اللہ تعالیٰ کی حضوری
ترتیب : ایاز الشیخ گلبرگہ
کسی نے پیر تؤکل شاہ صاحب سے پوچھا۔ حضرت! نمازمیں اخلاص کیا چیز ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔ جناب رسالت مآبﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ احسان (اخلاص) یہ ہے کہ نماز میں یہ خیال رکھو کہ تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو کم از کم اتنا ضرور خیال رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔اس نے عرض کیا۔ حضرت! یہ بات کیسے میسر ہو؟کہا۔ ’’یہ بات اللہ تعالیٰ کی حضوری سے میسر ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی حضوری ہو گی اور یہ خیال ہو گا کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں یااللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں، تو دل میں اللہ تعالیٰ کی ہیبت وارد ہو گی‘ اور اسی ہیبت کا نتیجہ خشوع و خضوع ہے۔ خشوع و خضوع یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس طرح سجدہ کرے جیسے کوئی مجرم عاجز و لاچار ہو کر اور اپنی عزت و وجاہت کو ہیچ سمجھ کر اپنے آقا کے پاؤں پر گرتا ہے اور نہایت عاجزی وزاری کے ساتھ اپنا جرم معاف کراتا ہے۔ اپنے گناہوں پر نادم و پشیمان ہو کر معافی کا خواستگار ہو‘ جب اس طرح کا خشوع اور ایسی حضوری میسر ہو جائے، تو نماز میں خودبخود اخلاص آ جائیگا۔
’’اور اصل ان باتوں کی یہ ہے کہ جناب رسول پاکﷺنے جس طرح غار حرا میں چھ برس کلمہ طیبہ پڑھا اور یاد کیاتھا، اسی طرح اسے یاد کیا جائے۔ بندہ یہی کر لے تو اسکی برکت سے از فرش تا عرش کشف ہو جائیگا اور کلمہ طیبہ کی حقیقت بندے کے قلب میں وارد ہو کر ڈیرہ ڈال دیگی اور اپنا گھر بنا لے گی‘ اسکے بعد نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تلاوت قرآن پاک، درود شریف، غرض بندہ جو عبادت بجا لائے گا، اس کی حقیقت بندہ کے دل میں وارد ہو کر خودبخود حضوری پیدا کر دیگی چونکہ یہ حقیقتیں حقائق الٰہیہ میں سے ہیں، اسلئے جس قدر یہ وارد ہوں گی، اسی قدر قرب الہٰی زیادہ ہو گا۔ اور تجلیات ذات کا ورود شروع ہو جائیگا اور ان تجلیات میں سیر ہونے لگے گی‘ اس سے حضوری کیساتھ خشوع و خضوع بھی حاصل ہو جائیگا اور بغیر کسی تکلیف کے اخلاص پیدا ہو جائیگا۔‘‘
ایک اور موقع پر فرمایا ’’ نفس کی عجیب خاصیت ہے۔ جب یہ امارہ ہو تو برائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ مگر جب یہ مطمئنہ ہو جائے اور پوری طرح قابو میں آ جائے تو کام بھی بڑے اچھے کرتا ہے جب نفس منور اور پورا مطیع ہو جائے، تو کسی وقت ایسی تحریک پیدا کرتا ہے کہ مرید کو لمحوں میں اعلیٰ رتبہ پر پہنچا دیتا ہے۔’’نفس مطمئنہ والے بزرگوں سے توجہ لینا وصل کا بہت ہی قریبی راستہ ہے۔
No comments:
Post a Comment