غذائی بحران کی خطرناک صورتحال
از ۔۔۔ اےاز الشےخ گلبرگہ
از ۔۔۔ اےاز الشےخ گلبرگہ
ہمارے ملک میں اپنی تاریخ کا آج بلند ترین افراظ زر 14.97 پیدا ہوچکا ہے (بحوالہ http://www.tradingeconomics.com/) جس نے روزمرہ کی اشیا میں ریکارڈ اضافہ کر دیا ہے۔ وزےر اعظم وزےر ذراعت کو اور وزےر ذراعت وزےر اعظم کو اسکا ذمہ دار قرار دے رہے ہےں۔ مہنگائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے اورارباب اقتدار بجائے کوئی اطمینان بخش جواب دینے کے زخم پرنمک پاشی کرنے جیسے جوابات دے رہے ہیں۔مثلاً جب شکر کی بڑھتی قیمتوں پروزیر زراعت شرد پوار سے اخباری نمائندوں نے سوال کیا تو انہوں نے میٹھی شکر پر کڑوا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں کوئی جوتشی نہیں ہوں جویہ بتادوں کی شکر کے دام کب کم ہونگے۔کہ شکر مہنگی ہے تو اس کا استعمال کم کریں۔ زیادہ شکر کے استعمال سے ذیابیطس کی بیماری ہوتی ہے وغیرہ اگر ایک ذمہ دار وزیر اس طرح کا بیان دے تو کیا اسے وزارت پررہنے کا حق ہے؟ کیا ملک میں اناج کی کمی ہے کہ وہ صلاح دے رہے ہیں کہ کم کھاو ¿۔یاپھر قحط وخشک سالی پڑگئی ہے؟جب کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے پھرپوارصاحب کم کھانے کی صلاح کیوں دے رہے ہیں؟ در اصل یہ اپنی کمزوری چھپانے کا ایک بہانہ ہے۔ملک میں اناج کی کمی نہیںہے مگر ذخیرہ اندوزوں نے اناج دبا رکھا ہے۔اناج کا ایکسپورٹ بڑھ رہا ہے۔ملک میں چاول 35روپئے کلو بیچا جاتا ہے وہی چاول ملک باہر20 روپئے میں بیچا جا رہا ہے یہ کونسی دانشمندی ہے۔ملک کی عوام بھوکے رہیں مہنگا اناج خریدیں اوروہی اناج ملک باہر بازاروں میں سستا ملے۔یہ کسی المیئے سے کم نہیں ہے۔مہاراشٹر میں شوگرلابی ہے جس پر شرد پوار قابض ہیں اس کے باوجود اگر شکر مہنگی ملے تویہ!!!!!!!۔ ےہ تو رہی ہمارے ملک کی بات ، عالمی سطح پر بھی حالیہ خودونوش کی اشیا کے بحران نے سنگین شکل اختیار کر لی ہے۔ ہٹی میں میںزلزلہ اور فاقہ کشی سے تنگ لوگ لوٹ مار اور پورے ملک میں تھوڑ پھوڑ کرنے پر اتر آئے ہیں۔ یہاں اناکی اور لاقا نونیت اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ مختلف ممالک سے اےسی خبرےں مسلسل آ رہی ہےں۔ آج دنےا بھر کے چالےس ممالک بد ترےں غزائی بحران کا شکار ہےں جسمےں ارےقہ کے 27 ممالک : اور دنےا کے دےگر حصوں کے 14 ممالک مےں تقرےبا فاقہ کشی جےسی صورتحال ہے (http://www.fao.org )۔ خود افریقہ اور ایشا کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں افراط زر اور روزمرہ کی بنیادی چیزوں میںریکارڈ اضافہ ہوچکا ہے۔ جرمنی میں سولہ سال میں پہلی بار آج تین فیصد سے زیادہ افراط زرپھیل چکا ہے اور زندگی کی بنیادی اشیا جس میں گندم، چاول تیل ، بل، کرائے وغیرہ شامل ہیں ان میں تقریبا دوگناہ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام کے بحرانوں سے جنم لینے والی عالمی مصنوعی قلت تشویش ناک صوتحال پیدا کرچکی ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہے۔ عالمی حکمران اور انکے عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہاں اور ماہرین معاشیات بوکھلااٹھے ہیں جو ابھی چند عرصہ قبل سرمایہ داری کو انسانی معراج اور انسانیت کا آخیری نظام قرار دے چکے تھے وہ ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں اور حکومتوں کو اس بحران سے نکلنے کی پھر پور اپیلیں کررہے ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ اگر خوراک کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہا تو لاکھوں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں گے۔ واشنگٹن میں ادارے کے اجلاس کے بعد آئی ایم ایف کے سربراہ ڈومینک سٹراو ¿س کاہن کا کہنا تھا کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے معاشرتی بے چینی جنم لے رہی ہے جو کسی تنازعہ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ میں خوراک کی کمی کی وجہ سے دنےا کے مختلف ممالک کے کچھ علاقوں میں فسادات بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں خوراک کی بڑھتی قیمتوں اور بین الاقوامی مالیاتی بحران کے بارے میں ٹھوس اقدامات اٹھائے جانے بہت ضروری ہیں۔ سٹراو ¿س کاہن نے کہا کہ’ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں گے۔ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہوں گے جس کے نتائج ان کی پوری زندگی پر پڑیں گے‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مسئلہ تجارتی عدم توازن بھی پیدا کر سکتا ہے جس سے بالاخر ترقی یافتہ ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں اس لیے یہ صرف’انسانیت کا مسئلہ ہی نہیں ہے‘۔ حالیہ ماہ میں دنیا بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ طلب میں اضافہ، کچھ ممالک میں خراب موسم اور زیادہ زمین کا ٹرانسپورٹ ایندھن Biofuelکے لیے اگائی جانے والی فصلوں میں استعمال کو قرار دیا جا رہا ہے ۔عالمی بنک کے سربراہ رابرٹ زوئلک کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دس کروڑ غریب افراد کو مزید غربت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہیں۔ ان کا یہ بیان بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی اس تنبیہ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہا تو لاکھوں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں گے اور یہی نہیں بلکہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پیدا ہونے والی معاشرتی بے چینی کسی تنازعہ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ رابرٹ زوئلک کا کہنا تھا کہ’ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ تین برس میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے دوگنا ہونے سے ممکنہ طور پر کم آمدن والے ممالک کے دس کروڑ افراد مزید غربت کا شکار ہو سکتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ خوراک کے اس عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے نئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے امیر ممالک پر زور دیا کہ وہ نہ صرف عالمی خوراک پروگرام کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کا بھی انتظام کریں بلکہ بنیادی خوراک اور فصلوں کی پیداوار کے لیے فنڈ فراہم کریں۔ (بحوالہ http://www.imf.org) دنیا بھر میں حالیہ مہینوں میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ عالمی بنک کے مطابق گندم، چاول اور مکئی کی قیمتوں میں اضافے سے گزشتہ تین برس میں دنیا میں کھانے پینے کی اشیائکی قیمتیں تراسّی سے سو فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔ قیمتوں میں اس ہوشربا اضافے کے بعد مصر، آئیوری کوسٹ، ایتھوپیا اور فلپائن سمیت متعدد ممالک میں مظاہرے اور فسادات بھی ہوئے ہیں۔
