ہمارے بچے!! ہماری ذمہ داری
از ۔۔۔ سیدہ حفصہ ایاز گلبرگہ
انسان کمزور پیدا ہوتا ہے اسے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بے سروسامان ہوتا ہے، اسے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ناسمجھ ہوتا ہے ، اسے عقل آموزی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو چیزیں اس کے پاس پیدائش کے وقت نہیں ہوتیں وہ اسے جسمانی اور ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ تعلیم سے ملتی ہیں اور تعلیم کے لیے بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی آغوش ہے۔ وہ زندگی کا پہلا سبق وہیں سیکھتا ہے۔ سائنس کی جدید تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بچے کی ذہنی، اخلاقی اور جسمانی تربیت کا اصل مقام اسکول اور کالج نہیں بلکہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے۔ چنانچہ گھر کے ماحول کا بچے کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ بچہ بہت ساری باتیں اپنے والدین اور گھر کے دیگر افراد سے سیکھتا ہے، ان کے طور طریقوں کی نقل کی کوشش کرتا ہے جو بعد میں اس کی شخصیت کاجْز بن جاتے ہیں۔ گھر کے افراد کے طرزِ عمل سے وہ محبت، ہمدردی کے جذبات یا پھر خود غرضی، بے ایمانی اور نفرت کے جذبات سے روشناس ہوتا ہے۔ اگر والدین اور گھر کے دیگر افراد مہذب، تعلیم یافتہ، نیک چلن اور خوش اخلاق ہوں تو کہا جاسکتا ہے کہ گھریلو حالات اچھے ہیں پھر بچے وہاں یقیناًاچھی باتیں سیکھیں گے اور اگر والدین مہذب، تعلیم یافتہ، نیک چلن اور خوش اخلاق نہ ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ گھریلو حالات اچھے نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں بچے وہاں بری باتیں سیکھیں گے۔ اس طرح بچے کے کردار کی تشکیل کی بنیاد گھر پر ہی پڑ جاتی ہے اور سیرت کی تشکیل تعلیم کا سب سے اہم مقصد ہے۔
آج اکثر والدین کو یہ شکایت ہے کہ وہ اپنے بچوں کی طرف سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے بچے جھوٹ بولتے ہیں، کہنا نہیں مانتے، بڑوں کی عزّت نہیں کرتے، تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے، فحش اور غیر معیاری فلمیں دیکھتے ہیں اور بے ہودہ ڈائیلاگ بولتے ہیں۔ گویا ان کی اولاد ان کے لیے عذابِ جان یا زحمت بنی ہوئی ہے۔ وہ اصلاح کا جو بھی طریقہ اختیار کرتے ہیں، اس کا نتیجہ الٹا ہی نکلتا ہے۔ دوسری طرف اولاد کی شکایتیں بھی کم قابلِ توجہ نہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اوراولاد کی اس کشمکش پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ وہ بنیادی اصول کیا ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے ان مشکلات کو دور کیا جاسکتا ہے۔ماہرین نفسیات نے اپنی طویل تحقیقات کے بعد یہ اصول بھی واضح کردیا ہے کہ ایک بچے کی اچھی بری قسمت پہلے چھ سال کی عمر میں طے ہوجاتی ہے۔ یہ قسمت آسمان کی کوئی غیبی طاقت نہیں بناتی بلکہ خود والدین اس کے معمار ہوتے ہیں۔ اولاد کا اچھا مستقبل سب کی آرزو ہے۔ کوئی بھی والدین ایسے نہیں ہوں گے جو اس الزام کو تسلیم کرلیں کہ وہ اپنے بچوں کے دشمن ہیں، بچوں کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ جب بھی ان کے بچے کے ساتھ کوئی چھوٹا یا بڑا ناانصافی کرتا ہے تو وہ اس وقت آمادہ انتقام ہوجاتے ہیں لیکن وہ خود بڑی بڑی ناانصافیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ ناانصافیاں بچے کی شخصیت کا خون کرتی ہیں اور شخصیت کا خون درحقیقت زندگی کا خون کر دینے سے بھی زیادہ خوف ناک جرم ہے۔
