Search This Blog

Tuesday 10 January 2012

لکژری بسیں اور بے حیائی


لکژری بسیں اور بے حیائی
از۔۔۔۔۔۔۔۔ ایاز الشیخ گلبرگہ

انسانی معاشرہ کسی جامد چیز کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک زندہ وجود کا نام ہے۔ جس طرح انسان اچھی یا بْری چیز سے تاثر لیے بغیر نہیں رہتا، اسی طرح ایک معاشرہ بھی اچھی یا بْری قدروں سے لازماً متاثر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھیں تو ہمارا معاشرہ بھی ہر دو طرح کے رویوں سے اثرپذیری کا زندہ ثبوت پیش کرتا ہے۔ ایک جانب اگر اسلامی تہذیب، معاشرت اور اخلاقیات سے بغاوت اور اباحیت پسندی کا رویہ طوفان اْٹھا رہا ہے، تو دوسری جانب نمازِ یوں سے مسجدوں کی طرف رجوع، عمرے اور حج کا شوق، اعتکاف کے لیے تڑپ، نعت کی شبینہ مجالس کی کثرت، مذہبی اجتماعات اور مذہبی جماعتوں سے وابستگی کا رجحان بھی روز افزوں ہے۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مذہبی شعائر پر عمل کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود، دینی اور اسلامی تہذیبی اقدار کے مخالف عناصر، ماضی کی نسبت کہیں زیادہ جارحیت اور بے باکی کا رویہ اپنائے نظر آتے ہیں، اور ان کے مقابلے میں اسلامی اور تہذیبی اقدار کے علَم بردار طبقے اور افراد عمومی طور پر لاتعلق، بے حِس یا اس یلغار کے سامنے بے عمل نظر آتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہ جارحیت کا جواب جارحیت سے دیا جائے، مگر یہ ضروری ہے کہ اسلامی تہذیبی اقدار پر اس جارحانہ یلغار کو جرا ء ت، دلیل، بالغ نظری اور منظم طریقے سے بے نقاب کیا جائے ۔

مثال کے طور پر: ہمارے ہاں، نجی و سرکاری شعبہ میں موجود سفری سہولتوں (کوچز،لکثری بسوں ) میں اگرچہ پہلے تو ٹیپ ریکارڈر پر گانوں کے شور نے اذیت ناک صورت حال پیدا کر رکھی تھی، لیکن جب ٹرانسپورٹروں اور ڈرائیور حضرات نے دیکھا کہ معاشرے نے خاموشی کے ساتھ اس طوفانِ بدتمیزی کو ہضم کر لیا ہے تو اگلے قدم کے طور پر ان میں ڈی وی ڈی DVD پر فلموں کی نمایش کا آغاز ہوا۔ آج حالت یہ ہے کہ کوئی معقول انسان اس بے حیائی کے ہم قدم سفر کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ان آلایشوں کے ساتھ سفر کرنا تو ناممکنات میں شامل ہوچکا ہے۔ انسان مجبوری کے تحت سفر کرتا ہے، غصہ پی کر رہ جاتا ہے۔ اْس کی اس مجبوری پر آوارگی اور بے حیائی حملہ آور ہوتی ہے تو وہ بے بسی میں خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ دورانِ سفر اگر کوئی فرد ہمت کرکے کہہ بیٹھے کہ ’’ڈرائیور صاحب اسے بندکردیجیے‘‘، تو پہلے ڈرائیور صاحب اور پھر متعدد مسافر اس فرد کو یوں دیکھتے ہیں، جیسے یہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے۔ ایک دو تو آوازہ بھی کس دیتے ہیں، حالانکہ اس کوچ میں اکثریت چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اسے دیکھنا نہیں چاہتے، مگر وہ سب غیرت اور حیا کو تھپک کر سلاتے اور پھر آنسو بہاکر شیطنت کا نظارہ کرنے یا اہلِ خانہ کو نظارہ کرانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

