عصرِ حاضر کا انسان مذہب سے بیزار کیوں ہے؟
-شاہنواز فاروقی
ممتاز دانش ور سراج منیر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ عصرِ حاضر کا انسان زندگی اور کائنات کی روحانی تعبیر سے بچنے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار ہے۔ سراج منیر کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ 7 ارب انسانوں کی اس دنیا میں تین، ساڑھے تین ارب انسان ایسے ہیں جو سرے سے مذہب کے قائل ہی نہیں۔ ان کے لیے مذہب ایک ناقابلِ فہم اور ناپسندیدہ حقیقت ہے اور وہ مذہب کو اپنی زندگی سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی دانش ورانہ، علمی اور کلاسیکل مثال امریکہ کے ممتاز ماہرِ عمرانیات ایلون ٹوفلر ہیں۔ ایلون ٹوفلر نے مغربی تہذیب کے بحران کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل تین کتابیں تحریر کیں۔ ان کتابوں میں ٹوفلر نے یہ ثابت کرنے کے لیے معلومات کا انبار لگادیا ہے کہ مغربی تہذیب بدترین بحران کا شکار ہے۔
معلومات جمع کرنے کے سلسلے میں ٹوفلر کی محنت اور لیاقت دیکھ کر رشک آتا ہی، لیکن ڈیڑھ ہزار صفحات لکھنے والے نے معلومات کے ”ہمالے“ سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ افسوس ناک حد تک مایوس کن اور بچکانہ ہے۔ ٹوفلر نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب کا بحران سائنس اور ٹیکنالوجی کا پیدا کردہ ہی، لیکن اس بحران کو ختم کرنے کے لیے ہمیں مذہب کی طرف نہیں دیکھنا چاہیی، یہ بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی اس بحران کو ختم کرے گی۔
سوال یہ ہے کہ انسان زندگی اور کائنات کو سمجھنے اور انسانیت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مذہب کی مدد لینے کے لیے کیوں تیار نہیں؟
اس کی ایک وجہ ڈارون کا نظریہ ارتقاءہے۔ ڈارون ماہر حیاتیات یا Biologist تھا اور اس نے زمین پر انسان کے ظہور کے حوالے سے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان پہلے دن سے اپنی موجودہ ہیئت میں موجود نہیں، بلکہ کبھی وہ زمین پر رینگنے والا ایک حقیر جرثومہ تھا۔ یہ جرثومہ ارتقاءکے مدارج طے کرتا ہوا رینگنے والا کیڑا بنا، اور پھر مزید ترقی کرتا ہوا یہ بندر بن گیا۔ جرثومے کا ارتقاءاس منزل پر رک نہیں گیا بلکہ بندر ترقی کرتا ہوا انسان بن گیا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاءمیں تین بڑے نقائص تھے۔
ڈارون کے نظریے کا پہلا نقص یہ تھا کہ اس کا نظریہ ایک نظریہ یا محض ایک سائنسی قیاس آرائی تھی، لیکن ڈارون کے نظریے یاTheory کو ثابت شدہ سائنسی حقیقت یا Proven Scientific fact کے طور پر قبول کرلیا گیا جس کا کوئی سائنسی یا عقلی جواز نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈارون کا نظریہ دیکھتے ہی دیکھتے ”سائنسی عقیدہ“ بن گیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ خود مغرب میں ڈارون کے نظریہ ارتقاءکو سائنسی بنیادوں پر چیلنج کردیا گیا اور اس کی سائنسی بنیادیں مشتبہ قرار دے دی گئیں، مگر اس کے باوجود مغرب ہی نہیں پوری دنیا میں آج بھی نظریہ ارتقاءایک ”سائنسی حقیقت“ کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔
نظریہ ارتقاءکا دوسرا بڑا نقص یہ تھا کہ اس نے کمتر سے برتر کو برآمد ہوتے دکھایا۔ حالانکہ زندگی کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ برتر سے کمتر کا ظہور ہوسکتا ہی، لیکن کمتر سے برتر کا ظہور نہیں ہوسکتا۔ یعنی انسان تو بندر بن سکتا ہے لیکن بندر انسان نہیں بن سکتا۔
ڈارون کے نظریے کا تیسرا بڑا نقص یہ تھا کہ اس کا تعلق بنیادی طور پر حیاتیات کے شعبے سے تھا، لیکن اسے عمومیا لیا گیا، یعنی Generalize کرلیا گیا۔ چنانچہ نظریہ ارتقاءکا اطلاق زندگی کے ہر شعبے پر کردیا گیا، یہاں تک کہ انسانی تاریخ بھی اس کی زد میں آگئی۔ اس سے تاریخ کے خطِ مستقیم میں سفر یا Linear motion کا نظریہ پیدا ہوا، جس کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی تاریخ خطِ مستقیم یا سیدھی لکیر کی صورت میں مسلسل آگے کی طرف سفر کررہی ہے۔ اس سفر میں انسان کا ہر نیا قدم پچھلے قدم سے بہتر ہے۔ تاریخ کے اس نظریے نے جیمس فریزر سے Golden Bough یعنی شاخ زریں جیسی کتاب لکھوائی جس میں فریزر نے پوری انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
جیمس فریزر نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ کا پہلا دور جادو کا دور تھا۔ یہ انسان کا ابتدائی زمانہ تھا جس میں انسان کا ذہن زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا۔ چنانچہ اس دور میں انسانی فکر توہم پرستی کا شکار تھی۔ انسان کے ذہن نے مزید ترقی کی تو انسان نے مذہب ”ایجاد“ کرلیا۔ مذہب کے زمانے کی فکر جادو کے دور کی فکر کے مقابلے پر زیادہ منظم تھی، لیکن اس فکر میں بھی عقل کا عمل دخل کم تھا۔ مذہب کے دور سے انسان فلسفے کے دور میں داخل ہوا، اور یہ دور اس بات کی علامت تھی کہ انسان نے عقل سے کام لینا سیکھ لیا ہے اور اب اسے اپنی زندگی کی معنویت کو سمجھنے کے لیے کسی ماورائی طاقت یعنی معاذاللہ خدا کی ضرورت نہیں رہی۔ چونکہ انسانی تاریخ مسلسل خطِ مستقیم میں آگے کی جانب سفر کررہی ہی، اس لیے فلسفے کا عہد بھی ماضی کی یادگار بن گیا اور انسان سائنسی دور میں داخل ہوگیا۔ فلسفے کے عہد میں دلیل محض ایک ”خبر“ تھی، سائنس نے خبر کو ”نظر“ بنادیا، یعنی دلیل مشاہدہ اور سائنسی تجربہ بن گئی۔
نظریہ ارتقاءاور اس کے تاریخ کے تصور پر پڑنے والے اثرات کے نتیجے میں مذہب کے حوالے سے تین تصورات عام ہوئی:
1۔ مذہب ماضی کی یادگار ہے۔
2۔ مذہب غیر عقلی چیز ہے۔
3۔ مذہب پسماندہ ذہن کا عکاس ہے۔
چونکہ یہ تصورات نام نہاد علمی بنیادوں پر پوری دنیا میں عام ہوگئی، اس لیے مذہب بیزاری بھی ایک عالمگیر مسئلہ بن کر سامنے آگئی۔
تجزیہ کیا جائے تو مذہب کے بارے میں یہ تمام تصورات خودساختہ، برخود غلط اور تاریخ کے سطحی فہم پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں گزرا جو مذہبی عہد نہ ہو۔ تاریخ کا ہر دور مذہب کا دور ہی، البتہ تاریخ میں یہ ضرور ہوتا رہا ہے کہ مذہب کی تعلیمات مسخ کردی جاتی ہیں، جس کے بعد مذہب پس منظر میں چلا جاتا ہے اور باطل نظریات پیش منظر پر غالب آجاتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ مذہب کو غیر عقلی یا Irrational کہتے ہیں وہ Irrationality اور Supra rationality یعنی غیر عقلی چیز اور ماورائے عقل شے کے فرق سے آگاہ نہیں۔ مذہب غیر عقلی یا Irrationalنہیں ماورائے عقل یا Supra-rational ہے۔ یعنی مذہب کے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عقل کے پاس بھی نہیں ہے۔ یہ ذریعہ وحی ہے۔ اسی طرح جو لوگ مذہب کو انسانی ذہن کی پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں ان کا معاملہ چمگادڑوں والا ہے۔ چمگادڑوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اندھیرا روشن اور روشنی اندھیرا محسوس ہوتی ہے۔ اندھیرے میں ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور روشنی میں انہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
عصر حاضر میں لوگوں کی مذہب بیزاری کی ایک وجہ یہ خیال رہا ہے کہ مذہبی عناصر بادشاہوں وغیرہ کے ساتھ اتحاد کرکے عوام کے استحصال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عیسائیت اور ہندوازم کی تاریخ کو اس سلسلے میں مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ یورپ میں چرچ اور ریاست کی علیحدگی کا تصور اسی بنیاد پر پیدا ہوا۔ کارل مارکس نے مذہب کی جو تنقید لکھی اس میں عیسائیت کی تاریخ کی مثالوں کو پیش نظر رکھا۔ بدقسمتی سے دو مذاہب کی مثالوں کو مذہب کی پوری روایت پر چسپاں کردیا گیا۔ حالانکہ مذاہبِ عالم بالخصوص اسلام کی تاریخ میں مذہب کے ترجمان عوام کے حقیقی نمائندوں کے طور پر ریاستی جبر کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ مغرب میں اس کی سب سے بڑی مثال سقراط ہے۔ سقراط کا جرم یہ تھا کہ وہ معاشرے کے نوجوانوں کو حکومتِ وقت کا باغی بنارہا تھا اور حکمرانوں کو اندیشہ تھا کہ سقراط عوامی طاقت کے ذریعے ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ اسلامی تاریخ میں منصور حلاج کو ایک چیستان بنادیا گیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسے اناالحق کہنے کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ منصور کی شخصیت کی خودنمائی اس کو لے ڈوبی۔ لیکن اصل بات صرف اتنی سی تھی کہ منصور نوجوانوں کو حکمرانوں کے خلاف صف آراءکررہا تھا اور نوجوانوں میں اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ مغلوں کے دور میں حضرت مجدد الف ثانیؒ دربار کی طاقت کے مقابلے پر قوت کا دوسرا مرکز بن کر ابھرے اور انہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے جہانگیر کو چیلنج کیا۔ لیکن مغرب کے مفکرین نے اسلام کے حوالے سے اپنی لاعلمی اور اسلام کے خلاف اپنے تعصبات کی وجہ سے اسلام کی تاریخ کو اہمیت ہی نہیں دی۔
گزشتہ تین سو سال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اہلِ مذاہب خود مذہب بیزاری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نٹشے نے جب مغرب میں یہ اعلان کیا کہ نعوذباللہ خدا مر گیا ہے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کا تصور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی معنویت متعین کرنے والی اور اس پر حکمرانی کرنے والی حقیقت نہیں رہا۔ اس کے معنی یہ تھے کہ اہلِ مذہب نے اپنے عقائد کو بسر کرنا چھوڑ دیا ہے اور انہوں نے اپنے عقائد کو نعروں میں ڈھال لیا ہے اور مذہب ظاہر پرستی بن کر رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری مغرب کے لادین کہلانے والے فلسفیوں، مفکرین اور شاعروں، ادیبوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ ان لوگوں نے صرف یہ کیا کہ جو کچھ انہیں نظر آرہا تھا اور محسوس ہورہا تھا اس کی گواہی دی اور اپنے نظریات کو عمومی بنادیا۔
