برطانوی کلمہ خواں ، دیارِ مغرب میں حق کی پکار
عبدالرافع رسول
ایک تھنک ٹینک کی 2009 کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اسلامک شرعی کونسل کے تحت اس طرح کے کم سے کم 85 ادارے کام کر رہے ہیںاور گزشتہ تین سے پانچ برسوںمیں یہاں آنے والے کیسوں میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔برطانیہ میں یہ شرعی کونسلیں 1982 سے کام کر رہی ہیں جو صرف سول معاملات ہی کا حل نکالتی ہیں تاہم انہیںبرطانوی قانون کے مطابق نہ تو کسی طرح کے قانونی اختیارات حاصل ہیں اور نہ ہی یہ کسی طرح کی جرمانہ لگا سکتی ہیں۔28 سالہ برطانوی شہری عمر شیخ کا کہنا ہے کہ کاروبار میں جب ان کے اپنے برطانوی مسلم پارٹنر کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوا تو انہوں نے برطانوی عدالت کے بجائے شرعی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے نہ صرف میرے اسلامک اصول پورے ہوتے تھے بلکہ برطانوی عدالتوں کے مقابلے یہاں فیصلہ بھی جلدی اور سستا ہوا۔ شرعی عدالت میں انہیں انصاف مفت جب کہ برطانوی عدالتی نظام میں وقت کے ساتھ ساتھ ہزاروں پانڈ کا خرچا ہوتا۔
تقریب نیوز(تنا):مسائل کے شرعی حل کی جانب لوگوں کے رجحان کو دیکھتے ہوئے برطانوی وکلا ء کی کئی کمپنیوں نے اسے فائدے کا کاروبار سمجھ کر لوگوں کو شرعی مسائل پر مشورے دینے شروع کر دیئے ہیں۔شرعی کونسلوںکی طرف جانے والوں میںاکثرپچاس برس سے کم عمر کے لوگ ہیں جو برطانوی مسلمان تو ہیں لیکن اپنی اسلامی شناخت کو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اُردوکے مطابق اس رحجان کودیکھتے ہوئے برطانیہ میں شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے تاہم وہیں کئی گروپوں کی طرف سے اس کی مخالفت بھی کی جارہی ہے اوراس سسٹم کو ختم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
5کروڑ 10 لاکھ آبادی کے ساتھ انگلستان یونائٹڈ کنگڈم کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یورپی یونین میں انگلستان کی آبادی چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ ہے اور دنیا بھر میں 25ویں نمبر پر آتی ہے۔ فی مربع کلومیٹر آبادی کی گنجانیت 395 افراد ہے جو یورپی یونین میں مالٹا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔برطانیہ میں28 لاکھ مسلمان رہتے ہیںاور ان برطانوی مسلمانوں کا شرعی احکام پر عمل پیرہونا کوئی چھوٹی خوشخبری نہیںیاد رہے کہ برطانیہ میں انجام شدہ حالیہ تحقیقات کے مطابق اس ملک میں دن بدن مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ مذہبی ریسرچ سنٹر ’’ فیس مٹرز ‘‘نے اپنی انجام شدہ تحقیق میں اعلان کیا برطانیہ میںہر سال5 ہزارافرادکی تعداد سے مسلمانوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ واضح رہے کہ 9/11کے واقعہ کے بعد مغرب میںاسلام اور مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپگنڈہ کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد دین اسلام کو اجڑ قرار دیا جانا تھا مگر رپورٹیں شاہدہیں کہ دن بہ دن یورپ میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ فقط اسلام کے فطری بنیادی اصولوں وعقائد کی بنا پر ہے جو انسانوں کو اس دین سے قریب کررہی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ایک لاکھ کے قریب افراد اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو گئے ہیں۔ ان میں سفید فام خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ’’فیتھ میئرز آرگنائزیشن ‘‘کی رپورٹ کے مطابق 2001 تک 60 ہزار برطانوی باشندوں نے اسلام قبول کیا تھا جب کہ اب یہ تعداد 90 ہزار سے ایک لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ برس برطانیہ میں 5200 افراد نے اسلام قبول کیا۔ 122 نومسلموں سے کئے گئے سروے کے مطابق گزشتہ سال مسلمان ہونے والوں میں سے 56 فیصد سفید فام برطانوی باشندے ہیں اور ان میں 62 فیصد سفید فام خواتین بھی شامل ہیںاورمسلمان ہونے والوں کی اوسط عمر 27 سال ہے۔