دانشوروں کے مطابق ایک باپ جو اپنے بچوں کو صرف کھانا اور کپڑا مہیا کردیتا ہے، وہ اپنی ذمے داری کا ایک تہائی حصہ پورا کرتا ہے۔ سماج کا اس پر حق ہے کہ وہ ایسے خاندان پیدا کرے جو سماج کے لیے فائدہ مند ہوں اور ریاست کا اس پر حق ہے کہ وہ اچھے شہری پیدا کرے۔ ہر وہ شخص جس پر یہ تین حقوق ہیں اور جوان کو ادا نہیں کرتا وہ ایک مجرم ہے۔ جو باپ اپنے فرائض ادا نہ کرے اسے باپ بننے کا کوئی حق نہیں۔ بچہ خواہ ایک ماہ کا ہی کیوں نہ ہو، اسے گوشت کا ایک بے شعورلوتھڑا نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ذہن نشیں کرلینا چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول کی ایک ایک حرکت اپنے دل و دماغ میں جذب کررہا ہے۔ اس لیے پہلی اور بنیادی ضرورت یہ ہے کہ والدین بعض نار وا اعمال کو اپنے بچوں کے سامنے یہ سمجھ کر روا قرار دینے کی جھوٹی تسلی حاصل نہ کریں کہ بچوں میں سوجھ بوجھ نہیں۔ بے شک بچوں میں سوجھ بوجھ نہیں ہوتی لیکن ان کے تحت شعور میں ہماری ایک ایک حرکت قبول کرنے کا جذبہ برابر موجود ہوتا ہے۔ کوئی جھوٹ، کوئی ناراضگی، کوئی گھڑکی اور کوئی بْرا وتیرہ ایسا نہیں جو بچے کے ننھے سے دماغ میں اپنے امٹ نقوش نہ چھوڑ جائے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنی اولاد کے سامنے حتی الامکان اپنے اخلاق و عادات کا اچھے سے اچھا نمونہ پیش کریں۔
بچوں کی شخصیت کا احترام بھی ضروری ہے۔ لیکن بہت کم لوگ اپنے بچوں کی شخصیت کا احترام کرتے ہیں۔ جاہل تو جاہل اچھے اچھے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس وصف سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ تقریباً ہر روز بچوں کی ہتک کرتے ہیں، انھیں گالیاں دیتے ہیں، ڈانٹتے ڈپٹتے ہیں اور جھڑکتے رہتے ہیں، بات بات پر ٹوکتے رہتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات میں عیب نکالتے رہتے ہیں۔ انھیں نکمّا، نالائق، کام چور، بے وقوف اور گدھا کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ لعن طعن بچے کی شخصیت پر نہایت بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ اس قسم کے وتیرے سے بعض اوقات بچے کے دل میں والدین کے خلاف ایسی گہری نفرت پیدا ہوجاتی ہے کہ آخر عمر تک دور نہیں ہوسکتی۔ گویا ہم اپنے بچوں کی توہین کرکے آئندہ عمر میں اپنی توہین کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔
کچھ والدین اپنے بچوں سے ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار کرتے ہیں۔ اس کا اثر بھی ان پر اچھا نہیں پڑتا اور کچھ والدین ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں پر بہت زیادہ سختی کرتے ہیں۔ اس سے بھی انھیں نقصان پہنچتا ہے۔ ان کا آزادی سے کام کرنے کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے کیونکہ تمام خوبیوں کا سرچشمہ آزادی ہے اور جب آزادی سے کام کرنے کے مواقع نہیں ملتے تو حوصلہ پست ہو جاتا ہے اور ان میں دیگر برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔والدین کے رویّے میں اعتدال ضروری ہے۔