اہلِ مذہب کا ایک جرم یہ ہے کہ انہوں نے باطل کی مزاحمت کا حق ادا نہیں کیا۔ انہوں نے یا تو باطل کی غلط بنیادوں پر مزاحمت کی یا پھر اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ایک وقت تھا کہ عیسائیت سائنس دانوں کے نظریات کو کفر قرار دے کر سائنس دانوں کو جلا رہی تھی، مگر جب وہ سائنسی انکشافات و اکتشافات کا مقابلہ نہ کرسکی تو پھر اس نے سائنس کو خدا بنالیا۔ یہودیت، ہندوازم اور بدھ ازم نے سیکولرازم کے سامنے جس طرح ہتھیار ڈالے وہ مذاہب کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں روایتی علماءنے یہ تو بیان کیا کہ حق کیا ہی، لیکن یہ بیان نہ کیا کہ باطل کیا ہی، اس کی تفصیلات کیا ہیں، اور حق باطل اور اس کی تفصیلات کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ برصغیر میں یہ کام اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ اور عالم عرب میں حسن البنائؒ اور سید قطبؒ نے کیا۔ یہ چار افراد نہ ہوتے تو مسلم دنیا باطل کی تفہیم اور اس کی مزاحمت سے اسی طرح بے نیاز ہوجاتی جس طرح دوسری ملّتیں باطل کی مزاحمت سے بے نیاز ہوگئیں۔ تاہم امت ِمسلمہ کے دائرے سے باہر اہلِ مذہب نے باطل کے سلسلے میں جو روش اختیار کی اس نے ساری دنیا میں اس خیال کو عام کیا کہ مذہب کوئی ایسی چیز نہیں جس سے محبت کی جائے اور جس کے تحفظ کے لیے جان لڑائی جائے۔
عہدِ جدید میں اہل مذہب کی ایک ہولناک ناکامی یہ ہے کہ اہل باطل نے باطل کو ”نظام“ بنا دیا اور اہلِ حق، حق کی بنیاد پر نظام وضع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ لیکن یہ اہلِ باطل کی واحد کامیابی نہیں ہے۔ اہلِ باطل نے نظام بھی بنایا اور اسے اربوں لوگوں کے لیے پُرکشش بھی بنایا۔ اہلِ حق اول تو حق کو نظام ہی نہ بناسکی، اور انہوں نے بنایا بھی تو اس میں لوگوں کو غیر معمولی کشش محسوس نہیں ہوئی۔
معلومات جمع کرنے کے سلسلے میں ٹوفلر کی محنت اور لیاقت دیکھ کر رشک آتا ہی، لیکن ڈیڑھ ہزار صفحات لکھنے والے نے معلومات کے ”ہمالے“ سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ افسوس ناک حد تک مایوس کن اور بچکانہ ہے۔ ٹوفلر نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب کا بحران سائنس اور ٹیکنالوجی کا پیدا کردہ ہی، لیکن اس بحران کو ختم کرنے کے لیے ہمیں مذہب کی طرف نہیں دیکھنا چاہیی، یہ بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی اس بحران کو ختم کرے گی۔
سوال یہ ہے کہ انسان زندگی اور کائنات کو سمجھنے اور انسانیت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مذہب کی مدد لینے کے لیے کیوں تیار نہیں؟
اس کی ایک وجہ ڈارون کا نظریہ ارتقاءہے۔ ڈارون ماہر حیاتیات یا Biologist تھا اور اس نے زمین پر انسان کے ظہور کے حوالے سے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان پہلے دن سے اپنی موجودہ ہیئت میں موجود نہیں، بلکہ کبھی وہ زمین پر رینگنے والا ایک حقیر جرثومہ تھا۔ یہ جرثومہ ارتقاءکے مدارج طے کرتا ہوا رینگنے والا کیڑا بنا، اور پھر مزید ترقی کرتا ہوا یہ بندر بن گیا۔ جرثومے کا ارتقاءاس منزل پر رک نہیں گیا بلکہ بندر ترقی کرتا ہوا انسان بن گیا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاءمیں تین بڑے نقائص تھے۔