رپورٹ کے مطابق نومسلم افراد کی بڑی تعداد نے شکوہ کیا ہے کہ انہیں مسلمان بننے کے فورا بعد اپنے خاندانوں کی جانب سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کا روّیہ بتدریج درست ہوتا گیا۔ نومسلموں کی ایک بڑی تعداد خود کو برٹش اور مسلمان تصور کرتی ہے اور اسے برطانوی معاشرے اور کلچر میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ یہ نومسلم سمجھتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے سے قبل ان کی زندگی بے مقصد تھی۔برطانیہ ان’’ کمیونٹیز‘‘ کا وطن ہے جو مسلم دنیا کے تقریبا ہر ملک سے تعلق رکھتی ہیں اور ہر کمیونٹی کی اپنی تاریخ، ثقافت اور روایات ہیں۔ سب سے بڑی ’’کمیونٹیز ‘‘جنوبی ایشیا سے آئی ہیں لیکن ان کے علاوہ عرب اور افریقی کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا، بلقان اور ترکی کے مسلمان بھی یہاں آباد ہیں۔ ایسے بھی کئی مسلمان ہیں جو دوسرے مذاہب سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔یہ کمیونٹیز پورے جزائر برطانیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور برطانیہ کی معاشی ثقافتی اور سیاسی زندگی کے ہر شعبے میں ان کی نمائندگی موجود ہے۔ چھوٹے کاروباروں سے ریسٹورینٹس، لاء اور اکائونٹنسی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی، نیشنل ہیلتھ سروس سے تدریس، ٹرانسپورٹ اور پبلک سروسز، سیاست اور میڈیا سے کھیل تک مسلمان برطانیہ کے کثیر النسل اور کثیر العقائد معاشرے میں ایک بیش بہا کردار ادا کر رہے ہیں۔مسلمان برطانیہ میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ انٹرنٹ سے لی گئیں معلومات کے مطابق برطانوی مسلمانوں کی تعداداب بڑھ کر2.8 ملین کے قریب ہو چکی ہے۔برطانیہ کی بے شمار مسلمان کمیونٹیز گویا نسلی پسِ منظر کا ایک خزانہ ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق 11.2 فی صد مسلمان 'سفید فام' 6.9 فی صد سیاہ فام ،سیاہ فام برطانوی، 74 فی صد ایشیائی، ایشیائی برطانوی اور 7.5 'دیگر' ہیں۔تقریبا 50 فی صد مسلمان برطانیہ ہی کی پیدائش ہیں اور 50 فی صد کی عمر 25 سال سے کم ہے۔مسلمانوں کی گنجان آبادی اگرچہ بڑے شہروں میں پائی جاتی ہے لیکن اب یہ کمیونٹیز برطانیہ بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔
برطانوی مسلمانوں کے روایتی کھانوں اور ان کے ملبوسات نے برطانوی ثقافت پر گہرا اثر پڑا ہے۔لوگوں کے خریداری اور کھانے پینے کے انداز بدل گئے ہیں اور وہ انوکھے نئے ذائقوں اور اجزاء سے متعارف ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں پہلا کری ہاؤس 1809 میں لندن میں کھلا اور آج وہ کھانے جنہیں ’انڈین‘کہا جاتا ہے قوم کے پسندیدہ کھانے بن چکے ہیں۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ ان کھانوں میں سے جو برطانیہ کے 'انڈین' ریسٹورینٹس میں پیش کئے جاتے ہیں ،درحقیقت زیادہ تر بنگلہ دیشی اور پاکستانی مسلمانوں کے تیار کردہ ہوتے ہیں۔ ترکی، لبنان اور مراکش کے روایتی کھانوں کی مقبولیت میں بھی اب اضافہ ہو رہا ہے۔مسلمانوں کے ملبوسات نے عالمی فیشن کو بھی متاثر کیا ہے۔ملبوساتی مارکیٹ میں مسلمانوں کی ملبوسات کی اپنی شاپس نے ایک خاصی بڑی جگہ بنا لی ہے۔ کثیر مسلمان آبادی والے بڑے شہروں جیسے بریڈ فورڈ، لیسٹر اور برمنگھم میں تو واقع یہی دیکھنے میں آتا ہے۔