بچوں کی اخلاقی اصلاح کے لیے عام طور پر دو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک تو وہ جس میں بچوں کو ڈر، خوف، دھمکی اور مارپیٹ کے ذریعے ناپسندیدہ کاموں سے روک کر جبراً اچھے کاموں کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور دوسرا طریقہ وہ ہے جس میں سختی سے مطلق کام نہ لیا جائے۔ نہ ڈرایا جائے، نہ سزا دی جائے بلکہ محض اچھے اور پسندیدہ کاموں کی ترغیب دلائی جائے اور بچہ کوئی اچھا کام کرے تو تعریف کرکے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ڈرانے او ردھمکانے کے مقابلے میں ترغیب و تعریف سے کام لینا چاہیے۔ یہ زیادہ مو 191ثر اور کامیاب طریقہ ہے اور اس سے بچوں کی شخصیت کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔
بچے کے عیب کبھی اس کے منہ پر بیان نہ کیجیے۔ اگر وہ کند ذہن ہے، سبق یاد نہیں کرتا ہے، وقت پر اسکول نہیں پہنچتا ہے، جھوٹ بولتا ہے یا گھر سے پیسے چرا کر لے جاتا ہے تو اسے اس کی یہ خامیاں اور کمزوریاں یاد دلا دلا کر اسے شرمندہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ طریقِ عمل کبھی سودمند ثابت نہیں ہوسکتا۔ مارپیٹ کرنے یا شرمندگی دلانے سے بچے کے دل میں اصلاح کا خیال تو درکنار الٹی بغاوت پیدا ہوتی ہے۔ جس بچے میں کسی طرح کی خامی پائی جاتی ہو اسے دوسرے بچوں کی بہ نسبت زیادہ ہمدردی اور شفقت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو ایک سازگار ماحول میں محسوس کرے۔ ہمدردی اور حوصلہ افزائی نکمّے سے نکمّے بچے میں بھی نہایت عمدہ تبدیلی پیدا کرسکتی ہے۔ بچے کو شاباشی دیجیے اور اس کی تعریف کیجیے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ ذرا سی تعریف اور توجہ سے بچے کی زندگی کا رخ بدل جائے گا۔
بچے کی عادات اور خیالات کی تعمیر یا اس کی اخلاقی اصلاح و تہذیب ایک نہایت ہی کٹھن مسئلہ ہے۔کچھ والدین اپنے بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسکول کی تعلیم اور ماحول سے وہ خود بخود سدھر جائیں گے۔ مگر یہ ایک وہم باطل ہے۔ دراصل بچوں کی اخلاقی تربیت ایک مشکل فن ہے۔ جب تک بچے کی ذہنی سطح اور اس کے فطری رجحان کو اس کے ماحول کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی اس وقت تک ہم اس کے مستقبل کی تعمیر میں کوئی تعاون نہیں کرسکتے۔ جب بھی بچے سے کوئی ناشائستہ حرکت سرزد ہو مثلاً چوری، جھوٹ، فریب وغیرہ تو اس صورت میں ہمارا فرض ہے کہ مرض کے علاج سے پہلے مرض کی تشخیص کرلیں اس دنیا میں کوئی برائی ایسی نہیں جس کی پشت پر کوئی حقیقی مجبوری نہ ہو۔ اس مجبوری کو سمجھنا اور اسے دور کرنا ہی کسی برائی یا بداخلاقی کا اصل علاج ہے۔
اکثر اوقات بچے سے غلطی سرزد ہوتی ہے لیکن اس کا سبب اس بچے کے پاس نہیں ہوتا، ہمارے پاس ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی روزانہ زندگی کا جائزہ لیں گے تو ہم کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم ارادی یا غیر ارادی طور پر خود اپنے بچوں کو جھوٹ بولنے کی تربیت دیتے ہیں۔ مثلاً جب کوئی شخص جس سے ہم ملنا نہیں چاہتے ہمارے دروازے پر آئے تو ہم اپنے کسی بچے سے کہلوا دیتے ہیں کہ ’’ابا جان گھر پر نہیں ہیں۔