Search This Blog

Thursday, 19 January 2012

احساناتِ قرآن کریم

احساناتِ قرآن کریم

گوہر ملسیانی

خالقِ ارض و سماوات کے بنی نوع انسان پر لاتعداد اور لامتناہی احسانات ہیں۔ اس کائنات کا ایسا کوئی انسان نہیں ہے، خواہ پیغمبر ہو یا قطب و ابدال، ولی ہو یا مفکرو سائنس دان، یا محقق و معلم، جو اکرام و الطاف اور عنایات و مراعاتِ رب ذوالجلال کا ادراک نہ کرسکے۔ جملہ احسانات میں سے ایک قرآنِ حکیم ہے جو بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے ربِ کائنات کا ودیعت کردہ ابدی اور دائمی دستورِ حیات ہے، جس کے قوانین و ضوابط ہمہ جہت اور متنوع ہیں۔ یہ انسانی زندگی پر رحمتوں اور مہربانیوں کا ایسا بحرِبیکراں ہے، جس کا احاطہ کرنا اور تمام فیوض و برکات کو ورطۂ تحریر میں لانا انسانی قدرت و طاقت کے بس میں نہیں۔ اس کے موضوعات کی کہکشاں ہروقت، ہرلمحے چمکتی دمکتی رہتی ہے۔ یہ ضیائیں انفرادی، عائلی، عمرانی، قومی، بین الاقوامی، ثقافتی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقی وغیرہ اللہ تعالیٰ نے اس کتابِ مبین میں پھیلا دی ہیں جسے ہم آفتابِ جہاں تاب کے تعلیماتی انوار بھی کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیماتِ رُشد و ہدایت، انسانی زندگی کی دنیوی اور اُخروی فلاح و کامرانی کی ضامن ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی بات کا اظہار یوں کیا ہے ؂
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
یہ کتابِ الٰہی ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اسے انسان کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے:
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ اسے یَسَّرنَا القُرآن بھی کہتا ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو سمجھنا آسان بنا دیا ہے۔ اس کو سمجھنے سے انسان اپنی عملی زندگی کو ضیابار کرتا ہے اور یہی مقصدِ حیات ہے۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی تفسیر تفہیم القرآن کے مقدمے میں نزولِ قرآن کی غایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس کا مدعا انسان کو صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے‘‘ (ص ۲۰)۔ علامہ اقبال بھی قرآن حکیم میں غوطہ زن ہونے کی دعوت دیتے ہیں ؂
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
قرآنِ مجید نے انسانی فہم وفراست اور علم و حکمت کے لیے کچھ ایسی چیزیں بیان کردی ہیں جو آج کی اس دنیا کے انسانوں کے لیے بے حد اہم ہیں۔ آج جب سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے گن گائے جارہے ہیں، قرآن حکیم روحانی اور اخلاقی اقدار ہی نہیں، کائنات میں تخلیق کردہ اشیا سے بھی انسان کو استفادے کی دعوت دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان فیوض و برکات کو انسانیت کی فلاح قرار دیتا ہے۔ آیئے ان الطاف و عنایات میں سے چند احسانات کی افادیت کا مطالعہ کریں۔
l تحقیق و تسخیر: اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے تخلیق کی ہے،اور بنی آدم کو علم کے نور سے منور کر کے اشرف المخلوقات بنا دیا ہے۔ پھر خالقِ کائنات نے انسان کو خیرکثیر ’علم و حکمت‘ سے نوازا ہے اور حکم دیا ہے کہ تحقیق و تفتیش کی ریاضت اسی علم و حکمت سے کرو اور اپنی تحقیقات کے زور سے عملِ تسخیر کو اپنی متاعِ عزیز بناؤ۔ خداے بزرگ و برتر نے بتا دیا ہے: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ (الجاثیہ ۴۵:۱۳) ’’اور آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے‘‘۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے مخلوقاتِ آسمانی اور زمینی اور شب و روز میں بھی نشانیاں رکھ دی ہیں:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo(اٰل عمرٰن ۳:۱۹۰) زمین اور آسمانوں کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی مزید وضاحت فرما دی:
الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o( اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اورزمین اور آسمانوں کی ساخت میں غورو فکر کرتے ہیں۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں ) ’’پروردگار یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اِس سے کہ عبث کام کرے ۔پس اے رب ،ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
یہ ہے وہ تسخیر کرنے کی واضح دعوت جو ربِ کائنات نے اہلِ بصیرت کو دی ہے۔ تحقیق کا ایک میدان ان کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ یہ اُولی الالباب ہیں جنھیں علمِ لدّنی اور حکمت کے خیرکثیر سے نوازا گیا ہے۔ وہ تحقیق کے میدان میں کودیں، پہاڑوں میں، سیاروں میں، آسمانوں کے آفتاب و ماہتاب میں، دشت و صحرا اور بحرِظلمات میں، زمین میں پنہاں خزانوں میں، سیال تیل اور گیس کے ذخیروں میں، دَل کے دَل پرندوں اور دندناتے درندوں میں، دریاؤں اور سمندروں کے آبی جانوروں میں، الیکٹرون، پروٹون میں، عنصر اور ایٹم میں پوشیدہ قوتوں میں غوروخوض کریں۔ تحقیق کے زور پر تسخیر کے عمل کو مضبوط بنائیں۔ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ قرآن سے پہلے کہاںیہ تحقیقی عمل کا انکشاف تھا۔ انسان کب تحقیق کی قوت اور کائنات کے حقائق کو جاننے کا علم رکھتا تھا، بلکہ کب وہ اس بات سے باخبر تھا کہ کائنات کی ہرچیز اس کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ تو قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ انسانیت کی بہبود کے لیے سائنس دان، مفکر، معلم قرآنِ مجید کے عطا کردہ علم سے فیض یاب ہوکر علم و تحقیق کے نتائج پر ہرچیز فراہم کر رہے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں ؂
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
قرآن ہی اس نورِ تحقیق کا منبع ہے۔ اگر قرآن تحقیق کی یہ ضیائیں نہ پھیلاتا تو قافلۂ انسانیت تاریکیوں میں بھٹکتا رہتا۔
l مساوات اور وحدتِ انسان:تہذیب انسانی کی تاریخ کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل اقوامِ عالم قومی وحدت سے خالی تھیں، بلکہ آج بھی وہ اقوام جوقرآنِ مجید پر ایمان نہیں رکھتی ہیں مساوات اور وحدتِ انسانی سے گریزاں ہیں۔ یہ تفریق اپنے اندر مختلف وجوہات رکھتی ہے۔ کہیں نسلی تفاوت ہے اور اُونچ نیچ کا یہ دائرہ اشراف اور کمین پر پھیلا ہوا ہے۔ ہندو تہذیب آج بھی انسانی وحدت اور اخلاقی مساوات کے اصول کے خلاف ہے۔ برہمن، وید، کھشتری اور شودر وغیرہ کی تخصیص و تفریق نسلی نسب سے جنم لیتی ہے۔ ایک نسل دوسری نسل کو اپنے سے کم تر اور گھٹیا گردانتی ہے جس کے نتائج بے حد روح فرسا ہیں۔ اسی طرح گورے اور سیاہ فام کا فرق صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ماضی بعید میں سیاہ فام غلامی کی زنجیروں میں جکڑے نظر آتے ہیں۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت کا جائزہ ہمارے سامنے اس تفریق کو رکھتا ہے۔ ایک جانب بلال، صہیب، سلمان رضوان اللہ علیہم وغیرہ جیسے انسان نظر آتے ہیں اور دوسری جانب ابوجہل، ابولہب، عقبہ جیسے سردار غلاموں کی زندگی اجیرن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہی نہیں، یہ نسلی تفاوت مغرب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ امریکا، برطانیہ وغیرہ ترقی یافتہ تہذیب کے نمایندے کہلاتے ہیں مگر وہاں ان سیاہ فام انسانوں سے کیا سلوک کیا جاتا رہا ہے اور اب تک کیا جا رہا ہے۔ امریکن اور یورپین آج بھی رنگ و نسل کی مخاصمت میں اعلیٰ تہذیب و تعلیم کا دعویٰ کرنے کے باوجود کالے گورے کی تخصیص میں مبتلا ہیں۔ یہی کیفیت جغرافیائی حدبندیوں سے اظہرمن الشمس ہے۔ یہ امتیازی سلوک اور اُونچ نیچ قومی تصادم کو جنم دیتی ہے۔ براعظموں کے تذکار میں ان اختلافات کے مہیب نتائج آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح لسانی اور اعتقادی امتیازات ہیں جن کی بدولت دشمنیاں پھیلتی ہیں، جنگیں برپا ہوتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل عرب میں قبیلوں کی لڑائیاں برسوں چلتی رہتی تھیں۔ پاکستان میں دہشت گردی اور سیاسی مخاصمت بھی انھی امتیازات کا پیش خیمہ ہے۔