برطانیہ کے مسلمان منظم انداز میں زندگی گزار رہے ہیں او روہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی نمائیدگی کیلئے مصروف تگ ودو ہیں ،تمام گروپوں میں مسلمان سب سے کم عمر ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق 34 فی صد مسلمان 16سال سے کم عمر ہیں۔ نوجوانوں اور طلبہ کی کئی تنظیمیں ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے وجود میں آچکی ہیں۔گزشتہ عشرے میں مسلمان برطانیہ میں عام سیاسی دھارے میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوتے رہے ہیں۔ مسلمان کونسلروں میئروں اور اراکین پارلیمنٹ کی تعداد روز افزوں ہے۔اور اس طرح یورپ بھر میں برطانیہ میں سب سے زیادہ مسلمان اراکین پارلیمنٹ ہیں۔برطانیہ میں کئی مسلمان فلاحی ادارے ہیں جو بنیادی طور پر مسلمان اکثریت والے ممالک اور ان خطوں کو جن کا برطانوی مسلمانوں سے تعلق ہو ہنگامی انسانی امداد اور ترقیاتی تعاون فراہم کرتے ہیں۔سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مشہور تنظیم ’’اسلامک ریلیف ‘‘ہے جو 1984 میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’’این جی او‘‘ کے طور پر وجود میں آئی۔ اسلامک ریلیف ’’ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی‘‘کی ممبر ہے جو بڑے پیمانے پر ہونے والی بین ا لاقوامی انسانی اپیلوں میں رابطے کا کام کرتی ہے۔ یہ 2004 کے ایشیائی سونامی اور2005 کے پاکستانی زلزلے جیسی تباہیوں سے نمٹنے میں بڑی موثر ثابت ہوئی ہے۔برطانیہ عالمی اسلامی سرمایہ کاری کے مرکز کی حیثیت اختیار کرنے کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ برطانوی بنک اب اسلامی بنکاری میں تقلید کر رہے ہیں اور لندن میں اب کسی بھی مغربی سرمایہ کاری مرکز کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں بنک اسلامی اصولوں پر مبنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے والی برطانوی فرمیں بھی اب اسلامی کاروباری خدمات کی فراہمی میں قیادت کر رہی ہیں جن میں انگلش کمرشل لا کو ایک منتخبہ قانون کی حیثیت دی گئی ہے۔
برطانیہ میں مسلمانوں کی تاریخ 1,000سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔جنوب مشرقی آئرلینڈ میں نویں صدی کے ایک بروچ سے جس پر بسم اللہ کندہ کیا ہوا تھا اور آٹھویں صدی میں شاہ اؤفا کے دور کے سکوں کی دریافت سے جن پر کلمہ شہادت کی مہر تھی، تاریخ کے اس کم جانے پہچانے دور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔البتہ برطانیہ میں مسلمانوں کا پہلا بڑا گروپ اٹھارویں صدی کی ابتدا سے پہلے تک نہیں آیا، یہ گروپ بھارت سے آیا تھا۔ اگلے 200سال میں تجارت اور کاروبار کی بدولت برطانیہ اور مسلم ممالک میں روابط بڑھے ،خاص طور پر جب برطانوی تجارتی جہازوں نے غیر ملکی عملے کو بھرتی کرنا شروع کیا۔ 1842ء تک تقریباً 3,000 مسلمان جنہیں’’لشکری ‘‘کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر سال برطانیہ آنے جانے لگے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے شادی کر لی اور کارڈف، لور پول، گلاسگو اور لندن جیسے شہروں میں بس گئے اسلامی عقیدے کی بڑھتی ہوئی کشش کچھ ایسی تھی کہ کئی ممتاز برطانوی مسلمان ہو گئے۔ ان میں ہیڈلی کے پانچویں بیرن اور ایک مشہورسِوِل انجینئر لارڈ ہیڈلی ،جنہوں نے کشمیر کے پہاڑی علاقے میں بارہ مولا اور سرینگر کے درمیان سڑک کی تعمیر کی تھی،ایک وکیل اور شاعرولیم کوئیلیم ،جنہوں نے برطانیہ کی پہلی مسجد بنائی اور ایک ناول نگار اور قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے محمد مارما ڈیوک پکتھال شامل تھے۔ برطانیہ کی پہلی باقاعدہ تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح ووکنگ، سرے میں 1889 میں ہوا۔مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی برطانیہ میں 1950 کی دہائی میں شروع ہوئی۔ تارکینِ وطن زیادہ تر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے تھے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد محنت کشوں کی کمی پوری کرنے کے لیے آئے تھے۔ وہ زیادہ تر لندن میں اندرونِ شہر علاقوں، مڈلینڈز کے صنعتی شہروں اور لنکاشائر، یا رکشائر اور اسٹریتھ کلائیڈ کے ان شہروں میں آباد ہوئے جو پارچہ بافی کے مرکز تھے۔آج برطانیہ میں رہنے والے مسلمان وسیع اور گونا گوں قومیتی اور ثقافتی پس منظر کے حامل ہیں۔ ان کی آبادی میں ایک خاصی تعداد اسلام قبول کرنے والے برطانویوں اور یورپی افراد کی ہے۔ مسلمان کمیونٹیز پورے برطانیہ میں پھیلی ہوئی ہیں البتہ لندن مانچسٹر، برمنگھم اور بریڈ فورڈ میں ان کی آبادی گنجان ہے۔
بہر حال مغرب میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداداور اس پر مستزاد یہ کہ برطانوی مسلمانوں کا اپنے تصفیہ طلب مسائل کاتصفیہ اور ان کا حل شرعی عدالتوں میں تلاش کرنا مسلم دنیا کو دعوت فکر فراہم کرتا ہے اور اس نیک رحجان کے نتیجے میں دنیائے اسلام پر کتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے محتاج وضاحت نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان حوالوں سے مسلمان ممالک اپنی ذمہ داری سے کبھی عہدہ برآںہوں گے؟
عبدالرافع رسول
ایک تھنک ٹینک کی 2009 کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اسلامک شرعی کونسل کے تحت اس طرح کے کم سے کم 85 ادارے کام کر رہے ہیںاور گزشتہ تین سے پانچ برسوںمیں یہاں آنے والے کیسوں میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔برطانیہ میں یہ شرعی کونسلیں 1982 سے کام کر رہی ہیں جو صرف سول معاملات ہی کا حل نکالتی ہیں تاہم انہیںبرطانوی قانون کے مطابق نہ تو کسی طرح کے قانونی اختیارات حاصل ہیں اور نہ ہی یہ کسی طرح کی جرمانہ لگا سکتی ہیں۔28 سالہ برطانوی شہری عمر شیخ کا کہنا ہے کہ کاروبار میں جب ان کے اپنے برطانوی مسلم پارٹنر کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوا تو انہوں نے برطانوی عدالت کے بجائے شرعی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے نہ صرف میرے اسلامک اصول پورے ہوتے تھے بلکہ برطانوی عدالتوں کے مقابلے یہاں فیصلہ بھی جلدی اور سستا ہوا۔ شرعی عدالت میں انہیں انصاف مفت جب کہ برطانوی عدالتی نظام میں وقت کے ساتھ ساتھ ہزاروں پانڈ کا خرچا ہوتا۔
تقریب نیوز(تنا):مسائل کے شرعی حل کی جانب لوگوں کے رجحان کو دیکھتے ہوئے برطانوی وکلا ء کی کئی کمپنیوں نے اسے فائدے کا کاروبار سمجھ کر لوگوں کو شرعی مسائل پر مشورے دینے شروع کر دیئے ہیں۔شرعی کونسلوںکی طرف جانے والوں میںاکثرپچاس برس سے کم عمر کے لوگ ہیں جو برطانوی مسلمان تو ہیں لیکن اپنی اسلامی شناخت کو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اُردوکے مطابق اس رحجان کودیکھتے ہوئے برطانیہ میں شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے تاہم وہیں کئی گروپوں کی طرف سے اس کی مخالفت بھی کی جارہی ہے اوراس سسٹم کو ختم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