‘‘ یا اگر کوئی شخص عاریتاً کوئی چیز مانگنے کے لیے آئے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ ’’وہ تو کوئی اور شخص مانگ کر لے گیا ہے۔‘‘ اب آپ خیال کریں کہ ہم خود جھوٹ بول کر اور جھوٹی نصیحت کرکے اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔ بچوں سے سگریٹ منگواکر انہیں سگریٹ پینے سے منع کرنا والدین خود تو فلمیں دیکھیں اور بچوں کو منع کریں!!!! بچے ہمارے طرز عمل سے جھوٹ بولنے اور غلط راہ اختیار کرنے کی ٹریننگ حاصل کررہے ہیں۔ ہم اپنے بچوں سے جھوٹے وعدے بھی کرتے ہیں اور اسے اس طرح ہم ان کے ذہن میں نقش کردیتے ہیں کہ سچائی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
والدین کو خواہ ان کے بچے کتنے ہی نیک اور اچھے کیوں نہ ہوں اپنے بچوں کے ماحول اور ان کی سوسائٹی سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ اگر ان کے بچے صاف ستھرے رہتے ہیں، وہ فرمانبردار ہیں، سچ بولتے ہیں، گالی گلوچ سے پرہیز کرتے ہیں، چغل خوری نہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ والدین مطمئن بیٹھیں۔ اگر آس پاس کا ماحول خراب ہے تو بچوں کو خطرے سے باہر نہیں سمجھنا چاہیے۔ آپ کو ان کے ماحول کی نگرانی کرنی پڑے گی۔ صرف اپنے بچوں کی اصلاح ایک طرح کی ناکام خودغرضی ہوگی بلکہ آپ جہاں اپنے بچوں کا خیال رکھیں وہاں پڑوسیوں کے بچوں کی اخلاقی نگہداشت سے بھی غافل نہ رہیں۔ آپ اس بات کی بھی کوشش کریں کہ بچوں میں دینی اور ملی حمیت پیدا ہوا۔ کیونکہ آج کا تعلیمی نظام مذہب بیزار ہے ۔ دین کے بغیر نہ تو ہم مکمل ہیں نہ ہمارے بچے ۔ hafsawriter@indiatimes.com
از ۔۔۔ سیدہ حفصہ ایاز گلبرگہ
انسان کمزور پیدا ہوتا ہے اسے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بے سروسامان ہوتا ہے، اسے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ناسمجھ ہوتا ہے ، اسے عقل آموزی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو چیزیں اس کے پاس پیدائش کے وقت نہیں ہوتیں وہ اسے جسمانی اور ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ تعلیم سے ملتی ہیں اور تعلیم کے لیے بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی آغوش ہے۔ وہ زندگی کا پہلا سبق وہیں سیکھتا ہے۔ سائنس کی جدید تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بچے کی ذہنی، اخلاقی اور جسمانی تربیت کا اصل مقام اسکول اور کالج نہیں بلکہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے۔ چنانچہ گھر کے ماحول کا بچے کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ بچہ بہت ساری باتیں اپنے والدین اور گھر کے دیگر افراد سے سیکھتا ہے، ان کے طور طریقوں کی نقل کی کوشش کرتا ہے جو بعد میں اس کی شخصیت کاجْز بن جاتے ہیں۔ گھر کے افراد کے طرزِ عمل سے وہ محبت، ہمدردی کے جذبات یا پھر خود غرضی، بے ایمانی اور نفرت کے جذبات سے روشناس ہوتا ہے۔ اگر والدین اور گھر کے دیگر افراد مہذب، تعلیم یافتہ، نیک چلن اور خوش اخلاق ہوں تو کہا جاسکتا ہے کہ گھریلو حالات اچھے ہیں پھر بچے وہاں یقیناًاچھی باتیں سیکھیں گے اور اگر والدین مہذب، تعلیم یافتہ، نیک چلن اور خوش اخلاق نہ ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ گھریلو حالات اچھے نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں بچے وہاں بری باتیں سیکھیں گے۔ اس طرح بچے کے کردار کی تشکیل کی بنیاد گھر پر ہی پڑ جاتی ہے اور سیرت کی تشکیل تعلیم کا سب سے اہم مقصد ہے۔
