انسانی تاریخ میں گناہ کی معنویت اور اس کی شدت
شاہ نواز فاروقی
-انسان کی زندگی کا تصور گناہ کے بغیر محال ہے لیکن اس کے باوجود انسانی تاریخ میں گناہ کی معنویت اور اس کی شدت کو کم ہی سمجھا گیا ہے۔ بلکہ بعض مذاہب کی تاریخ میں گناہ کا تصور اتنا مسخ ہوگیا کہ اس سے ان مذاہب کا تہذیبی توازن بگڑ کر رہ گیا۔ عیسائیت اور ہندوازم کی تاریخ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ عیسائیت کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی گناہ کار ہے۔ یعنی انسانی فطرت کا خمیر گناہ سے اٹھا ہے۔ چنانچہ اس کی نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا رسول اور نعوذ باللہ ان کا بیٹا تسلیم کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انسانوں کو ان کے ازلی گناہ سے نجات دلانے کے لیے صلیب پہ چڑھنا قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا پیغمبر اور خدا کا بیٹا سمجھے بغیر انسان اپنے گناہوں سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔ عیسائیت کے اس عقیدے کا ہبوط آدم کے واقعے سے گہرا تعلق ہی، عیسائیت کا تصور یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اماں حوا کے کہنے پر گناہ کا ارتکاب کیا، چنانچہ عیسائیت کی تاریخ میں عورت کو تمام برائیوں کی جڑ اور گناہ پر اکسانے والی سمجھا گیا ہے۔ ہندو ازم میں گناہ اور پیدائش کے چکر میں ایک باہمی ربط ہے۔ ہندو ازم کے مطابق انسان کا ہر جنم اس کی پچھلی زندگی کے کرم یا عمل کا حاصل ہوتا ہے۔ انسان کے کرم اچھے نہ ہوں تو وہ اگلے جنم میں کتا، بلی یا کوئی اور حیوان بن کر پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ الایہ کہ انسان ایسے کرم کرے جو اسے ”موکش“ یا زندگی اور موت کے سلسلے سے ”نجات“ دلادیں۔ اس کے برعکس اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر بچہ معصوم پیدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے اور یہ اس کے ماں باپ ہوتے ہیں جو اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ جہاں تک گناہ کا تعلق ہے اسلام گناہ کے دو بنیادی سرچشموں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی شیطان اور نفس انسانی۔ بدقسمتی سے ہمارے علما کے یہاں گناہ کا بیان اور اس کی مذمت تو بہت ہے مگر اس کی تفہیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ گناہ کی ہولناکی کیا ہے اور اس کی ہلاکت آفرینی کا دائرہ کہاں تک وسیع ہے۔ گناہ کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ گناہ حکم الٰہی کا انکار یا انحراف ہے ، اس کی ہولناکی یہ ہے کہ انسان نے اپنے خالق ، اپنے مالک اور اپنے رازق کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں خالق اور مخلوق، مالک اور محکوم اور رب اور مربوب کا تعلق بدل کر رہ گیا۔ ظاہر ہے خدا کے حکم کا انکار مجدد یا Abstract نہیں ہوتا۔ انسان خدا کے حکم کا انکار کرتا ہے اور اس کے مقابلے پر اپنی رائے اور اپناحکم لاتا ہے۔ اس طرح وہ خدا کی خدائی کے مقابلے پر اپنی خدائی کا اعلان کرتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ خدا کا حکم محض خدا کا حکم نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم خدا کے علم اور خدا کی حکمت کا مظہر ہے۔ چنانچہ خدا کے حکم سے انحراف کرنے والا دراصل خدا کے علم اور خدا کی حکمت کا بھی انکار کرتا ہے۔ ہماری مذہبی دانش کی ایک بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ مذہب کی پابندیوں کو ہمیشہ ایک ایسے جبر کی صورت میں بیان کرتی ہے جو انسانوں پر خارج سے عائد کردیا گیا ہے۔ حالانکہ مذہب انسان کو پابند کرتا ہے تاکہ وہ اسے اس کے باطن میں آزاد کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کی پابندیاں ہی انسان کو یہ مواقع فراہم کرتی ہیںکہ وہ اپنے امکانات کو تلاش کرے اور انہیں بروئے کار لائے۔ اس کے مقابلے پر جس چیز کو انسان کی آزادی کا نام دیا گیا ہے وہ انسان کی غلامی کے سلسلے کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ خدائی احکامات کے دائرے کے باہر شیطان اور نفس کی غلامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خدا کے حکم کا انکار یا اس سے انحراف انسان کی اپنے خلاف ایک بڑی سازش ہے۔ انسان کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ انسان مظہر حق ہے اور اس کے وجود کے مرکز میں حق کا چراغ روشن ہے۔ گناہ کی ہولناکی یہ ہے کہ وہ اس چراغ کو مدھم کردیتا ہے یہاں تک کہ گناہ اس چراغ کو بجھا دیتا ہے اور انسان مرتبہ انسانیت سے گر جاتا ہے۔ مذہب انسان کو ایک اکائی یا Unitied whole بناتا ہے اور چاہتا ہے کہ انسان کے وجود کا صرف ایک مرکز ہو۔ نیکی کا مرکز، تاکہ انسان تضادات اور نفاق سے پاک رہ سکے لیکن گناہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ انسان کے باطن میں ایک نیا مرکز پیدا کرکے انسان کے باطن اور اس کی شخصیت کو دونیم کردیتا ہے۔ ایک سطح پر یہ تضاد کی حالت ہی، نفاق کی حالت ہے۔ دوسری سطح پر اس حالت کا مفہوم یہ ہیے کہ باطل حق کا ہم پلہ بن گیا ہے اور اسے انسانی زندگی پر حق کی طرح کا تصرف حاصل ہوگیا ہے۔ اسلام اعلان کرتا ہے کہ باقی رہ جانے والی چیز صرف ”نیکیاں“ ہیں۔ اس کا مطلب صرف نیکیوں سے تشکیل پانے والی شخصیت ہی ”حقیقی شخصیت“ ہے۔ گناہ باطل کی ایک صورت ہے اور باطل کا کوئی حقیقی وجود نہیں چنانچہ انسانی شخصیت جتنی گناہ کے زیر اثر جاتی ہے اتنی ہی ”مصنوعی“ ہوجاتی ہے۔ انسان کی زندگی دو اثرات کے زیر اثر ہے۔ ایک رحمانی اثرات اور دوسرے شیطانی اثرات۔ انسان کے نفس میں خیر غالب ہوتا ہے تو انسان رحمانی الہامات کو قبول کرنے کے زیادہ قابل ہوجاتا ہے لیکن گناہ کا اثر نفس کی آلودگی کو بڑھا دیتا ہے اور پھر انسان کا نفس شیطانی الہامات کو زیادہ قبول کرنے لگتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر انسان گناہ کرتا ہی کیوں ہی؟ اس سوال کا ایک معروف جواب یہ ہے کہ شیطان انسان کو بہکاتا ہے اور انسان سے گناہ کا صدور ہوتا ہے۔ اس سوال کا دوسرا معروف جواب یہ ہے کہ انسان کا نفس انسان کو گناہ کرنے پر مائل کرتا ہے۔ یہ گناہ کی حقیقت کو بیان کرنے والے دو سرسری جواب ہیں۔ اس سوال کا اصل جواب یہ ہے کہ انسان گناہ اس وقت کرتا ہے جب وہ خدا کو بھول جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو گناہ کی اصل وجہ انسان کا ”نسیان“ ہے۔ جنت میں حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا سے گناہ اس لیے ہوا کہ وہ ابلیس کی باتوں میںآکر خدا کے حکم کو بھول گئے۔ نفس بھی اپنی ترغیبات اور تحریصات کا ہدف انسان کے حافظے کو بناتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس حافظے سے خدا کی یاد محو ہوجائے۔ مذہب نسیان کے خلاف جنگ کرنے والی سب سے بڑی قوت ہے۔ مذہب عقائد، عبادات، اخلاقیات اور معاملات کے ذریعے خدا کی یاد کو قوی بناتا ہے۔ مذہب چاہتا ہے کہ انسان کے ہر سال پر خدا کی یاد کا غلبہ ہو۔ اس سے اگلے مرحلے پر انسان کے ہر مہینے کے پیشتر حصے پر خدا کی یاد کا سایہ ہو۔ یہاں تک کہ انسان خدا کو ہر لمحے یاد رکھنے والا بن جائے اور جب انسان ہر لمحے خدا کو یاد کرنے والا بن جاتا ہے تو پھر اس سے گناہ کا صدور ممکن ہی نہیں رہتا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اگر انسان سے گناہ ہوجائے تو انسان کیا کری؟ گناہ پر گفتگو کا یہ وہ مرحلہ ہے جہاں توبہ کا تصور سامنے آتا ہے۔ توبہ گناہ کی تاریکی میں طلوع ہونے والے سورج کی طرح ہے۔ جس طرح سورج رات کی تاریکی کو کھاجاتا ہے اس طرح توبہ گناہ کی سیاہی کو نگل جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سچی توبہ اتنی بڑی نیکی ہے کہ اس کے سامنے گناہوں کا سمندر بھی کچھ نہیں۔ توبہ اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر انسان گناہ نہ کرتے تو وہ انہیں فنا کردیتا اور ایسے انسان پیدا کرتا جو گناہ کرتے اور ان پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توبہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کی انتہا کو سامنے لاتی ہے اور دوسری جانب عبد کی عبدیت کی انتہا کو نمایاں کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کی انتہا یہ ہے کہ انسان اگر سمندر کے قطروں سے بھی زیادہ گناہ کرے تو بھی خدا اسے معاف کرسکتا ہے۔ انسانیت کی عبدیت کی انتہا یہ ہے کہ وہ لاکھوں گناہ کرکے بھی خدا کو نہیں بھولتا اور اسی کی طرف پلٹتا ہی، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ صرف وہی ہے جس کی طرف پلٹا جاسکتا ہے۔ دیکھا جائے تو سچی توبہ کے تین بنیادی عناصر ترکیبی ہیں۔ ایک گناہ کا سچا اعتراف، دوسرا پھر گناہ نہ کرنے کا سچا عزم، تیسرا یہ یقین کامل کہ خدا کفر اور مشرک کے سوا ہر گناہ معاف کرسکتا ہے۔ ہماری مذہبی دانش کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ گناہ کے حوالے سے ”خوفِ خدا“ کا جو تصور سامنے لاتی ہے اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ دانش خدا کے ہارے میں کچھ بھی نہیں جانتی۔ خدا کے خوف کا اصل پہلو یہ نہیں ہے کہ خدا ہماری گرفت کریگا اور ہمیں سزا کے طور پر جہنم میں ڈال دے گا بلکہ خدا کے خوف کا اصل تصور یہ ہے کہ ہمارا خدا ایک ایسا خدا ہے جو انسان سے 70 ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہے اور وہ ہمارا ہر گناہ معاف کرسکتا ہے۔ اپنے خدا کے حکم کا انکار یا اس سے انحراف کتنی ڈرا دینے والی بات ہے۔ ہماری مذہبی روایت میں یہی خوفِ خدا کا اصل مفہوم ہے۔
No comments:
Post a Comment