توہینِ رسولِ اکرم ؐ مسلمان کیلئے ناقابلِ برداشت
رشید انصاری
رشید انصاری
معلوم اعظم و مردود زمانہ سلمان رشدی کے ناپاک وجود کو برداشت کرنے سے وطن
عزیز کی زمین محفوظ رہی لیکن یہ موضوع ابھی ختم نہیں ہوا ہے ۔ کئی سوال اٹھ
کھڑے ہوئے ہیں ۔ سلمان رشدی کے اسلام دشمن حامی دشمن اسلام کے ہندوستان نہ
آپانے والے افراد اس بات پر نالاں ہیں کہ سلمان رشد کی ممنوعہ کتاب سے
اقتباسات پڑھ کر سنانے والوں(ہری کنزرو اور امیتاو روشیر جوشی ‘ جیت تھائل
کمار ) کے خلاف راجستھان پولیس نے فوری کارروائی کیوں نہیں کی ؟ تو دوسری
طرف سلمان رشدی کے شیطانی خیالات پڑھ کر سنانے والوں کو جے پور کے فیسٹیول
کے منتظمین کی جانب سے روکے جانے پر پروین سوامی (روزنامہ ہندو ۔ 21؍جنوری)
جیسے زعفرانی قلم کار ناراض ہیں۔ اسی طرح سلمان رشدی کے ہندوستان نہ آنے
کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی جارہی ہیں بلکہ ملک کے سیکولر کردار پر
بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں گویا اسلام دشمن عناصر کو کھیل کھیلنے کا موقع
ملے تو سیکولرازم کے تقاضے پورے ہوتے ہیں لیکن ایسی باتیں کرنے والے یہ
بھول جاتے ہیں کہ وہ سلوک جو انتہا پسند ہندوتوا کے علمبرداروں نے عالمی
شہرت یافتہ مصور ایم ایف حسین کے ساتھ روا رکھا گیا تھا اظہار خیال کی
آزادی کا حق استعمال کرنے کے جرم میں ایم ایف حسین کو ہندوستان چھوڑنے پر
مجبور کردیا گیا تھا لیکن سیکولرازم ‘ اظہار خیال کی آزادی اور حقوق انسانی
کے علمبردار اس بات پر شور و غوغا مچارہے ہیں کہ ہندوستانی شہریت اپنی
مرضی سے ترک کرنے والے سلمان رشدی کو ہندوستان آنے سے روک دیا گیا !
ان تمام باتوں کے علاوہ ہمارے نزدیک تشویش ہی نہیں بلکہ غصہ و انتہائی ملال والی بات ہے کہ چند مسلمانوں کے نام نہاد ہمدرد صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے نزدیک سلمان رشدی کی آمد پر احتجاج اور اس کی مذمت غیر ضروری ہے کیوں کہ مسلمانوں کے دیگر مسائل سلمان رشدی کی مذمت سے زیادہ اہم ہیں حیدرآباد دکن کے ایک معروف اردو روزنامے کے سنڈے ایڈیشن میں اسلام دشمن نہ سہی اسلام بیزاری کے اپنے خیالات کے لئے مشہور ایک کالم نویس اور جدہ کے ایک ممتاز انگریزی روزنامے کے ہندوستانی قلمکار نے سلمان رشدی کی آمد کے سلسلے میں ہندوستانی مسلمانوں کے احتجاج کو ناپسند کیا ہے اور لکھا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مسائل پر توجہ دینی چاہیے ان کا یہ بھی خیال ہے کہ سیاست دانوں کو اس مسئلہ پر سیاست کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ۔ بات یہ ہے کہ اس قسم کیک لغو و بے معنی اعتراضات کی اصل وجہ یہ ہے کہ سلمان رشدی کے خلاف احتجاج جس جذبے کے تحت ہورہا ہے اس کی روح اور ماہیت کو فاضل تجزیہ نگار پہنچ ہی نہیں سکے ہیں یا پہنچے بھی ہیں تو اپنا سیکولرازم اور روشن خیالی کے اظہار کے لئے بے معنی باتیں کررہے ہیں جو از خود قابل مذمت ہیں۔ ان کو تو سلمان رشدی کی توقیر کرنے والوں سے عالمی ادب میں رشدی مردود کی ادبی حیثیت اور مقام کے بارے میں سوال کرنا چاہیے تھا۔
