آواز تھی یا زلزلہ؟
-
محمد اکرام اللہ خان اشرفی
رب کریم نے بے شمار مخلوقات کو کوئی نہ کوئی کام سونپ دیا ہے۔ جتنی بھی
مخلوقات ہیں ان میں جن و انس کو زیادہ احکامات دیئے گئے ہیں۔ ان احکامات کے
بارے میں سوال ضرور کیا جائے گا۔ انسانوں کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے
اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی کائنات کا علم بھی سکھایا ہے اور ساتھ ہی
ساتھ تمام مخلوقات کو مسخر کرنے کی قوت بھی رب کائنات نے عطا کردی۔
تخلیقِ کائنات کے بعد رب کریم نے بغرضِ کرم حضرتِ انسان کو اپنی تعلیم دینے کے لیے نبیوں، رسولوں اور پیغمبروں کا ایک سلسلہ جاری رکھا۔ انسانوں کی تخلیق کے بعد رب العالمین نے انسانوں کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا کہ جس طرح چاہو زندگی گزار دو، بلکہ ہردور میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم نبیوں، رسولوں کے ذریعے انسانوں تک آتی رہی اور اس تعلیم اور نبیوں کے احکامات کے مطابق جو لوگ اپنی زندگی گزارنے لگے وہی صالحین میں شمار کیے گئے اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے کہلائے جن کے نیک ہونے کا ذکر الہامی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔
اور جب عیسیٰ ابن مریم کا دور بھی ختم ہوگیا، لوگ ایک اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر غیر اللہ کی جانب مکمل طور پر اپنا رخ کرچکے تھے۔ دنیا جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ ہر طرف بتوں کی ہی عبادت ہوتی تھی۔ ہر انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیمات کو یکسر بھلا بیٹھا تھا۔
حضرت نوح علیہ السلام کی امت کے کچھ نیک لوگوں کی شکل و صورت کو پتھر پر تراش خراش کر بت خانے میں رکھ دیا گیا اور باقاعدہ ان بتوں کی عبادت ہونے لگی۔ یہ سب شیطان کے چکر میں آگئے اور ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کی عبادت میں لگ کر اللہ تعالیٰ کو بھول گئے۔ وہ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو مدد کے لیے پکارا کرتے تھے۔ گمراہی کی وجہ سے جو سر تا پیر شرک میں ملوث تھے مگر اشرف المخلوقات میں سے تھے، جو غیر اللہ کے آستانے پر سر رکھ کر مدد مدد کی پکار لگایا کرتے تھے، وہ سب کے سب اپنی مشرکانہ زندگی سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پانی میں ڈبو دیئے گئے اور سب مشرک جہنم میں جاگرے جہاں ان کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ اوراللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ اپنی دوسری مخلوق کو بھیج دیا۔
یہ غیر اللہ کو ماننے والے خانہ کعبہ میں بھی بت رکھ کر ان کی عبادت میں مشغول ہوگئے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کو یکسر بھلادیا اور شب و روز مشرکانہ زندگی گزارنے لگے۔ بتوں کو اپنا حاجت روا، مشکل کشا اور ہر بگڑی کا بنانے والا تسلیم کرلیا گیا، انہی کے قدموں پر نذر و نیاز کے چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے.... کہ اچانک شہر مکہ میں ایک گونج سنائی دی: لاالہ الااللہ۔ لوگو! گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
یہ کیسی گونج تھی کہ جس نے سارے شہر مکہ کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ آواز محمد بن عبداللہ کی تھی۔ سردارانِ مکہ تڑپ اٹھے کہ محمد بن عبداللہ نے یہ کیا کہہ دیا۔ ہمارے آباو اجداد کے معبودوں اور تمام رسم و رواج کو یکسر مسترد کردیا۔ یہ صدا انسانوں کو ان کے حقیقی پروردگار سے آگاہ کرنے اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت تھی۔
شاعر نے کیا خوب کہا:
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