یہ قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ اس نے ان امتیازات پر ضرب لگائی اور ان بتوں کو پاش پاش کیا۔ وحدتِ الٰہ کا درسِ عظیم دیا۔ اس کائنات کا صرف ایک الٰہ ہے، ایک خالق ہے، ایک مالک ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ اور حاکم نہیں۔ قرآن حکیم نے اسی حوالے سے وحدتِ آدم کا اصول بیان فرما دیا۔ بنی آدم تو وہی ہیں جنھیں مٹی سے پیدا کیا گیا:
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ o( اٰل عمرٰن ۳:۵۹) اللہ کے نزدیک عیسٰی ؑ کی مثال آدم ؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہوگیا۔
لہٰذا رنگ، نسل، زبان اور ملکی یا براعظمی امتیاز، سب دائرۂ اختیارِ آدم سے باہر ہے۔ یہ عطاے ربانی ہے جو اس کی پیدایش کے وقت ہی اس کے ساتھ آیا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآءِلَ لِتَعَارَفُوْا (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔
یہ ہے وہ وحدتِ انسانی جو تعارف کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ یہی بنی نوع انسان کو اس عالمِ فانی میں مساوات کا درس دیتی ہے۔ گویا ہم نے جو امیر و غریب اور کالے گورے کی تفریق پیدا کررکھی ہے یہ اللہ کو پسند نہیں۔ تمام انسان وحدت کی لڑی میں پروے ہوئے ہیں۔ یہ قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ اس نے رنگ، نسل، زبان اور جغرافیائی بتوں کو پاش پاش کر دیا ہے۔
l انسان کو انسانیت سے سرفراز فرمایا: قرآن کریم اس کائنات میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتا ہے۔ حیوانیت، درندگی اور نباتاتی صفات کی حامل مخلوقات سے ارفع و اعلیٰ قراردیتا ہے۔ نباتاتی قومیت کا نمو اور حیواناتی جبلتیں اگرچہ انسان میں بھی موجود ہیں۔ بھوک، پیاس، حرکت و حرارت، خوف و محبت اور صنفی میلانات وغیرہ زندگی کے کئی دائرے ہر مخلوق میں موجود ہیں مگر ان کی موجودگی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو شعلۂ علمِ نور، قوتِ گفتار و اظہار، نعمت فکروتدبر، احساسِ ذمہ د اری، شعورِعمل اور نیک و بد کی تمیز اور خیروشر کی تخصیص عطا کی ہے، اُسے اشرف المخلوقات بناتی ہے۔ قرآن حکیم کا فیض ہے کہ اس نے انسان کو انسانیت کے ان اخلاقی، روحانی اور ودیعت کردہ خصائص سے آگاہ فرمایا۔ قرآن تو انسان کو اس کی اصل حقیقت اور شرفِ انسانیت سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کی تخلیق کی رفعت کا شعور دیتا ہے۔ اسے فطری زندگی میں سراسر بھلائی اور خیر کی تعلیم دیتا ہے بلکہ اُسے غلط روش اور کوتاہی کے نتائج سے خبردار کرتا ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ o اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ o (التین ۹۵:۴ تا۶) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پرپیدا کیا، پھر اُسے اُلٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ اُن کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اَجر ہے۔