ڈارون کے نظریے کا پہلا نقص یہ تھا کہ اس کا نظریہ ایک نظریہ یا محض ایک سائنسی قیاس آرائی تھی، لیکن ڈارون کے نظریے یاTheory کو ثابت شدہ سائنسی حقیقت یا Proven Scientific fact کے طور پر قبول کرلیا گیا جس کا کوئی سائنسی یا عقلی جواز نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈارون کا نظریہ دیکھتے ہی دیکھتے ”سائنسی عقیدہ“ بن گیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ خود مغرب میں ڈارون کے نظریہ ارتقاءکو سائنسی بنیادوں پر چیلنج کردیا گیا اور اس کی سائنسی بنیادیں مشتبہ قرار دے دی گئیں، مگر اس کے باوجود مغرب ہی نہیں پوری دنیا میں آج بھی نظریہ ارتقاءایک ”سائنسی حقیقت“ کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔
نظریہ ارتقاءکا دوسرا بڑا نقص یہ تھا کہ اس نے کمتر سے برتر کو برآمد ہوتے دکھایا۔ حالانکہ زندگی کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ برتر سے کمتر کا ظہور ہوسکتا ہی، لیکن کمتر سے برتر کا ظہور نہیں ہوسکتا۔ یعنی انسان تو بندر بن سکتا ہے لیکن بندر انسان نہیں بن سکتا۔
ڈارون کے نظریے کا تیسرا بڑا نقص یہ تھا کہ اس کا تعلق بنیادی طور پر حیاتیات کے شعبے سے تھا، لیکن اسے عمومیا لیا گیا، یعنی Generalize کرلیا گیا۔ چنانچہ نظریہ ارتقاءکا اطلاق زندگی کے ہر شعبے پر کردیا گیا، یہاں تک کہ انسانی تاریخ بھی اس کی زد میں آگئی۔ اس سے تاریخ کے خطِ مستقیم میں سفر یا Linear motion کا نظریہ پیدا ہوا، جس کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی تاریخ خطِ مستقیم یا سیدھی لکیر کی صورت میں مسلسل آگے کی طرف سفر کررہی ہے۔ اس سفر میں انسان کا ہر نیا قدم پچھلے قدم سے بہتر ہے۔ تاریخ کے اس نظریے نے جیمس فریزر سے Golden Bough یعنی شاخ زریں جیسی کتاب لکھوائی جس میں فریزر نے پوری انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
جیمس فریزر نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ کا پہلا دور جادو کا دور تھا۔ یہ انسان کا ابتدائی زمانہ تھا جس میں انسان کا ذہن زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا۔ چنانچہ اس دور میں انسانی فکر توہم پرستی کا شکار تھی۔ انسان کے ذہن نے مزید ترقی کی تو انسان نے مذہب ”ایجاد“ کرلیا۔ مذہب کے زمانے کی فکر جادو کے دور کی فکر کے مقابلے پر زیادہ منظم تھی، لیکن اس فکر میں بھی عقل کا عمل دخل کم تھا۔ مذہب کے دور سے انسان فلسفے کے دور میں داخل ہوا، اور یہ دور اس بات کی علامت تھی کہ انسان نے عقل سے کام لینا سیکھ لیا ہے اور اب اسے اپنی زندگی کی معنویت کو سمجھنے کے لیے کسی ماورائی طاقت یعنی معاذاللہ خدا کی ضرورت نہیں رہی۔ چونکہ انسانی تاریخ مسلسل خطِ مستقیم میں آگے کی جانب سفر کررہی ہی، اس لیے فلسفے کا عہد بھی ماضی کی یادگار بن گیا اور انسان سائنسی دور میں داخل ہوگیا۔ فلسفے کے عہد میں دلیل محض ایک ”خبر“ تھی، سائنس نے خبر کو ”نظر“ بنادیا، یعنی دلیل مشاہدہ اور سائنسی تجربہ بن گئی۔