ایسا ہی معاملہ بعض اوقات ان فحش ہوس سے بھرپو نہایت لچر اور واہیات گانوں کی شکل میں سامنے آتا ہے، جنھیں ڈرائیور پوری آواز volumeکے ساتھ مسافروں کے کانوں میں انڈیل رہے ہوتے ہیں. مگر اپنی بے بسی کا ماتم کرتے ہوئے، مجسم غلامی کی تصویر سواریاں خاموشی سے سفر کرتی رہتی ہیں۔ اب مصیبت یہ دَر آئی ہے کہ چھوٹی بسوں میں بھی اسکرین پر گانے دکھانے اور دھماچوکڑی مچانے کا کلچر ترقی کر رہا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ یہ چیزیں ہماری سماجی زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہیں اور شرافت منہ چھپا کر کڑھنے کو اپنا نصیب قرار دے رہی ہے۔ کیا واقعی حیا اور شرافت کا مطلب بے بسی اور بے عملی ہے؟

ان کا سد باب کیسے کیا جائے ۔ سب سے پہلے ہمیںیہ دیکھنا ہوگا کہ ملکی قوانین میں ٹریفک کے کیا اصول وضع کیے گئے ہیں؟ کیا ان قوانین کے تحت سڑک پر دوڑتی گاڑیوں میں ریکارڈنگ اور فلم بینی کی گنجایش موجود ہے؟ اگر قوانین میں جھول ہے تو اسے بدلوانے کے لیے کاوش کرنا ہوگی اور اگر پابندی ہے تو انہی قوانین کی بنیاد پر ٹریفک پولیس، ہائی وے پولیس: اRTO وغیرہ کو فون کر کے مسلسل اطلاع دینا ہوگی۔ اس شعور کی بیداری کے لیے قوانین اور ٹیلی فون نمبروں پر مشتمل پمفلٹ اڈوں پر تقسیم کرنے ہوں گے۔ جب بھی گاڑی میں بیٹھیں، گاڑی کا نمبر نوٹ کر کے بیٹھیں اور اگرطوفان بد تمیزی حد سے بڑھ جائے تو فون کر کے پولیس کو اطلاع کریں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انتہائی نرمی سے ڈرائیور یا کنڈکٹر سے کہیں کہ آپ کی مہربانی ہوگی، یہ نہ چلائیں۔ ڈرائیور الجھنا چاہے تو الجھنے سے اجتناب کریں۔ ممکن ہو تو اکیلے بات کرنے کے بجاے کسی اور سواری کو بھی ساتھ لے لیں۔ ڈرائیور سے نیند آنے یا آرام کرنے کی بات کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے آپ کی فوری طور پر یہ کاوشیں کامیاب نہ ہوں، لیکن اس کے باوجود اس کوشش کا اثر ضرور ہوگا۔ اگر متبادل کوئی اور بس موجود ہو جس میں یہ خرافات نہ ہو یا ٹرین کے سفر کا انتخاب کریں۔ اگر بالفرض واھیاتی بس میں سفر کرنا ہی پڑے اور طوفان بد تمیزی نہ روک سکیں تو خصوصا ڈاڑھی سے مزین دیندار نظر آنے والے حضرات اپنی توجہ اسکرین پر چلنے والی فلم پر توجہ نہ دیں یا تو آنکھیں موند لیں یا بس سے باہر پھیلے قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوں اور جنت کی نعمتوں کو یاد کریں ا۔ آپ کی اسکرین کی طرف کی توجہ اور انہماک مجھ جیسے کئی گناہ گاروں کو فلم بینی کا جواز دے دیگا۔

نبی پاک آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا جب تک عوام الناس کی یہ حالت نہ ہوجائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بْرے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہارِ ناراضی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہارِ ناراضی نہ کریں۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (مسنداحمد، 4 /192، مشکوہ المصابیح)

الغرض اس امر کو تسلیم کرنا ہوگا کہ گونگی شرافت، اپاہج نیکی اور جمود زدہ حیا کے لشکری بدی اور بے حیائی کے سیلابِ بلا کو نہیں روک سکتے بلکہ اس مقصد کے لیے شرافت، نیکی اور حیا کی قوتوں کو منظم، فعال اور گروہی و مسلکی سطح سے بلند ہوکر چلنا پڑے گا۔

توحید تو یہ ہیکہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئیے ہے

No comments:

Post a Comment