آج ہمیں جو غذائی بحران نظر آرہا ہے دراصل یہ بحران زائد پیداوار کا بحران ہے اور یہ کسی عجیب بات ہے کہ زائد پیداوار دنیا میں قلت کو جنم دے رہی ہے۔ ےہ پڑھ کر آپ کو تعجب بھی ہو رہا ہو ۔ لےکن ےہ اےک تلخ حقےقت ہے ۔ کیونکہ سرمایہ داری یا منڈی کی معشیت کے نظام میں منافع اول اہمیت اور حےثیت رکھتا ہے اور تما م زندگی کے کاروبار صرف اور صرف منافع اور شرح منافع کے لیے کیے جاتے ہیںاس لیے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے جہاں ایک طرف پیداوار کی جاتی ہے تو دوسری طرف اس پیداوار کی رسد کو طلب کے مقابلے میں کم رکھ کر زیادہ سے زیادہ پیسے کمائے جاتے ہیںکیونکہ رسد سکڑنے سے طلب جتنی زیادہ بڑھ گئی اشیا کی قیمتیں اتنی ہی بلند ہوں گئی اور منافعوں کی شرح میں اضافہ ہوگااس لیے اکثر اوقات اس سلسلہ میں وہ سطح آجاتی ہے کہ رسد کی کمی سے طلب بڑھتے بڑھتے انسانوں کی قوت خرید سے آگے نکل جاتی ہے جس سے رسد کو مزید کم کیا جاتا ہے اور سماج میں قلت کا بحران امڈ آتا ہے جو آج ہر طرف پھیل چکا ہے ۔ یہ نہ صرف انسانیت کی تذلیل ہے بلکہ بے رحیمی اور سفاکی کی انتہا بھی ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود انسان ہر چیز کو ترسے تمام انسانی تاریخ میں ایسا کھبی نہیں ہوا۔ آج کے عالمی بحران کا مطلب یہ نہیں کہ پیداوار کم ہے یا پیداوار بڑھائی نہیں جاسکتی۔ کوئی عام سا شخص بھی جو خبروں پر نظر رکھتا ہے اس کو یہ معلوم ہے کہ ہر سال جاپان، امریکہ اور یورپ میں لاکھوں ٹن گندم ، چاول، مکھن، دوھ، ڈیری اور زرعی اجناس کو سمندروں میں ضائع کی جاتا ہے تاکہ طلب کے مقابلے میں رسد بڑھنے نہ پائے اور بازار میں قیمتوں کو برقرار رکھا جائے یا پھر بازاری قیمتوں کو بلند کر کے زیادہ سے زیادہ منافعے حاصل کیے جاسکیں۔ خود ہمارے ملک مےں خیرہ اندوزی اورکالا بازار کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کے حکومت کی جانب سے اعالانات کئے گئے لیکن اس کابھی کوئی خاطر خواہ اثر دیکھنے میں نہیں آیا جبکہ ایک حیرت انگیز انکشاف یہ ہواتھا کہ کولکتہ کی بندرگاہ پر ہزاروں ٹن غذائی اجناس پڑی ہوئی ہیں اور انہیں مارکٹوں میں نہیں لایاگیا ہے۔ ان اشیاکو مارکٹ میں اگرلایا جاتا تو قیمتوں پرقابو پانے میں کچھ حدتک مدد ضرور مل سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیاگیا اورابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ جوسازوسامان وہاں پڑا ہواتھا اس کے ذمہ دارکون ہیں اور اسے کیوں مارکٹ اوربازاروںمیں نہیںلایاگیا ہے ۔ (بحوالہ http://www.righttofoodindia.org)
آج دنیا کے زرائع پیداوارانتہائی ترقی یافتہ ہیںاور یہ چند دنوں اور ہفتوں میں دنیا کے تمام انسانوں کے بنیاد ی مسائل حل کرسکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے سے مالکان عالمی اجارہ دا ریوں اور سرمایہ داروں کو کیا ملے گا؟ ان کو تو صرف پیسے سے غرض ہے اور عالمی انسانیت کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ ان کے سرمایے کی لالچ ہوس کو پورا کرسکیں بحوالہ http://en.wikipedia.org/wiki/International_inequality آج دنیا میں ایک سو تراسی اجارہ داروں کے پاس دنیا کی نوئے فیصد معشیت ہے جبکہ اسی کی دہائی میں پانچ سو عالمی اجارہ داریوں کے پاس اسی فیصد سے کم سرمایہ تھا۔ اور آج یہ سکڑ کر ایک سو تراسی ہوچکی ہیں اور ان کے کنٹرول میں پہلے سے زیادہ سرمایہ ہے اور یہ مزید سرمایہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ آج کے عالمی مالیاتی نظام میںسرمایہ داروں فرموں اور ما لکان میںمزید سرمایہ جمع کرنے کی نہ ختم ہونے والی ایک وحشی اور پاگل پن کی دوڑ ہے جس کا موجودہ نظام میں کوئی اختتام نہیں اور اس سے تمام دنیا میں عام آدمی روندہ جارہا ہے۔ حاملےن نظام عدل تم کہاں ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
(ayazfreelance@gmail.com) Tel: 09845238812
No comments:
Post a Comment