اس موضوع پر آگے بڑھنے سے قبل یہ بھی بتادوں کہ وطن عزیز میں اس وقت بڑے پیمانے پر نہ سہی محدود پیمانے پر سہی اسلام دشمنی فروغ پارہی ہے ۔ جے پور کے ادبی فیسٹیول میں سلمان رشدی کو مدعوکرنا اس کی آمد کی مخالفت پر غم وغصہ کا اظہار فیسٹیول کے آغاز میں اس کی ممنوعہ و خلاف قانون قرار دی گئی کتاب کے اقتباسات کا پڑھا جانا اور اس کوروکے جانے پر شور و غوغا اسلام دشمنی کی مختلف صورتیں ہیں۔
جے پور میں کانگریس کی حکومت ہے ۔ سلمان رشدی کی آمد کی توقع کے پیش نظر راجستھان پولیس بھی مستعد و چوکس(الرٹAlert) تھی ۔ فیسٹیول میں ممنوعہ کتاب کی کھلے بندوں نمائش یا اس کا پڑھا جانا پولیس کو فوری حرکت میں لانے کیلئے کافی تھا لیکن پولیس کی خاموشی کا نگریس کی اس پالیسی کے پیش نظر تھی جو سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی ہے اس پر کیوں خاموش ہیں؟
ان حالات میں مسلمانوں کے آگے اپنی ملی شناخت اپنی تہذیب و ثقافت کی برقراری کا سوال ہے تعلیمی پسماندگی ‘ معاشی کمزوری سرکاری ظلم و جبر وہر طرح کے استحصال کے مقابلے ہی کی نہیں بلکہ اس کے انسداد کا مسئلہ درپیش ہے بھلے ہی زندگی اور موت کا سوال نہ ہو لیکن اپنے وجود کو خطرات سے بچانے کی جدوجہد ضرور درپیش ہے ان حالات میں بادی النظر میں اسلام اور اللہ کے رسولؐ کا احترام اور محبت جو ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہے کو (اللہ نہ کرے بلکہ نقل کفر کفر نہ باشد کے مصداق) پیش نظر رکھا جائے تو بے شک سلمان رشدی کی آمد پر احتجاج اور سلمان رشدی کی مذمت کو اہمیت دینا غیر ضروری نظر آتا ہے لیکن مسلمان کیلئے ایسی تمام مراعات ‘ تحفظات اور ترقی و بہبود قطعی قابل قبول نہیں ہوں گے جن کی قیمت اسلام یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی‘ شریعت کی تضحیک ہو۔ اسلام سے مسلمان ہے نہ کہ مسلمان سے اسلام ہے ہم اسلام کو عزت نہیں دیتے بلکہ اسلام سے ہم کو عزت ملتی ہے ۔ دنیا بھر میں مسلمان پہلے مسلمان ہوتا ہے پھر سب کچھ ‘ ہر نعمت احترام رسولؐ پر قربان کی جاسکتی ہے۔
سلمان رشدی بے شک اس سے قبل بھی ہندوستان آیا تھا اور جب بھی اس کے آنے کی خبر مسلمانوں کو ملی احتجاج ہوا۔ قبل ازیں کسی احتجاج نہ ہونے کی بات پھیلا کر ذرائع ابلاغ کو گمراہ کررہے ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ معلوم رشدی ہمیشہ چوری سے آیا کرتا تھا ‘ چھپ کر رہاکرتا تھا اچانک منظر عام پر آتا اور چوروں کی طرح چھپ کر فرار ہوجاتا تھا ۔ اس بار تو اس کو بڑے طمطراق سے بلایا گیا اس کی پذیرائی کی تیاریاں تھیں بڑا پروپیگنڈہ اس کی آمد کا ہورہا تھا۔ مسلمانوں کے سینوں پر مونگ دلنے کا منصوبہ تھا ۔ کانگریس نے ہمیشہ ہی ایک طرف سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں سے ہمدردی کا ڈھونگ رچایا ہے تو دوسری طرف اسلام دشمنوں کو کھلی چھوٹ دے کر ان کو مسلمانوں کی دل آزاری اور ان پر ظلم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دیتی ہے ۔ آئے دن ملک بھر میں مختلف طریقوں سے اسلام دشمنی کے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات اس وجہ سے ہوتے ہیں آزادی کے وقت سے اور اس کے بعد سے مسلمانوں کو صبر کرنے‘ تحمل سے کام لینے اور جذباتیت سے گریز کرنے کا سبق گھٹی میں ڈال کر پلایا گیا تھا اس کا فائدہ تو کچھ ہوا نہیں لیکن ہر دور میں ہر جگہ مخالف مسلم یا اسلام دشمن سرگرمیوں اضافہ ہوتا گیا ۔ سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی لگانے سے مسلمانوں کو اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا کہ نقصان ہوا۔ سلمان رشدی کی تائید و حمایت و حفاظت سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ۔ تسلیمہ نسرین کو ایک زہر لگے تیر کی طرح ملت کے قلب میں پیوست کرنے کے مماثل عمل یعنی ہندوستان میں اس کو طویل قیام کی اجازت اور اس کی حفاظت و صیانت کے انتظامات کو مسلمانوں نے بڑی حد تک برداشت کیا مسلمانوں کی اس کمزوری کو دیکھ کر سلمان رشدی کی عزت و توقیر اور پذیرائی کا منصوبہ بنایا گیا ۔ ہارے چند دانشور آخر کیا سوچ کر ان دل آزاریوں پر خاموش رہنے یا ان کو برداشت کرنے کا مشورہ دیتے ہیں؟ مان لیجئے کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے یا ان کی کمزور معیشت کو مستحکم کرنے روزگار فراہم کرنے تجارت میں آگے بڑھانے کاکام ہورہا ہو ۔ ساتھ اسلام ‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ک یمقدس شخصیات کی توہین ہورہی ہو اور دشمنان اسلام کی پذیرائی کا عمل بھی جاری اور اسلام دشمنی زور و شور سے ہورہی ہو تو کیا باغیرت ‘ باحمیت مسلمان کیلئے یہ صورتحال قابل قبول ہوسکتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ بالکل نہیں تو شاتم رسول کی حرکات اور ان کی پذیرائی کو برداشت کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے اور اگر ایسا کوئی مشورہ دیتا ہے تو وہ یا تو بیمار ‘ مرعوب اور خوفزدہ ذہنیت کا مالک ہے یا پھر دشمنان اسلام کے مفادات کا محافظ اور ان کا ’’زرخرید بندہ‘‘ ہے۔
19 ویں صدی کے اواخر میں ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی ‘ سماجی اور معاشی حالات آج سے زیادہ بدتر‘ بھیانک اور خطرناک تھے اور مسلمانوں کے اس پرآشوب دور میں واحد قائد ‘ مصلح ‘ رہنما یا دانشورانہ مشورے دینے والی صرف ایک شخصیت سرسید احمد خاں کی تھی ۔ سرسید کے آگے مسائل اور منصوبوں اور کام کی کمی نہ تھی سب کچھ ان کو کرنا تھا لیکن جب فرنگی عیسائی مبلغین اور پادری اسلام کے خلاف میدان میں آئے اللہ رسول ؐ پر حملے نہیں بلکہ اعتراضات شروع کئے (گو کہ وہ تسلیمہ اور رشد کی طرح بیہودہ ‘ بدتمیز اور گستاخ نہ تھے لیکن معترض ضرور تھے) تو سرسید نے سب کچھ چھوڑ کر ان پادریوں سے مباحثے اور مناظرے شروع کردےئے اوردشمنان اسلام کو خاموش کردیا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وتق کوئی ظفر آغا یا ان کے جیسا بندہ مسلمانوں میں نہ تھا جو کہتا کہ مسلم مسائل ‘ توہین اسلام کرنے والوں کے خلاف احتجاج کرنے سے زیادہ اہم ہیں ۔ سرسید کے دل میں ملت کا جو درد تھا ایسے فرد کی مسلمانوں میں آج موجودگی کا تصور تک ممکن نہیں ۔ شاتم رسول کو واصل جہنم کرنے والے ’’علم دین‘‘ پر علامہ اقبالؒ رشک کرتے تھے۔
مسلمانوں کو ایسے نام نہاد ہمدردوں یا مشیروں کی نہ کل ضرورت تھی نہ آج ہے ۔ اسلام بیزاروں یا اسلام دشمنوں کی ایسی تحریریں پڑھنا بھی نہیں چاہیے کیوں کہ دین کی توہین ہماری توہین ہے ۔
RASHEED ANSARI,
Ph :09949466582
rasheedmansari@ymail.com
ان تمام باتوں کے علاوہ ہمارے نزدیک تشویش ہی نہیں بلکہ غصہ و انتہائی ملال والی بات ہے کہ چند مسلمانوں کے نام نہاد ہمدرد صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے نزدیک سلمان رشدی کی آمد پر احتجاج اور اس کی مذمت غیر ضروری ہے کیوں کہ مسلمانوں کے دیگر مسائل سلمان رشدی کی مذمت سے زیادہ اہم ہیں حیدرآباد دکن کے ایک معروف اردو روزنامے کے سنڈے ایڈیشن میں اسلام دشمن نہ سہی اسلام بیزاری کے اپنے خیالات کے لئے مشہور ایک کالم نویس اور جدہ کے ایک ممتاز انگریزی روزنامے کے ہندوستانی قلمکار نے سلمان رشدی کی آمد کے سلسلے میں ہندوستانی مسلمانوں کے احتجاج کو ناپسند کیا ہے اور لکھا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مسائل پر توجہ دینی چاہیے ان کا یہ بھی خیال ہے کہ سیاست دانوں کو اس مسئلہ پر سیاست کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ۔ بات یہ ہے کہ اس قسم کیک لغو و بے معنی اعتراضات کی اصل وجہ یہ ہے کہ سلمان رشدی کے خلاف احتجاج جس جذبے کے تحت ہورہا ہے اس کی روح اور ماہیت کو فاضل تجزیہ نگار پہنچ ہی نہیں سکے ہیں یا پہنچے بھی ہیں تو اپنا سیکولرازم اور روشن خیالی کے اظہار کے لئے بے معنی باتیں کررہے ہیں جو از خود قابل مذمت ہیں۔ ان کو تو سلمان رشدی کی توقیر کرنے والوں سے عالمی ادب میں رشدی مردود کی ادبی حیثیت اور مقام کے بارے میں سوال کرنا چاہیے تھا۔
اس موضوع پر آگے بڑھنے سے قبل یہ بھی بتادوں کہ وطن عزیز میں اس وقت بڑے پیمانے پر نہ سہی محدود پیمانے پر سہی اسلام دشمنی فروغ پارہی ہے ۔ جے پور کے ادبی فیسٹیول میں سلمان رشدی کو مدعوکرنا اس کی آمد کی مخالفت پر غم وغصہ کا اظہار فیسٹیول کے آغاز میں اس کی ممنوعہ و خلاف قانون قرار دی گئی کتاب کے اقتباسات کا پڑھا جانا اور اس کوروکے جانے پر شور و غوغا اسلام دشمنی کی مختلف صورتیں ہیں۔
جے پور میں کانگریس کی حکومت ہے ۔ سلمان رشدی کی آمد کی توقع کے پیش نظر راجستھان پولیس بھی مستعد و چوکس(الرٹAlert) تھی ۔ فیسٹیول میں ممنوعہ کتاب کی کھلے بندوں نمائش یا اس کا پڑھا جانا پولیس کو فوری حرکت میں لانے کیلئے کافی تھا لیکن پولیس کی خاموشی کا نگریس کی اس پالیسی کے پیش نظر تھی جو سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی ہے اس پر کیوں خاموش ہیں؟
