حضرت شماس ؓ بن عثمان مخزومی
-
طالب ہاشمی
عثمان بن شرید (بن ہرمی بن عامر بن مخزوم) مخزومی قریش کے کھاتے پیتے لوگوں
میں سے تھا اور رئیسِ مکہ ربیعہ بن عبدِ شمس کا داماد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے
اسے فرزند عطا کیا تو اس نے اس کا نام اپنے ہی نام پر عثمان رکھا، لیکن اس
نہالِ تازہ کو خالقِ کائنات نے ایسے حسن وجمال سے نوازا کہ لوگ اس کو شماس
(روئے تاباں) کہہ کر پکارنے لگے، یہاں تک کہ کسی کو اس کا اصلی نام یاد ہی
نہ رہا۔
شماس کا ابھی عہدِ طفلی تھا کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ماں صفیہ بنتِ ربیعہ پر قیامت ٹوٹ پڑی، لیکن شماسؓ کے ماموں عتبہ بن ربیعہ نے بیوہ بہن اور یتیم بھانجے کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور ان کو عثمان بن شرید کی کمی چنداں محسوس نہ ہونے دی۔ شماس ماموں اور ماں کے زیر سایہ ہی عنفوانِ شباب کو پہنچے۔ شماس کے سیاہ چمکیلے بال، موتیوں جیسے دانت، گورا چٹا رنگ، ستواں ناک، غلافی آنکھیں، کتابی چہرہ، ایسے خدوخال نہیں تھے کہ دیکھنے والوں کو مسحور نہ کردیتے۔ ماں اور ماموں دونوں شماس پر سو جان سے فدا تھے اور انہوں نے ان کو بڑے ناز ونعم سے پالا تھا۔ ایک مرتبہ مکہ میں ایک خوبرو نصرانی (یاآتش پرست) وارد ہوا۔ لوگوں میں اس کے رنگ روپ اور حسنِ صورت کا چرچا پھیلا تو عتبہ نے ایک دن اپنے بھانجے (شماس) کو اس کے ساتھ لاکھڑا کیا اور لوگوں سے کہا کہ ذرا غور سے دیکھو، میرا بھانجا حسن وجمال میں اس اجنبی سے بڑھ کر ہے یا نہیں؟ دونوں کو یکجا دیکھ کر اہلِ مکہ کی آنکھیں کھل گئیں، شماس کے حسن وجمال کے سامنے اجنبی کے حسن وجمال کو کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ عثمان بن عثمان اسی دن سے شماس کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس لقب نے اتنی شہرت پائی کہ لوگ ان کے اصل نام کو بھول گئے۔
شماسؓ بھی انیس بیس برس کے پیٹے میں تھے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ِحق کا آغاز فرمایا۔ شماس کو اللہ تعالیٰ نے حسنِ صورت کے ساتھ حسنِ سیرت سے بھی نوازا تھا، ان کے کان جونہی دعوت ِتوحید سے آشنا ہوئے انہوں نے کسی تامل کے بغیر اس پر لبیک کہا۔ ماں بھی نہایت نیک بخت خاتون تھیں، وہ بھی اپنے فرزندِ سعید کے ساتھ نعمتِ اسلام سے بہرہ یاب ہوگئیں۔ عتبہ بن ربیعہ نے بہن اور بھانجے کو بہتیرا سمجھایا کہ آبائی مذہب ترک نہ کرو، لیکن وہ دونوں جس جادہ ¿ مستقیم پر گامزن ہوچکے تھے اس سے منہ موڑنا انہوں نے کسی صورت میں گوارا نہ کیا۔
یہ بڑا پُرآشوب زمانہ تھا اور دعوتِ حق قبول کرنا گرداب ِبلا میں پھنسنے کے مترادف تھا۔ مشرکینِ قریش کو کسی مسلمان کا چین سے بیٹھنا گوارا نہ تھا۔ جوں جوں اسلام کی دعوت پھیلتی جاتی تھی ان کی آتشِ غضب اور تیز ہوتی جاتی تھی۔ جور و تعدی کا کوئی حربہ نہ تھا جو انہوں نے اہلِ حق پر نہ آزمایا ہو۔ ان کے دست ِتظلم سے صفیہؓ بنتِ ربیعہ اور شماسؓ بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ جب کفار کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو حبش کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ حضرت شماسؓ بھی اپنی والدہ کو ساتھ لے کر بہت سے دوسرے بلاکشانِ اسلام کی طرح ہجرت کرکے حبش چلے گئے اور کئی سال وہاں مقیم رہ کر غریب الوطنی کی مصیبتیں جھیلتے رہے۔
