غربت و افلاس کے سوداگر
از۔۔۔ ایاز الشیخ گلبرگہ
مشتاق یوسفی صاحب نے اپنے ایک مقالے میں لکھا تھا کہ جھوٹ تین قسم کا ہوتا ہے،جھوٹ،سفید جھوٹ،اور اعداوشمار۔یہ تیسرا جھوٹ حکمرانوں کا ابدی اور دائمی حق ہے جس کا وہ بڑی کثرت اور شوق سے استعمال کرتے ہیں اور شائد اسی کے حوالے سے پ وطن عزیز کی ترقی پچھلے سال تقریبا 6.6 رہی لیکن اس کے باوجود غربت اور بے روز گاری میں اضافہ ہوا ہے ا اسی سرکار کے اعدادوشمار کے مطابق (ہندوستان میں اس وقت 37 فیصدعوام غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزر رہی ہے (Times of India 15 Dec.2009 ) جبکہ غیر سرکاری اعدادوشمارکے مطابق یہ 75 فیصدہے (بحوالہ wakeupcall.org)۔ غربت کی لائن کا مطلب حکومت ہند کی وضع کردہ تعریف کے مطابق 276 روپئے ماہانہ آمدنی ۔۔۔ہندوستان اور تمام دنیا میں عوامی غربت میں اضافے سے خود کشیوں،جرائم،منشیات کے استعمال اوربھیکاریوں میں اضافہ ہوا ہے جو آج کے جدید ترین انسانی دور کے چہرے پر بھیانک کلنک ہیں۔ عالمی زرائع پیدارار کی بلند ترین پیداراری صلاحیت کے باوجود آج عالمی جنتا بنیادی ضرویات سے محروم سسک رہی ہے اور حکمران اس کو زائد پیدارار کا بحران قرار دے کر پیداراری زرائع اور پیداوار کو تباہ کر رہے ہیں، امریکہ،جاپان اور بہت سے یورپی ممالک میں آج بے شمار اناج، دوھ، مکھن،گندم وغیرہ بے دریغ ضائع کیا جاتا ہے تا کہ منڈی کے نظام کو بچایا جاے بہت سی صنعتیں بند کر کے اور بقیہ فرموں میں برطرفیوں سے پیداوار کم اور بیروز گاری میں انتہائی اضافہ ہوا ہے جو مسلسل بڑھ رہاہے۔ دوسری طرف بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے ۔سخت سردی میں اور تپتی دھوپ میں آج میں ہرطرف بھیک مانگتے بچے، بوڑھے، جوان مرد اور عورتیں،نظر آتے ہیں جنکی شرح میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے یہ سب کے سب پیشہ ور بھکاری نہیں ہو سکتے۔ یہ نہ صرف حکمرانوں کے جھوٹے اعدادوشمار کے بلند د عواوں کے پول کھولتاہے اور انکی اس مسلہ پر دوسرے سماجی مسائل کی طرح لاپروائی اور سفاکی نظر آتی ہے۔
سامراجی آقاوں نے افریقہ کو ایشیا سے بھی زیادہ غربت کی جہنم بنا رکھا ہے جہاں عوام کے لیے صاف پانی پینا اور پیٹ بھر کر کھانا دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے عالمی اجارہ داریوں اور مقامی حکمرانوں کا ان سے تعاون نے اس پورے خطہ کوبھوک ننگ افلاس کی زلت میں ڈبو کر یہاں انسان کو زندہ رہنے کی عبرت ناک سزا دی ہے اور خود یہاں کا سونا،ہیرے جوہرات اور قدرتی وسائل کی بڑی بے دردی سے کھلے عام لوٹ مار کر رہے ہیں۔ یہی عالمی اجارہ داریاں اور ان کے نمائندے آج اس غربت کو بھی بیوپار بناے ہوے ہیں جس طرح اقوام متحدہ چوروں کا باورچی خانہ ہے اسی طرح اس کے تمام ادارے بھی عالمی عوام پرمالیاتی استحصال کے جوازہیں جوں جوں عالمی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام سنجیدہ بحرانوں کے گرداب میں دھنستا جا رہا ہے اسی طرح اس کے تمام اداروں کے بھیانک استحصالی روپ نمایاں ہوتے جا رہے ہیں جو ہر روز پہلے سے زیادہ بے رحیم اور سفاک ہیں۔ آج کل یورپ میں یونیسف اور دوسرے تمام لوکل اور عالمی مدد کے ادارے فنڈ زاکھٹا کرنے کے لیے خوب اشتہار بازی کر رہے ہیں جس پر ہمشہ کی طرح اس بار بھی اشتہاروں پر غربت سے سسکتے بلکتے افریقہ اور خاص طور پر ان کے بچوں کو بھرپور طریقہ سے استعمال کیا جا رہا ہے۔اور اب ھیتی کے زلزلہ زندگان ۔۔ان معصوم غربت کے مارے بچوں کی تصوریں اپنے اشتہاروں پر نمایاں اور واضح چھاپ کرنیچے لکھا ہے ،ایک یا دو یورو میں انکی مدد کریں،دوستی کا مطلب مدد ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ نیچے موٹے حروف میں بنکوں کے اکاونٹ نمبر لکھے ہیں جس میں لوگوں کو اپنے مالی عطیات جمع کرانے کی ترغیب دی گی ہے اس کے علاوہ انکی ویب سائٹ بھی ہیں جوان کے خود ساختہ کارناموں سے بھری پڑی ہیں اور یہاں بھی آخیر میں اکاونٹ نمبر ہی ہیں یہ ان عام لوگوں کی مالی مدد سے سب سے پہلے اپنے اداروں کے دفاتر کا کرایہ جو اب انہوں نے بہت سارے خرید لیے ہیں اور ان کے خرچے پورے ہوتے ہیں پھر ان کی اپنی موٹی موٹی تنخواہیں اور ملازمین کی تنخواہیں نکالی جاتی ہیں،پراپیگنڈے کے اخراجات بھی اسی عوامی مالی مدد میں سے نکلے جاتے ہیں۔افسران یا عہدے داروں کے سفر کے تمام اخراجات بھی اسی میں سے پورے کیے جاتے ہیں،سرکاری اور غیر سرکاری مہمانوں کی دعوتیں اور ان کے تمام خرچے بھی انہی فنڈز میں سے کیے جاتے ہیں اس طرح حاصل شدہ عوامی فنڈزاپنی اصل مقدار سے بہت ہی کم رہ جاتے ہیں اور پھر یہ بچے کچے فنڈز اپنی مقررہ جگہ تک لے جانے میں ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی اس رقم میں سے منفی ہوجاتا ہے اور پھر یہ قلیل سی رقم یہ سامراجی ہلپ ادارے اپنے اعتماد کے افراد یا تنظموں کو آگے دیتے ہیں جو ان سامراجی ممالک کی تنظموں کے مفادات (جو اصل میں ان سامراجی ممالک کے ہی مفادات ہوتے ہیں) کا یہ اپنے ملکوں میں تحفظ کرنیکی یقین دہانی کراتے ہیں اور کرتے بھی ہیںیہ ان غریب ممالک میں NGO,Sکوبھیک دے کر سامراجی ممالک اپنی NGO,Sکے زریعے اپنا اثرورسوخ اور سرمایہ دارانہ عزائم کی تکمیل کرتے ہیں آگے سے یہ غریب ممالک کی این جی اوزکو ملے والی رقم کا زیادہ حصہ اپنے ذاتی مفادات پراور بدعنوانی سے ہڑپ کر جاتے ہیں اور پھر کچھ دیکھاوے کا رفاہی کاموں پر جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتا خرچ کرکے اس کا انتہائی پراپیگنڈہ کرتے ہیں تاکہ مزید آیندہ بھی بھیک ملے۔