نظریہ ارتقاءاور اس کے تاریخ کے تصور پر پڑنے والے اثرات کے نتیجے میں مذہب کے حوالے سے تین تصورات عام ہوئی:
1۔ مذہب ماضی کی یادگار ہے۔
2۔ مذہب غیر عقلی چیز ہے۔
3۔ مذہب پسماندہ ذہن کا عکاس ہے۔
چونکہ یہ تصورات نام نہاد علمی بنیادوں پر پوری دنیا میں عام ہوگئی، اس لیے مذہب بیزاری بھی ایک عالمگیر مسئلہ بن کر سامنے آگئی۔
تجزیہ کیا جائے تو مذہب کے بارے میں یہ تمام تصورات خودساختہ، برخود غلط اور تاریخ کے سطحی فہم پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں گزرا جو مذہبی عہد نہ ہو۔ تاریخ کا ہر دور مذہب کا دور ہی، البتہ تاریخ میں یہ ضرور ہوتا رہا ہے کہ مذہب کی تعلیمات مسخ کردی جاتی ہیں، جس کے بعد مذہب پس منظر میں چلا جاتا ہے اور باطل نظریات پیش منظر پر غالب آجاتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ مذہب کو غیر عقلی یا Irrational کہتے ہیں وہ Irrationality اور Supra rationality یعنی غیر عقلی چیز اور ماورائے عقل شے کے فرق سے آگاہ نہیں۔ مذہب غیر عقلی یا Irrationalنہیں ماورائے عقل یا Supra-rational ہے۔ یعنی مذہب کے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عقل کے پاس بھی نہیں ہے۔ یہ ذریعہ وحی ہے۔ اسی طرح جو لوگ مذہب کو انسانی ذہن کی پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں ان کا معاملہ چمگادڑوں والا ہے۔ چمگادڑوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اندھیرا روشن اور روشنی اندھیرا محسوس ہوتی ہے۔ اندھیرے میں ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور روشنی میں انہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
عصر حاضر میں لوگوں کی مذہب بیزاری کی ایک وجہ یہ خیال رہا ہے کہ مذہبی عناصر بادشاہوں وغیرہ کے ساتھ اتحاد کرکے عوام کے استحصال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عیسائیت اور ہندوازم کی تاریخ کو اس سلسلے میں مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ یورپ میں چرچ اور ریاست کی علیحدگی کا تصور اسی بنیاد پر پیدا ہوا۔ کارل مارکس نے مذہب کی جو تنقید لکھی اس میں عیسائیت کی تاریخ کی مثالوں کو پیش نظر رکھا۔ بدقسمتی سے دو مذاہب کی مثالوں کو مذہب کی پوری روایت پر چسپاں کردیا گیا۔ حالانکہ مذاہبِ عالم بالخصوص اسلام کی تاریخ میں مذہب کے ترجمان عوام کے حقیقی نمائندوں کے طور پر ریاستی جبر کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ مغرب میں اس کی سب سے بڑی مثال سقراط ہے۔ سقراط کا جرم یہ تھا کہ وہ معاشرے کے نوجوانوں کو حکومتِ وقت کا باغی بنارہا تھا اور حکمرانوں کو اندیشہ تھا کہ سقراط عوامی طاقت کے ذریعے ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ اسلامی تاریخ میں منصور حلاج کو ایک چیستان بنادیا گیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسے اناالحق کہنے کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ منصور کی شخصیت کی خودنمائی اس کو لے ڈوبی۔ لیکن اصل بات صرف اتنی سی تھی کہ منصور نوجوانوں کو حکمرانوں کے خلاف صف آراءکررہا تھا اور نوجوانوں میں اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ مغلوں کے دور میں حضرت مجدد الف ثانیؒ دربار کی طاقت کے مقابلے پر قوت کا دوسرا مرکز بن کر ابھرے اور انہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے جہانگیر کو چیلنج کیا۔ لیکن مغرب کے مفکرین نے اسلام کے حوالے سے اپنی لاعلمی اور اسلام کے خلاف اپنے تعصبات کی وجہ سے اسلام کی تاریخ کو اہمیت ہی نہیں دی۔
