Search This Blog

Sunday, 29 January 2012

یوم میلاد النبی اور اس کے تقاضے

یوم میلاد النبی اور اس کے تقاضے

  عتیق الرحمن صدیقی
 
ربیع الاوّل کا مہینہ اس بنا پر مقدس اور متبرک ہے کہ اس مہینہ میں فخرِ دوجہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سرزمین عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا ورودِ مسعود عالم انسانیت کے لیے ابرِ رحمت تھا۔ یہ رحمت و سعادت کا بادل ایسا برسا کہ اس نے دنیا کی ویران و خشک کھیتی کو ہرا بھرا اور تروتازہ کردیا۔ چمنستانِ انسانیت میں بہار آگئی‘ خیرونیکی کے عنادل نے سریلے اور رس بھرے گیت سنانے شروع کردیے‘ صداقت و امانت کی کوئلیں چہچہانے لگیں‘ نیکی و پاکیزگی کے گل کھلنے لگے اور عدل و انصاف کے چمن لہلہانے لگے۔ یہاں تک کہ بوستانِ آدمیت زیب و زینت کا گہوارہ بن گیا۔ اسی روح پرور عالم میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانِ وحی سے اعلان فرمایا:
”آج کے روز میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیا۔“ (المائدہ 3)
اسی محسنِ انسانیت کی یادِ ولادت باسعادت ہم ہر سال مناتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بڑی بڑی روح پرور تقاریب کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے‘ قمقمے روشن کیے جاتے ہیں اور فضاوں کو بڑے اہتمام کے ساتھ گلاب و یاسمین کی خوشبو سے معطر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں جلوس بھی ترتیب دیے جاتے ہیں‘ علماءو فضلا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ پر اپنے نادر اور گراں مایہ خیالات کا اظہار کرتے ہیں‘ شعرا اپنی عقیدت کو شعروں میں سمو کر پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر شیرینی بھی تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ اہتمام 12 ربیع الاوّل تک رہتا ہے اور اس کے بعد ولولے سرد پڑجاتے ہیں‘ اور یہ چنگاری پھر اُس وقت سلگتی ہے جب آئندہ سال ربیع الاوّل کا چاند طلوع ہوتا ہے۔
قابل غور امر یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے‘ ہمارا یہ طرزِعمل کس بات کی نشان دہی کرتا ہے؟ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و بزرگانِ دین کا طرزعمل بھی یہی تھا؟ آیئے اور ان سوالات کا سامنا کیجیے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہماری ساری زندگی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے خالی ہوچکی ہے اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مفہوم کو ہم نے اپنی خواہشات اور چند رسومات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے تاکہ اپنے مذہبی جذبہ کو تسکین دے سکیں اور اس طرح دیگر اقوام و ملل کو باور کراسکیں کہ ہم مسلم ہیں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائی ہیں۔ مگر یہ تصنع اور بناوٹ، یہ ملمع سازی اور یہ ہنگامہ آرائیاں دوسرے کو مرعوب کرنے سے قاصر ہیں۔ آج کی دنیا نظریات کی ظاہری چکاچوند سے مسحور و مرعوب ہونے کے بجائے ان نظریات کے داعیوں کی عملی زندگی کی حقیقت کی متلاشی ہے۔ درحقیقت کردار کی بلندی ہی دوسروں کو متاثر کرتی ہے اور کردار کی پستی ہی سے دوسرے متنفر ہوتے ہیں۔
پھر کیا یہ طرزِعمل اس بات کی نشان دہی نہیں کرتا کہ اسلام ہماری زندگی کے رگ و ریشہ میں نہیں سمایا بلکہ چند ظاہری عبادات و رسوم کی پابندی کا نام بن کر رہ گیا ہے اور دنیوی زندگی کلی طور پر شیطان کے حوالے کی جاچکی ہے۔ حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات نے دین و دنیا کی دوئی کے تصور کو مٹا کے رکھ دیا تھا۔ اسی طرح قرآن کریم نے راہبانہ طرزِفکر کو بھی ناپسند کیا ہے اور دونوں انتہاوں کے درمیان ایک متوازن اور معتدل راہ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے اس متوسط راستے کو اپنایا وہ ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب رہے اور انہیں عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ اس کے برعکس جو لوگ افراط و تفریط کا شکار ہوئے وہ گھاٹے میں رہے اور تاریخ نے انہیں حرفِ غلط کی طرح مٹادیا۔
تیسرا سوال جس کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا صرف ”ڈے“ منانے میں ہماری نجات مضمر ہے؟ یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کو اپناکر فوز و فلاح سے ہم کنار ہوا جاسکتا ہے؟ اس کا صاف اور واضح جواب قرآن مجید کی روشنی میں یہ ہے ”کہہ دیجیے، اگر تمہیں خدا کی محبت کا دعویٰ ہے تو میری پیروی کرو۔“ (آل عمران: 31)
اس آیت کی تشریح مولانا سید سلیمان ندویؒ کی زبان سے سنیے:
”اگر تم بادشاہ ہو تو میری پیروی کرو‘ اگر تم رعایا ہو تو میری پیروی کرو‘ اگر تم استاد ہو تو میری پیروی کرو‘ اگر دولت مند ہو تو میری پیروی کرو۔ غرض جس نیک راہ پر بھی ہو اور اس کے لیے بلند سے بلند اور عمدہ نمونہ چاہتے ہو تو میری پیروی کرو۔“
قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کا حکم دیں‘ کر گزرو، اور جس سے روکیں رک جاو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہیں وہ کافر ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
سورہ احزاب میں ارشاد ہوتا ہی: ”تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک نمونہ تقلید ہے‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو۔“ (الاحزاب: 21)
چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنی زندگیوں کو سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سنوارنے اور نکھارنے کی کوشش کرتے اور یوم میلاد کو ”یوم محاسبہ“ قرار دے کر یہ معلوم کرتے کہ زندگی کے شعبوں میں اطاعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار کیا ہے اور ہم اپنی کوتاہیوں اور فروگزاشتوں سے کیونکر نجات پاسکتے ہیں۔ مگر اس قسم کا کوئی ٹھوس اور مثبت لائحہ عمل ہمارے پاس نہیں رہا اور ہم نے تاریخ کے اوراق کو اس غرض سے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا.... صحابہ کرامؓ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار اور مزاج شناس تھے‘ وہ دن منانے کا اہتمام کیوں نہیں کرتے تھے؟ بلکہ ان کی پوری زندگی ان تقریبات سے خالی تھی۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ روز و شب کے 24 گھنٹوں کو دین و دنیا کے لیے بانٹتے نہیں تھے‘ بلکہ ان کی زندگی کا ہر لمحہ ایک تقریب اور ایک عظیم ڈے متصور ہوتا تھا اور وہ زندگی کے معمولی مسائل میں بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری باتیں معلوم کرنے کی جستجو میں رہتے تھے، اور صرف یہی فکر انگیز روشنی ان کے قلب و نظر کو جِلا بخش سکتی تھی۔
آج کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے تمام پہلووں کو حسین اور دلکش انداز میں پیش کیا جائے اور عوام کے دل و دماغ میں راسخ کردیا جائے کہ سیرتِ طیبہ کی پیروی ہی میں ہماری نجات کا راز مضمر ہے۔ اور یہ پیروی صرف زندگی کے کسی ایک پہلو میں نہ ہو بلکہ پوری زندگی صرف اسی ایک سراجِ منیر سے منور ہو۔ اس مضمون کو علامہ سید سلیمان ندویؒ نے بڑے حسین انداز میں پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
”غرض ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالتِ انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے کامل اخلاق کا مجموعہ ہو‘ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے۔ اگر دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو‘ اگر غریب ہو تو شعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو‘ اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو‘ اگر رعایا ہو تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو‘ اگر فاتح ہو تو بدروحنین کے سپہ سالار پر نظر دوڑاو‘ اگر تم شکست خوردہ ہو تو احد سے عبرت حاصل کرو‘ اگر تم استاد اور معلم ہو تو صفہ کی درس گاہ کے معلم قدس کو دیکھو‘ اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماو‘ اگر واعظ اور ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو‘ اگر تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یارومددگار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہے۔ اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمن کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بناچکے ہو تو فاتح مکہ کا نظارہ کرو‘ اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم و نسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر‘ خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم و نسق کو دیکھو‘ اگر یتیم ہو تو عبداللہ و آمنہ کے جگر گوشے کو نہ بھولو‘ اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو‘ اگر تم جوان ہو تو مکہ کے ایک چرواہے کی سیرت پڑھو‘ اگر سفری کاروبار میں ہو تو بصریٰ کے میرِ کارواں کی مثالیں ڈھونڈو‘ اگر عدالتوں کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نورِ آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجر اسود کو کعبہ کے ایک گوشہ میں کھڑا کررہا ہے‘ مدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظرِ انصاف میں شاہ و گدا اور امیر و غریب برابر تھے۔ اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہ و عائشہ رضی اللہ عنہما کے مقدس شوہر کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کرو‘ اگر اولاد والے ہو تو فاطمہؓ کے باپ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے نانا کا حال پوچھو۔ غرض تم جو کوئی بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو‘ تمہاری زندگی کے لیے نمونہ‘ تمہاری سیرت کی درستی و اصلاح کے لیے سامان‘ تمہارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور رہنمائی کا نور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت کبریٰ کے خزانے میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے۔“
(خطباتِ مدراس‘ پانچواں خطبہ)
یہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کا وہ جامع تصور جسے مولانا مرحوم نے چند فقروں میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اسی تصور کو اپنانا اور حرزِ جاں بنانا سیرت کی تقریب کا اصل مقصد و مدعا ہونا چاہیے اور اسی روشنی میں ہمیں اپنے کردار کا مکمل طور پر جائزہ لینا چاہیے۔
”تم جو کہتے ہو اس پر غور کرو“:
حضرت عبدالرحمن بن ابی قردؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو آپ کے کچھ اصحابؓ آپ کے وضو کا پانی لے کر چہروں پر ملنے لگے تو آپ نے پوچھا ”تمہارے پاس اس کام کا محرک کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا ”اللہ اور رسول کی محبت۔“ آپ نے فرمایا ”جن لوگوں کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ اللہ و رسول سے محبت کرتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں اور جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کو (بحفاظت) مالک کے حوالے کریں اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔“ (مشکوٰة)
جذباتِ محبت کے تناظر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوسرا ارشادِ گرامی بھی ملاحظہ فرمایئے۔
”حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ”میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔“ آپ نے فرمایا ”جو تم کہتے ہو اُس پر غور کرلو۔“ اس نے تین بار کہا کہ ”بخدا میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔“ آپ نے فرمایا ”اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو فقروفاقہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کرلو‘ جو لوگ مجھ سے محبت رکھتے ہیں ان کی طرف فقر و فاقہ سیلاب سے زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھتا ہے۔