Search This Blog

Sunday, 22 January 2012

یادیں



یادیں
شاہ نواز فاروقی  

-امارت صرف دولت کی نہیں ہوتی، یادوں کی بھی ہوتی ہی، بلکہ یادوں کی امارت
 کے سامنے دولت کی امارت کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ 
اس کی تین وجوہ ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ دولت کی امارت پیسے اور چیزوں سے متعلق ہے اور یادوں کی دولت خیالات، جذبات اور احساسات سے زیادہ تعلق رکھتی ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دولت کی امارت خارج سے متعلق ہے اور یادوں کی امارت کا تعلق انسان کے باطن سے ہی، اور باطن کو ظاہر پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ دولت کی امارت طبقاتی شے ہی، لیکن یادوں کی امارت غیر طبقاتی چیز ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک کھرب پتی شخص یادوں کے معاملے میں کنگال ہو، اور ممکن ہے کہ ایک کنگال شخص یادوں کے حوالے سے کھرب پتی ہو۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یادوں کی امارت دولت کی امارت سے ہزار گنا زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی زیادہ بڑی عطا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یادیں کس طرح وجود میں آتی ہیں؟
یادوں کی بنیاد ”تجربہ“ ہی، یعنی تجربہ کسی چیز کو یاد بناتا ہے۔ تاہم یاد کسی اطلاع اور مشاہدے کی بنیاد پر بھی وجود میں آسکتی ہے۔ لیکن اطلاع اور مشاہدہ سرسری اور سطحی چیزیں ہیں اور وہ حافظے سے آسانی کے ساتھ محو ہوجاتی ہیں، تاہم اطلاع اور مشاہدے کو داخلی عمل کا حصہ بنالیا جائے یعنی انہیں Internalize کرلیا جائے تو اطلاع اور مشاہدہ بھی ”تجربہ“ بن جاتے ہیں۔ لیکن یاد کی تشکیل صرف تجربے کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ یاد کے لیے ”تعلق“ ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ تعلق یادکو گہرا بناتا ہے۔ تعلق جتنا قریبی اور مستحکم ہوگا یاد بھی اتنی ہی گہری ہوگی۔ لیکن یادوں کے لیے ”محبت“ بھی ناگزیر ہی، اس لیے کہ یہ محبت ہی ہے جو تجربے کو شدید اور خوب صورت بناتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بہترین یاد وہ ہے جو تجربہ بھی ہو اور جس میں تعلق بھی شامل ہو، اور جسے محبت کا لمس بھی فراہم ہو۔ ایسی یاد بچپن سے موت تک انسان کے ساتھ رہتی ہے۔ ایسی یاد اندھیرے میں چراغ اور صحرا میں باغ کی طرح ہوتی ہے۔ پروین شاکر کا ایک شعر ہے:
کسی کی یاد میں ڈوبا ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے
یہ ایک ہلکا پھلکا سا رومانی شعر ہے، مگر محبت کے لمس نے اس شعر میں بھی یاد کو اتنا طاقت ور بنادیا ہے کہ اس نے خودپسندی کے بت کو پاش پاش کردیا ہے اور انا کے ڈائناسور پر غلبہ پالیا ہے۔ ہمارے معین بھائی کا ایک شعر ہے:
تری یادوں سے دل میں کہکشاں ہے
خدا آباد رکھے تُو جہاں ہے
محبت یادوں کو صرف یادیں نہیں رہنے دیتی، وہ انہیں کہکشاں بنادیتی ہے۔ کہکشاں روشنی اور اس کی کثرت کی علامت ہی، ماورائیت کی علامت ہے۔ اس شعر کا ایک مفہوم یہ ہے کہ محبت یادوں کو کہکشاں بناکر فراق کی منفیت کو زائل کردیتی ہے اور ہجر میں وصل کی کیفیت در آتی ہے۔ انور شعورکا ایک شعر ہے:
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہوجاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں
انسانی زندگی کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہی، چنانچہ انسان ایک دوسرے کے بہت قریب ہوکر بھی ایک دوسرے سے دور رہتا ہی، اور دو انسانوں کے درمیان ”میں“ اور ”تُو“ کا فرق باقی رہتا ہے۔ لیکن محبت میں ڈوبی ہوئی یاد ایک ایسی شے ہے جو انسانوں کے درمیان موجود ہر دیوار کو گرادیتی ہے اور ہر حجاب کو فنا کردیتی ہے۔ یہاں تک کہ محب خود محبوب بن جاتا ہے۔ لیکن یاد کا معاملہ صرف انسانوں کے تعلق تک محدود نہیں۔ قرآن مجید فرقانِ حمید اعلان کرتا ہے کہ صرف اللہ کی یاد ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی یاد سب سے بڑی یاد ہی، اور خدا کی محبت سب سے بڑی محبت ہے۔ اس یاد اور اس محبت کا حاصل وہ اطمینانِ قلب ہے جو خدا کی یاد کے سوا کسی بھی چیز سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یادوں کا ایک پہلو یہ ہے کہ بچپن اور جوانی کی یادیں خوب صورت اور پائیدار ہوتی ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
بچپن کے کئی پہلو اہم ہیں۔ بچے کی شخصیت کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ بچے کا شعور کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ اس پر جو کچھ لکھ دیا جائے نمایاں ہوجاتا ہے۔ بچوں کی شخصیت کا ایک زاویہ یہ ہے کہ ان کے لیے ہر اطلاع اور ہر مشاہدہ اہم ہوتا ہے اور وہ ہر اطلاع اور ہر مشاہدے کے لیے قبولیت کے حامل یا اس کے لیے Receptive ہوتے ہیں، چنانچہ ان کا شعور ہر اطلاع اور ہر مشاہدے کو اس کی جزیات میں ریکارڈ کرتا ہے۔ بچوں کا معاملہ یہ بھی ہے کہ ان کے لیے ہر تجربہ سچا، ہر تعلق اہم اور تعلق کی ہر صورت محبت آمیز ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کی یادیں حقیقی یا گہری، شدید اور خوب صورت ہوتی ہیں۔ جوانی میں تجربے اور تعلق کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں حق کی جتنی صورتیں ہیں ان میں جوانی کے تجربات، خیالات، جذبات اور احساسات خام مال کے طور پر کام آتے ہیں۔ مولانا حالی نے اس سلسلے میں ایک بنیادی بات کہی ہی، مولانا نے فرمایا ہے:
گو جوانی میں تھی کجرائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
مطلب یہ ہے کہ جوانی میں ہم بہت بگڑے ہوئے تھے مگر اس کے باوجود ہمیں جوانی شدت کے ساتھ یاد آتی رہی۔ خیال کیا جاسکتا ہے کہ اگر ”خراب جوانی“ کی یاد کا یہ عالم ہے تو ”خوبی کی حامل” جوانی کی یاد کا کیا عالم ہوگا! یہاں سوال یہ ہے کہ زندگی میں یادوں کی اہمیت اور معنویت کیا ہے؟
غور کیا جائے تو یاد زندگی کا دوسرا نام ہے۔ انسان کو زندگی میں لاکھوں تجربات ہوتے ہیں، مگر اسے جو تجربات یاد رہ جاتے ہیں ان کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ لیکن جو تجربات یاد رہ جاتے ہیں وہی زندگی کہلاتے ہیں۔ جو تجربات حافظے سے محو ہوجاتے ہیں زندگی میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یادوں کی ایک اہمیت یہ ہے کہ یادیں زندگی کے تسلسل کو قائم رکھتی ہیں۔ وہ ہمارے ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے منسلک کرتی ہیں اور اس کی بدولت ہم اپنی پوری زندگی کو ایک تناظر یا Perspective فراہم کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ یادوں کی مالا میں سے چندکڑیاں بھی غائب ہوجاتی ہیں تو زندگی کی معنویت کو سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے۔