ان حالات میں مسلمانوں کے آگے اپنی ملی شناخت اپنی تہذیب و ثقافت کی برقراری کا سوال ہے تعلیمی پسماندگی ‘ معاشی کمزوری سرکاری ظلم و جبر وہر طرح کے استحصال کے مقابلے ہی کی نہیں بلکہ اس کے انسداد کا مسئلہ درپیش ہے بھلے ہی زندگی اور موت کا سوال نہ ہو لیکن اپنے وجود کو خطرات سے بچانے کی جدوجہد ضرور درپیش ہے ان حالات میں بادی النظر میں اسلام اور اللہ کے رسولؐ کا احترام اور محبت جو ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہے کو (اللہ نہ کرے بلکہ نقل کفر کفر نہ باشد کے مصداق) پیش نظر رکھا جائے تو بے شک سلمان رشدی کی آمد پر احتجاج اور سلمان رشدی کی مذمت کو اہمیت دینا غیر ضروری نظر آتا ہے لیکن مسلمان کیلئے ایسی تمام مراعات ‘ تحفظات اور ترقی و بہبود قطعی قابل قبول نہیں ہوں گے جن کی قیمت اسلام یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی‘ شریعت کی تضحیک ہو۔ اسلام سے مسلمان ہے نہ کہ مسلمان سے اسلام ہے ہم اسلام کو عزت نہیں دیتے بلکہ اسلام سے ہم کو عزت ملتی ہے ۔ دنیا بھر میں مسلمان پہلے مسلمان ہوتا ہے پھر سب کچھ ‘ ہر نعمت احترام رسولؐ پر قربان کی جاسکتی ہے۔
سلمان رشدی بے شک اس سے قبل بھی ہندوستان آیا تھا اور جب بھی اس کے آنے کی خبر مسلمانوں کو ملی احتجاج ہوا۔ قبل ازیں کسی احتجاج نہ ہونے کی بات پھیلا کر ذرائع ابلاغ کو گمراہ کررہے ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ معلوم رشدی ہمیشہ چوری سے آیا کرتا تھا ‘ چھپ کر رہاکرتا تھا اچانک منظر عام پر آتا اور چوروں کی طرح چھپ کر فرار ہوجاتا تھا ۔ اس بار تو اس کو بڑے طمطراق سے بلایا گیا اس کی پذیرائی کی تیاریاں تھیں بڑا پروپیگنڈہ اس کی آمد کا ہورہا تھا۔ مسلمانوں کے سینوں پر مونگ دلنے کا منصوبہ تھا ۔ کانگریس نے ہمیشہ ہی ایک طرف سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں سے ہمدردی کا ڈھونگ رچایا ہے تو دوسری طرف اسلام دشمنوں کو کھلی چھوٹ دے کر ان کو مسلمانوں کی دل آزاری اور ان پر ظلم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دیتی ہے ۔ آئے دن ملک بھر میں مختلف طریقوں سے اسلام دشمنی کے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات اس وجہ سے ہوتے ہیں آزادی کے وقت سے اور اس کے بعد سے مسلمانوں کو صبر کرنے‘ تحمل سے کام لینے اور جذباتیت سے گریز کرنے کا سبق گھٹی میں ڈال کر پلایا گیا تھا اس کا فائدہ تو کچھ ہوا نہیں لیکن ہر دور میں ہر جگہ مخالف مسلم یا اسلام دشمن سرگرمیوں اضافہ ہوتا گیا ۔ سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی لگانے سے مسلمانوں کو اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا کہ نقصان ہوا۔ سلمان رشدی کی تائید و حمایت و حفاظت سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ۔ تسلیمہ نسرین کو ایک زہر لگے تیر کی طرح ملت کے قلب میں پیوست کرنے کے مماثل عمل یعنی ہندوستان میں اس کو طویل قیام کی اجازت اور اس کی حفاظت و صیانت کے انتظامات کو مسلمانوں نے بڑی حد تک برداشت کیا مسلمانوں کی اس کمزوری کو دیکھ کر سلمان رشدی کی عزت و توقیر اور پذیرائی کا منصوبہ بنایا گیا ۔ ہارے چند دانشور آخر کیا سوچ کر ان دل آزاریوں پر خاموش رہنے یا ان کو برداشت کرنے کا مشورہ دیتے ہیں؟ مان لیجئے کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے یا ان کی کمزور معیشت کو مستحکم کرنے روزگار فراہم کرنے تجارت میں آگے بڑھانے کاکام ہورہا ہو ۔ ساتھ اسلام ‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ک یمقدس شخصیات کی توہین ہورہی ہو اور دشمنان اسلام کی پذیرائی کا عمل بھی جاری اور اسلام دشمنی زور و شور سے ہورہی ہو تو کیا باغیرت ‘ باحمیت مسلمان کیلئے یہ صورتحال قابل قبول ہوسکتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ بالکل نہیں تو شاتم رسول کی حرکات اور ان کی پذیرائی کو برداشت کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے اور اگر ایسا کوئی مشورہ دیتا ہے تو وہ یا تو بیمار ‘ مرعوب اور خوفزدہ ذہنیت کا مالک ہے یا پھر دشمنان اسلام کے مفادات کا محافظ اور ان کا ’’زرخرید بندہ‘‘ ہے۔
19 ویں صدی کے اواخر میں ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی ‘ سماجی اور معاشی حالات آج سے زیادہ بدتر‘ بھیانک اور خطرناک تھے اور مسلمانوں کے اس پرآشوب دور میں واحد قائد ‘ مصلح ‘ رہنما یا دانشورانہ مشورے دینے والی صرف ایک شخصیت سرسید احمد خاں کی تھی ۔ سرسید کے آگے مسائل اور منصوبوں اور کام کی کمی نہ تھی سب کچھ ان کو کرنا تھا لیکن جب فرنگی عیسائی مبلغین اور پادری اسلام کے خلاف میدان میں آئے اللہ رسول ؐ پر حملے نہیں بلکہ اعتراضات شروع کئے (گو کہ وہ تسلیمہ اور رشد کی طرح بیہودہ ‘ بدتمیز اور گستاخ نہ تھے لیکن معترض ضرور تھے) تو سرسید نے سب کچھ چھوڑ کر ان پادریوں سے مباحثے اور مناظرے شروع کردےئے اوردشمنان اسلام کو خاموش کردیا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وتق کوئی ظفر آغا یا ان کے جیسا بندہ مسلمانوں میں نہ تھا جو کہتا کہ مسلم مسائل ‘ توہین اسلام کرنے والوں کے خلاف احتجاج کرنے سے زیادہ اہم ہیں ۔ سرسید کے دل میں ملت کا جو درد تھا ایسے فرد کی مسلمانوں میں آج موجودگی کا تصور تک ممکن نہیں ۔ شاتم رسول کو واصل جہنم کرنے والے ’’علم دین‘‘ پر علامہ اقبالؒ رشک کرتے تھے۔
مسلمانوں کو ایسے نام نہاد ہمدردوں یا مشیروں کی نہ کل ضرورت تھی نہ آج ہے ۔ اسلام بیزاروں یا اسلام دشمنوں کی ایسی تحریریں پڑھنا بھی نہیں چاہیے کیوں کہ دین کی توہین ہماری توہین ہے ۔
RASHEED ANSARI,
Ph :09949466582
rasheedmansari@ymail.com
No comments:
Post a Comment