Search This Blog

Friday, 27 January 2012

خیال اور انسان


خیال اور انسان
شاہ نواز فاروقی

-خیال کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان خیال کے مطابق ہو جاتا ہے یا خیال کو اپنے جیسا بنا لیتا ہے۔ پہلی صورت میں انسان خود کو بلند کرتا ہے اور دوسری صورت میں انسان خیال کو اپنی سطح پر لا کر اسے پست کر دیتا ہے۔ دنیا میں جتنے انقلابات برپا ہوئے ہیں انسان کی خود کو خیال کے مطابق بنانے کی کوشش سے ہوئے ہیں اور دنیا میں جتنی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں خیال کو پست سطح پر گھسیٹ کر لانے سے ہوئی ہیں۔
اس کی ایک اچھی مثال پاکستان کی ”اشرافیہ“ ہے۔ جمہوریت کے فکر اور فلسفے کے بارے میں ہماری جو رائے بھی ہو مغرب میں جمہوریت ایک سیاسی مثالیہ یا Polictical Ideal ہے۔ جمہوریت مغرب کے تصور انسان کا سیاسی مظہر ہے۔ مغرب کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان اس کائنات کا مرکز ومحور ہے۔ وہ ایک آزاد ہستی ہے۔ اس کا تشخص اس کی عقل اور آزاد ارادے سے متعین ہوتا ہے۔ وہ خارج سے عاید کیے گئے کسی ضابطے کاپابند نہیں۔ وہ اپنے نیک و بد کا خود تعین کرتا ہے۔ ان تصورات نے مغرب میں جمہوریت کو ایک طرز فکر اور طرز حیات بنا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں انتخابات جمہوریت کا محض ایک جزو ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں جمہوریت محض ایک نعرہ ہے۔ ایسا نعرہ جس کی پشت پر کوئی بلند خیال نہیں محض چند افراد یا چند خاندانوں کے مفادات ہیں۔ مثلاً پیپلزپارٹی کو قائم ہوئے 40سال ہو گئے لیکن اس پر آج بھی بھٹو خاندان کا غلبہ ہے اور بھٹو خاندان سے قطع نظر کر کے پیپلزپارٹی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ نواز لیگ کی عمر بھی اب 20 سال سے زائد ہو گئی ہے مگر نواز لیگ پہلے دن کی طرح آج بھی میاں نواز شریف کی اسیر ہے۔ ایم کیو ایم کی عمر 30 سال سے زائد ہے اور وہ آج بھی الطاف حسین کی گرفت میں ہے۔ اے این پی پر ولی خان کا قبضہ ہے۔ اس صورت حال کا ایک شاخسانہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی، نواز لیگ، ایم کیو ایم یا اے این پی کبھی داخلی انتخابات کے عمل سے نہیں گزریں جو جمہوری کلچر کا ایک بنیادی تقاضا ہے۔ ان حقائق نے پاکستان میں جمہوریت کو صرف انتخابی عمل بنا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب انتخابات اور ان کے نتیجے میں کسی ایک یا کئی پارٹیوں کی حکومت کا قیام ہے اور بس۔ اس ”جمہوری فضا“ میں انتخابات کا نظام بھی غیر شفاف ہو کر رہ گیا ہے۔ انتخابی دھاندلی حلقہ بندیوں سے شروع ہو جاتی ہے۔ انتخابی فہرستیں دھاندلی زدہ ہوتی ہیں۔ انتخابی عمل میں کروڑوں جعلی ووٹ بھگتائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ خفیہ ہاتھ انتخابی نتائج کوبھی بدل ڈالتے ہیں۔ چنانچہ جمہوریت کبھی نعرہ بن کر رہ جاتی ہے۔ کبھی ایک تماشے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور کبھی ایک ڈھکوسلے کی سوا کچھ نظر نہیں آتی۔ یہ صورت حال جمہوریت کے خیال کو اپنی سطح پر گھسیٹ لانے کا حاصل ہے۔
