انگلیاں فگار ہیں نہ خامہ خونچکاں
مظفر الحق
-ہماری صحافتی تاریخ جو کوئی ایسی طولانی نہیں کہ اسے طول شب فراق سے ملا سکیں لیکن اتنی نا گفتنی اور مختصر بھی نہیں کہ جو روز وصل کا اختصار قرار دے سکیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم۔ اس راہ میں جن کا جگر لہو ہوا اور انگلیاں فگار، ان میں مولانا محمّد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفرعلی خان کا نام سرفہرست ہے۔ حسن اتفاق ہے کہ تینوں کے نام کے ساتھ مولانا لگا ہوا ہے اور تینوں باریش، تینوں مسلم یو نیورسٹی علیگڑھ کے فارغ التحصیل، نہ ان میں کوئی سکّہ بند نعرہ باز تھا نہ ہی سرخ و سفید جعلی انقلابی، نہ کوئی ملمع ساز آزاد خیالی کا علمبردار فسطائی۔ وہ کسی دینی مدرسہ کے ذہنی حصار میں رہی، نہ مشنری اسکولوں کی مخصوص ذہنی ساخت کے حامل۔ پھر بھی ہماری صحافت کے افق پہ چمکنے والے تابناک ستارے ہیں۔ جنہیں اپنی اسلامی شناخت اور دینی نسبت پہ ہمیشہ فخر رہا۔ اور ملّت کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے وہ قرض بھی چکائے جو فرض کفایہ ضرور تھے۔ وہ نہ چکاتے تو پوری قوم مقروض اور مجرم رہتی۔
بی اماں کا لاڈلا، علیگڑھ کی آبرو اور آکسفورڈ کا دلارا، زبان و قلم کا دھنی، انگریزی اور اردو تحریر پہ یکساں قدرت رکھنے والا محمّد علی جوہر قید و بند اور ابتلاءو آزمائش کی راہوں سے ہوتے ہوئے پیوند خاک قدس ہوا ”یہ رتبہ بلند ملا جس کو، مل گیا“ کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہندوستان اس کی آزاد فطرت کے لیے قابل قبول نہ تھا ۔
مولانا حسرت موہانی جن کی رائے کا احترام قائداعظم بھی کرتے تھے جو جیل میں چکّی کی مشقّت کے ساتھ مشق سخن کرتے رہے اور اردو غزل کو نئی جہت اور حیات نو دے کر رئیس المتغزلین کہلائی، برصغیر کی ہندو مسلم بنیاد پہ تقسیم کے اولین علمبردار بنی، آزادی کی جنگ میں اپنا سب کچھ لٹانے اور کڑی سزا و تعذیب بھگتانے کے باوجود انکساری اور سادگی کا پیکر رہے قیام پاکستان کے بعد اپنے خوابوں کی سرزمین کا دورہ کرنے کے باوصف بھی ہندوستان ہی میں رہنا پسند کیا کیوں کہ وہاں مسلمانوں کا کوئی رہنما نہیں تھا جو ان کے ساتھ پیمان وفا نبھاتا، سب پاکستان کی نعمتوں سے فیضیاب ہونے یہاں آ چکے تھے۔ ع نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
مولانا ظفر علی خان حقے کی نے تھامی، اپنے زمیندار کو سینے سے لگائے وہیں پرانی انارکلی کے نکّڑ پہ اپنے ہاتھ میں قلم تھامے آخری سانس تک نبرد آزما رہے اور قادیانی فتنہ سامانی کا مقابلہ اپنی بے سروسامانی سے کرتے رہے لیکن زبان حال سے کہہ رہے تھی، ”ہم ہی اٹھے تھے بن کے صدائے جرس کبھی۔ اب کیا غبار بن کے چلیں کارواں کے ساتھ۔ جب دنیا سے اٹھے تو ملت کے اس حدی خواں کا نوحہ لکھنے کو بس ایک شورش کاشمیری رہ گیا۔ یہ اکابر ثلاثہ جو سیاست کی آن اور صحافت کی آبرو تھے جب دنیا سے رخصت ہوئے تو نہ ان کی ملکیت میں بیش قیمت چھاپہ خانے تھے نہ مختلف ناموں سے بہت سے ڈیکلریشن، نہ ان کے بنکوں میں زر کثیر تھا نہ ہی ان کی بلند و بام عمارات اور وسیع و عریض قطعات اراضی۔ لیکن جو رتبہ بلند ان کی قلندری اور تہی دستی عطا کر گیا وہ قارون کے خزانے بھی سوختنی اور فروختنی قلم پاروں کے بدلے میں نہیں دے سکتے
اردو صحافت کے یہ تین عبقری اس لیے یاد آ گئے کہ اگلے روز ایک ٹاک شو کے شرکاءنے انکشاف کیا کہ کوئی نامور لکھاری پانچ مختلف ناموں سے اپنے ممدوحین کے حسب فرمائش لکھ کر ایک لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان والے درویش صفت ڈاکٹر نذیر احمد شہید جو اس خطّے کے بڑے بڑے سرداروں اور پشتینی جاگیرداروں کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اورجنہیں پیپلز پارٹی کے دور اول کی جمہوریت اور اس وقت کے گورنر کھر کی سفاکیت چاٹ گئی، ایسے صحافیوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ان کا قلم ازار بند ڈالنے کے لیے ہے۔ شاید وہ سانچے ہی ٹوٹ گئے جس میں با ضمیر قلم ڈھلا کرتے تھے یا پھر قلم کی عصمت کا تصوّر بدل کر اس بازار کی جنس کی طرح ہوگیا ہے جس کے بستر پہ ہر رات شب زادے بدل جاتے ہیں۔ یا پھر بستر کی ایک ایک شکن کے کئی کئی شریک ہوتے ہیں۔
وقت کے ساتھ موقف اور نظریہ بدلتے یہ مرغان باد نما شاید اس احساس سے عاری ہیں کہ زبان کا گوشہ اور قلم کا شوشہ فروختنی ہو جائے تو انسان گوئٹے کا فاوسٹ بن جاتا ہے اور اس کا مقام بیسوا سے بھی پست تر ہو جاتا ہے۔ کہ جب وہ خود کو بیچتی ہے تو ایک جسم کا سودا ہوتا ہے اور جب ایک صحافی یا ادیب کا قلم بکتا ہے تو وہ جمہوریت کی روح اور قوم کا ضمیر بیچتا ہے اور جو بھی اسے پڑھ کر گمراہ ہوتا ہے اس کا عذاب جاریہ ان کے نامہ اعمال میں بھی درج ہوتا ہے ۔ غالب کا شعر ہے
حال دل لکھوں کب تک، جاوں ان کو دکھلاوں
انگلیاں فگار اپنی، نامہ خونچکاں اپنا
اب تو لگتا ہے نہ کسی کی انگلیاں فگار ہوتیں نہ ہی خامہ خونچکاں بلکہ اب تو بہت سے قلم بردار فخریہ کہتے ہوں گے۔ انگلیاں طلائی ہیں خامہ نقرئی اپنا۔
No comments:
Post a Comment