5کروڑ 10 لاکھ آبادی کے ساتھ انگلستان یونائٹڈ کنگڈم کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یورپی یونین میں انگلستان کی آبادی چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ ہے اور دنیا بھر میں 25ویں نمبر پر آتی ہے۔ فی مربع کلومیٹر آبادی کی گنجانیت 395 افراد ہے جو یورپی یونین میں مالٹا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔برطانیہ میں28 لاکھ مسلمان رہتے ہیںاور ان برطانوی مسلمانوں کا شرعی احکام پر عمل پیرہونا کوئی چھوٹی خوشخبری نہیںیاد رہے کہ برطانیہ میں انجام شدہ حالیہ تحقیقات کے مطابق اس ملک میں دن بدن مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ مذہبی ریسرچ سنٹر ’’ فیس مٹرز ‘‘نے اپنی انجام شدہ تحقیق میں اعلان کیا برطانیہ میںہر سال5 ہزارافرادکی تعداد سے مسلمانوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ واضح رہے کہ 9/11کے واقعہ کے بعد مغرب میںاسلام اور مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپگنڈہ کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد دین اسلام کو اجڑ قرار دیا جانا تھا مگر رپورٹیں شاہدہیں کہ دن بہ دن یورپ میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ فقط اسلام کے فطری بنیادی اصولوں وعقائد کی بنا پر ہے جو انسانوں کو اس دین سے قریب کررہی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ایک لاکھ کے قریب افراد اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو گئے ہیں۔ ان میں سفید فام خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ’’فیتھ میئرز آرگنائزیشن ‘‘کی رپورٹ کے مطابق 2001 تک 60 ہزار برطانوی باشندوں نے اسلام قبول کیا تھا جب کہ اب یہ تعداد 90 ہزار سے ایک لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ برس برطانیہ میں 5200 افراد نے اسلام قبول کیا۔ 122 نومسلموں سے کئے گئے سروے کے مطابق گزشتہ سال مسلمان ہونے والوں میں سے 56 فیصد سفید فام برطانوی باشندے ہیں اور ان میں 62 فیصد سفید فام خواتین بھی شامل ہیںاورمسلمان ہونے والوں کی اوسط عمر 27 سال ہے۔
رپورٹ کے مطابق نومسلم افراد کی بڑی تعداد نے شکوہ کیا ہے کہ انہیں مسلمان بننے کے فورا بعد اپنے خاندانوں کی جانب سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کا روّیہ بتدریج درست ہوتا گیا۔ نومسلموں کی ایک بڑی تعداد خود کو برٹش اور مسلمان تصور کرتی ہے اور اسے برطانوی معاشرے اور کلچر میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ یہ نومسلم سمجھتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے سے قبل ان کی زندگی بے مقصد تھی۔برطانیہ ان’’ کمیونٹیز‘‘ کا وطن ہے جو مسلم دنیا کے تقریبا ہر ملک سے تعلق رکھتی ہیں اور ہر کمیونٹی کی اپنی تاریخ، ثقافت اور روایات ہیں۔ سب سے بڑی ’’کمیونٹیز ‘‘جنوبی ایشیا سے آئی ہیں لیکن ان کے علاوہ عرب اور افریقی کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا، بلقان اور ترکی کے مسلمان بھی یہاں آباد ہیں۔ ایسے بھی کئی مسلمان ہیں جو دوسرے مذاہب سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔یہ کمیونٹیز پورے جزائر برطانیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور برطانیہ کی معاشی ثقافتی اور سیاسی زندگی کے ہر شعبے میں ان کی نمائندگی موجود ہے۔ چھوٹے کاروباروں سے ریسٹورینٹس، لاء اور اکائونٹنسی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی، نیشنل ہیلتھ سروس سے تدریس، ٹرانسپورٹ اور پبلک سروسز، سیاست اور میڈیا سے کھیل تک مسلمان برطانیہ کے کثیر النسل اور کثیر العقائد معاشرے میں ایک بیش بہا کردار ادا کر رہے ہیں۔