اس احسان و برکت کے تذکرے کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید نے انسان کو عطا کردہ ایک اور اسی سلسلے کے فیض کو بھی بیان کر دیا ہے کہ اس کائنات میں انسان ایک ذمہ دار ہستی ہے۔ وہ کائنات میں کوئی کھلونا نہیں ہے بلکہ وہ اس کی ہر چیز پر تصرف کا حق رکھتا ہے۔ تمام وسائل اس کے لیے خدمت اور ضرورت کے وقت مفید بن سکتے ہیں اگر وہ خود کمزوری کا اظہار نہ کرے:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اورانھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور اُن کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔
یہ انسانی زندگی کے وہ مراحل ہیں جن میں آسایشیں ہیں، عزت و وقار ہے، انسانی فلاح ہے،وسائل کو پانے اور ان سے فائدہ اُٹھانے کی ترغیب ہے۔ یہ ایسے پُرکشش احسانات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی رحمت، محبت اور رہنمائی جھلکتی ہے۔ وہ انسان کو اس کی دنیوی اور اُخروی زندگی میں اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے۔ وہ رحمن اور رحیم ہے، اس لیے ہدایت فرماتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقاً لَّکُمْ (البقرہ ۲:۲۱۔۲۲) لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اُس رَبّ کی جو تمھارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے ، تمھارے بچنے کی توقع اِسی صُورت سے ہو سکتی ہے۔ وُہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اُو پر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمھارے لیے رزق بہم پہنچایا۔
انسانی زندگی کی بہبود اور آسودگی کے لیے مہیا کردہ وسائل کا تذکرہ تو اللہ کا اپنے بندے پر احسانِ عظیم ہے کہ اُسے زندگی کی سرگرمی کا صحیح رستہ دکھا دیا اور نشیب و فراز سے آگاہ کر دیا ورنہ انسان بھٹکتا رہتا اور مشکلات و مصائب سے دوچار رہتا۔
l عبدیت و بندگی:قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ خالق کائنات ہی ہر ذی روح اور ہر ذی شعور مخلوق کا الٰہ ہے۔ لا الٰہ الا اللہ وہ کلمہ ہے جو سب دوسرے حاکموں، خداؤں، مالکوں اور خالقوں کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور ہر ذی روح اور ذی عقل مخلوق کو بتا دیتا ہے کہ وہ اس کا عبد ہے۔ یہ عبودیت کا رشتہ بنی آدم، ملائکہ اور جنات سب کو اپنے احاطے میں لے آتا ہے:
اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا o (مریم ۱۹: ۹۳) زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی حیثیت بیان کردی ہے۔ انسان کا تعلق باری تعالیٰ سے اس کے بندے ہونے کا ہے۔ یہاں تک کہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے بندے اور رسول ہیں:
تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَانِ o(الفرقان ۲۵:۱) نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہاں والوں کے لیے خبر دار کر دینے والا ہو۔
یہ ایک اعزاز ہے کہ خالقِ کائنات جو ہر چیز کا مالک ہے، آقا ہے، انسان اس کا بندہ ہے جسے اپنا بندہ بنانے کے بعد اپنا خلیفہ مقرر کر دیا۔ خلیفہ اپنے آقا سے رابطہ رکھتا ہے۔ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو تو انسان (خلیفہ) ہروقت، ہرلمحے، ہرجگہ اور ہرحالت میں براہِ راست اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرسکتا ہے کیونکہ آقا (اللہ) تو خود فرماتا ہے:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ ۲:۱۸۶) اور اے نبیؐ ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں ، توانھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔
یہ تعلق باللہ انسان کو باور کراتا ہے کہ دعائیں، مناجاتیں صرف اللہ قبول کرتا ہے۔ یہ واسطے، یہ سفارشیں بے معنی اور لایعنی ہیں۔ وہ حاکم اور مالک ہے اور انسان اس کا بندہ ہے۔ یہ آقا اور غلام کا رشتہ ہے۔ ضرورت ہے تو صرف اس کا بندہ بننے اور اس کی اطاعت کی ہے۔ اس کے رسولؐکی اتباع کی ضرورت ہیجس پر یہ احکام نازل ہوئے ہیں اور جس نے ان پر عمل کرکے دکھایا ہے۔