یادوں کی اہمیت اور معنویت کے حوالے سے چیک ادیب میلان کنڈیرا نے ایک غیر معمولی نکتے کی نشاندہی کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ آمریت کے خلاف انسان کی جدوجہد بھول کے خلاف یاد کی جدوجہد ہے۔ میلان کنڈیرا کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ آمریت زندگی کی معنویت اور اس کے حسن و جمال کو ہڑپ کرجاتی ہی، اور آمریت کے زیراثر انسان رفتہ رفتہ بھول جاتا ہے کہ وہ کبھی کیسی بامعنی اور خوب صورت زندگی بسر کیا کرتا تھا۔ چنانچہ آمریت کے خلاف جدوجہد زندگی کی معنویت اور اس کے حسن و جمال کو یاد رکھنے کی جدوجہد ہے۔ لیکن تمام یادیں خوشگوار نہیں ہوتیں، بلکہ بعض یادیں اتنی تلخ ہوتی ہیں کہ آدمی چیخ اٹھتا ہے۔ اس سلسلے میں غالب نے تو یہاں تک کہہ دیا:
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اللہ تعالیٰ نے وقت کو دکھ اور تکلیف کا فطری علاج بنایا ہے۔ انسان کو زندگی میں تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہی، مگر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے تلخ تجربات کی تلخی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن بعض لوگ تلخ تجربات کے قیدی بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ماضی ایک دائمی اذیت بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ذہن میں منفی تجربے یا منفی خیالات ایسی کشش ثقل پیدا کرلیتے ہیں جو ہر مثبت اور خوشگوار تجربے کو بے اثر کردیتی ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی ایک تلخ یاد میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور وہ تلخ یاد اُس کے پورے شعور پر حاوی ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیت انسان کو مکمل پاگل پن کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ اس موضوع کا ایک اور اہم گوشہ یاد ہے۔
جس طرح کچھ لوگوں کو اکثر چیزیں بھول جانے کا مرض لاحق ہوتا ہے اسی طرح بعض لوگوں کو کچھ بھی فراموش نہ کرنے کی بیماری ہوتی ہے۔ یہ دس بارہ سال پہلے کی بات ہی، اردو کے معروف نقاد جمال پانی پتی نے ہمیں ایک نوجوان نقاد کا ایک طویل مضمون پڑھنے کو دیا اور فرمایا کہ اس پر اپنی رائے دو۔ مضمون کا عنوان تھا ”ادب کی موت“۔ مضمون نگار نے مضمون میں یہ دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی تھی کہ اگر ادب کی موت واقع ہوچکی ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں اور اس سلسلے میں مشرق و مغرب کے اہم لکھنے والوں نے کن خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مضمون مشرق و مغرب کے اہم لکھنے والوں کے حوالوں سے مزین تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ مضمون نگار کا مطالعہ وسیع ہے۔ مگر مضمون کا سب سے بڑا نقص یہ تھا کہ اس میں مضمون نگار کی ذاتی رائے موجود نہیں تھی۔ ہم نے جمال پانی پتی صاحب سے عرض کیا کہ ادب کی موت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے تخلیق کار دوسروں کے افکار اس طرح اوڑھ لیتے ہیں کہ ان کی ذاتی رائے فنا ہوجاتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان جو چیزیں پڑھتا ہے انہیں جذب کرنے اور تخلیقی عمل کا حصہ بنانے کے لیے تھوڑا سا بھلانا بھی پڑتا ہی، لیکن بہت سے لوگ اپنے مطالعے کو سر پر ٹوکرے کی طرح رکھے پھرتے ہیں۔ اس سے اُن کے علم کی شہرت تو ہوجاتی ہے مگر اُن کا علم اُن کی شخصیت کا حصہ بن کر تخلیقی لہر نہیں بنتا۔

No comments:

Post a Comment