آج اکثر والدین کو یہ شکایت ہے کہ وہ اپنے بچوں کی طرف سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے بچے جھوٹ بولتے ہیں، کہنا نہیں مانتے، بڑوں کی عزّت نہیں کرتے، تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے، فحش اور غیر معیاری فلمیں دیکھتے ہیں اور بے ہودہ ڈائیلاگ بولتے ہیں۔ گویا ان کی اولاد ان کے لیے عذابِ جان یا زحمت بنی ہوئی ہے۔ وہ اصلاح کا جو بھی طریقہ اختیار کرتے ہیں، اس کا نتیجہ الٹا ہی نکلتا ہے۔ دوسری طرف اولاد کی شکایتیں بھی کم قابلِ توجہ نہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اوراولاد کی اس کشمکش پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ وہ بنیادی اصول کیا ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے ان مشکلات کو دور کیا جاسکتا ہے۔ماہرین نفسیات نے اپنی طویل تحقیقات کے بعد یہ اصول بھی واضح کردیا ہے کہ ایک بچے کی اچھی بری قسمت پہلے چھ سال کی عمر میں طے ہوجاتی ہے۔ یہ قسمت آسمان کی کوئی غیبی طاقت نہیں بناتی بلکہ خود والدین اس کے معمار ہوتے ہیں۔ اولاد کا اچھا مستقبل سب کی آرزو ہے۔ کوئی بھی والدین ایسے نہیں ہوں گے جو اس الزام کو تسلیم کرلیں کہ وہ اپنے بچوں کے دشمن ہیں، بچوں کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ جب بھی ان کے بچے کے ساتھ کوئی چھوٹا یا بڑا ناانصافی کرتا ہے تو وہ اس وقت آمادہ انتقام ہوجاتے ہیں لیکن وہ خود بڑی بڑی ناانصافیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ ناانصافیاں بچے کی شخصیت کا خون کرتی ہیں اور شخصیت کا خون درحقیقت زندگی کا خون کر دینے سے بھی زیادہ خوف ناک جرم ہے۔
دانشوروں کے مطابق ایک باپ جو اپنے بچوں کو صرف کھانا اور کپڑا مہیا کردیتا ہے، وہ اپنی ذمے داری کا ایک تہائی حصہ پورا کرتا ہے۔ سماج کا اس پر حق ہے کہ وہ ایسے خاندان پیدا کرے جو سماج کے لیے فائدہ مند ہوں اور ریاست کا اس پر حق ہے کہ وہ اچھے شہری پیدا کرے۔ ہر وہ شخص جس پر یہ تین حقوق ہیں اور جوان کو ادا نہیں کرتا وہ ایک مجرم ہے۔ جو باپ اپنے فرائض ادا نہ کرے اسے باپ بننے کا کوئی حق نہیں۔ بچہ خواہ ایک ماہ کا ہی کیوں نہ ہو، اسے گوشت کا ایک بے شعورلوتھڑا نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ذہن نشیں کرلینا چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول کی ایک ایک حرکت اپنے دل و دماغ میں جذب کررہا ہے۔ اس لیے پہلی اور بنیادی ضرورت یہ ہے کہ والدین بعض نار وا اعمال کو اپنے بچوں کے سامنے یہ سمجھ کر روا قرار دینے کی جھوٹی تسلی حاصل نہ کریں کہ بچوں میں سوجھ بوجھ نہیں۔ بے شک بچوں میں سوجھ بوجھ نہیں ہوتی لیکن ان کے تحت شعور میں ہماری ایک ایک حرکت قبول کرنے کا جذبہ برابر موجود ہوتا ہے۔ کوئی جھوٹ، کوئی ناراضگی، کوئی گھڑکی اور کوئی بْرا وتیرہ ایسا نہیں جو بچے کے ننھے سے دماغ میں اپنے امٹ نقوش نہ چھوڑ جائے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنی اولاد کے سامنے حتی الامکان اپنے اخلاق و عادات کا اچھے سے اچھا نمونہ پیش کریں۔