ایک بات اور بھی واضح ہوجانی چاہیے کہ باری تعالیٰ جزوی اطاعت کا طالب نہیں بلکہ وہ حکم دیتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ‘‘۔ یہاں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اطاعت و فرماں برداری مطلوب ہے۔ یہ بندے کی بزرگی کو منور کرتی ہے۔ قرآن حکیم کا یہ انسان پر احسان ہے کہ اس نے انسان کو خالق و مالک کی معرفت سے آشنا کیا کہ وہ قادر مطلق ہے۔ اس کی ذات میں کوئی شریک و سہیم نہیں۔ وہ واحد اور کارسازِ حقیقی ہے۔
یہ قرآن کریم کا احسان ہے کہ اس نے انسان کو نورِ حق سے منور کیا اور باطل کے چنگل سے چھڑایا۔ انسان کو بہت سے خداؤں کی حدود سے باہر نکال کر خداے واحد کی سلطنت کا فرد بنایا:
اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُo (البقرہ ۲:۱۶۳) تمھارا خدا ایک ہی خدا ہے،اُس رَحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔
قرآنِ مجید کا یہ فیض یہ احسان کیا کسی اور ذریعے سے میسر آتا ہے؟ یہ آقا اور بندے کا معاملہ ہے۔ یہ عبدیت کا ذی شان اظہار ہے جس میں انسانیت کی عزت اور وقار ہے کہ اُمتِ آدم کا یہ تصور انسان کو قرآنِ حکیم نے عطا کیا اور اس کائنات میں انسان کی عزت و عظمت کا معیار بھی بیان کر دیا تاکہ وہ ہرحال میں اس معیارِ فضیلت پر پورا اُترنے کی کوشش کرے:
اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۳) درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
انسان پر یہ بات واشگاف الفاظ میں واضح کر دی کہ اس دنیا میں پُرفریب تصور قائم ہے کہ بڑا انسان وہ ہے جو متاعِ دنیا، دولت، جایداد، جاگیر، مِلیں اور کارخانے یا کثیر اولاد، عزیز و اقارب اور احباب و رشتہ دار رکھتا ہے۔ درحقیقت اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان، قبیلہ اور نسل و نسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے، بلکہ یہ معیار تقویٰ ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ و اختیار میں ہے۔
l علم و فکر میں طرزِ استدلال:قرآن کریم کا ایک اور احسان جو اہلِ علم و بصیرت کی سوچ اور فکر کو خصوصاً اور عام ذہن کو عموماً مہمیز کردیتا ہے، وہ اسلوبِ استدلال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عقائد و معاملات کی جزئیات کو بیان کرنے کے بعد اس کے نتائج کو ظاہر کردیا ہے۔ گویا کسی عقیدے یا معاملے کے ایک جز کو ظاہر کر کے اس کے کل کو ظاہر کیا ہے۔ یہ وہ استقرائی اسلوب ہے جو انسان کو خیال وفکر سے عمل اور جدوجہد تک لے جاتا ہے۔ قرآن ایک حقیقت بیان کرتا ہے اور پھر اس کا استدلال اس کے نتیجے تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ اسلوب صرف قرآن کی دین ہے۔ ماہرین قرآن نے اسے تفصیل بعد الاجمال کا نام دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اس کا ذکر بھی کر دیا ہے:
اآرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍo (ھود ۱۱:۱) ا ل ر، فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے۔
گویا پہلے کسی مضمون کو مختصراً ایک جملہ میں اجمالاً بیان کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کی تفصیل بیان کردی جاتی ہے۔ اس طرح اس مضمون کی جڑ پانے کے بعد اس کی شاخیں سامنے آجاتی ہیں اور اس تفصیل سے اس کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ مثلاً سورۂ بقرہ کی دوسری آیت کے پہلے دو الفاظ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ بیان کرنے کے بعد آیندہ آیات میں اس کی تفصیل، اس کے ثمرات اور اس کے لوازمات بیان کردیے ہیں جن سے قاری اس کی اہمیت، اس کی غرض و غایت سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات اس اسلوب کا ایک اور فائدہ اس طرح بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ ابتدا کا جو مضمون بیان ہورہا تھا، آخر میں پھر اس کا ذکر کر دیا اور درمیان میں جگہ جگہ اس مضمون کی مناسبت سے دیگر مضامین بیان کردیے گئے ہیں۔ یوں وہ مضمون آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ قرآنِ حکیم میں اس کی مثالیں جگہ جگہ ملتی ہیں، خصوصاً چھوٹی سورتوں میں اس کا اظہار ہے۔یہ قرآنِ حکیم کا فیض ہے کہ ہر اہلِ قلم، ہر ادیب اور ہرخطیب اس اسلوب کو اپناکر اپنے مضمون کو مؤثر اور پُرکشش بنا سکتا ہے۔