مسلمان برطانیہ میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ انٹرنٹ سے لی گئیں معلومات کے مطابق برطانوی مسلمانوں کی تعداداب بڑھ کر2.8 ملین کے قریب ہو چکی ہے۔برطانیہ کی بے شمار مسلمان کمیونٹیز گویا نسلی پسِ منظر کا ایک خزانہ ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق 11.2 فی صد مسلمان 'سفید فام' 6.9 فی صد سیاہ فام ،سیاہ فام برطانوی، 74 فی صد ایشیائی، ایشیائی برطانوی اور 7.5 'دیگر' ہیں۔تقریبا 50 فی صد مسلمان برطانیہ ہی کی پیدائش ہیں اور 50 فی صد کی عمر 25 سال سے کم ہے۔مسلمانوں کی گنجان آبادی اگرچہ بڑے شہروں میں پائی جاتی ہے لیکن اب یہ کمیونٹیز برطانیہ بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔
برطانوی مسلمانوں کے روایتی کھانوں اور ان کے ملبوسات نے برطانوی ثقافت پر گہرا اثر پڑا ہے۔لوگوں کے خریداری اور کھانے پینے کے انداز بدل گئے ہیں اور وہ انوکھے نئے ذائقوں اور اجزاء سے متعارف ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں پہلا کری ہاؤس 1809 میں لندن میں کھلا اور آج وہ کھانے جنہیں ’انڈین‘کہا جاتا ہے قوم کے پسندیدہ کھانے بن چکے ہیں۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ ان کھانوں میں سے جو برطانیہ کے 'انڈین' ریسٹورینٹس میں پیش کئے جاتے ہیں ،درحقیقت زیادہ تر بنگلہ دیشی اور پاکستانی مسلمانوں کے تیار کردہ ہوتے ہیں۔ ترکی، لبنان اور مراکش کے روایتی کھانوں کی مقبولیت میں بھی اب اضافہ ہو رہا ہے۔مسلمانوں کے ملبوسات نے عالمی فیشن کو بھی متاثر کیا ہے۔ملبوساتی مارکیٹ میں مسلمانوں کی ملبوسات کی اپنی شاپس نے ایک خاصی بڑی جگہ بنا لی ہے۔ کثیر مسلمان آبادی والے بڑے شہروں جیسے بریڈ فورڈ، لیسٹر اور برمنگھم میں تو واقع یہی دیکھنے میں آتا ہے۔
برطانیہ کے مسلمان منظم انداز میں زندگی گزار رہے ہیں او روہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی نمائیدگی کیلئے مصروف تگ ودو ہیں ،تمام گروپوں میں مسلمان سب سے کم عمر ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق 34 فی صد مسلمان 16سال سے کم عمر ہیں۔ نوجوانوں اور طلبہ کی کئی تنظیمیں ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے وجود میں آچکی ہیں۔گزشتہ عشرے میں مسلمان برطانیہ میں عام سیاسی دھارے میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوتے رہے ہیں۔ مسلمان کونسلروں میئروں اور اراکین پارلیمنٹ کی تعداد روز افزوں ہے۔اور اس طرح یورپ بھر میں برطانیہ میں سب سے زیادہ مسلمان اراکین پارلیمنٹ ہیں۔برطانیہ میں کئی مسلمان فلاحی ادارے ہیں جو بنیادی طور پر مسلمان اکثریت والے ممالک اور ان خطوں کو جن کا برطانوی مسلمانوں سے تعلق ہو ہنگامی انسانی امداد اور ترقیاتی تعاون فراہم کرتے ہیں۔سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مشہور تنظیم ’’اسلامک ریلیف ‘‘ہے جو 1984 میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’’این جی او‘‘ کے طور پر وجود میں آئی۔ اسلامک ریلیف ’’ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی‘‘کی ممبر ہے جو بڑے پیمانے پر ہونے والی بین ا لاقوامی انسانی اپیلوں میں رابطے کا کام کرتی ہے۔ یہ 2004 کے ایشیائی سونامی اور2005 کے پاکستانی زلزلے جیسی تباہیوں سے نمٹنے میں بڑی موثر ثابت ہوئی ہے۔برطانیہ عالمی اسلامی سرمایہ کاری کے مرکز کی حیثیت اختیار کرنے کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ برطانوی بنک اب اسلامی بنکاری میں تقلید کر رہے ہیں اور لندن میں اب کسی بھی مغربی سرمایہ کاری مرکز کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں بنک اسلامی اصولوں پر مبنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے والی برطانوی فرمیں بھی اب اسلامی کاروباری خدمات کی فراہمی میں قیادت کر رہی ہیں جن میں انگلش کمرشل لا کو ایک منتخبہ قانون کی حیثیت دی گئی ہے۔
