت دینا اِس دن کی مناسبت سے عام ہے۔پہلے محبت قربانی کا جذبہ مانگتی تھی، اب خرچہ مانگتی ہے۔ بدقسمتی سے اِسے بھر پور اندازا میں منانے والے اِس بات سے لاعلم ہیں کہ اِسے کیوں منایا جاتا ہے۔ اِس دن شہر کی سڑکوں پر عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پھولوں کی دکانوں سے پھول اچانک غائب ہوجاتے ہیں،تعلیمی اداروں بازاروں اور بس اسٹاپ پر منچلے لڑکے لڑکیوں سے چھیڑ خانی کرتے اور پھول پھینکتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں جب کہ تما م پارکوں اور گارڈنس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور اِس دن کے لحاظ سے لڑکیوں نے سرخ لباس زیبِ تن کئے ہوتے ہیں تاکہ اِس دن بھر پور انداز میں لطف اندوز ہوا جاسکے۔ اِب یہ ایک فیشن بن گیا ہے اور ہرکوئی اِس فیشن کو اپنانے کے لئے سرگرداں ہے۔ یہ دن سڑک چھاپ عاشقوں کیلئے ایک نعمت بن کر واردہوا ہے۔ اِب آپ جس سے محبت کرتے ہیں مگر اِب تک اظہار کرنے کی جرات نہیں کر پائے اْسے صرف پھول یا پھر ایک سستا سا کارڈ بھیج کر اپنے دل کی آواز اْس تک پہنچا سکتے ہیں۔آگے آپ کے محبوب کی مرضی ہے کہ وہ بہت ساری آفروں میں سے کس کی آفر قبول کرتا ہے۔ اور کتنی مدت کیلیے۔۔۔۔



یہاں اِس کا ذکر انتہائی ضروری ہے خصوصا نئی نسل کے لئے جو ایسے فیشن اختیار کرتی ہے اور ایسے ایام خوشی سے مناتی ہے۔ جو ہمارے ہیں ہی نہیں۔ بلکہ اْس تہذیب سے بھیجے گئے ہیں جسے دیکھ کر ہم شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اِس تناظر میں اِس امر کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ مسلم ممالک اور معاشروں پر تہذیب کی جنگ مسلط کردی گئی ہے چند سال پہلے کسی کویہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا ’’گلوبل ویلیج‘‘ ہے۔ گلوبل ویلیج کا نعرہ مغرب سے آیا اور مغرب کے پیروکاروں نے اِسے پھیلایا جس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو ایک تہذیب کے زیر اثر لایا جائے جہاں ایک نظام ہو، ایک تہذیب ہو،اور اِسکے ہر رسم و رواج کو دوسری تہذیبیں قبول کریں۔ اِسے اپنی زندگی کا جزوِ لازم بنالیں اور اِسی منصوبے کے تکمیل کیلئے وہ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم احساس کمتری کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ مغرب کی ہر روایت کو اپنا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں ماڈرن اور روشن خیال ہونے کی دلیل ہے مغرب کی تقلید بن گئی ہے۔ بقول علامہ

تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا یوں غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر



ایک طبقہ کی رائے ہے کہ اسلام خوشی منانے سے ہر گز منع نہیں کرتا اس لئے اس دن خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں۔ مزید یہ کہ آپ ان کے طریقے مت اپنائیں بلکہ اسلامی طریقے اپناکر اسلامی انداز میں یہ دن منا سکتے ہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔ افسوس ہے ان دانشوروں پر۔ طریقہ بدلنے سے کوئی غلط کام جائز نہیں ہو جاتا۔ اگر خوشیاں ہی منانی ہے تو کسی اور دن کا انتخاب کر لیجئے۔ اسی دن منانا ضروری ہے؟ اور کیا خوشی صرف ایک دن کیلئے ۔۔ ہمیشہ کیلئے کیوں نہیں؟؟؟ اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ فطری مذہب ہے۔ خوشی اور محبت فطری جذبات ہیں اور اسلام اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔ لیکن اس کے اپنے اصول ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو اسلام کی کسوٹی اور معیارات پر پرکھیں۔ اسلام خوشی اور تفریح سے ہر گز منع نہیں کرتا بلکہ صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے منانے کا مطلب کفار و مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا ہے، اور اسلام کی واضح تعلیمات ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیکہ آپ ﷺنے فرمایا: (من تشبہ بقوم فھو منھم ) "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اسکا شمار اسی قوم میں ہوگا"۔ اب ہر انسان خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کن میں سے ہونا پسند کرتا ہے۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہونگے جواللہ تعالی کے دشمنوں کے بعض شعائر اوردینی علامات وعادات میں ان کی پیروی اوراتباع کرینگے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں اس کا ذکر ملتا ہے :

ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی بالشت بربالشت اورہاتھ برہاتھ پیروی کروگے ، حتی کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوئے توتم بھی ان کی پیروی میں اس میں داخل ہوگے ، ہم نے کہا اے اللہ تعالی کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم : کیا یہودیوں اورعیسائیوں کی ؟ تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اورکون ؟ ! ) امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ با میں روایت کیا ہے ۔