قرآن کا ایک اور اسلوب بھی ہر ذی شعور اور اہلِ علم و فکر کی رہنمائی کرتا ہے، وہ ہے مقفٰی اور مسجع اندازِ بیان۔ یہ متحیر کن اسلوب خالقِ کائنات کی صناعی کا مظہر ہے اور انسان کو حُسن و جمالِ عبارت سے آشنا کرتا ہے۔ اس کا قاری اور سامع اس اسلوب اور طرزِبیان کی قرأت اور سماعت سے کسی دوسری دنیا میں پہنچ جاتا ہے اور اس کے مضامین اس کے سامنے نئے نئے نقوش پھیلا دیتے ہیں۔ سورۂ رحمن، سورۂ مرسلات اور سورۂ شعرا بلکہ بہت سی سورتوں میں یہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔
اسلوب کی تفصیل میں جائیں تو اس کے مختلف رنگ قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں، صرف ایک اور حُسنِ اسلوب بیان کرکے اس جمالیاتی رنگ سے آگے بڑھتے ہیں، وہ ہے ایک لفظ یا ایک جملہ کا بار بار دہرانا۔ اس تکرار کی خوبی اور خوب صورتی قرآنی اسلوب کی نمایاں خصوصیت ہے۔ سورۂ رحمن میں فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ کی آیت کس قدر مؤثر ہے اور بار بار ایک خاص انداز اور وقفے کے ساتھ استعمال کی جارہی ہے۔ اسی طرح سورۂ مرسلات میں وَیْلٌ یَّوْمَءِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ کی حسین و جمیل تکرار اور مضمون کا زور متاثر کرتا ہے، یا سورۂ شعراء میں وَمَا اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کا بار بار دہرایا جانا کس قدر پُرزور تاثیر کا حامل ہے۔
یہ قرآن کے اسلوب کا ایک اعجاز ہے۔ یہ کتاب تو بحرِبیکراں ہے۔ اس لیے اس کا مطالعہ اور تدبر و تفکر بھی دوسرے علوم و فنون کے مطالعے سے جدا ہے۔ لہٰذا اس سے فیضِ اسلوب کے حصول کے لیے بھی انسان کی عقلی اور دماغی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ قلبی اور روحانی صلاحیتیں بھی پوری طرح شریک ہونی چاہییں۔ گویا اس فیض کو پانے کے لیے علم وفکر کے ساتھ ساتھ حکمت بھی درکار ہے۔
l ماضی کے تذکرے سے انسان کے مستقبل کی فلاح: قرآن کریم کا فیض یہ بھی ہے کہ وہ انسان کے فردا کو سنوارنا چاہتا ہے کیونکہ حقیقی کامیابی تو مستقبل کی کامیابی ہے۔ قرآن نے انسان کی ماضی کی ضروری تفصیلات بیان کردی ہیں اور دنیوی زندگی کے مقاصد اور اس کی تخلیق کی غرض و غایت بھی سامنے رکھ دی ہے۔ دیگر مفکرین اور سائنس دانوں کی عقلی و تجرباتی کمزوریوں اور غلط فہمیوں کو فاش کر دیا ہے۔ یہ عقل کے گھوڑے دوڑانے والے انسان کی پیدایش اور انسانیت کے درجے تک پہنچنے کے مختلف مدارج بیان کرکے اپنے علمی وتحقیقی تفوق پر نازاں ہیں اور تہذیبِ مغرب کے دلدادہ ان کے گن گاتے نہیں تھکتے، مگر قرآن حکیم نے اللہ تعالیٰ کے انسان کے ارادے سے لے کر خلیفۃ الارض بنانے کے تمام مراحل بیان کر کے ان کے ناقص علم اور عقلی استدلال کی قلعی کھول دی ہے۔ قرآن یہاں تک انسانی کوائف بیان کرنے کے بعد مزید وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کرتا بلکہ اس دنیا میں اس کی عملی زندگی ، معاشرتی و معاشی ضروریات کی جدوجہد کا تذکرہ اس لیے کرتا ہے کہ انسان کا مستقبل اس کے سامنے آجائے۔ پھر وہ اپنے مستقبل کو درخشاں بھی بنا سکتا ہے اور اس کو تاریک بھی کرسکتا ہے۔ ماضی تو ان دونوں صفات سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی سوچ کو بیان کر دیا ہے ؂
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