مہاجرینِ حبشہ میں سے ایک جماعت تو حضرت جعفر طیارؓ بن ابی طالب کے ساتھ غزوہ ¿ خیبر تک حبشہ ہی میں رہے، البتہ ابن اسحاقؒ کی روایت کے مطابق چالیس کے لگ بھگ مسلمان مختلف اوقات میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرتِ الی المدینہ سے پہلے مکہ واپس آگئے۔ ان واپس آنے والوں میں حضرت شماسؓ اور ان کی والدہ بھی تھیں، لیکن مکہ میں ان کو واپس آئے ہوئے زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ ہجرت ِمدینہ کا اذن ہوگیا۔ حضرت شماسؓ اب والدہ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ اس طرح ان کو ذوالہجرتین (دو ہجرتیں کرنے والے) کا شرف حاصل ہوگیا۔
حضرت شماسؓ کو مدینہ منورہ میں حضرت مبشرؓ بن عبدالمنذر انصاری نے اپنا مہمان بنایا۔ ہجرت کے چند ماہ بعد جب سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخاة قائم فرمائی تو حضرت شماسؓ کو غسیل الملائکہ حضرت حنظلہؓ بن ابی عامر انصاری کا اسلامی بھائی بنایا۔
رمضان المبارک 2 ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا تو حضرت شماسؓ ان تین سو تیرہ سرفروشوں میں شامل تھے جو کفر کی مہیب طاغوتی قوت سے محض اللہ کے بھروسے پر بھڑگئے۔ میدانِ جنگ میں ان کے دو حقیقی ماموں عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ مخالف صفوں میں تھے لیکن حضرت شماسؓ کے نزدیک راہِ حق میں دنیوی رشتے ناتے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے۔ وہ مشرکین کے خلاف اس جوش اور وارفتگی سے لڑے کہ جانبازی کا حق ادا کردیا۔
3 ہجری میں وہ غزوہ احد میں بھی بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اور مردانہ وار دادِ شجاعت دی۔ لڑائی کے دوسرے مرحلے میں ایک اتفاقی غلطی سے مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب صرف چند جاں نثار رہ گئے۔ ان جاں نثاروں میں حضرت شماسؓ بھی تھے۔ کفار بار بار رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نرغہ کرتے تھے اور آپ کے جاں نثار ان کو بزور شمشیر پیچھے ہٹادیتے تھے۔ اپنے آقا ومولا (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خطرے میں دیکھ کر حضرت شماسؓ کے جسم میں غضب کی چستی اور قوت آگئی تھی۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں، آگے پیچھے پھر رہے تھے اور ان کی تلوار برقِ بے اماں بن کر کافروں پر گررہی تھی۔ اس وقت وہ دنیا و مافیہا سے بالکل بے خبر تھے۔ دھن تھی تو صرف یہی کہ کوئی مشرک، رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہ پھٹکنے پائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف نظر اٹھا کر دیکھتے شماسؓ کو سربکف، کفار سے نبرد آزما پاتے۔ انہوں نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھال بنا لیا تھا اور کفار کے ہر وار کو بڑھ کر اپنے جسم پر لے لیتے تھے۔ یہاں تک کہ زخموں سے چور چور ہوکر گرگئے۔ لڑائی ختم ہوئی اور شہیدوں اور زخمیوں کی تلاش شروع ہوئی تو شماسؓ اس حالت میں ملے کہ جسم کا کوئی حصہ زخموں سے خالی نہ تھا، لیکن ابھی سانس چل رہی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ انہیں اٹھاکر مدینے لے جاو اور ان کا علاج کرو۔ چنانچہ وہ مدینے لائے گئے جہاں حضرت اُم سلمہ مخزومیہؓ نے ان کی تیمارداری کا فرض انجام دیا، لیکن حضرت شماسؓ کی حالت علاج معالجہ اور تیمارداری کی حد سے گزر چکی تھی۔ صرف ایک رات اور ایک دن زندہ رہے۔ اس دوران میں نہ کچھ کھایا اور نہ پیا، اس کے بعد اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ اس وقت ان کی عمر چونتیس برس کی تھی۔ اولاد میں ایک صاحبزادے عبداللہ اور ایک صاحبزادی اُم حبیب تھیں۔ یہ دونوں لاولد فوت ہوئے۔ اس لیے حضرت شماسؓ کی نسل نہیں چلی۔
حضرت شماسؓ کی شہادت کے بعد ان کی میت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق میدانِ احد میں لائی گئی اور جن خون آلود کپڑوں میں انہوں نے شہادت پائی تھی انہی میں اس شہیدِ راہِ حق کو احد کے گنجِ شہیداں میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ (ایک روایت میں ان کی تدفین بقیع میں بیان کی گئی۔ واللہ اعلم)
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کا ذکر کرتے وقت فرمایا کرتے تھی: ماوجدت شماس شبہا الاالجُنّتہ یعنی میں شماس کے لیے سپر کے سوا کوئی تشبیہ نہیں پاتا.... ایک روایت میں ”الجُنّتہ“ کے بجائے ”الجُبّتہ“ کا لفظ ہے جس کے معنی ”زرہ“ کے ہیں، یعنی میں شماس کے لیے زرہ کے سوا کوئی تشبیہہ نہیں پاتا۔
حضرت شماسؓ نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سپر بنایا یا زرہ، بہرصورت انہوں نے اپنی جان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کردی۔
یہ حضرت شماسؓ جیسے سرفروش ہی تھے جنہوں نے نخلِ اسلام کو اپنے خون سے سینچا۔ ملتِ اسلامیہ ان جوانمردوں پر تاابد فخر کرتی رہے گی۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہ
شماس کا ابھی عہدِ طفلی تھا کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ماں صفیہ بنتِ ربیعہ پر قیامت ٹوٹ پڑی، لیکن شماسؓ کے ماموں عتبہ بن ربیعہ نے بیوہ بہن اور یتیم بھانجے کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور ان کو عثمان بن شرید کی کمی چنداں محسوس نہ ہونے دی۔ شماس ماموں اور ماں کے زیر سایہ ہی عنفوانِ شباب کو پہنچے۔ شماس کے سیاہ چمکیلے بال، موتیوں جیسے دانت، گورا چٹا رنگ، ستواں ناک، غلافی آنکھیں، کتابی چہرہ، ایسے خدوخال نہیں تھے کہ دیکھنے والوں کو مسحور نہ کردیتے۔ ماں اور ماموں دونوں شماس پر سو جان سے فدا تھے اور انہوں نے ان کو بڑے ناز ونعم سے پالا تھا۔ ایک مرتبہ مکہ میں ایک خوبرو نصرانی (یاآتش پرست) وارد ہوا۔ لوگوں میں اس کے رنگ روپ اور حسنِ صورت کا چرچا پھیلا تو عتبہ نے ایک دن اپنے بھانجے (شماس) کو اس کے ساتھ لاکھڑا کیا اور لوگوں سے کہا کہ ذرا غور سے دیکھو، میرا بھانجا حسن وجمال میں اس اجنبی سے بڑھ کر ہے یا نہیں؟ دونوں کو یکجا دیکھ کر اہلِ مکہ کی آنکھیں کھل گئیں، شماس کے حسن وجمال کے سامنے اجنبی کے حسن وجمال کو کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ عثمان بن عثمان اسی دن سے شماس کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس لقب نے اتنی شہرت پائی کہ لوگ ان کے اصل نام کو بھول گئے۔
