Search This Blog

Sunday 22 January 2012

مسلمانوں کابہترین زمانہ


مسلمانوں کابہترین زمانہ

شاہ نواز فاروقی

رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ بہترین ہے‘ اس کے بعد میرے بعد کا زمانہ پھر اس کے بعد کا زمانہ اور پھر اس کے بعد کا زمانہ۔ اس حدیث شریف سے علماءنے یہ مراد لی ہے کہ بہترین زمانہ رسول اکرم کا زمانہ ہے‘ اس کے بعد صحابہ کرامؓ کا عہد۔ صحابہؓ کے بعد تابعین کا دور اور تابعین کے بعد تبع تابعین کا عصر۔ زمانے کی اس ”معیار بندی“ کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ قرآن مجید کی تشریح اور تعبیر پہلے خود قرآن کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ قرآن کے بعد احادیث مبارکہ سے رجوع کیا جاتا ہے‘ یہاں سے رہنمائی نہ ملے تو صحابہؓ کرام کے اقوال کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ صحابہؓ کرام کے بعد تابعین کی آراءکو اہم سمجھا جاتا ہے اور تابعین کی تعبیر کے بعد تبع تابعین کی مہیا کردہ معنویت کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام ادوار کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ادوار رسول اکرم کے زمانہ مبارک سے قریب تر ہیں اور اسلام کو ان زمانوں میں جس طرح سمجھا جاسکتا تھا بعد کے زمانوں میں اسلام کا اس طرح سمجھا جانا محال تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کی اصل ”ایمان“ ہے۔ یہاں تک کہ علم بھی ایمان کی ایک فرع یا اس کی ایک شاخ ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایمان کا جو معیار پیدا ہوا اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے زمانے میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ رسول اکرم کا زمانہ زمین سے آسمان کے گہرے تعلق کا زمانہ ہے یہاں تک کہ آپ کی موجودگی نے زمین کو خود آسمان بنا دیا تھا۔ آپ پر دن رات وحی کا نزول ہورہا تھا اور صحابہ کرامؓ اس وحی کو سن بھی رہے‘ دیکھ بھی رہے تھے اور اس پر عمل بھی کر رہے تھے۔ آپ کا زمانہ معجزات کے ظہور کا زمانہ تھا۔ آپ معراج پر تشریف لے جارہے تھے‘ آپ کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہورہا تھا‘ آپ کے دست مبارک میں کنکریاں تسبیح پڑھ رہی تھیں اور صحابہؓ ان کی آواز سن رہے تھے۔ آپ کے لمس پاک سے کھانے میں برکت ہورہی تھی۔ ایک شخص کی بھوک کے برابر کھانے کو ڈھائی سو اور تین سو لوگ سیر ہوکر کھارہے تھے۔ غزوات میں جلیل القدر فرشتے مسلمانوں کی مدد کے لیے اتر رہے تھے اور مسلمان ان کی موجودگی کو خود محسوس کر رہے تھے۔ سب سے بڑا معجزہ آپ کی سیرت طیبہ تھی۔ پوری دنیا آپ کے روبرو پیش کی جارہی تھی اور آپ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے تھے۔ آپ کی بڑی بڑی فتوحات میں تکبر کا شائبہ تک نہ تھا۔ آپ اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کر رہے تھے۔ آپ کی سخاوت بے حد و بے حساب تھی۔ آپ خدا کے بعد سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔ آپ کی شان یہ تھی کہ آپ خدا کے محبوب تھے اور خود اللہ تعالیٰ آپ پر درود و سلام بھیج رہا تھا۔ اس صورتِ حال میں اللہ تعالیٰ کا وجود آخرت‘ فرشتے‘ جنت اور دوزخ ”تصورات“ نہیں رہ گئے تھے بلکہ یہ صحابہ کرامؓ کا ”تجربہ“ بن گئے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ بعض صحابہؓ رسول اکرم کے پاس آئے اور کہا کہ ہم تو منافق ہوگئے۔ رسول اکرم نے پوچھا تم منافق کیسے ہوگئی؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ہم آپ کی مجلس میں ہوتے ہیں تو ہمیں جنت اور دوزخ سامنے نظر آرہی ہوتی ہیں مگر ہم آپ کی محفل سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو ہماری یہ کیفیت باقی نہیں رہتی۔ رسول اکرم نے فرمایا یہ تجربہ ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ ایمان کی اس کیفیت نے اس زمانہ میں صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے فکر و عمل کا اتنا بلند اور سخت معیار قائم کر دیا تھا جس کا کسی اور زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ ایک سفر میں رسول اکرم کے ساتھ تھیں کہ راستے میں آپ کا ہار گم ہوگیا۔ حضرت عائشہؓ ہار کو ڈھونڈنے نکلیں اور حضرت عائشہؓ کی عدم موجودگی میں قافلہ مدینے کی جانب روانہ ہوگیا۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ تنہا رہ گئیں۔ پہلے زمانے میں طریقہ تھا کہ قافلے کے پیچھے ایک شخص چلتا تھا اور اگر قافلے والوں کی کوئی چیز گر جاتی تھی تو اسے اٹھا لیتا تھا۔ ایک صحابی رسول اس سفر میں قافلے کے پیچھے آرہے تھے‘ انہوں نے حضرت عائشہؓ کو تنہا دیکھا اور پہچان کر اپنے اونٹ پر بٹھا لیا اور قافلے سے آملے۔ اس صورتِ حال میں بعض منافقین نے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگا دی۔ منافقوں کے اس پروپیگنڈے سے بعض اہل ایمان بھی متاثر ہوئے۔ ان میں ایک ایسے صاحب بھی تھے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عزیز تھے اور ان کی غربت کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیقؓ ان کی مالی مدد کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کو اس بات کا علم ہوا تو انہیں ملال ہوا اور انہوں نے کہا کہ میں اب اس شخص کی کفالت نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیات کے ذریعے بالآخر حضرت عائشہؓ کی برات نازل فرمائی اور مسلمانوں سے کہا کہ انہوں نے حضرت عائشہؓ جیسی ہستی پر تہمت کو قابل اعتنا بھی کیوں سمجھا۔ لیکن یہاں جو بات اہم ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ کی برات کے نزول کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق کے پاس آئے اور فرمایا کہ ابوبکر تم نے عائشہ پر تہمت میں شریک ہوجانے والے شخص کی امداد بند کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ فیصلہ ابوبکر کے شایان شان نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر نے اعلان کیا کہ وہ اپنے اس عزیز کی امداد نہ صرف یہ کہ ہمیشہ جاری رکھیں گے بلکہ اس میں اضافہ کردیں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز حضرت عائشہ صدیقہ کے ساتھ گھر میں تشریف فرما تھے کہ محلے کی کسی عورت کا ذکر نکل آیا۔ حضرت عائشہ نے غالباً شناخت متعین کرنے کی نیت سے فرمایا کہ اچھا وہ ”لمبی فراک والی“ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا کہ عائشہ یہ بھی غیبت ہے۔ حضرت فاطمہ کمسن اور نازک تھیں مگر انہیں گھر کے سارے کام کرنے پڑتے تھے۔ بالخصوص چکی پیسنے سے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ اس صورتِ حال میں ایک دن انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادمہ فراہم کرنے کی درخواست کی۔ اتنی معمولی سی جائز خواہش کے جواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فاطمہ! دنیا اور آخرت میں کسی ایک کو پسند کرلو۔“ غزوہ تبوک کی اسلامی تاریخ میں یہ اہمیت ہے کہ اس غزوے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 30 ہزار افراد کا لشکر تشکیل دیا اور اس کے لیے زبردست تیاری کی۔ اس غزوے میں کعب بن مالکؓ اور ایک اور صحابی رسول شریک نہ ہوئے۔ ان کی عدم شرکت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ منافق ہوگئے تھے بلکہ اس کی وجہ سستی تھی۔ وہ سوچتے رہے کہ ابھی تو لشکر کے جانے میں دیر ہے ہم کسی بھی وقت تیاری کرکے لشکر میں شامل ہوجائیں گے لیکن اس لیت و لعل میں اسلامی لشکر روانہ ہوگیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس لوٹے تو ان صحابہؓ کو بڑی شرمندگی ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف توجہ نہ کی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم منافق نہیں ہوئے بس سستی کی وجہ سے لشکر میں شامل نہ ہوسکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے درست کہا۔ مگر اب تمہارا معاملہ خدا کے سپرد ہے‘ برات آئے گی تو اس کی طرف سے آئے گی۔ اس کے بعد پچاس دن تک تمام مسلمانوں نے ان دونوں صحابہؓ کا سماجی مقاطعہ کیا۔ پچاس دن تک کسی نے ان سے بات نہ کی۔ پچاس دن کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور ان کی برات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرمایا۔ ان واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایمان کے معیار نے صحابہ کرامؓ کے لیے فکروعمل کے کیسے کڑے معیارات فراہم کر دیے تھے اور یہ معیارات کیوں نہ فراہم کیے جاتے‘ اس دنیا کو اگر مزید پانچ ہزار سال باقی رہنا ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو اس پورے عرصے میں انسانیت کے لیے مینارہ نور بنے رہنا ہے۔ ہر نبی کی شریعت زمانی اور مکانی تھی مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت لازمانی اور لامکانی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کو بے مثال ہونا ہی تھا۔ گوانتاناموبے کے قیدیوں کو جس تشدد اور جس اذیت سے گزارا گیا ہے اس کی مثال مشکل ہی سے تلاش کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ گوانتاناموبے کے ایک قیدی کو خیال گزرا کہ اسلام کے لیے ہم جن آزمائشوں سے گزرے ہیں شاید صحابہ کرامؓ بھی نہ گزرے ہوں۔ اس خیال کے چند روز بعد اس قیدی نے خواب میں دیکھا کہ گوانتا ناموبے کے کچھ قیدی چند صحابہؓ کے ساتھ جیپ میں سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک پہاڑی علاقے سے گزر رہے ہیں۔ اچانک جیپ ایسے مقام پر آگئی جہاں جیپ کے الٹنے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ جیپ میں سوار لوگ اس خطرے کو محسوس کرتے ہی جیپ سے اتر گئے اور جیپ کو پھسلنے سے روکنے کے لیے جیپ کے پہیوں کے آگے پتھر رکھنے کے لیے پتھرتلاش کرنے لگے۔ وہ پتھر لے کر لوٹے تو گوانتاناموبے کے قیدیوں نے دیکھا کہ صحابہ کرامؓ جیپ کے پہیوں کے آگے سر رکھے لیٹے ہوئے ہیں اس سے انہیں معلوم ہوگیا کہ صحابہؓ کی طرح نہ کوئی ہوا ہے نہ ہوگا۔ صحابہؓ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسی محبت تھی ایسی محبت نہ کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ہے نہ ہوگی۔

No comments:

Post a Comment