قرآنِ حکیم کا یہ احسان ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے ماضی کے واقعات اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کو مختلف انداز میں بیان کر دیا ہے۔ خصوصاً ان انبیاے کرام ؑ کے زمانے کو پیش کیا ہے جو اپنی اپنی قوم کو صراطِ مستقیم دکھاتے رہے اور ان کی رہنمائی کے اثرات انسانوں پر کسی طرح ظاہر ہوتے رہے۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک لاکھ ۲۴ ہزار پیغمبر ؑ مبعوث ہوئے۔ قرآن بھی کہتا ہے: وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (الرعد ۱۳:۷) ’’اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے‘‘۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ یہاں تک فرما دیا: وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر ۳۵:۲۴) ’’اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو‘‘۔ ایک اور مقام پر قرآن بیان کرتا ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا (النحل ۱۶:۳۶) ’’اور ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا‘‘۔
قرآن کریم میں ۱۵ ؍انبیاے کرام ؑ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کے بارے میں اہلِ عرب جانتے تھے اور ان کی اُمتوں کا جو حشر ہوا وہ بھی ان کے علم میں تھا۔ ان انبیاے کرام ؑ کی تعلیمات کے اثرات اور ان کی قوموں کے حالات اور عذاب آنے کے تذکار کو بیان کرنے کی غرض و غایت بھی یہ ہے کہ انسان ماضی کی اُمتوں کے حالات و واقعات سے عبرت پکڑے۔ اس سے اُمت محمدیہؐ اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو متنبہ کیا جائے کہ ایسی صورت سے دوچار ہونے والا انسان تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ درسِ ہدایت ہے جو انسانوں کو مستقبل سنوارنے کی دعوت دیتا ہے اور حال کو تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔
ہر پیغمبر ؑ نے اپنی اُمت کے سامنے اپنی اخلاقی زندگی کا نمونہ پیش کیا۔ قرآن حکیم ان کے صبر، شکر، قربانی، طاغوتی وصف کے حامل حکمرانوں کے سامنے بے حد جرأت سے حق گوئی کی مثال پیش کر کے ہر انسان کی اخلاقی حیثیت کو بیدار کرتا ہے۔ انبیاے کرام ؑ کے ان اوصاف اور سیرت کے انوار کے تذکرے سے بار بار مثالیں پیش کرتا ہے تاکہ ان کی روحانی اور عملی زندگی کے نقوش واضح ہوجائیں اور انسان بار بار ان کے مطالعے سے اپنے اخلاق اور عملی کردار کو منور کرسکے۔ یہ احسان دنیا اور آخرت کی کامیابی کی راہ دکھاتا ہے۔
قرآن ان انبیاے صالحین علیہم السلام کی مثالیں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے حکمرانوں جو شیطان کے نمایندے ہیں اور ایسے لوگ جو دولت و ثروت کے نشے میں چُور ہیں، ان کی ناکامیوں اور راہِ مستقیم سے بھٹکنے کے نتائج سے بھی ہر قاری کو روشناس کرتا ہے تاکہ وہ ان نتائج سے سبق حاصل کرلے اور اپنی زندگی کو سنوارے۔ قرآنِ مجید تو ہدایت کے ان راستوں سے آگے گزر کر رول ماڈل انبیاے کرام ؑ جو دنیا میں بے حد جلیل القدر تھے، ان کی بے وفا اور نافرمان بیویوں اور کسی کے باپ اور کسی کے بیٹے کی شیطانی خصلتوں سے بھی آگاہ کرتا ہے کہ یہ ربانی ہدایات سے منہ موڑ کر دوزخ کی آگ کا ایندھن بنے، جب کہ بدکار شوہر فرعون کی نیک بیوی کا تذکرہ جنت کے حصول کی راہ دکھاتا ہے۔ قرآن کا یہ احسانِ عظیم ہے جو انسانوں کی غلط فہمیوں کو دُور کرتا ہے اور دونوں جہانوں کی کامیابی کا مژدہ سناتا ہے۔
قرآنِ حکیم نے بنی نوع انسان کو مستحکم بنیاد فراہم کردی ہے اور اسی کی پیروی میں انسان کی دنیوی اور اُخروی زندگی کی فلاح ہے۔ یہ احسان، یہ فیض فکروعمل انسان کی متاعِ عزیز ہے۔ وہ انسان کس قدر خوش قسمت ہے جو ان فیوض، احسانات اور برکات کو اپنی زندگی کا اثاثہ بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان فیوض و احسانات کا حق ادا کرنے کی استطاعت عطا فرمائے ع ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

No comments:

Post a Comment