یہ تو مذہبی پہلو ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی پہلو سے یہ دن جو برائیاں ساتھ لاتا ہے وہ کوئی بھی شریف النفس قبول نہیں کر سکتا۔ مغربی اور غیر اسلامی معاشروں کا جو کلچر میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کے ذہنوںیہ دن منانے کی دعوت دیتا ہے ، وہ طریقے بھی سکھاتا ہے۔ محبت اور عشق کے خوبصورت پردوں میں جنسی بے راہ روی اس دن کا خاصہ ہے۔ مغربی ملکوں کو چھوڑئیے خود ہندوستان میں اس دن ہونے والی بے حیائی سے تو جانور بھی شرما جائیں ۔ آپ google یا youtube پر سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔



بے شک اسلام میں محبت توایک صورت یعنی آدمی اورعورت کے مابین محبت میں ہی منحصرہونے کی بجائے عام ہے زیادہ بہتر ہے وہ اس طرح کہ دین اسلام میں اللہ تعالی سے محبت اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے محبت کرنا ،اولیاء اللہ بزرگانِ دین اورخیروبھلائی اوراصلاح اوردین سے محبت کرنے والوں اوردین کی مدد کرنے والوں سے محبت کرنا ، اوراللہ تعالی کے راستے میں شھادت پانے سے محبت کرنا ، اوراسی طرح بہت ساری اوربھی محبتیں ہیں جواسلام ہمیں بتلاتا ہے ، لھذا جب محبت کے اس وسیع معنی کوصرف محبت کی اس نوع اورقسم میں ہی منحصرکردیا جائے توپھر بہت ہی خطرناک بات ہے غلط ہے۔ در اصل یہ محبت نہیں ہوس ہے جو موقعوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ بے شک جولوگ یہ گمان اورخیال رکھتے ہیں کہ شادی سے قبل محبت کرنا شادی کے لیے مفیداوربہترنتائج کا باعث ہے اوراس سے اچھے اوربہتر تعلقات قائم ہوتیہیں توان کا یہ خیال اورگمان تباہ کن اورخسارے والا ہے ، جیسا کہ تجربات وواقعات اورسروے سے بھی یہ ثابت ہوچکا ہے ،نے محبت کی شادی love marriage کے بارے میں جو ریسرچ کی ہے اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ : وہ شادی جومحبت کی شادی یا محبت ہونے کے بعد شادی کی جاتی ہے اس میں% 88 اٹھاسی فیصد شادیاں ناکامی کا شکار ہوتی ہیں یعنی اس میں کامیابی کا تناسب صرف% 12 بارہ فیصد سے زیادہ نہیں ۔



یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔لوگوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آگہی پیدا کریں، اس دن اور ایسے دیگر تہواروں کے خرابیوں اور خرافات سے اپنی نوجوان نسل کو آگا کرنے کے ساتھ اسے اس دلدل میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نے ابھی آنکھیں نہ کھولیں، اپنی روایات کا پاس نہ رکھا اور مغرب کی تقلید میں مست رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اخلاقی زوال میں مغرب سے آگے نکل جائیں۔ 
ayazfreelance@gmail.com


Saturday, 28 January 2012

عازمین حج کے انتخاب میں نئی پالیسی کا اعلان
انتخاب میں شفافیت۔ معمر حجاج کو مددگار ساتھی لے جانے کی اجازت
ایاز الشیخ کی خصوصی رپورٹ

بنگلو٢٨ جنوری( یواین این )عازمیں حج کے لئے خوشخبری ہے کہ مرکزی حج کمیٹی نے کچھ اہم فیصلوں کے ذریعہ ان کی مشکلات کو بہت حد تک آسان کردیا ہے۔ پہلے عازم کا نام اگر قرعہ اندازی میں نہیں نکلتا تھا تو آئندہ سال کے لئے انہیں دوبارہ درخواست دینی پڑتی تھی۔ لیکن اب اس کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انکی درخواست خودبخود آئندہ سال اور عدم انتخاب پر اسکے بعد کے سال کی قرعہ اندازی میں شامل ہوجائیگی۔ اگر مستقل تین سال تک درخواست منتخب نہیں ہوتی تو اسکے بعد انکا انتخاب خودبخود ہوجائیگا۔ 

اسکے علاوہ 60 سال سے زیادہ عمر کے عازمین کو اپنے ساتھ ایک مددگار ساتھی لے جانے کی اجازت ہوگی۔ ان فیصلوں سے تمام ریاستی حج کمیٹیوں کو مطلع کیا جائگا اور ان پر عمل آوری ان پر لازم ہوگی۔ 

وذارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ مرکزی حج کمیٹی کو ریاستی حج کمیٹیوں کی جانب سے رد عمل کی توقع ہے۔ کچھ دوسرے گروپ اور افراد جن کے مفادات ان فیصلوں سے متاثر ہوجائیں گے کی جانب سے بھی گڑ بڑ پیدا کئے جانے کی توقع ہے۔ ایسے افراد اور گروپس کا اب عازمین کے انتخاب میں کوئی رول نہیں رہیگا۔ نئی پالیسی سے حج ٹور آپریٹز بھی متاثر ہوں گے جنکا انتخاب اکثر معمر عازمین کیا کرتے تھے۔ امید ہے کہ آئندہ حج کمیٹی ایم پی کوٹہ بھی ختم کردیگی۔ تاکہ بدعنوانی کا مکمل خاتمہ ہو۔ 

عازمین حج کمیٹی کے ان فیصلوں سے فائدہ اٹھائیں اور بچولیوں سے بچیں جو یقینی طور پر حج میں منتخب کرانے کا جھانسہ دیکر پیسے اینٹھ لیتے ہیں۔ حج ایک متبرک اور اہم فریضہ ہے جو محظ اللہ کی خوشنودی کے لئے ادا کیا جاتا ہے۔ اگر حج پہ منتخب ہونے کے لئے رشوت کا سہارا لیا جائے تو کیا یہ عبادت کہلائے گی۔ اور کیا اللہ اسے قبول کریگا؟؟ اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے ۔منتخب ہونے کے لئے لیڈران کی چاپلوسی اور انکے دروں کے چکر لگانے کی بجائے اللہ سے دعا کریں۔دل میں سچی آرزور و تمنا ہو تو وقت مقررہ پر اللہ خود انتظام فرما دیں گے اوراگر موت آجائے تو رب کریم انشاء اللہ ان کا شمار حاجیوں میں کریگا۔

Sunday, 22 January 2012

اللہ تعالیٰ کی حضوری



اللہ تعالیٰ کی حضوری
ترتیب : ایاز الشیخ گلبرگہ
کسی نے پیر تؤکل شاہ صاحب سے پوچھا۔ حضرت! نمازمیں اخلاص کیا چیز ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔ جناب رسالت مآبﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ احسان (اخلاص) یہ ہے کہ نماز میں یہ خیال رکھو کہ تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو کم از کم اتنا ضرور خیال رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔اس نے عرض کیا۔ حضرت! یہ بات کیسے میسر ہو؟کہا۔ ’’یہ بات اللہ تعالیٰ کی حضوری سے میسر ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی حضوری ہو گی اور یہ خیال ہو گا کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں یااللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں، تو دل میں اللہ تعالیٰ کی ہیبت وارد ہو گی‘ اور اسی ہیبت کا نتیجہ خشوع و خضوع ہے۔ خشوع و خضوع یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس طرح سجدہ کرے جیسے کوئی مجرم عاجز و لاچار ہو کر اور اپنی عزت و وجاہت کو ہیچ سمجھ کر اپنے آقا کے پاؤں پر گرتا ہے اور نہایت عاجزی وزاری کے ساتھ اپنا جرم معاف کراتا ہے۔ اپنے گناہوں پر نادم و پشیمان ہو کر معافی کا خواستگار ہو‘ جب اس طرح کا خشوع اور ایسی حضوری میسر ہو جائے، تو نماز میں خودبخود اخلاص آ جائیگا۔
’’اور اصل ان باتوں کی یہ ہے کہ جناب رسول پاکﷺنے جس طرح غار حرا میں چھ برس کلمہ طیبہ پڑھا اور یاد کیاتھا، اسی طرح اسے یاد کیا جائے۔ بندہ یہی کر لے تو اسکی برکت سے از فرش تا عرش کشف ہو جائیگا اور کلمہ طیبہ کی حقیقت بندے کے قلب میں وارد ہو کر ڈیرہ ڈال دیگی اور اپنا گھر بنا لے گی‘ اسکے بعد نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تلاوت قرآن پاک، درود شریف، غرض بندہ جو عبادت بجا لائے گا، اس کی حقیقت بندہ کے دل میں وارد ہو کر خودبخود حضوری پیدا کر دیگی چونکہ یہ حقیقتیں حقائق الٰہیہ میں سے ہیں، اسلئے جس قدر یہ وارد ہوں گی، اسی قدر قرب الہٰی زیادہ ہو گا۔ اور تجلیات ذات کا ورود شروع ہو جائیگا اور ان تجلیات میں سیر ہونے لگے گی‘ اس سے حضوری کیساتھ خشوع و خضوع بھی حاصل ہو جائیگا اور بغیر کسی تکلیف کے اخلاص پیدا ہو جائیگا۔‘‘
ایک اور موقع پر فرمایا ’’ نفس کی عجیب خاصیت ہے۔ جب یہ امارہ ہو تو برائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ مگر جب یہ مطمئنہ ہو جائے اور پوری طرح قابو میں آ جائے تو کام بھی بڑے اچھے کرتا ہے جب نفس منور اور پورا مطیع ہو جائے، تو کسی وقت ایسی تحریک پیدا کرتا ہے کہ مرید کو لمحوں میں اعلیٰ رتبہ پر پہنچا دیتا ہے۔’’نفس مطمئنہ والے بزرگوں سے توجہ لینا وصل کا بہت ہی قریبی راستہ ہے۔