سوشلزم اول و آخر ایک باطل نظریہ تھا مگر اس نظریے نے روس میں انقلاب برپا کیا۔ چین میںنئی دنیا تخلیق کی۔ مشرقی یورپ کو منقلب کر دیا۔ لاطینی امریکا کے نظریاتی افق کو تبدیل کر دیا۔ اس نظریے نے اپنی معاشیات پیدا کی۔ اپنی طرز تجارت ایجاد کی۔ اپنی عمرانیات خلق کی۔ اپنا ادب تخلیق کیا۔ اس نظریے نے بقول کسے یہ صورت حال پیدا کی کہ یا تو سوشلزم کے عہد میں آپ سوشلسٹ تھے یا سوشلزم کے دشمن تھے۔ مگر یہ نظریہ بھی پاکستان میں رسوا ہو گیا۔ بھٹو صاحب اس نظریے کے سب سے بڑے علمبردار بن کر ابھرے مگر انہوںنے سوشلزم کو جوں کا توں اختیار کرنے کے بجائے مقامی سوشلزم ایجاد کیا اور اسے ”اسلامی سوشلزم“ کا نام دیا۔ حالانکہ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔ مزید دلچسپ بات یہ تھی کہ بھٹو صاحب خود جاگیردار تھے۔ اس طرح بھٹو صاحب کا سوشلزم، اسلامی سوشلزم اور جاگیرداری کا ملغوبہ تھا۔ کارل مارکس، ماو یا لینن کو اگر کبھی معلوم ہو جاتا کہ دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہو گا جہاں سوشلزم مذہب اور جاگیرداری کا ملغوبہ بن کر ابھرے گا تو وہ اپنا سرپیٹ لیتے۔
قوم پرستی ایک انسان کش نظریہ ہے۔ لیکن دنیا میں اس نظریے کی ”فتوحات“ بھی کم نہیں۔ ہٹلر کی قوم پرستی نے جرمنی کو عالمی طاقت بنایا۔ جرمن قوم پرستی نے ہٹلر کو پوری دنیا فتح کرنے کا خواب دکھایا۔ یورپ کی دیگر اقوام کی قوم پرستی نے بھی انہیں سیاسی طور پر طاقت وربنایا۔ اس قوم پرستی نے مخصوص طرز احساس کا حامل ادب پیدا کیا۔ آرٹ تخلیق کیا۔ لیکن پاکستان میں قوم پرستی پر ہر جگہ سازش کا سایہ نظر آتا ہے۔ پشتون اور بلوچ قوم پرستی ایک زمانے میں سوویت یونین کے زیر سایہ کاشت ہونے والی چیزیں تھیں۔ سندھی قوم پرستی پر بھارت کا سایہ تھا۔ مہاجر قوم پرستی جنرل ضیاءالحق نے ایجاد کی۔ اس قوم پرستی میں نہ کہیں کوئی فتح ہے۔ نہ کہیں کوئی کلچر ہے۔ نہ ادب ہے۔
اسلام ایک ازلی و ابدی حقیقت ہے۔ اس کی موجودگی زمان و مکان سے ماوراءہے۔ اسلام رنگ، نسل اور جغرافیے کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کا تناظر کائنات گیر ہے۔ اس کا زاویہ نظر پوری دنیا پر محیط ہے۔ اسلام ملت اور امت کی اصطلاحوں میں کلام کرتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں لوگوں نے فرقے ایجاد کر لیے ہیں۔ اسلام مسالک اور مکاتب فکر کے خلاف نہیں لیکن ہمارے معاشرے میں مسلک کو کل دین بنا دیا گیا ہے اور لوگ اپنے مسلک پر اس طرح اصرار کرتے ہیں کہ اس سے دوسرے مسلک کی تردید اور تکذیب لازم آتی ہے۔ چنانچہ معاشرے میں تکفیر کا مرض عام ہے۔ ایک مسلک کے ماننے والے دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں مکتبہ فکر ”مسلک“ بن گیا ہے اور مسلک نے ”فرقے“ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ دین کی یہ بیخ کنی دین کی محبت کے نام پر بروئے کار آرہی ہے اور اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ ہم خود کو اسلام کی سطح پر لے جانے کے بجائے اسلام کو اپنی سطح پر گھسیٹ کر لا رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ انسان خیال کو اپنی سطح پر کیوں گھسیٹ لاتا ہے؟
اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ انسان خیال کو اصل سمجھنے کے بجائے خود کو اصل سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ خیال کے تابع بننے کے بجائے خیال کو اپنا تابع بنا لیتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان چھوٹی چھوٹی خواہشات میں الجھ جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں میںکوئی بڑا خواب ہوتا ہی نہیں۔ چھوٹی خواہشیں انسان کی ہر چیز کو چھوٹا بنا دیتی ہیں۔ اس کی روح بھی چھوٹی ہو جاتی ہے۔ دل بھی چھوٹا ہو جاتا ہے اور ذہن بھی چھوٹا ہو جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment