Search This Blog

Sunday, 22 January 2012

فیس بک خاکے یا مغرب کا اعلان جنگ

فیس بک خاکے یا مغرب کا اعلان جنگ
از۔۔ایاز الشیخ گلبرگہ
 
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کوئی نئی بات نہیں۔ روز اول سے لیکر آج تک شرار بولہبی اسی کوشش میں ہے کہ چراغ مصطفوی ﷺکو بجھایا جائے۔ لیکن چراغ مصطفویﷺ تو خدا کا نور ہے جسکی روشنی پھیلتی رہے گی چاہے کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔اللہ کے پیارے حبیبﷺ سے امت کو جو محبت ہے اس سے یہ دشمنان بخوبی واقف ہیں۔ ماضی میں مسلمانوں کو مرتد بنانے کے سارے ہتھکنڈے اپنائے گئے لیکن یہ امت اپنے نبیﷺ کے دامن رحمت کو بھلا کیسے چھوڑتی۔ معاشی طور پر بے حال کردیا گیا۔ قتل و غارتگری، غلبہ و تسلط کے ذریعہ کوشش کی گئی لیکن ہر کوشش کے جواب میں مکی مدنی آقاﷺ سے الفت بڑھتی ہی گئی۔ ہو سکتا ہے کہ مسلمان عمل میں کمزور ہو لیکن ایمان اور دین پہ مر مٹنے کا جذبہ اسکے اندر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح موجزن ہوتا ہے جو باطل کے ناپاک ارادوں کو خش وخاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ دن جب غار حرا میں وحی کی پہلی کرن کا نزول ہوا اس وقت سے آج تک دنیا دوہی کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے. ایک وہ جنہوں نے آپ کی پکار پر لبیک کہا دوسرے وہ جنہوں نے انکار کیا۔ منکرین نبوت کی اسلام کے خلاف جنگ کا مرکزی ہدف ہمیشہ سے ذات محمدیﷺ ہی رہی۔ کیونکہ اسلام کی روشنی جب چار سو پھیل رہی تھی اور ہزارہا لوگ عیسائیت اور یہودیت کو چھوڑ کر مشرف بہ اسلام ہورہے تھے اور ہر ایمان لانے والا کلمہ پڑھتے ہی آپ کی والہانہ محبت اور عشق میں گرفتار ہوجاتا تھا چنانچہ عیسائیت اور یہودیت نے سارا زور ہی رسالت کو جھٹلانے میں صرف کیا۔عیسائیت ہو یا یہودیت جو بظاہر مذہب ہونے کے دعویدار ہیں جب معاملہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کا ہو تو دونوں تہذیب کے جامے سے باہر آجاتے ہیں۔ رسالت محمدیﷺ ہی ان کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف کیوں قرار پاتی ہے۔
آج دشمنان اسلام نے آقاﷺ کی ذات گرامی کی شان میں مسلسل گستاخیوں کو جنگی حکمت عملی کی شکل دے دی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے دین و ایمان کا مرکزو محور آقائے نامدار ﷺ کی ذات گرامی قدر ہے۔ باطل کے دو مقاصد ہیں اول تو یہ کہ آنحضرتﷺ کی ؑ ظمت کو دلوں سے کم کیا جائے۔ دوم یہ کہ جانچا جائے کہ نبی آخرالزماںﷺ کے ماننے والوں غیرت ایمانی زندہ ہے یا نہیں۔ حضور اکرمﷺ جن کے ذکر کو اللہ نے صرف عرش و فرش نہیں بلکہ ساری کائنات میں بلند کیا اسمیں یہ گندے حشرات الارض کیا کمی لا سکیں گے۔ بلکہ یہ جو سانس لیکر زندہ ہیں یہ بھی ہمارے نبیﷺ کا صدقہ ہے۔ اگر ہمارے آقا ﷺرحمت اللعالمین نہ ہوتے تو آقاﷺ کی شان میں گستاخی کا خیال لانے سے پہلے قہار و جبار رب انہیں نیست و نابود کردیتا۔انہیں برباد کرنے سے پہلے اللہ انہیں ہدایت اور توبہ کی مہلت دے رہا ہے۔
اسلام امن ، رواداری اور تمام مذاہب کا احترام کرنے والا دین ہے۔ مغربی قوتوں اور یہودی میڈیا نے ایک منصوبے کے تحت اس پر تشدد اور دہشت گردی کا لیبل لگا کر اس کے اصل چہرے کو مسخ کیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان تمام انبیاء کرام کا احترام کرتے ہیں بلکہ ان پر ایمان لائے بغیر ان کا ایمان مکمل اور بارگاہ الٰہی میں قبول ہی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس مغربی ممالک کا میڈیا اور اس کے کارٹونسٹ پیغمبر اسلام ﷺاور ہاد�ئ برحق ﷺجو تمام انسانیت کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ‘ کی شان میں مسلسل توہین آمیز خاکے اور کارٹون شائع کر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر رہے ہیں ‘پوری دنیا کے مسلمان اس پر سراپا احتجاج ہیں‘ اس کے باوجود یہ دل آزارکھیل جاری ہے۔ مغربی ممالک کی تنگ نظری ، تعصب اور مذہبی دہشت گردی اس وقت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ‘کئی یورپی ممالک میں عورتوں کے نقاب اوراسکارف اوڑھنے پر سرکاری پابندی اور خواتین پر تشدد اور انہیں قتل تک کر دینے والے جنونی معاشرے اسلام پر کس منہ سے دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں‘ اصل دہشت گرد تو وہ خود ہیں۔ڈ نمارک اور ناروے کے کارٹون مسئلہ کے بعد انٹرنیٹ کی مشہور یہودی مارک ذکربرگ کی ویب سائیٹ فیس جس پر سی آئی اے اور اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے نے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کروایا ہے۔ اس حرکت کے ذریعہ بنیادی انسانی حقوق اور احترام بین المذاہب کے علمبرداروں نے اپنے مکروہ چہروں سے نقاب الٹ دیاہے۔ حقیقت یہ کارٹونوں اور توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ نہیں بلکہ کفر اور اسلام کا مقابلہ ہے۔
خاکوں کے مقابلہ کا اعلان کرکے عالم کفر ایک بار پھر مسلمانوں کی غیرت و حمیت دینی کو للکاررہا ہے تاکہ یہ جان سکے کہ امت مسلمہ کے مضمحل جسم سے روح محمدﷺنکالی جاسکی ہے یا نہیں۔ مسلمان خواہ کیسا ہی گیا گزرا اور بے عمل ہو لیکن محمد رسول اللہ کی ذات گرامی پر جب بات آتی ہے تو ہرمسلمان کے لئے اپنے آقا و مولیﷺ اور دین کیلئے جان دینے سے بڑھکر کوئی سعادت نہیں ہے ۔ یہود و نصاری کی اس ناپاک جسارت پر شرق و غرب میں مسلمان اپنے عالم گیر ردعمل کا اظہار کررہے ہیں اور یہ ثبوت پیش کررہے ہیں کہ ان کے خاکستر میں ابھی چنگاریاں باقی ہیں اور اگر حکمران عوام کے جذبات کے ہمنوا بن جائیں تو وہ چنگاریاں آج بھی شعلہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی لیے کہ ہر مسلمان کے دل میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام ہے اقبال کے لفظوں میں نوالے اوبہ ہر دل سازگار است کہ در ہر سینہ قاشے از دل اوست ترجمہ: ’’اس کی آواز ہر دل کے لیے سازگار ہے ہر سینے مں اس کے دل کا ایک ٹکڑا ہے.‘‘ جو ردعمل ا س وقت دیکھنے میں آرہا ہے بلاشبہ ثابت کررہا ہے کہ امت ابھی مٹی کا ڈھیر نہیں بنی۔
امریکی صدر جارج بش نے جب مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان کیا تھاتو اسی وقت سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اصل مقصد کیاہے ۔صلیبی جنگ جاری ہے لیکن مسلمان حکمرانوں کی صفوں میں آج کوئی صلاح الدین ایوبیؒ نہیں ہے. مسلمان حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے اپنے مفادات امریکا اور مغرب سے وابستہ ہیں۔ان سے بزدلی اور مداہنت کے علاوہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ مسئلہ محض وقتی ردعمل کا نہیں ہے بلکہ ضرورت ہے ایک مربوط حکمت عملی اور مغرب کی جنگ کے اسلوب اور اس کے محاذوں کو سمجھنے کی یہ محض چند کارٹون‘ کسی ایک اخبار کی ناپاک جسارت‘ کسی ایک فیس بک کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسلامی دنیا کے عقیدے اور تہذیب کے خلاف برملا اظہار جنگ ہے اور یہ جنگ طویل بھی ہوگی اورفیصلہ کن بھی‘ وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہی اس کے مقابلے کے لیے درست حکمت عملی کی ضرورت میں پنہاں ہے۔مغربی میڈیا اور قیادت آزادئ اظہار رائے کا نام لے کر جس بات کا دفاع کرتے ہیں کہ وہ اس کے سوا کیا ہے کہ جو وہ کہیں وہ درست۔ جس عینک سے وہ دنیا کو دیکھیں وہی عینک ہر اک لگائے. ان کا حسن کرشمہ ساز جوچاہے وہ کرے‘ پیمانے وہ جو وہ ترتیب دیں‘ اقدار وہی جو ان کی اقدار ہوں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے جو کارٹون (معاذ اللہ) شائع کیے گئے اس کارٹونسٹ kurt wester gaard نے استفسار پر بتایا کہ ان خاکوں کے پیچھے ایک جذبہ کارفرما تھا کہ اس دہشت گردی کو بے نقاب کیا جائے جسے اسلام روحانی اسلحہ فراہم کرتا ہے اور حقیقتاً اس دہشت گردی کے لیبل کے ذریعے مسلمانوں کو تہذیبی ہی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی غلامی کے جال میں پھانسنا بھی تھا۔ آزادئ اظہار رائے کا حق خود ان کے معاشروں میں بھی لامحدود نہیں ہے ۔ احتجاج کرنے پر فیس بک نے ایک پیس ریلیز جاری کی جسمیں اس نے ’ویب سائٹ بلاک کرنے والے ممالک کو قانونی کاروئی کی دھمکی دی اور بتایا کہ وہ آزادی اظہار اور سیکیولریزم کی قائل ہے اورچاہتے ہیں کہ فیس بک کے ذریعہ لوگ کھل کر اپنی بات کہیں اسلئے کسی ملک مذہب کلچریا آئیڈ لوجی کے خلاف کوئی بات کہنے سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا۔‘‘ یہ کیسی آزادی اظہار رائے ہے جو دوسروں کے بنیادی حقوق پر کھلم کھلا دست درازی ہے اور سیکولر ازم کا نام لے کر بار بار مسلمانوں کے جذبات سے جس طرح کھیلا جارہا ہے وہ خود سیکولر ازم کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے‘ یہاں مسئلہ دین اور لادینیت کا نظر نہیں آتا بلکہ گہرے مذہبی تعصب اور طاقت کے نشے کی مستی نظر آتی ہے جس میں آپ کا پیر کس کی گردن پر پڑا آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
جہاں تک دین حق اور سرور کائنات ﷺ کا تعلق ہے ان کی اپنی زبانیں بھی اس صداقت کی گواہی دیتی ہیں۔ ہفت روزہ اکنامسٹ لندن لکھتا ہے ’’اسلام ایک آئیڈیا ہے آج کی دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد آئیڈیا یہ آئیڈیا انسانی تجربے اور مشاہدے سے ماورا حق کے وجود پر یقین کا مدعی ہے ور اس کے نزدیک یہ وہ حق ہے جو 14 سو برس پہلے محمد ﷺپر نازل ہوا اور قرآن کی صورت میں محفوظ اور موجود ہے ۔‘‘ایک تہذیب کی قوت اور غلبے کے لیے ایسے الحق پر یقین کی قوت کے برابر کوئی قوت نہیں اس لیے اصل یورپ اسلام اور مسلمانوں سے خائف ہیں انہیں خطرہ ہے کہ ایک نئی سرد جنگ آرہی ہے جو غالباً سرد نہ رہے گی۔اس تہذیبی معرکے میں رسالتِ محمدی ﷺکو جو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگئی ہے شمع محمدی ﷺکے پروانوں کو اسکا گہرا ادراک اور شعور ہونا چاہیے کیونکہ آپ علیہ الصلوۃ و السلام کسی خاص قوم میں خاص وقت کے لیے مبعوث نہیں فرمائے گئے تھے بلکہ ساری انسانیت کی طرف اور ہر دور کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں‘ لہٰذا آج ساری انسانیت کو اس ابدی پیغام کی طرف بلانا بالکل اسی طرح ہماری ذمہ داری ہے جس طرح آپ اپنی زندگی کی ایک ایک ساعت اس فرض کو ادا کرکے گئے ہیں۔ہمیں تمام جدید علوم اور ذرائع سے کام لے کرآپ کے عظیم کردار سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہوگا اور ہمیں صحابۂ اکرام، تابعین تبع تابعین، اولیاو اللہ و صوفیان عظام کی راہ پر چل کرا پنے اخلاق کو کردار کو نمونہ بنا کر پیش کرنا ہوگا۔ ہماری زندگیوں میں اس حسنِ خلق کی جھلک نظر آئے۔ استحصال کے مارے امن کیلئے ترستے مظلوم انسانوں کو آقاﷺ کے دامن رحمت میں لانا ہمارا مشن ہونا چاہئے۔ ایک ارب سے زائد مسلمان اس مشن کو لے کر کھڑے ہوجائیں جو آپ کا مشن تھا یعنی انسانیت کی نجات و فلاح تو غلبۂ اسلام کی بشارتیں آج بھی منتظر ہیں ۔اب ہم خود کو ان بشارتوں کا مستحق ثابت کریں۔ حضور انورﷺ سے ہماری محبت و عقیدت صرف زبانی نہ ہو بلکہ آپﷺ کی اتباع پر دل اور دماغ تیار و آمادہ ہوں۔ بس یہی ہیں اس تہذیبی جنگ میں ہماری فتح کے امکا ن ۔ مغرب کے یہ مذموم حملے انشاء اللہ امت کی بیداری اور شرع پیغمبرﷺ کو دنیا پر آشکار کرنے کا سبب ثابت ہوں گے.
کی محمدﷺسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا روح و قلم تیرے ہیں


Ayaz Al-Shaikh Gulbarga (Karnataka)
ayazfreelance@indiatimes.com
ayazfreelance@gmail.com
Mobile:09845238812


1 comment:

  1. kax ko io amt bidar ow jauy jzak allo bot acha lkha oy

    ReplyDelete