Search This Blog

Thursday, 19 January 2012

کاغذی پیرہن یہ کس کا ہی؟

کاغذی پیرہن یہ کس کا ہی؟
ابو نثر  

-ایک زمانہ تھا کہ لوگوںکا تعارف اُن کی شرافت، نجابت، اخلاق و کردار اور کارناموں سے ہوتا تھا۔ اب ”وزٹنگ کارڈ“ سے ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ”وزٹنگ کارڈ“ ایجاد ہونے سے پہلی، پہلی ملاقات پر کچھ اِس قسم کے مکالمات ہوا کرتے تھی: ”آپ کی تعریف؟“ ”اجی میری کیا تعریف؟ تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔ کیسی زمیں بنائی، کیا آسماں بنایا۔ پیروں تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی۔ اور سر پہ لاجوردی اِک سائباں بنایا۔آبِ رواں کے اندر مچھلی بنائی تُو نے۔ مچھلی کے تیرنے کو آبِ رواں بنایا....“ ”جی جی.... جی جی.... بے شک، بے شک.... حمدِ باری تعالیٰ ماشاءاﷲ آپ کو ”فرفرفرفر“ یاد ہے۔ مگر میں آپ سے آپ کا ذاتی تعارف حاصل کرنا چاہتا ہوں“۔ ”تو یوں کہیے نا.... حقیر، فقیر، پُرتقصیر، آپ کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر.... محمد نصیر ہے“۔ ”بڑا لمبا نام ہے۔ اچھا تو حقیر فقیر صاحب آپ کا مشغلہ کیا ہی؟“ ”بس کیا عرض کروں۔ کچھ تک بندیاں کرلیتا ہوں“۔ ”حقیر میاں! باقاعدہ شاعری کیا کریں۔ یہاں تو بڑابڑا پڑا ہوا ہے۔ صرف تک بندی کرنے والے کو کون پوچھے گا“۔ یوں تجربے نے ثابت کردیا کہ انکسار بجا ہو یا بے جا، یہ دھڑکا ہر وقت موجود رہتا ہے کہ لوگ سچ اور صحیح سمجھ لیں گے۔ غالباً ”وزٹنگ کارڈ“ ایجاد کرنے کی وجہ بھی یہی بنی ہوگی۔ جو باتیں اجلاس کے تمام شرکاءمیں تقسیم کیے جانے والے ”وزٹنگ کارڈ“پر لکھی ہوتی ہیں اگر وہی باتیں مذکورہ ”وزٹنگ کارڈ“کا مصنف اجلاس کے ہر شریک کو فرداً فرداً ”مُنھ زبانی“ بتانا شروع کردے تو اسے ”اپنے مُنھ میاں مٹھو“کا لقب مل جائے گا۔ مگر ”وزٹنگ کارڈ“ پڑھ کر گڈ، ویری گڈ، اوہ آئی سی وغیرہ کہنا آداب میں شامل ہے۔ لہٰذا اگر آج کل کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ: ”آپ کی تعریف؟“ تو جواب میں جیب سے ”وزٹنگ کارڈ“ نکال کر پیش کردیا جاتا ہی، جس پر درج عہدی، ڈگریاں اور اعزازات خود چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ: تعریف اُس خدا کی جس نے ”مجھے“ بنایا ............٭٭٭............ ”وزٹنگ کارڈ“ کو ایک مرتبہ جوش صاحب نے ”کاغذی پیرہن“ قرار دیا تھا۔ ”کاغذی پیرہن“ کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ کاغذ ایجاد ہوا تو حکمرانوں نے سوچا ہوگا کہ لکھنے پڑھنے کے فضول کام سے ہٹ کر بھی اس کا کوئی مفید استعمال ہونا چاہیے۔ پس ایک انصاف پسند بادشاہ نے حکم دیا کہ اُس کے دربار میں انصاف کے حصول کی غرض سے جو بھی فریادی آئے وہ کاغذ کا پیرہن پہن کر آئے تاکہ دُور سے پہچانا جائے۔ ایک فائدہ اس سے یہ بھی ہوگا کہ فریادیوں کی کثرت کی وجہ سے کاغذ کی قلت ہوجائے گی اور تاریخ نویس کاغذ کو ترستے ہی رہ جائیں گے۔ گمان یہ ہے کہ اُس زمانے میں پنجاب پولیس کا تو کیا سرے سے پولیس ہی کا محکمہ ایجاد نہیں ہوا ہوگا۔ ورنہ جب بھی کسی بااثر شخص‘ کسی بڑے افسر، کسی وزیر یا کسی مشیر کے خلاف فریاد کرنے کو کوئی فریادی کاغذ کا لباس پہن کر اُس سے ٹفِش ٹفِش کی آواز نکلواتا اور اکڑتا ہوا دربار کی طرف پیش قدمی کررہا ہوتا، پولیس دوڑی دوڑی آتی اور اُس کے لباس پر فقط ایک بالٹی پانی پھینک کر چلی جاتی۔ بے چارا فریاد کی فکر چھوڑکر اپنی عزت و آبرو بچانے کی فکر میں پڑجاتا اور آگے پیچھے ہاتھ رکھ کر واپس گھر کی طرف دوڑ جاتا۔ قصہ مختصر، ایک زمانے میں ”کاغذی پیرہن“ صرف فریادی صاحبان پہنا کرتے تھے۔ لہٰذا چچا غالب نے اپنے دیوان کے پہلے شعر میں، جو یقینا کاغذ ہی پر چھپا تھا، اپنے لکھے ہوئے ہر لفظ، ہر نقش کو اپنی شوخی ¿ تحریرکا فریادی قرار دیا تھا۔ چچا اپنے شعر پڑھ کر آپ حیران ہوتے اور آپ ہی پوچھتی: نقش، فریادی ہے کس کی شوخی ¿ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا ............٭٭٭............ ایک تصویر ہمارے ذہن میں اختر انصاری اکبر آبادی کی بھی اُبھر رہی ہے۔ وہ حیدرآباد سندھ سے نکلنے والے ایک ادبی رسالے کے مدیر اور مشہور شاعر تھے۔ جوش کا کہنا تھا کہ ان کا نام خود ایک مصرع ہے۔ انصاری صاحب ایک بار جوش سے ملنے اُن کے دفتر گئے تو اپنا ”وزٹنگ کارڈ“ بھی ساتھ لے گئے۔ خود اندر جانے سے پہلے بڑے اہتمام سے اپنا وزٹنگ کارڈ اندر بھجوایا۔ کارڈ دیکھتی ہی جوش کی طبیعت رواں ہوگئی۔ اُنھوں نے اُسی کارڈ کی پشت پر ایک قطعہ لکھ کر واپس باہر بھجوادیا: کاغذی پیرہن یہ کس کا ہی؟ کون آیا ہے بن کے فریادی؟ ہاتفِ غیب نے کہا رو کر اختر انصاری اکبر آبادی انصاری صاحب یہ قطعہ پڑھ کر تپ گئے۔خاص کر ”ہاتفِ غیب کے رونے“ پر۔ فی الفور جوابی قطعہ لکھا۔ اندر بھجوایا اور باہر چلے آئے۔ نہیں ملنا تو صاف کہہ دیجیی قطعہ لکھ کر کے وقت کیوں کھویا میں تو ہنستا ہوں اپنی قسمت پر ہاتفِ غیب بے سبب رویا ............٭٭٭............ ایسا ہی قصہ ایک بار جوش صاحب کے ساتھ بھی ہوچکا تھا۔ یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب جوش صاحب بھارت میں تھی، پاکستان نہیں آئے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھارتی کابینہ میں وزیر تھے۔ جوش صاحب اُن سے ملنے اُن کے دفتر پہنچے۔ اُس وقت اِس ”کاغذی پیرہن“ کا اتنا رواج نہیںتھا۔ جوش صاحب نے ایک کاغذ پر اپنا نام لکھ کر اندر بھجوادیا تھا۔ بڑی دیر انتظار کیا، مگر مولانا غالباً کسی اہم سرکاری کام میں مصروف تھے۔ تاخیر پر تاخیر ہوتی چلی گئی تو جوش صاحب نے ایک فی البدیہہ شعر ایک اور کاغذ پر لکھ کر اندر بھجوایا اور خود کھولتے ہوئے وہاں سے واپس چلے آئے۔ نا مناسب ہے خون کھولانا پھر کسی اور وقت مولانا بات تعریف وتعارف سے چلی اور ”تعارفی کارڈ“ بانٹتی ہوئی خون کھولانے پر منتج ہوئی۔ ہم نے تو یہ چاہا تھا کہ آج آپ کے فشارِ خون کو معمول پر رکھنے کی کوشش کی جائے۔ 

No comments:

Post a Comment