عرب اپنی زبان دانی کی بدولت ”اللہ“ کا مفہوم اور لاالہ الااللہ کا مدعا خوب سمجھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے خودساختہ نظاموں، ان کی پیشوائی اور قیادت کے ساتھ یہ دعوت کیا سلوک کرنا چاہتی ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے اس پیامِ انقلاب کا اس تشدد اور غیظ و غضب کے ساتھ استقبال کیا اور اس کے خلاف وہ معرکہ آرائی کی جس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ آپ نے تمام تکالیف برداشت کیں اور اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے رہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن نازل کرتا رہا اور جگہ جگہ اپنے پیارے نبی کی شان بھی بیان کرتا رہا۔
اس آیت سے ایمان لانے والوں کو مزید تقویت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں فرما رہا ہی:
”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔“ (الفتح:4)
اسی طرح (سورہ ¿ محمد:1 میں) رب کائنات فرماتا ہی: ”اور وہ اس (کلام) پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوا اور وہ برحق ہے ان کے پروردگار کی جانب سے“۔
نبی پاک شب و روز اللہ کی ہدایت کے مطابق شرک مٹانے اور اللہ کی وحدانیت قائم کرنے کی سعی فرما رہے ہیں اور قرآن کا نزول جاری ہے۔
رب کائنات کا فرمان آیا: ”اے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے سب لوگوں کو پہنچادو۔“ (المائدہ: 67)
حکم پہنچانے کا وقت آگیا تو آپ نے اللہ کا نازل کردہ پیغام، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عبادت کرنے کا حکم اللہ کے بتائے ہوئے الفاظ میں بیان کردیا: ”اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا کہ شاید تم پرہیزگار بن جاو“۔
رب العالمین کو تسلیم کرلیا کہ ”نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے“۔ اب معبود کی عبادت کا حکم رب کریم کی طرف سے آرہا ہے کہ ”اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو۔“ حکم بھی دے رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ طریقہ بھی اپنے پیارے نبی کے ذریعے بتارہا ہی: ”آپ کہہ دیجیے، اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے پچھلے گناہ معاف فرمادے گا اور (آئندہ گناہ سے بچائے گا) اللہ غفور الرحیم ہے۔“
اللہ تعالیٰ کا حکم ایمان لانے والوں کے لیے نازل ہوتا ہے کہ پیروی کرو تو صرف نبی پاک ہی کی۔
”جو کچھ اللہ کا رسول تمہیں دے اسے اختیارکرو اور جس چیز سے وہ منع کردے اس سے رک جاو“۔
نبی کریم فرمان الٰہی سناکر مسلمانانِ کائنات کو آنے والے وقت سے آگاہ فرما رہے ہیں کہ آنے والا وقت قیامت کا ہے۔ اس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔
عرب کی سرزمین حیران تھی، ان کے سامنے قرآن کا نزول جاری تھا اور اللہ تعالیٰ ان کے دل پر قرآن اور صاحبِ قرآن کی محبت بٹھاتا جاتا تھا۔ مکہ شہر میں دینِ حق کی بجلی کڑک رہی تھی۔ دینِ حق کی تیز ہوا طوفانی ہوا بن کر دل و دماغ کو الٹ پلٹ کر رکھ رہی تھی۔
شاعر نے کیا خوب کہا:
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگا دی
اک آواز میں سوتی بستی جگادی
دین حق کے طوفانی بھنور میں حضرت عمرؓ بن خطاب بھی آگئے۔ ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر گھر سے نکلے کہ مکہ شہر کا امن و امان خراب ہورہا ہے، آج محمد بن عبداللہ کو (نعوذ باللہ) قتل کرکے معاملہ ختم کردوں گا اور مکہ میں امن قائم کردوں گا۔ مگر اللہ کا اپنا کام تھا۔ عمرؓ بن خطاب بہن کے گھر گئے، بہن بہنوئی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ آخر تھک ہارکر کہا: دکھاو مجھے کیا پڑھ رہے تھے۔ قرآن کے اوراق پر نظر ڈالے، وہ دل تک جاپہنچی۔ تڑپ اٹھے۔ سیدھے دار ارقم کی جانب لپکے۔ دل کا برا حال تھا۔ دستک دی۔ صحابہ کرامؓ نے دیکھا عمرؓ بن خطاب اور ہاتھ میں ننگی تلوار۔ آپ نے حکم دیا دروازہ کھول دو۔ وہ اندر آئے تو پوچھا: عمرؓ بن خطاب کیوں آئے ہو؟
شاعر نے کیا خوب کہا:
کبھی کے جو پھرتے تھے مالک سے بھاگی
دیے سر جھکا ان کے مالک کے آگی
فرمایا عمرؓ بن خطاب نے ”دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہوں“۔
یہ سننا تھا کہ صحابہؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
پڑا ہر طرف غل یہ پیام حق سی