اور اس طرح ان تمام این جی اوز کایہ گھن چکر چلتا ہے جو دھوکہ دہی،بدعنوانی،اور عوام کے استحصال پر مبنی ہے۔ غریب ممالک کے غریب لوگ اگر زندگی کو مزید چند سا نس دینے کے لیے بھیک مانگتے ہیں اتو یہ کسی حد تک بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہ عالمی اجارہ دارانہ این جی اوزتو اس عالمی غربت کو بڑی سفاکی اور بے رحمی سے استعمال کر کے اسکا دھندہ کرتی ہیں اور اپنے سرمایوں کو بڑھوتی دیتی ہیں اور سامراجی ممالک کے مالیاتی اورسیاسی مفادات کا ترقی پذیر ملکوں میں تحفظ کرتی ہیں لیکن ان پر لیبل رفاے عامہ اور انسانی ہمدردی کا ہے جس کا یہ بڑے بھونڈے طریقے سے استعمال کرتی ہیں۔ عراق یا فلسطین سے جنگ میں سامراجی امریکی و اسرائیلی جب بم پرسا رہے تھے معصوم مسلمان مرد عورتیں یہاں تک کے شیر خوار بچے شھید ہو رہے تھے اور یہ این جی او ز اپنے ہی حکمرانوں سے جنگ میں وقفے کی بڑی مزاحیہ خیز درخواست کر رہے تھے تاکے مسلمان کو کھانے پینے کی اشیا کی بھیک دی جاسکے اور یہ ان کو کھانا دینا چاہتے تھے یعنی یہ کھا کر مریں۔اور ہر سامراجی ظلم پر یہ ایسے ہی بے تکے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں جن کا عوام اور انسانوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ صرف ایک بے ہودہ پراپیگنڈہ ہوتاہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آج کیونکہ ان کے مالیاتی داتا سخت بحرانوں میں ہیں جس سے انکے سرمایے بھی کم ہو گے ہیں اس لیے انہوں نے اپنی بھیک کے کشکول بھی بڑے کر لیے ہیں اورعوام کے آگے پھیلاے ہوے ہیں حکمرانوں کے ہر ظلم کی تائید اور مکمل تعاون کرتے ہیں اور اپنے سرمایے میں اضافے کے لیے یہ آج منڈی میں سخت مقابلہ کر رہے ہیں کیونکہ اور بہت سے اس منڈی میں بھیکاری ہیں جن کا یہ بیوپار ہے جو غربت پر قائم ہے یہ کب چاہیں گیں کہ دنیا سے بھوک ننگ افلاس ختم ہوجو ان کے سرمایے اور عیاشی کی وجہ ہے یہ غربت ختم کرنے کا ڈھونگ کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ اسی غربت پر پل رہے ہیں۔یہ غربت کے نہیں بلکہ اذیتی غربت کے طرف دار ہیں تا کہ ان کی تصوروں اورغربت سے مرتے انسانوں کی ویڈیوز دیکھ کر عام انسان دھل جاے اور ان کو پیسے دے بلکہ اور زیادہ پیسے دے اور ان کی دوکانداری پھلے پھولے ورنہ یہ دیوالیہ ہو کر ختم ہو جائیں گے جو یہ کھبی ہونا نہیں چاہتے اس کے لیے وہ سب کچھ کر گزریں گے آج کا دور بزنس مین کا دور ہے یہاں ہر چیز کا بزنس ہوتا ہے۔ضمیر کا،جسم کا،خواہشوں کا،جذبوں کا،احساسوں کا،رشتوں
کا،غربت کا،بچوں کا،قتل کا،جنگوں کا اور پھر امن کا بھی۔۔۔
ayazfreelance@gmail.com
کا،غربت کا،بچوں کا،قتل کا،جنگوں کا اور پھر امن کا بھی۔۔۔
ayazfreelance@gmail.com
No comments:
Post a Comment