Search This Blog

Sunday, 22 January 2012

’’ہوم ورک‘‘ طلباء کیلئے فائدہ مند یا نقصاندہ۔۔۔۔؟ ( ایک جائزہ)
از: چاند اکبر جرنلسٹ گلبرگہ

آج کے جدید تعلیم یافتہ دور میں لفظِ’’ہوم ورک‘‘ سے ہر کوئی واقف ہے ۔ کسی بھی بچے کی اسکولی زندگی میں یہ مرکزی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ’’ اسکول کاوہ کام جواساتذہ کرام طلباء کو گھر پر کرنے کیلئے دیتے ہیں ہوم ورک کہلاتاہے‘‘انگریزی زبان کا یہ آٹھ حرفی لفظ(HOME WORK) اُردو زبان میں بھی من و عن مستعمل ہے ۔

مطالعاتی جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل سے ہی ہمارے تعلیمی نظام میں اس کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ جدید مدرسہ کے آغاز سے لیکر تاحال ابتدائی جماعتوں اورہائی اسکول سطح تک کے طلباء و طالبات کیلئے ہوم ورک پر خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ ہوم ورک طلباء و طالبات کی دیگر تعلیمی سرگرمیوں کا ایک ا ہم جزتسلیم کیا جاتاہے۔ اس لئے اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اساتذہ کے نزدیک ہوم ورک ایک ’’کسوٹی ‘‘ کی مانند ہے جس کے ذریعہ وہ بچے کی تعلیم سے دلچسپی اور عدم دلچسپی کو پرکھ لیتے ہیں۔چنانچہ تعلیم سے بچے کی غیر معمولی دلچسپی کااندازہ اس کے ہوم ورک مکمل کرنے اور بہتر طریقے سے سوالات حل کرنے سے بخوبی لگاتے ہیں ۔
روزمرہ رونما ہونے والے واقعات اور تجربات و مشاہدات کے مطابق بچے اسکول سے گھر آنے کے بعداکثر والدین عموماً ہوم ورک کے بارے میں اُن سے ضرور استفسار کرتے ہیں بلکہ بغیر کسی رعایت کے انہیں ہوم ورک مکمل کرلینے کی تاکید کرتے ہیں اور پھر وہ بچوں کے ہوم ورک کی کاپیوں پراساتذہ کی جانب سے تحریر کئے گئے ضروری ہدایات اور ریمارکس کی روشنی میں اپنے بچے کی تعلیمی حالات کا اندازہ قائم کرلیتے ہیں۔ جبکہ بعض ذہین اور محنتی بچوں کا یہ معمول بن جاتا ہے کہ وہ ستائش پر مبنی صحت مند ریمارکس کی ہوم ورک کاپیاں روزانہ بہ عجلت ممکنہ اپنے والدین کو دکھائیں تاکہ بدلے میں اپنے مطالبات منواسکیں اورشاباشی بٹور سکیں ایسے موقعوں پر والدین برملا اپنی خوشی کاظہار کرتے ہیں اور اُن کی لیاقت کی ستائش بھی کرتے ہیں جب کہ منفی یعنی غیر صحتمند ریمارکس لانے والے کام چورکاہل بچوں کی تو جیسے شامت آجاتی ہے جن پر سختی برتی نہیں گئی تو کم از کم ڈانٹ تو ضرور پلائی جاتی ہے۔ بعض ایسے بھی والدین موجود ہیں جواپنی نگرانی میں ہوم ورک مکمل کروا کر بچوں کی تعلیمی حالت سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔(یہاں اُن والدین کی بات نہیں کی جارہی ہے جن کے پاس اپنے بچوں کے ہوم ورک دیکھنے یا اُن کی تعلیمی حالات سے واقف ہونے کیلئے وقت میسر نہیں ہے) یہ بات قابل ذکر ہے کہ بچوں کو ہوم ورک کی تلقین کرنے کا اصل منشاء یہ ہوتا ہے کہ گھر پر حد سے زیادہ کھیل کود ،ٹی۔وی موبائیل اور کمپیوٹر وغیرہ پر گیم کھیلنے کی دُھن میں بچے کہیں اسکول کا ضروری اور اہم کام کرنا نہ بھول جائیں اور ہوم ورک کی عدم تکمیل کی صورت میں وہ اپنے اساتذہ کی جانب سے کی جانے والی امکانی سرزنش سے محفوظ رہ سکیں ۔ والدین چاہتے ہیں کہ اسکول کے بعد بھی بچوں کے قلب وذہن پر اخلاقی وتعلیمی ماحول کے مثبت اور خوشگوار اثرات تادیر قائم رہیں اس لئے بچوں کو وہ اکثرگھروں سے باہر نکلنے سے یکسر منع کرتے ہیں والدین کیلئے ایسا کرنا اس لئے ضروری ہوتاہے کہ بچوں کے نازک اور حساس ذہن پر برے اثرات مرتب نہ ہوسکے بلکہ زمانے کی نظر بد سے ان کے بچے پوری طرح محفوظ رہ سکیں ۔ چنانچہ تعلیم کی اہمیت و افادیت سے واقف بیشتر والدین اور سرپرست اس بات کے متمنی ہوتے ہیں کہ بچے اسکول کے بعد گھر کے ماحول کو ہی ترجیح دیں اور اپنا زیادہ تروقت اُن کی نگاہوں کے سامنے لکھنے اور پڑھنے میں گذاریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فی زمانہ اخلاقی گراوٹ اور اقدار کی تیزی سے بگڑتی ہوئی تشویشناک صورتحال سے والدین بیحد فکر مند ہوگئے ہیں۔