بچوں کی شخصیت کا احترام بھی ضروری ہے۔ لیکن بہت کم لوگ اپنے بچوں کی شخصیت کا احترام کرتے ہیں۔ جاہل تو جاہل اچھے اچھے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس وصف سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ تقریباً ہر روز بچوں کی ہتک کرتے ہیں، انھیں گالیاں دیتے ہیں، ڈانٹتے ڈپٹتے ہیں اور جھڑکتے رہتے ہیں، بات بات پر ٹوکتے رہتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات میں عیب نکالتے رہتے ہیں۔ انھیں نکمّا، نالائق، کام چور، بے وقوف اور گدھا کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ لعن طعن بچے کی شخصیت پر نہایت بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ اس قسم کے وتیرے سے بعض اوقات بچے کے دل میں والدین کے خلاف ایسی گہری نفرت پیدا ہوجاتی ہے کہ آخر عمر تک دور نہیں ہوسکتی۔ گویا ہم اپنے بچوں کی توہین کرکے آئندہ عمر میں اپنی توہین کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔
کچھ والدین اپنے بچوں سے ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار کرتے ہیں۔ اس کا اثر بھی ان پر اچھا نہیں پڑتا اور کچھ والدین ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں پر بہت زیادہ سختی کرتے ہیں۔ اس سے بھی انھیں نقصان پہنچتا ہے۔ ان کا آزادی سے کام کرنے کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے کیونکہ تمام خوبیوں کا سرچشمہ آزادی ہے اور جب آزادی سے کام کرنے کے مواقع نہیں ملتے تو حوصلہ پست ہو جاتا ہے اور ان میں دیگر برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔والدین کے رویّے میں اعتدال ضروری ہے۔
بچوں کی اخلاقی اصلاح کے لیے عام طور پر دو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک تو وہ جس میں بچوں کو ڈر، خوف، دھمکی اور مارپیٹ کے ذریعے ناپسندیدہ کاموں سے روک کر جبراً اچھے کاموں کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور دوسرا طریقہ وہ ہے جس میں سختی سے مطلق کام نہ لیا جائے۔ نہ ڈرایا جائے، نہ سزا دی جائے بلکہ محض اچھے اور پسندیدہ کاموں کی ترغیب دلائی جائے اور بچہ کوئی اچھا کام کرے تو تعریف کرکے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ڈرانے او ردھمکانے کے مقابلے میں ترغیب و تعریف سے کام لینا چاہیے۔ یہ زیادہ مو 191ثر اور کامیاب طریقہ ہے اور اس سے بچوں کی شخصیت کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔
بچے کے عیب کبھی اس کے منہ پر بیان نہ کیجیے۔ اگر وہ کند ذہن ہے، سبق یاد نہیں کرتا ہے، وقت پر اسکول نہیں پہنچتا ہے، جھوٹ بولتا ہے یا گھر سے پیسے چرا کر لے جاتا ہے تو اسے اس کی یہ خامیاں اور کمزوریاں یاد دلا دلا کر اسے شرمندہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ طریقِ عمل کبھی سودمند ثابت نہیں ہوسکتا۔ مارپیٹ کرنے یا شرمندگی دلانے سے بچے کے دل میں اصلاح کا خیال تو درکنار الٹی بغاوت پیدا ہوتی ہے۔ جس بچے میں کسی طرح کی خامی پائی جاتی ہو اسے دوسرے بچوں کی بہ نسبت زیادہ ہمدردی اور شفقت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو ایک سازگار ماحول میں محسوس کرے۔ ہمدردی اور حوصلہ افزائی نکمّے سے نکمّے بچے میں بھی نہایت عمدہ تبدیلی پیدا کرسکتی ہے۔ بچے کو شاباشی دیجیے اور اس کی تعریف کیجیے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ ذرا سی تعریف اور توجہ سے بچے کی زندگی کا رخ بدل جائے گا۔