برطانیہ میں مسلمانوں کی تاریخ 1,000سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔جنوب مشرقی آئرلینڈ میں نویں صدی کے ایک بروچ سے جس پر بسم اللہ کندہ کیا ہوا تھا اور آٹھویں صدی میں شاہ اؤفا کے دور کے سکوں کی دریافت سے جن پر کلمہ شہادت کی مہر تھی، تاریخ کے اس کم جانے پہچانے دور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔البتہ برطانیہ میں مسلمانوں کا پہلا بڑا گروپ اٹھارویں صدی کی ابتدا سے پہلے تک نہیں آیا، یہ گروپ بھارت سے آیا تھا۔ اگلے 200سال میں تجارت اور کاروبار کی بدولت برطانیہ اور مسلم ممالک میں روابط بڑھے ،خاص طور پر جب برطانوی تجارتی جہازوں نے غیر ملکی عملے کو بھرتی کرنا شروع کیا۔ 1842ء تک تقریباً 3,000 مسلمان جنہیں’’لشکری ‘‘کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر سال برطانیہ آنے جانے لگے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے شادی کر لی اور کارڈف، لور پول، گلاسگو اور لندن جیسے شہروں میں بس گئے اسلامی عقیدے کی بڑھتی ہوئی کشش کچھ ایسی تھی کہ کئی ممتاز برطانوی مسلمان ہو گئے۔ ان میں ہیڈلی کے پانچویں بیرن اور ایک مشہورسِوِل انجینئر لارڈ ہیڈلی ،جنہوں نے کشمیر کے پہاڑی علاقے میں بارہ مولا اور سرینگر کے درمیان سڑک کی تعمیر کی تھی،ایک وکیل اور شاعرولیم کوئیلیم ،جنہوں نے برطانیہ کی پہلی مسجد بنائی اور ایک ناول نگار اور قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے محمد مارما ڈیوک پکتھال شامل تھے۔ برطانیہ کی پہلی باقاعدہ تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح ووکنگ، سرے میں 1889 میں ہوا۔مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی برطانیہ میں 1950 کی دہائی میں شروع ہوئی۔ تارکینِ وطن زیادہ تر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے تھے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد محنت کشوں کی کمی پوری کرنے کے لیے آئے تھے۔ وہ زیادہ تر لندن میں اندرونِ شہر علاقوں، مڈلینڈز کے صنعتی شہروں اور لنکاشائر، یا رکشائر اور اسٹریتھ کلائیڈ کے ان شہروں میں آباد ہوئے جو پارچہ بافی کے مرکز تھے۔آج برطانیہ میں رہنے والے مسلمان وسیع اور گونا گوں قومیتی اور ثقافتی پس منظر کے حامل ہیں۔ ان کی آبادی میں ایک خاصی تعداد اسلام قبول کرنے والے برطانویوں اور یورپی افراد کی ہے۔ مسلمان کمیونٹیز پورے برطانیہ میں پھیلی ہوئی ہیں البتہ لندن مانچسٹر، برمنگھم اور بریڈ فورڈ میں ان کی آبادی گنجان ہے۔
بہر حال مغرب میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداداور اس پر مستزاد یہ کہ برطانوی مسلمانوں کا اپنے تصفیہ طلب مسائل کاتصفیہ اور ان کا حل شرعی عدالتوں میں تلاش کرنا مسلم دنیا کو دعوت فکر فراہم کرتا ہے اور اس نیک رحجان کے نتیجے میں دنیائے اسلام پر کتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے محتاج وضاحت نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان حوالوں سے مسلمان ممالک اپنی ذمہ داری سے کبھی عہدہ برآںہوں گے؟
No comments:
Post a Comment