شماسؓ بھی انیس بیس برس کے پیٹے میں تھے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ِحق کا آغاز فرمایا۔ شماس کو اللہ تعالیٰ نے حسنِ صورت کے ساتھ حسنِ سیرت سے بھی نوازا تھا، ان کے کان جونہی دعوت ِتوحید سے آشنا ہوئے انہوں نے کسی تامل کے بغیر اس پر لبیک کہا۔ ماں بھی نہایت نیک بخت خاتون تھیں، وہ بھی اپنے فرزندِ سعید کے ساتھ نعمتِ اسلام سے بہرہ یاب ہوگئیں۔ عتبہ بن ربیعہ نے بہن اور بھانجے کو بہتیرا سمجھایا کہ آبائی مذہب ترک نہ کرو، لیکن وہ دونوں جس جادہ ¿ مستقیم پر گامزن ہوچکے تھے اس سے منہ موڑنا انہوں نے کسی صورت میں گوارا نہ کیا۔
یہ بڑا پُرآشوب زمانہ تھا اور دعوتِ حق قبول کرنا گرداب ِبلا میں پھنسنے کے مترادف تھا۔ مشرکینِ قریش کو کسی مسلمان کا چین سے بیٹھنا گوارا نہ تھا۔ جوں جوں اسلام کی دعوت پھیلتی جاتی تھی ان کی آتشِ غضب اور تیز ہوتی جاتی تھی۔ جور و تعدی کا کوئی حربہ نہ تھا جو انہوں نے اہلِ حق پر نہ آزمایا ہو۔ ان کے دست ِتظلم سے صفیہؓ بنتِ ربیعہ اور شماسؓ بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ جب کفار کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو حبش کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ حضرت شماسؓ بھی اپنی والدہ کو ساتھ لے کر بہت سے دوسرے بلاکشانِ اسلام کی طرح ہجرت کرکے حبش چلے گئے اور کئی سال وہاں مقیم رہ کر غریب الوطنی کی مصیبتیں جھیلتے رہے۔
مہاجرینِ حبشہ میں سے ایک جماعت تو حضرت جعفر طیارؓ بن ابی طالب کے ساتھ غزوہ ¿ خیبر تک حبشہ ہی میں رہے، البتہ ابن اسحاقؒ کی روایت کے مطابق چالیس کے لگ بھگ مسلمان مختلف اوقات میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرتِ الی المدینہ سے پہلے مکہ واپس آگئے۔ ان واپس آنے والوں میں حضرت شماسؓ اور ان کی والدہ بھی تھیں، لیکن مکہ میں ان کو واپس آئے ہوئے زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ ہجرت ِمدینہ کا اذن ہوگیا۔ حضرت شماسؓ اب والدہ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ اس طرح ان کو ذوالہجرتین (دو ہجرتیں کرنے والے) کا شرف حاصل ہوگیا۔
حضرت شماسؓ کو مدینہ منورہ میں حضرت مبشرؓ بن عبدالمنذر انصاری نے اپنا مہمان بنایا۔ ہجرت کے چند ماہ بعد جب سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخاة قائم فرمائی تو حضرت شماسؓ کو غسیل الملائکہ حضرت حنظلہؓ بن ابی عامر انصاری کا اسلامی بھائی بنایا۔
رمضان المبارک 2 ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا تو حضرت شماسؓ ان تین سو تیرہ سرفروشوں میں شامل تھے جو کفر کی مہیب طاغوتی قوت سے محض اللہ کے بھروسے پر بھڑگئے۔ میدانِ جنگ میں ان کے دو حقیقی ماموں عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ مخالف صفوں میں تھے لیکن حضرت شماسؓ کے نزدیک راہِ حق میں دنیوی رشتے ناتے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے۔ وہ مشرکین کے خلاف اس جوش اور وارفتگی سے لڑے کہ جانبازی کا حق ادا کردیا۔