اس لئے ایسے حساس والدین اس بات کی پرزور وکالت کرنے لگ گئے ہیں کہ بچوں کو اسکول میں دلچسپی پر منحصر زیادہ سے زیادہ ہوم ورک دیا جائے تاکہ بچے گھر کے پاکیزہ ماحول میں رہتے ہوئے کھیل کود میں وقت ضائع کئے بغیر زیادہ تر وقت اپنے تعلیمی سرگرمیوں ہی میں مصروف رہیں۔ ایسے حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بچوں کیلئے اسکول کی تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ بھی ہوم ورک نہایت ضروری ہے ؟ آیئے اسی تناظر میں ہم ہوم ورک کی اہمیت و افادیت کو پرکھیں دیکھیں اور جانیں کہ یہ ہمارے بچوں کیلئے کتنا مفید اور کارآمد ہے۔
ماہرین تعلیم نے ہوم ورک کے جہاں فائدے بتلائے ہیں وہیں بعضوں نے اس سے اختلاف بھی کیا ہے۔نیز ہوم ورک سے ہونے والے نقصانات کووضاحت کے ساتھ بھی پیش کیا ہے ۔ تو سب سے پہلے ہوم ورک کے فوائد پر نظر ڈالتے چلیں۔
۱) ہوم ورک سے بچہ شخصی طور پر مطالعہ کرنے کا عادی بن جاتا ہے۔
۲) متعدد مرتبہ اسباق کے مطالعہ سے سبق کے اہم نکات اس کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔
۳) طلباء میں درست املا لکھنے کی عادت پڑتی ہے اور تحریر میں حسن وندرت پیدا کرنے کا فطری جذبہ پنپتا ہے۔
۴) معلومات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔اسکول میں پڑھا ہوا سبق گھر پر اعادہ کرنے کے سبب بہتر طور پر ذہن نشین ہوجاتا ہے۔
۵) بچہ تضیع اوقات سے پوری طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔
۶) اساتذہ ’’ ہوم ورک‘‘ جانچنے کے بعد طلباء کی علمی صلاحیتوں سے کما حقہ واقف ہوجاتے ہیں۔
مذکورہ فوائد کے بعد آیئے اب ہوم ورک کے نقصانات پر بھی ایک اچٹٹی سی نظر ڈالتے چلیں۔
۱) ہوم ورک سے بچوں پر کام کا زیادہ بوجھ پڑجاتا ہے جس سے اُن کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
۲) بچوں کو کھیل کود یا تفریح کے مواقع نہیں ملتے۔
۳) مسلسل ایک ہی قسم کا کام دن بھر کرنے سے بچے اُکتا جاتے ہیں اور گھر پر بھی اسکول کا ہی کام کرنے سے بچوں میں
اسکول اور تعلیم دونوں سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے۔
۴) ہوم ورک کی عدم تکمیل کے سبب اسکول اور تعلیم سے دوری اختیار کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں بلکہ ہوم ورک ترک مدرسہ کا بھی موجب ہوسکتا ہے
۵) موجودہ دور میں قابل لحاظ تعداد ایسے بچوں کی ہے جو فرصت کے اوقات میں چھوٹا موٹا کام کرکے پیسہ کماتے ہیں وہ گھر پر ہوم ورک نہیں کرسکتے اور ایسے بچے سزا کے ڈر سے دوسرے بچوں کی نقل کرکے معلم کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہوم ورک کے نقصانات سے متعلق ایک مکتب فکر کی رائے پر مدلل تبصرہ کرتے ہوئے روزنامہ’’ انقلاب‘‘ ممبئی کی ایک معروف کالم نگار فاطمہ انیس اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں کہ’’ ہوم ورک کے معترضین کے مذکورہ بالا استدلال قبول بھی کرلئے جائیں تو مشکل یہ ہے کہ وہ ہوم ورک کا نعم البدل پیش نہیں کرسکتے۔وہ آگے لکھتی ہیں کہ کلاس روم کی مجرد تعلیم طلبہ کے ذہن نشین نہیں ہوسکتی جب تک کہ طلباء گھر پر اس کا اعادہ نہ کرلیں۔ اس اعادہ کیلئے ہوم ورک سے بہتر ذریعہ فی الحال سامنے نہیں ہے۔وہ مزید لکھتی ہیں کہ’’ اگر ہوم ورک کا طریقہ ترک کردیا گیا تو اساتذہ کے پاس طلباء کی کارکردگی کی تشخیص کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہ جائے گا۔‘‘ اسی طرح ہوم ورک کی اہمیت و افادیت کو گھٹانے میں اساتذہ کوراست موردِ الزام ٹہراتے ہوئے ایک اورجگہ رقمطراز ہیں کہ’’ جب سے اساتذہ نے ہوم ورک دینے اور جانچنے میں تساہلی برتنا شروع کیا ہے ہوم ورک کی افادیت میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ ‘‘