“ (ترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی لے کر چہروں اور ہاتھوں پر ملنا بظاہر ایسا عمل نہ تھا کہ آپ صحابہؓ کو ڈانٹ پلاتے‘ یہ عقیدت و محبت کا ایک انداز تھا۔ آپ نے نہ اس کی تحسین فرمائی اور نہ اس پر برا مانا‘ مگر ایک نفسیاتی طریق اپنا کر اپنے چاہنے والوں کو محبت کے ایک اونچے اور ارفع مقام کی طرف متوجہ کیا۔ مقصود یہ تھا کہ صحابہؓ اور ان کے بعد آنے والے لوگ محبت کا ایک حقیقی تصور ذہن میں بٹھا لیں‘ صرف ظاہری باتوں پر اکتفا نہ کریں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ چاہت و محبت کا بلند مرتبہ یہ ہے کہ اللہ و رسول کے احکام پر عمل کیا جائے اور اس دین کی پیروی کی جائے جس کی اقامت کے لیے انہیں مبعوث کیا گیا ہے‘ جیسا کہ رب کریم نے قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمایا ”اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو‘ اللہ تمہیں چاہنے لگے گا....“ (آل عمران: 31)
آدمی جس سے محبت کرتا ہے اس کی پسند و ناپسند کو پیش نظر رکھتا ہے۔ وہ اسی راستے کو اپناتا ہے جس راستے کو اس کے محبوب نے اپنایا ہے۔ جب ہم اپنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی بات کرتے ہیں تو اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے نقوشِ قدم پر چلیں اور وہ کچھ کریں جو انہوں نے ہمیں کرنے کا حکم دیا ہے، اور ہر اس بات سے رک جائیں جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا ہے۔ وہ شخص جو دعوائے محبت کی تکرار کرتا ہے وہ اپنے کہے پر غور کرے‘ اس لیے کہ یہ راستہ سہل اور آسان نہیں‘ اس میں تو قدم قدم پر آبلے پڑتے اور پھوٹتے ہیں۔ یہ راہ تو ثور و بدر سے ہوکر گزرتی ہے۔ یہاں تو صبح و شام اپنے نفس سے بھی رزم آرا ہونا پڑتا ہے۔ قرآن کہتا ہی:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ سے ایسے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔“ (آل عمران: 102)
اس آیہ کریمہ کی وضاحت میں مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں: ”خدا سے ڈرنا صرف عارضی اور وقتی طور پر مطلوب نہیں ہے‘ بلکہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے‘ اسی پر جینا اور اسی پر مرنا ہے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے یہ جدوجہد شروع ہوتی ہے اور زندگی کی آخری سانس پر تمام ہوتی ہے.... اس میں آزمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا ہوگا اور شیاطین کے شب خونوں اور معاندین کی دراندازیوں اور فساد انگیزیوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ کبھی طمع ورغلانے کے لیے عشوہ گری کرے گی‘ کبھی خوف دھمکانے کے لیے اپنا اسلحہ سنبھالے گا۔ جو ان سب مرحلوں سے اپنا ایمان و اسلام بچاتا ہوا منزل پر پہنچا اور اسی حال میں اس نے جان‘ جانِ آفریں کے سپرد کی‘ درحقیقت وہ ہے جو خدا سے اس طرح ڈرا جس طرح خدا سے ڈرنے کا حق ہے اور یہی ہے جس کو اعتصام باللہ کا مقام حاصل ہوا۔“ (تدبر قرآن‘ جلد دوم)
حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق خاطر کا معاملہ بھی زندگی بھر کا معاملہ ہے‘ ایک دو روز کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صبح و شام اپنے محبوب کی یاد مناتے تھے۔ انہوں نے کوئی دن یا کوئی مہینہ اس کے لیے مختص نہیں کیا تھا۔ قومیں یقینا یادگار دنوں کو دھوم دھام سے مناتی ہیں‘ مگر ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دنیا کے سب بڑوں سے مختلف ہے‘ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے نبی ہیں‘ اس کے رسول اور اس کے نمائندے ہیں‘ وہ تو خاتم النبیین ہیں‘ کسی بڑے سے بڑے آدمی کو بھی ختمی مرتبت، محسنِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت؟ مسلمانوں پر تو ہر لمحہ آپ کی اطاعت واجب ہے۔ اسی میں ان کی فلاح اور اسی میں ان کی کامرانی ہے۔ ہم چونکہ سال کے گیارہ مہینوں میں اپنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلائے رکھتے ہیں اس لیے اپنے زعم میں سمجھتے ہیں کہ ربیع الاوّل کے روح پرور اور مبارک لمحوں میں ہم عقیدتوں کے پھول نچھاور کرکے‘ جلوس نکال کر اور محفلیں ترتیب دے کر انہیں منالیں گے اور یوں ہماری بخشش کا سامان ہوجائے گا۔ اسی حوالے سے ایک شاعر کے جذبات ملاحظہ فرمایئے:
ترے حسنِ خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجادیا
ترے ثوروبدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
میں ترے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
ترے دشمنوں نے ترے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
یہ مری عقیدتِ بے بصر‘ یہ مری ارادتِ بے ثمر
مجھے میرے دعوائے عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا
ترا نقشِ پا تھا جو رہنما تو غبارِ راہ تھی کہکشاں
اسے کھو دیا تو زمانے بھر نے ہمیں نظر سے گرا دیا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم افضل البشر ہیں‘ آپ انسانیت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔ آپ تو رہتی دنیا تک ہمارے لیے قابلِ اتباع ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ ہمیں قول و عمل میں آپ سے کوئی نسبت اور واسطہ نہیں۔ ہم آپ کی محبت کا دم بھرتے ہیں‘ آپ کا نام آئے تو انگوٹھے چومتے ہیں‘ آپ پر درودوسلام بھیجتے ہیں، مگر ہمارا مرنا و جینا‘ ہماری شادیاں اور بیاہ‘ ہمارے طورواطوار‘ ہمارے رسوم و رواج‘ ہمارے روابط و تعلقات‘ ہماری سیاست اور معیشت و معاشرت اور زندگی بھر کے معمولات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فکر و فلسفہ سے جو قرآن و حدیث کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہے‘ کوئی علاقہ اور رسم و راہ نہیں۔ ایسے میں ہم کس منہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کریں۔ ملک کے مایہ ناز ادیب و شاعر نعیم صدیقی مرحوم اسی سوچ میں یوں گویا ہوتے ہیں کہ: ”میں ایک نعت کہوں‘ سوچتا ہوں کیسے کہوں؟“ ہم یہاں ان کی نعت کے صرف دو بند پیش کریں گے:
یہ تیرے عشق کے دعوے‘ یہ جذبہ بیمار
یہ اپنی گرمیِ گفتار‘ پستی کردار
رواں زبانوں پہ اشعار‘ کھو گئی تلوار
حسین لفظوں کے انبار‘ اُڑ گیا مضمون!
میں ایک نعت کہوں‘ سوچتا ہوں کیسے کہوں!
عقیدتیں تیرے ساتھ‘ اور کافری بھی پسند
قبول نکتہ توحید‘ بت گری بھی پسند
ترے عدو کی گلی میں گداگری بھی پسند
نہ کارساز خرد ہے‘ نہ حشر خیز جنوں
میں ایک نعت کہوں‘ سوچتا ہوں کیسے کہوں!
”تمہاری خیریت میرے طریقے کی پیروی میں ہی:“
ربیع الاوّل کے غنچہ و گل کی نکہتوں سے بھرپور لمحات اب الوداع ہونے کو ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے جلسے‘ جلوس اور محفلیں ترتیب دے کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عقیدتوں کے ارمغاں پیش کرنے‘ محبتوں کے پھول نچھاور کرنے‘ فضاوں کو خوشبووں سے مشک بار بنانے اور دروبام کو سجانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ظاہر بیں نگاہیں اس رکھ رکھاو اور جذبوں کے اظہار سے لطافتوں اور صباحتوں سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبتوں کے اس قرینے میں کوئی مضائقہ نہیں اگر نیتوں میں اخلاص ہو اور آئندہ کے لیے کچھ کرکے دکھانے کا جذبہ موجزن ہو۔ اور اگر نیتوں میں فتور ہو‘ تعصب کی فراوانی ہی پیش نظر ہو تو یہ تمام تر کاوشیں اور حدی خوانیاں اکارت ہو کے رہ جائیں گی۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں‘ مجھ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے میرے پیارے بیٹی! اگر تو اس طرح زندگی گزار سکے کہ تیرے دل میں کسی کی بدخواہی نہ ہو تو ایسی ہی زندگی بسر کر۔“ پھر فرمایا: ”اور یہی میرا طریقہ ہے (میرے دل میں کسی کے لیے کھوٹ نہیں) اور جس نے میری سنت (طریقہ) سے محبت کی بلاشبہ اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ رہے گا۔“ (مسلم شریف)
