مسلمان اردو کتابیں خرید کر پڑھیں
سمیع احمد قریشی
زبانیں صرف سرکاری سرپرستی پر زندہ نہیں رہتیں. کسی بھی زبان کی ترقی اور اُسے زندہ و جاوید بنائے رکھنے میں، اُس زبان کے پڑھنے، بولنے، سمجھنے والوں اور مادری زبان کہنے والوں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ کسی وقت خاص طور پر، آزادی سے پہلے پورے ملک میں شمال سے جنوب تک ، مشرق سے مغرب تک، جب کہ ہمارے ملک ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا۔ عوام الناس میں ، بڑے پیمانے پر ، بناء امتیاز مذہب و ملت ، اُردو ہی بولی پڑھی سمجھی جاتی تھی۔ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کی بھی زبان، اُردو ہی تھی۔ جو سمجھی بولی پڑھی جاتی تھی۔ ملک کی آزادی کے بعد، سرکاری لقعب ہی تھا کہ اُردو کے زوال میں، اِس کا بھی اہم رول رہا۔ دھیرے دھیرے اُردو زبان جس کے بارے میں اب بھی کہا جاتا ہے کہ
یہ ہندو کی زبان ہے نہ مسلمان کی زبان اُردو تو ہے سارے ہندوستان کی زبان
ملک کی تقسیم کے بعد، اُردو کا وہ مقام نہیں رہا جو آزادی کے پہلے تھا۔ اُردو جو ملک کی اکثریتی زبان تھی، اقلیت یعنی مسلمان کی زبان بن کر رہ گئی۔ یہ ماننا ہی پڑے گا۔ کسی اور زبان کے مقابلے میں، مسلمانوں کا مذہبی اثاثہ یعنی دینی علوم اور معلومات اُردو ہی میں زیادہ ہے۔ اُردو اپنی شیرینی ، مٹھاس کی بناء پر آج ہی، عوام میں رس گھول رہی ہے۔ اُردو کا جادو آج بھی سر چڑ کر بول رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندی فلموں کے گانے ، مکالمے آج بھی اُردو میں ہیں۔ ہندوستان میں آج تک کی انتہائی کامیاب فلم مغل اعظم کے گانے اور مکالمے ، اُردو ہی میں تھے۔ جو بناء امتیاز مذہب ، عوام میں سر چڑ کر جادو کرگئے۔ اُردو غزل پہلے سے بھی زیادہ آج مقبولیت حاصل کررہی ہے۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ ریاستی و مرکزی سطح پر، سرکاریں اُردو کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کررہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف سرکاری سرپرستی سے کوئی بھی زبان زندہ نہیں رہ سکتی۔ زبان کو ماننے والوں کی بقاء و ترقی کے لیے میدان میں رہنا ضروری ہے۔ اُردو کی تہذیب گنگا جمنی ہے۔ روایات اور قدریں شاندار ہیں۔ اُردو دلوں کو توڑتی نہیں جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ یہ قومی یکجہتی کے لیے انتہائی کارگر، کردار ادا کررہی ہے۔ اُردو کا خاتمہ و زوال اک شاندار حسین تہذیب و کلچرل کا خاتمہ ہے۔ ہم جائزہ لیں کہ دوسری زبان کے بولنے پڑھنے سمجھنے والے، اپنی زبان کی اشاعت ، بقاء ، ترقی کے لیے کیا کررہے ہیں۔ اُن کی طرح آب یاری،ہم اُردو والے کررہے ہیں۔ کیا؟ یہ لوگ اپنے ادب پاروں کتابوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زبانوں کے اخبارات کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ مثلاً مراٹھی، تامل، تیلگو زبانوں کے اخبارات کے تعداد اشاعت کیا ہے۔ یہ زبانیں مہاراشٹر ، تامل ناڈو، آندھرا ، صوبوں کی زبان ہے۔ اُردو کا کوئی اک صوبہ نہیں۔ کشمیر ، دہلی، یوپی، بہار، آسام، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، آندھرا وغیرہ وغیرہ۔ ایک دو صوبوں میں نہیں بلکہ ملک کے طول و عرض کے متعدد صوبوں میں بولی پڑھی لکھی جارہی ہے۔ افسوس ناک پہلو ہے کہ اُردو کتابوں اور اخباروں کی تعداد اشاعت جس قدر ہونی چاہیے وہ نہیں۔ کیا اُردو والے مرگئے؟ ایسا نہیں ہے تو پھر یہ بے بسی ، تساہلی، زبان کے تعلق سے کیوں۔ ممبئی شہر ہی میں کتنے معیاری وپایہ کے اُردو کے پریس تھے۔ جیسے کریمی پریس، علی بھائی شرف علی اینڈ کمپنی جیسے اعلیٰ پریس ختم ہوگئے جہاں اُردو کی کتابوں کے ساتھ ساتھ بہت ہی عمدہ طباعت و کاغذ سے یٰسین، کلام پارع اور شریعت کی کتابیں شائع ہوا کرتی تھیں۔ جس کی بناء پر اُردو دنیا میں اُن کی انفرادیت قائم تھی۔ افسوس کہ وہ پریس بند ہوگئے۔ ممبئی میں ، اُردو آبادیوں میں اُردو کتابوں ، مایہ ناز بک ڈپو اور کتاب گھر بند ہوگئے۔ اخبارات کے چھوٹے چھوٹے اسٹال میں کمی آگئی۔ اُردو لائبریریاں کم ہوتی جارہی ہیں۔ ممبئی میں اُردو والوں کی تعداد پہلے سے زیادہ بڑھی ہے۔ حالانکہ ہمارے بچے اُردو کی بجائے انگریزی ذریعہ تعلیم میں پہلے کے مقابلے زیادہ جارہے ہیں۔ اُس کے باوجود اُردو کا بُرا حال ہورہا ہے۔ کیوں؟ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ صابو صدیق اسکول بھائیکلہ ممبئی میں ’’کل ہند اُردو کتاب میلہ‘‘ جاری ہے جو 22؍جنوری تک رہے گا۔ قومی قونسل برائے فروغ زبان نے انجمن اسلام ممبئی اور گُل بوٹے کے اشتراک و تعاون سے اس کا انعقاد کیا ہے جو وقت کی ضرورت ہے۔ ہم اس اُردو کتاب میلہ میں کئی گھنٹہ رہے۔ دل باع باغ ہوگیا۔
اک ہی چھت کے نیچے اُردو کی نایاب کتابیں ، نایاب قابل دید خوش نما نسخے کلام پاک، بے حد پرففرشرعیت کی کتابیں، ممبئی اور پورے ہندوستان سے آئے ہوئے، نامی گرامی کتاب گھروں، اُردو بک ڈپوز، اُردو کے پبلیشنگ اداروں کے بک اسٹال میں، یہاں تک کہ اُردو ادب اور کلام پاک جنہیں پاکستان میں شائع کیا گیا وہ بھی یہاں اُردو کتاب گھر میں ۔ اُردو اور دینی سرمایہ ، جس قدر یہاں ہے۔ وہ اس سے پہلے ہمیں اور کہیں دیکھنے نہیں ملا۔ ممبئی ہی کیا ہندوستان میں اُردو کتابوں کا کل ہند میلہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ اس سے مستفیض ہونا ہر اُردو والے اور مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ یہ ہمارے لیے نعمت مرتبہ سے کم نہیں۔ کتاب میلے میں جس قدر چاہیں ہم اُردو کی کتابیں، جو بے شمار موضوعات کے ساتھ، شرعیت کی کتابیں ہیں اُنہیں خریدیں ۔ ایسا لاجواب قابل قدر اُردو کتابوں کا میلہ پھر ہمیں نصیب ہوکہ نہ ہو پہلی فرصت میں میلے میں جائیں جو 22جنوری تک چلے گا۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں اُردو کتابوں اور شرعی کتابوں کے لیے قوت خرید کم کیوں ہے۔ پان بیڑی ، سگریٹ ، ٹی وی کیبل کے لیے ہم فضول خرچی کرتے ہیں۔ مگر اُردو کی کتابوں اور شریعت کی کتابوں کے لیے، قوت خرید ہونے کے باوجود خریدنے کی دلچسپی نہیں کرتے۔ قابل قدر میں وہ لوگ جو اس معاملہ میں اپنی جیب خاصی سے کتابوں کے خریدنے میں عملی دلچسپی لیتے ہیں۔ غیر معمولی سطح پر وہ افراد تو انتہائی تعریف کے لائق ہیں کہ جو اپنے لیے ہی نہیں بلکہ اسکولوں، مدرسوں، کالجوں، مساجد، لائبریریوں کے لیے اُردو کتابیں، رسالے، اخبارات اور شریعت کی کتابیں بے انتہا طور پر، خصوصی دلچسپی کے ساتھ خریدتے ہیں۔ اگر بازار میں نہ ہو تو خصوصی طور پر اپنے روپے پیسہ سے اُنہیں کثیر تعداد میں شائع کرواکر بلا معاوضہ تقسیم کرتے ہیں۔ ممبئی شہر میں ایسے متعدد لوگ ہیں۔ محترم غلام پیش امام، ابراہیم بھائی جان ان میں انتہائی پیش پیش ہیں۔ یقیناًایسے لوگ بھی، اُردو کتاب میلے میں شرکت کرکے ، میلے کی رونق بڑھائیں گے۔ اُردو والوں اور مسلمانوں کو سمجھنا ہے کہ اُردو کتابیں اور شرعی کتابوں کو خریدیں گے نہیں یا ہدیہ دے کر لیں گے نہیں تو اک سنگین صورتحال پیدا ہوگی۔ کتابیں چھپنا بند ہوگی ۔ اُردو میلہ میں اُردو کتابیں اور شرعیت کی کتابیں لے کر ممبئی اور پورے ملک سے کتاب گھر اور پبلیشنگ ادارے انجمنیں کیوں آئیں گے؟ پھر مزید اُردو پریس بھی بند ہوجائیں گے۔ کوئی خریدتا ہی نہیں ! جیسا کہ ممبئی میں ماضی سے ہورہا ہے۔ آنے والی نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ وقت کا مورخ بھی ہمیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں رکھے گا۔ اُردو میلہ میں شریک ہوں، کتابیں خریدیں، دُنیا کو بتلادیں اُردو بھی زندہ ہے۔ اُردو والے بھی۔
اُردو زندہ باد اُردو پائندہ باد
صرف نعروں سے کام نہیں چلے گا۔ عمل کی بھی ضرورت ہے۔ پھر کہیے سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے۔
سمیع احمد قریشی
میٹ والی چال، روم نمبر68، دادا صاحب پھالکے روڈ، دادر، ممبئی
فون نمبر: 9323986725
19؍جنوری2012ء
فون نمبر: 9323986725
19؍جنوری2012ء
اردو ذندہ باد آج کل مطالعے کا شوق کم ہو رہا ہے اور ہمارے زوال کی بنیادی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے
ReplyDelete