بہرحال فی زمانہ دیکھا یہ جارہا ہے کہ اسکولوں میں دیا جانے والا ہوم ورک بچوں کے لئے محض ایک رسمی خانہ پری کا کام بن کر رہ گیا ہے۔ واقعہ تو یہ ہے کہ ہمارے سرکاری مدارس میں ہوم ورک کی کوئی وقعت ہی باقی ہی نہیں رہی ہے۔ جبکہ دیگر خانگی مدارس میں اس کو برقرار رکھنے کے پس پردہ جو عوامل کارفرما ہیں وہ یہ کہ تعلیم سے متعلق اولیائے طلباء کچھ حد تک مطمئن رہ سکیں اور انہیں بھاری فیس کی ادائیگی بوجھ نہ محسوس ہو سکے۔ اس لئے ابتدائی جماعتوں سے ہی ہوم ورک پر غیر معمولی زور دیا جاتا ہے۔ہوم ورک کی کاپیاں دیکھنے کے باعث بعض قابل توجہ باتیں اُبھر کر آتی ہیں مثلاًاچھا ہوم ورک کرنے والے محنتی بچوں کی پذیرائی میں بعض اساتذہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر بخالت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔خیرایسی شکایات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں مگر اس بات کو کیسے نظر انداز کیا جائے کہ بعض ہوم ورک کی کاپیوں میں غلط جوابات، املا یا تحریر میں نقص کے باوجود ہوم ورک کو تساہلی عدم دلچسپی کے ساتھ جا نچنے کے نتیجے میں صحت کے بغیرہی حیرت انگیز طور پروہ بالکل درست قرار دیدیا جاتا ہے ۔ عام طور پر اساتذہ کا یہی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل بچوں کیلئے ہوم ورک سے بے رغبتی اور عدم دلچسپی کا موجب بنتا نظر آتاہے ۔بچوں کے معصوم ذہنوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں یہ بات مقد س پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ہمارے معلمین یا معلمات بھی بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔ یہاں نکتہ کی ایک بات کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اساتذہ کا قلیل مشاہیرہ پر خدمت انجام دینا بھی شاید اس کی ایک اہم اور بنیادی وجہ ہوسکتی ہے مطلب یہ کہ جتنی تنخواہ بس اُتنا ہی کام بچے کی تعلیمی زیاں سے ہمیں کیا سروکار؟ ۔ اس کیلئے تعلیمی انتظامیہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کے ازالہ کیلئے موثر اقدامات کریں اوراپنے تعلیمی اداروں میں پرکشش تنخواہوں پر تجربہ کار قابل اور محنتی ٹیچروں کا تقرر عمل میں لائیں ۔یہ بات تعلیمی اداروں کو ہرگزنہیں بھولنی چاہیئے کہ وہ بچوں سے بھاری فیس اور ڈونیشن آخر کس مقصد کے تحت وصولتے ہیں۔؟
نہایت تاسف کی بات ہے کہ ہوم ورک کا رجحان بچو ں میں بالخصوص لڑکوں میں بتدریج کم ہونے لگا ہے طلباء کی اکثریت ہوم ورک سے جی چرانے لگ گئی ہے ۔اس رجحا ن کا تدارک از حد ضروری ہے۔اس کیلئے اساتذہ کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ اس لئے ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ وہ ہوم ورک سے متعلق تیاریوں میں سائنٹفک طریقوں اور اصولوں کو ہی اپنائیں اور بچوں میں احتسابی و اکتسابی رغبت پیدا کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ بچوں کی ذہنی استعدادکو خصوصی طور پر ملحوظ رکھتے ہوئے پوری منصوبہ بندی کے تحت دلچسپ اور کارآمدہوم ورک د یں ۔ تاکہ بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں ، اُن کی انفرادی خصوصیات اور ان کی فطری جبلتوں کی فروغ کیلئے ممد و معاون ثابت ہوسکے اور پھربچے جو ملک و قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں ان میں ہوم ورک کے توسط سے علم کا حصول آسان سے آسان تر ہوجائے اور ان میں ازسر نو ایک نئی تحریک جوش و ولولہ ا وراُمنگ کی کیفیت پیدا ہوسکے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب ٹیچرس خود ہوم ورک کو اپنے تدریسی فرائض کا ایک اہم حصہ مان کر اس عمل پر کاربند ہوجائیں گے۔ حاصل کلام یہ کہ بچے کی علمی قابلیت میں اضافہ کرنے کیلئے بچہ کو لازماً ہوم ورک کرنا ہوگا اور ٹیچر کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ہوم ورک کی نہایت باریک بینی سے اس کی جانچ بھی کرے۔تاوقتیکہ یہ دو طرفہ عمل نہیں ہوگا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔***

1 comment:

  1. بہت اعلی لکھا ہے اس طرز کا بلاگ پہلی بار نظر سے گزرا ہے جزاک اللہ

    ReplyDelete