گزشتہ تین سو سال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اہلِ مذاہب خود مذہب بیزاری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نٹشے نے جب مغرب میں یہ اعلان کیا کہ نعوذباللہ خدا مر گیا ہے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کا تصور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی معنویت متعین کرنے والی اور اس پر حکمرانی کرنے والی حقیقت نہیں رہا۔ اس کے معنی یہ تھے کہ اہلِ مذہب نے اپنے عقائد کو بسر کرنا چھوڑ دیا ہے اور انہوں نے اپنے عقائد کو نعروں میں ڈھال لیا ہے اور مذہب ظاہر پرستی بن کر رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری مغرب کے لادین کہلانے والے فلسفیوں، مفکرین اور شاعروں، ادیبوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ ان لوگوں نے صرف یہ کیا کہ جو کچھ انہیں نظر آرہا تھا اور محسوس ہورہا تھا اس کی گواہی دی اور اپنے نظریات کو عمومی بنادیا۔
اہلِ مذہب کا ایک جرم یہ ہے کہ انہوں نے باطل کی مزاحمت کا حق ادا نہیں کیا۔ انہوں نے یا تو باطل کی غلط بنیادوں پر مزاحمت کی یا پھر اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ایک وقت تھا کہ عیسائیت سائنس دانوں کے نظریات کو کفر قرار دے کر سائنس دانوں کو جلا رہی تھی، مگر جب وہ سائنسی انکشافات و اکتشافات کا مقابلہ نہ کرسکی تو پھر اس نے سائنس کو خدا بنالیا۔ یہودیت، ہندوازم اور بدھ ازم نے سیکولرازم کے سامنے جس طرح ہتھیار ڈالے وہ مذاہب کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں روایتی علماءنے یہ تو بیان کیا کہ حق کیا ہی، لیکن یہ بیان نہ کیا کہ باطل کیا ہی، اس کی تفصیلات کیا ہیں، اور حق باطل اور اس کی تفصیلات کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ برصغیر میں یہ کام اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ اور عالم عرب میں حسن البنائؒ اور سید قطبؒ نے کیا۔ یہ چار افراد نہ ہوتے تو مسلم دنیا باطل کی تفہیم اور اس کی مزاحمت سے اسی طرح بے نیاز ہوجاتی جس طرح دوسری ملّتیں باطل کی مزاحمت سے بے نیاز ہوگئیں۔ تاہم امت ِمسلمہ کے دائرے سے باہر اہلِ مذہب نے باطل کے سلسلے میں جو روش اختیار کی اس نے ساری دنیا میں اس خیال کو عام کیا کہ مذہب کوئی ایسی چیز نہیں جس سے محبت کی جائے اور جس کے تحفظ کے لیے جان لڑائی جائے۔
عہدِ جدید میں اہل مذہب کی ایک ہولناک ناکامی یہ ہے کہ اہل باطل نے باطل کو ”نظام“ بنا دیا اور اہلِ حق، حق کی بنیاد پر نظام وضع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ لیکن یہ اہلِ باطل کی واحد کامیابی نہیں ہے۔ اہلِ باطل نے نظام بھی بنایا اور اسے اربوں لوگوں کے لیے پُرکشش بھی بنایا۔ اہلِ حق اول تو حق کو نظام ہی نہ بناسکی، اور انہوں نے بنایا بھی تو اس میں لوگوں کو غیر معمولی کشش محسوس نہیں ہوئی۔
No comments:
Post a Comment