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ اس امر کی جستجو کریں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریق کیا تھا۔ وہ سفر میں‘ حضر میں‘ حالت امن میں‘ حالتِ جنگ میں‘ شادی میں‘ غمی میں‘ مجلس بپا کرنے میں‘ کسی کی تعریف و توصیف کرنے میں‘ کسی کو خوش آمدید کہنے میں‘ نماز‘ روزے اور دیگر معاملاتِ زندگی میں کیا اسلوب اور کون سا انداز اپناتے تھے۔ ان کی صبحیں اور ان کی شامیں‘ گھر میں اور گھر کی چار دیواری سے باہر کیسے گزرتی تھیں‘ ان کے معاہدے اپنوں سے بھی ہوتے تھے اور بے گانوں سے بھی‘ ان کی راہ و رسم رشتہ داروں سے بھی تھی اور احباب سے بھی‘ وہ ذکراذکار بھی کرتے تھے اور سیکھتے سکھاتے بھی تھے۔ ان کے لیے وہ روح پرور لمحات بھی تھے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اندر موجود تھے اور پھر وہ ساعتیں بھی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے تو ایسے میں وہ کیا ڈھب اور کیا چلن اپناتے تھے‘ وہ اپنے عظیم محسن کی یادوں کی جوت کیسے جگاتے تھے۔ ہماری کامیابی‘ کامرانی اور سرخ روئی اس میں ہے کہ ہم اسی راز کو معلوم کرنے کی کوششوں میں لگ جائیں۔ اگر ہم آگے پیچھے تغافل کا شکار ہوکر لمبی تان کر سوجاتے ہیں تو کم از کم ان وجد آفریں اور جمال افزاءلمحوں میں تو ایک نئے عزم و سوز اور نئی روح کے ساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اپنانے کی کوشش میں مصروف ہوجائیں۔
آئیں اور دیکھیں کہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ کیا ہے اور اللہ و رسول سے آگے نہ بڑھنے کا تقاضا کیسے پورا ہوتا ہے۔
تین آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس آئے۔ جب انہیں اس کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی نسبت اپنی عبادت کی مقدار کو کم تصور کیا۔ کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا کیا مقابلہ‘ ان سے نہ تو پہلے گناہ ہوئے نہ بعد میں ہوں گے۔ (اور ہم معصوم نہیں‘ لہٰذا ہمیں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے) چنانچہ ان میں سے ایک نے اپنے لیے یہ طے کیا کہ وہ ہمیشہ پوری رات نوافل میں گزارے گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ نفلی روزے رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہ کروں گا۔ تیسرے صاحب نے کہا کہ میں عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا، یعنی کبھی شادی نہیں کروں گا (آپ کو اس کی اطلاع ملی) تو آپ ان کے پاس گئے اور دریافت فرمایا: ”کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟“ پھر آپ نے فرمایا:
بلاشبہ میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کی نافرمانی سے بچنے والا ہوں، لیکن دیکھو میں (نفلی) روزے کبھی رکھتا ہوں کبھی نہیں رکھتا۔ اسی طرح میں (رات میں) نوافل بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور دیکھو میں بیویاں بھی رکھتا ہوں (سو تمہارے لیے خیریت میرے طریقے کی پیروی میں ہے) اور جس کی نگاہ میں میری سنت کی وقعت نہیں (جو میری سنت سے بے رخی برتے) وہ میرے گروہ میں سے نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیا بھی ہیں اور افضل البشر بھی۔ انہی کی ذات اقدس میں انسانیت اپنے کمال کو پہنچی۔ وہ انسانیت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایسی مقدس اور پاکیزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کی قسم کھائی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مشرکین مکہ کو کھلے میدان میں چیلنج کیا تو انہوں نے اپنے تجربوں کی روشنی میں یہ کہاکہ آپ صادق اور امین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین میں فرمایا کہ آپ اخلاقِ حمیدہ کے بلند ترین معیار پر فائز ہیں۔ تو ہم کیوں نہ ہر مرحلے اور ہر موقع پر اپنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اپنائیں اور ایسا طرزعمل کیوں اختیار کریں جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے کوئی مناسبت نہ ہو۔ یہی ربیع الاول کا پیغام ہے۔

No comments:

Post a Comment