بچے
اب من کے سچے کیوں نہیں؟
ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی
اب من کے سچے کیوں نہیں؟
ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی
ماں باپ سے زیادہ اس دنیا میں اپنے بچے کو پیار کرنے والا اور کوئی نہیں۔والدین ایک طرف اور ساری کائنات ایک طرف۔ماں باپ صرف محبت اور شفقت کی مورت نہیں بلکہ اگر دنیا میں کوئی آنکھ بند کرکے بھروسے کے قابل ہیں تو والدین کے سوا اور کوئی نہیں۔ماں باپ کو اپنے پیار کا دکھاوا کرنے کی کوئی ضرورت نہیںہے ،دوسروں کو پیار کا دکھاوا کرنے کے سوا ان کا پیار دیکھا دکھایا نہیں جا سکتا ہے۔بے لوث محبت اور بنا لالچ کا پیار تو صرف والدین ہی کر سکتے ہیں اور والدین میں بھی ماں کا نام سر فہرست آتا ہے۔دنیا میں اور بھی لوگ ہیں جو بچوں کو پیار دیتے ہیں جس میں بہن بھائیوں کے علاوہ اپنے سگے سمبندھی ماسی ،ماما،پوپھی ،چاچا،دادا،دادی،نانا،نانی،وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے ۔مگر والدین کے پیار اور محبت کاکوئی بدل نہیں۔
ماں باپ اپنے بچوںکو نہ صرف پیار اور محبت دیتے ہیں بلکہ ان کو اچھے اور بُرے کی تمیز بھی سکھاتے ہیں۔ان کی غلطیوں پر جہاں پردہ ڈالتے ہیں وہاں ان کی غلطیوں پر سزابھی دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو سیدھے راستے پر لانے کے لئے اونچا بھی بولتے ہیں اور کبھی کبھی عقل نما بھی آزماتے ہیں اور کبھی کبھی تو مار پیٹ تک کی بھی نوبت آئی ہے۔اسلام کہتا ہے کہ’’اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو۔اگر انہوں نے سیدھی طرح سے نہ مانا تو ان پر نصیحت کی غرض سے احتیاط کے ساتھ اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔‘‘یہ صرف نماز پڑھنے کی بات نہیں ہے۔والدین کے آگے ان کے بچے اگر کوئی بُرا کام کرتے ہیں،یا اچھائی کرنے سے منع کرتے ہیں،یا پھر اچھی بات کرنے سے دور رہتے ہیں۔اس وقت والدین کو حق ہے کہ وہ اپنے بچوں کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے عقل نما کا استعمال کریں۔بچوں کو بھی چاہئے کہ اپنے والدین کی بات کو حکم کی طرح مانیں اور بچے پر حکم ہے کہ اگر والدین کچھ بھی کریں ان پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ہاتھ اٹھانے کی کیا بات ہے،وہ تو اپنے والدین کو غصہ کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھ سکتے۔انہیں تو والدین کی ہر بات پر لبیک کہنا ہے۔چاہے ان کی بات انہیں ناگوار ہی کیوں نہ گذرے۔
والدین کو بھی اس ہدایت کا نا جائز استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ والدین کا پہلا حق تو یہ ہے کہ بچوں کو صحیح تعلیم دیں۔دین اسلام کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ تعلیم کا بھی خاص خیال رکھیں۔اس کے بعد اپنے بچوں کی پسند نا پسند،ان کی خوشی نا خوشی کا خیال رکھیں اور اس کے علاوہ ان کے کھانے ،پینے،اور پہننے،چلنے پھرنے اور ان کی صحت کا خاص خیال رکھیں۔
والدین کو اپنے بچوں سے ضرورت سے زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئے۔ ضرورت سے زیادہ کی تو بات ہی نہیں بلکہ کہنا چاہئے کہ امید ہی نہیں رکھنی چاہئے۔بس اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔
زمانہ جنتا ترقی کرتا جاتا ہے ،اسی قدر والدین اور بچوں کا رشتہ ایک دوستانہ شکل و صورت میں ڈھل جاتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اب ان کے درمیان خلاء بھی پایا جاتا ہے۔نہ تو بچے کھل کر اپنے والدین کے سامنے آتے ہیں اور نہ ہی والدین ہی اپنے بچوں کے ساتھ کھلے دل سے بات کر سکتے ہیں۔کیونکہ ایک طرف والدین کی امیدیں کچھ ضرورت سے زیادہ بڑھ گئی ہیں اور دوسری طرف بچوں میں بھی برداشت کا مادہ کم ہو گیا ہے۔والدین نے ابھی کچھ کہانہیں کہ بچے غصے سے تلملا اٹھتے ہیں،وہ لال پیلے ہو جاتے ہیں اور غصے کے مارے اپنے والدین کو کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی اونچی آواز میںچار باتیں سناتے ہیں۔اور ایسی چیزیں کہتے ہیں جس کی امید تک والدین نہیں کرتے۔کیا کریں، بڑے ہونے کے ناطے صبر اور برداشت کا مادہ ان میں زیادہ ہوتاہے بلکہ زیادہ ہونا بھی چاہئے ،اس لئے چپ سادھے بیٹھ جاتے ہیں۔جب بچوں کا یہ غصہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے،جس کی وجہ سے کبھی کبھی بچے اپنی ہی جان لینے تک سے بھی گریز نہیں کرتے،اس جان کی بے قدری کرتے ہیں جس کو ان کے والدین نے دل کے خون اور کلیجے سے سینچا ہوتاہے اور بڑے ناز و نعم سے پالاہوتا ہے اور وہ اپنے والدین کو اس قدر درد اور دکھ دیتے ہیں کہ جن کا کوئی مداوا نہیں،جسے صرف ماں باپ کا نہیں بلکہ سارے والدین کا جگر زخمی اور روح چھلنی ہو جاتی ہے۔ادھ کھلے گلاب کھلنے سے پہلے مرجھا ہوا دیکھنے کی طاقت والدین میں نہیں ہے۔
رابطہ کیجئے:naaz_neelofer@ yahoo.com
No comments:
Post a Comment