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سی
یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جس کو جب چاہے دین کی نہ صرف سمجھ عطا کرے بلکہ دینِ اسلام کا امیر بھی مقرر کردے اور قیامت تک دنیا و آخرت میں عزت بھی بخشے۔
تخلیقِ کائنات کے بعد رب کریم نے بغرضِ کرم حضرتِ انسان کو اپنی تعلیم دینے کے لیے نبیوں، رسولوں اور پیغمبروں کا ایک سلسلہ جاری رکھا۔ انسانوں کی تخلیق کے بعد رب العالمین نے انسانوں کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا کہ جس طرح چاہو زندگی گزار دو، بلکہ ہردور میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم نبیوں، رسولوں کے ذریعے انسانوں تک آتی رہی اور اس تعلیم اور نبیوں کے احکامات کے مطابق جو لوگ اپنی زندگی گزارنے لگے وہی صالحین میں شمار کیے گئے اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے کہلائے جن کے نیک ہونے کا ذکر الہامی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔
اور جب عیسیٰ ابن مریم کا دور بھی ختم ہوگیا، لوگ ایک اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر غیر اللہ کی جانب مکمل طور پر اپنا رخ کرچکے تھے۔ دنیا جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ ہر طرف بتوں کی ہی عبادت ہوتی تھی۔ ہر انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیمات کو یکسر بھلا بیٹھا تھا۔
حضرت نوح علیہ السلام کی امت کے کچھ نیک لوگوں کی شکل و صورت کو پتھر پر تراش خراش کر بت خانے میں رکھ دیا گیا اور باقاعدہ ان بتوں کی عبادت ہونے لگی۔ یہ سب شیطان کے چکر میں آگئے اور ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کی عبادت میں لگ کر اللہ تعالیٰ کو بھول گئے۔ وہ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو مدد کے لیے پکارا کرتے تھے۔ گمراہی کی وجہ سے جو سر تا پیر شرک میں ملوث تھے مگر اشرف المخلوقات میں سے تھے، جو غیر اللہ کے آستانے پر سر رکھ کر مدد مدد کی پکار لگایا کرتے تھے، وہ سب کے سب اپنی مشرکانہ زندگی سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پانی میں ڈبو دیئے گئے اور سب مشرک جہنم میں جاگرے جہاں ان کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ اوراللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ اپنی دوسری مخلوق کو بھیج دیا۔
یہ غیر اللہ کو ماننے والے خانہ کعبہ میں بھی بت رکھ کر ان کی عبادت میں مشغول ہوگئے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کو یکسر بھلادیا اور شب و روز مشرکانہ زندگی گزارنے لگے۔ بتوں کو اپنا حاجت روا، مشکل کشا اور ہر بگڑی کا بنانے والا تسلیم کرلیا گیا، انہی کے قدموں پر نذر و نیاز کے چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے.... کہ اچانک شہر مکہ میں ایک گونج سنائی دی: لاالہ الااللہ۔ لوگو! گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
یہ کیسی گونج تھی کہ جس نے سارے شہر مکہ کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ آواز محمد بن عبداللہ کی تھی۔ سردارانِ مکہ تڑپ اٹھے کہ محمد بن عبداللہ نے یہ کیا کہہ دیا۔ ہمارے آباو اجداد کے معبودوں اور تمام رسم و رواج کو یکسر مسترد کردیا۔ یہ صدا انسانوں کو ان کے حقیقی پروردگار سے آگاہ کرنے اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت تھی۔
شاعر نے کیا خوب کہا:
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
عرب اپنی زبان دانی کی بدولت ”اللہ“ کا مفہوم اور لاالہ الااللہ کا مدعا خوب سمجھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے خودساختہ نظاموں، ان کی پیشوائی اور قیادت کے ساتھ یہ دعوت کیا سلوک کرنا چاہتی ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے اس پیامِ انقلاب کا اس تشدد اور غیظ و غضب کے ساتھ استقبال کیا اور اس کے خلاف وہ معرکہ آرائی کی جس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ آپ نے تمام تکالیف برداشت کیں اور اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے رہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن نازل کرتا رہا اور جگہ جگہ اپنے پیارے نبی کی شان بھی بیان کرتا رہا۔
اس آیت سے ایمان لانے والوں کو مزید تقویت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں فرما رہا ہی:
”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔“ (الفتح:4)
اسی طرح (سورہ ¿ محمد:1 میں) رب کائنات فرماتا ہی: ”اور وہ اس (کلام) پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوا اور وہ برحق ہے ان کے پروردگار کی جانب سے“۔
نبی پاک شب و روز اللہ کی ہدایت کے مطابق شرک مٹانے اور اللہ کی وحدانیت قائم کرنے کی سعی فرما رہے ہیں اور قرآن کا نزول جاری ہے۔
رب کائنات کا فرمان آیا: ”اے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے سب لوگوں کو پہنچادو۔“ (المائدہ: 67)
حکم پہنچانے کا وقت آگیا تو آپ نے اللہ کا نازل کردہ پیغام، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عبادت کرنے کا حکم اللہ کے بتائے ہوئے الفاظ میں بیان کردیا: ”اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا کہ شاید تم پرہیزگار بن جاو“۔
رب العالمین کو تسلیم کرلیا کہ ”نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے“۔ اب معبود کی عبادت کا حکم رب کریم کی طرف سے آرہا ہے کہ ”اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو۔“ حکم بھی دے رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ طریقہ بھی اپنے پیارے نبی کے ذریعے بتارہا ہی: ”آپ کہہ دیجیے، اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے پچھلے گناہ معاف فرمادے گا اور (آئندہ گناہ سے بچائے گا) اللہ غفور الرحیم ہے۔“
اللہ تعالیٰ کا حکم ایمان لانے والوں کے لیے نازل ہوتا ہے کہ پیروی کرو تو صرف نبی پاک ہی کی۔
”جو کچھ اللہ کا رسول تمہیں دے اسے اختیارکرو اور جس چیز سے وہ منع کردے اس سے رک جاو“۔
نبی کریم فرمان الٰہی سناکر مسلمانانِ کائنات کو آنے والے وقت سے آگاہ فرما رہے ہیں کہ آنے والا وقت قیامت کا ہے۔ اس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔
عرب کی سرزمین حیران تھی، ان کے سامنے قرآن کا نزول جاری تھا اور اللہ تعالیٰ ان کے دل پر قرآن اور صاحبِ قرآن کی محبت بٹھاتا جاتا تھا۔ مکہ شہر میں دینِ حق کی بجلی کڑک رہی تھی۔ دینِ حق کی تیز ہوا طوفانی ہوا بن کر دل و دماغ کو الٹ پلٹ کر رکھ رہی تھی۔
شاعر نے کیا خوب کہا:
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگا دی
اک آواز میں سوتی بستی جگادی
دین حق کے طوفانی بھنور میں حضرت عمرؓ بن خطاب بھی آگئے۔ ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر گھر سے نکلے کہ مکہ شہر کا امن و امان خراب ہورہا ہے، آج محمد بن عبداللہ کو (نعوذ باللہ) قتل کرکے معاملہ ختم کردوں گا اور مکہ میں امن قائم کردوں گا۔ مگر اللہ کا اپنا کام تھا۔ عمرؓ بن خطاب بہن کے گھر گئے، بہن بہنوئی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ آخر تھک ہارکر کہا: دکھاو مجھے کیا پڑھ رہے تھے۔ قرآن کے اوراق پر نظر ڈالے، وہ دل تک جاپہنچی۔ تڑپ اٹھے۔ سیدھے دار ارقم کی جانب لپکے۔ دل کا برا حال تھا۔ دستک دی۔ صحابہ کرامؓ نے دیکھا عمرؓ بن خطاب اور ہاتھ میں ننگی تلوار۔ آپ نے حکم دیا دروازہ کھول دو۔ وہ اندر آئے تو پوچھا: عمرؓ بن خطاب کیوں آئے ہو؟
شاعر نے کیا خوب کہا:
کبھی کے جو پھرتے تھے مالک سے بھاگی
دیے سر جھکا ان کے مالک کے آگی
فرمایا عمرؓ بن خطاب نے ”دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہوں“۔
یہ سننا تھا کہ صحابہؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
پڑا ہر طرف غل یہ پیام حق سی
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سی
یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جس کو جب چاہے دین کی نہ صرف سمجھ عطا کرے بلکہ دینِ اسلام کا امیر بھی مقرر کردے اور قیامت تک دنیا و آخرت میں عزت بھی بخشے۔
No comments:
Post a Comment