بچے کی عادات اور خیالات کی تعمیر یا اس کی اخلاقی اصلاح و تہذیب ایک نہایت ہی کٹھن مسئلہ ہے۔کچھ والدین اپنے بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسکول کی تعلیم اور ماحول سے وہ خود بخود سدھر جائیں گے۔ مگر یہ ایک وہم باطل ہے۔ دراصل بچوں کی اخلاقی تربیت ایک مشکل فن ہے۔ جب تک بچے کی ذہنی سطح اور اس کے فطری رجحان کو اس کے ماحول کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی اس وقت تک ہم اس کے مستقبل کی تعمیر میں کوئی تعاون نہیں کرسکتے۔ جب بھی بچے سے کوئی ناشائستہ حرکت سرزد ہو مثلاً چوری، جھوٹ، فریب وغیرہ تو اس صورت میں ہمارا فرض ہے کہ مرض کے علاج سے پہلے مرض کی تشخیص کرلیں اس دنیا میں کوئی برائی ایسی نہیں جس کی پشت پر کوئی حقیقی مجبوری نہ ہو۔ اس مجبوری کو سمجھنا اور اسے دور کرنا ہی کسی برائی یا بداخلاقی کا اصل علاج ہے۔
اکثر اوقات بچے سے غلطی سرزد ہوتی ہے لیکن اس کا سبب اس بچے کے پاس نہیں ہوتا، ہمارے پاس ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی روزانہ زندگی کا جائزہ لیں گے تو ہم کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم ارادی یا غیر ارادی طور پر خود اپنے بچوں کو جھوٹ بولنے کی تربیت دیتے ہیں۔ مثلاً جب کوئی شخص جس سے ہم ملنا نہیں چاہتے ہمارے دروازے پر آئے تو ہم اپنے کسی بچے سے کہلوا دیتے ہیں کہ ’’ابا جان گھر پر نہیں ہیں۔‘‘ یا اگر کوئی شخص عاریتاً کوئی چیز مانگنے کے لیے آئے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ ’’وہ تو کوئی اور شخص مانگ کر لے گیا ہے۔‘‘ اب آپ خیال کریں کہ ہم خود جھوٹ بول کر اور جھوٹی نصیحت کرکے اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔ بچوں سے سگریٹ منگواکر انہیں سگریٹ پینے سے منع کرنا والدین خود تو فلمیں دیکھیں اور بچوں کو منع کریں!!!! بچے ہمارے طرز عمل سے جھوٹ بولنے اور غلط راہ اختیار کرنے کی ٹریننگ حاصل کررہے ہیں۔ ہم اپنے بچوں سے جھوٹے وعدے بھی کرتے ہیں اور اسے اس طرح ہم ان کے ذہن میں نقش کردیتے ہیں کہ سچائی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
والدین کو خواہ ان کے بچے کتنے ہی نیک اور اچھے کیوں نہ ہوں اپنے بچوں کے ماحول اور ان کی سوسائٹی سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ اگر ان کے بچے صاف ستھرے رہتے ہیں، وہ فرمانبردار ہیں، سچ بولتے ہیں، گالی گلوچ سے پرہیز کرتے ہیں، چغل خوری نہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ والدین مطمئن بیٹھیں۔ اگر آس پاس کا ماحول خراب ہے تو بچوں کو خطرے سے باہر نہیں سمجھنا چاہیے۔ آپ کو ان کے ماحول کی نگرانی کرنی پڑے گی۔ صرف اپنے بچوں کی اصلاح ایک طرح کی ناکام خودغرضی ہوگی بلکہ آپ جہاں اپنے بچوں کا خیال رکھیں وہاں پڑوسیوں کے بچوں کی اخلاقی نگہداشت سے بھی غافل نہ رہیں۔ آپ اس بات کی بھی کوشش کریں کہ بچوں میں دینی اور ملی حمیت پیدا ہوا۔ کیونکہ آج کا تعلیمی نظام مذہب بیزار ہے ۔ دین کے بغیر نہ تو ہم مکمل ہیں نہ ہمارے بچے ۔ hafsawriter@indiatimes.com
No comments:
Post a Comment