3 ہجری میں وہ غزوہ احد میں بھی بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اور مردانہ وار دادِ شجاعت دی۔ لڑائی کے دوسرے مرحلے میں ایک اتفاقی غلطی سے مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب صرف چند جاں نثار رہ گئے۔ ان جاں نثاروں میں حضرت شماسؓ بھی تھے۔ کفار بار بار رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نرغہ کرتے تھے اور آپ کے جاں نثار ان کو بزور شمشیر پیچھے ہٹادیتے تھے۔ اپنے آقا ومولا (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خطرے میں دیکھ کر حضرت شماسؓ کے جسم میں غضب کی چستی اور قوت آگئی تھی۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں، آگے پیچھے پھر رہے تھے اور ان کی تلوار برقِ بے اماں بن کر کافروں پر گررہی تھی۔ اس وقت وہ دنیا و مافیہا سے بالکل بے خبر تھے۔ دھن تھی تو صرف یہی کہ کوئی مشرک، رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہ پھٹکنے پائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف نظر اٹھا کر دیکھتے شماسؓ کو سربکف، کفار سے نبرد آزما پاتے۔ انہوں نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھال بنا لیا تھا اور کفار کے ہر وار کو بڑھ کر اپنے جسم پر لے لیتے تھے۔ یہاں تک کہ زخموں سے چور چور ہوکر گرگئے۔ لڑائی ختم ہوئی اور شہیدوں اور زخمیوں کی تلاش شروع ہوئی تو شماسؓ اس حالت میں ملے کہ جسم کا کوئی حصہ زخموں سے خالی نہ تھا، لیکن ابھی سانس چل رہی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ انہیں اٹھاکر مدینے لے جاو اور ان کا علاج کرو۔ چنانچہ وہ مدینے لائے گئے جہاں حضرت اُم سلمہ مخزومیہؓ نے ان کی تیمارداری کا فرض انجام دیا، لیکن حضرت شماسؓ کی حالت علاج معالجہ اور تیمارداری کی حد سے گزر چکی تھی۔ صرف ایک رات اور ایک دن زندہ رہے۔ اس دوران میں نہ کچھ کھایا اور نہ پیا، اس کے بعد اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ اس وقت ان کی عمر چونتیس برس کی تھی۔ اولاد میں ایک صاحبزادے عبداللہ اور ایک صاحبزادی اُم حبیب تھیں۔ یہ دونوں لاولد فوت ہوئے۔ اس لیے حضرت شماسؓ کی نسل نہیں چلی۔
حضرت شماسؓ کی شہادت کے بعد ان کی میت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق میدانِ احد میں لائی گئی اور جن خون آلود کپڑوں میں انہوں نے شہادت پائی تھی انہی میں اس شہیدِ راہِ حق کو احد کے گنجِ شہیداں میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ (ایک روایت میں ان کی تدفین بقیع میں بیان کی گئی۔ واللہ اعلم)
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کا ذکر کرتے وقت فرمایا کرتے تھی: ماوجدت شماس شبہا الاالجُنّتہ یعنی میں شماس کے لیے سپر کے سوا کوئی تشبیہ نہیں پاتا.... ایک روایت میں ”الجُنّتہ“ کے بجائے ”الجُبّتہ“ کا لفظ ہے جس کے معنی ”زرہ“ کے ہیں، یعنی میں شماس کے لیے زرہ کے سوا کوئی تشبیہہ نہیں پاتا۔
حضرت شماسؓ نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سپر بنایا یا زرہ، بہرصورت انہوں نے اپنی جان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کردی۔
یہ حضرت شماسؓ جیسے سرفروش ہی تھے جنہوں نے نخلِ اسلام کو اپنے خون سے سینچا۔ ملتِ اسلامیہ ان جوانمردوں پر تاابد فخر کرتی رہے گی۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہ
No comments:
Post a Comment