امت مسلمہ اور غیرریاستی جدوجہد کی شاندار تاریخ
شاہنواز فاروقی
مسلمانوں کی تاریخ کی دو اصطلاحیں بنیادی ہیں، یعنی معاشرہ اور ریاست۔ ان اصطلاحوں میں معاشرے کی اصطلاح اس اعتبار سے زیادہ اہم ہے کہ معاشرہ اسلام کی لازمانیت کو ظاہر کرتا ہے، اور ریاست اسلام کی زمانیت کے امکانات کو سامنے لاتی ہے۔ معاشرہ اسلام کے جمال کا مظہر ہے اور ریاست اسلام کے جلال کی علامت۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت ِراشدہ کا زمانہ معاشرے اور ریاست کی کامل یکجائی کا زمانہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ان ادوار میں اسلام اتنی تیزی سے پھیلا کہ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانۂ نبوت صرف 23 برس ہے، اور اتنی مختصر سی مدت میں اسلام کم و بیش پورے جزیرہ نمائے عرب کو فتح کرچکا تھا۔ خلافتِ راشدہ بالخصوص حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں مسلمان اتنی تیزی سے آگے بڑھے کہ بعض غیر مسلموں نے کہا ہے کہ اگر اسلام کی تاریخ میں دوسرے عمرؓ ہوتے تو مسلمان ساری دنیا کو فتح کرلیتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت ِراشدہ کے بعد بھی مسلمانوں کو جب کبھی معاشرے اور ریاست کی یکجائی فراہم ہوئی انہوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ تاہم اسلام اپنی بقا، فروغ اور مزاحمت کے لیے کبھی ریاست کا ’’محتاج‘‘ نہیں رہا، اور اس نے ہر دور میں صرف معاشرے کی قوت سے ہی بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔ یونانی فکر کا چیلنج اگرچہ فکری تھا لیکن یہ چیلنج اتنا بڑا تھا کہ اس کے مقابلے کے لیے ایک عظیم الشان ریاست کی قوت بھی کم تھی، لیکن اُس وقت کی ریاست نے اس چیلنج کا مقابلہ تو درکنار، اس چیلنج کی نشاندہی بھی نہیں کی۔ لیکن کئی خرابیوں کے باوجود اُس وقت کے معاشرے میں زندگی تھی اور وہ امام غزالیؒ پیدا کرنے اور سامنے لانے کی اہلیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس عہد میں امام غزالیؒ معاشرے کا جمال اور ریاست کا جلال بن کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے تن تنہا یونانی فکر کے سیلابِ بلاخیز کو روک کر دکھادیا۔ یہاں تک کہ یونان کی عقل پرستی مسلم معاشرے میں اجنبی بن کر رہ گئی، اور وہ اس کے بعد سے اب تک مسلم معاشرے میں منہ چھپائے پھرتی ہے، اور مسلم معاشرے کے مرکزی دھارے میں اس کا کوئی والی وارث نہیں۔ چنگیز خان کا چیلنج اپنی نہاد میں عسکری تھا، لیکن چنگیز کی عسکری طاقت بے پناہ تھی، یہاں تک کہ اپنے مخصوص عرصے میں وہ وقت کی واحد سپرپاور نظر آتا تھا۔ چنانچہ مختلف مسلم ریاستوں، یہاں تک کہ خلیفۂ بغداد نے بھی چنگیز خان کے آگے سپر ڈال دی اور اس کی مزاحمت سے انکار کردیا۔ لیکن مسلم معاشرے کے دامن سے جلال الدین خوارزم ایک مزاحمتی قوت بن کر ابھرا۔ اس نے بہت معمولی عسکری طاقت کی بنیاد پر چنگیز خان کو چیلنج کیا اور کئی محاذوں پر اسے بدترین شکست سے دوچار کیا۔ جلال الدین خوارزم اپنی قوت میں اضافے کے لیے ریاست بغداد کی طرف دیکھتا رہا مگر اسے وہاں سے کوئی مدد حاصل نہ ہوسکی۔ چنانچہ وہ تاریخ کے دھارے کا رخ نہ موڑ سکا لیکن اس کی مزاحمت ہمیشہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب رہے گی، کیونکہ اس مزاحمت نے اسلام کے جلال اور جمال کو ظاہر کیا اور مسلم تاریخ کے ماتھے کو اس الزام کے داغ سے بچا لیا کہ چنگیزخان بے پناہ طاقت کے ساتھ اٹھا تو اس کی مزاحمت کرنے والا مسلم دنیا میںکوئی نہ تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جلال الدین خوارزم کی مزاحمت ناکام ہونے کے باوجود بھی بے پناہ کامیاب رہی اور اس نے پوری امت ِمسلمہ کا فرضِ کفایہ ادا کرکے دکھا دیا۔ لیکن یہ کام وہ مسلم معاشرے کی قوت کے بغیر انجام نہیں دے سکتا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی جنگ ِآزادی اگرچہ ناکام ہوئی، لیکن یہ جنگِ آزادی ریاست کے وسائل اور قوت کے دائرے کے باہر شروع ہوئی اور وہیں لڑی گئی۔ جنگ آزادی کے ہیرو جنرل بخت خان نے بہادر شاہ ظفر کو بہت سمجھایا کہ وہ قلعے سے باہر نکلیں اور جنگ آزادی کی قیادت کریں تو انگریزوں کو شکست دی جاسکتی ہے، مگر بہادر شاہ ظفر ایسا نہ کرسکے اور مجاہدینِ آزادی کو یہ جنگ تنہا لڑنی پڑی۔ بلاشبہ اس جنگ میں ہندو بھی شریک تھے، مگر مسلمانوں کا حصہ ہندوئوں سے بہت زیادہ تھا اور اس حصے کی جڑیں معاشرے میں پیوست تھیں جو جنگ آزادی کو افرادی قوت اور مادی وسائل دونوں فراہم کررہا تھا۔ اس جنگِ آزادی کی اہمیت یہ ہے کہ انگریزوں کی طاقت بہت زیادہ تھی اور ان کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ وہ صرف ایک لاکھ فوجیوں سے تقریباً 50 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر حکومت کررہے تھے، مگر اس کے باوجود مسلم معاشرہ نہ صرف یہ کہ آزادی کا خواب دیکھ سکتا تھا بلکہ جدوجہدِ آزادی برپا بھی کرسکتا تھا۔ اس دور میں مسلم معاشرے کی قوت کا ایک مظہر یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی مذہبی فکر کے سرمائے کی بقا اور فروغ کے لیے دیوبند اور بریلی میں بڑے بڑے ادارے قائم کیے اور ندوۃ العلماء کی بنیاد رکھی۔ انگریزوں نے مذہبی مدرسوں کی امداد کی پیشکش کی مگر مسلمانوں نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا اور اپنے فکری و مادی وسائل سے ان اداروں کو چلاکر دکھادیا۔ ان اداروں نے اگرچہ نیا علم پیدا کرکے نہ دکھایا، لیکن ان کا یہ کارنامہ بھی بہت بڑا ہے کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی میراث کو محفوظ کرکے نسل در نسل اس کی ترسیل کے عمل کو جاری رکھا۔ اس منظرنامے میں مولانا مودودیؒ کی شخصیت غیر معمولی نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ ان کا تعلق ریاست کیا برصغیر کی ’’مذہبی اسٹیبلشمنٹ‘‘ سے بھی نہیں تھا۔ وہ صرف ایک فرد تھے اور برصغیر کے مسلم معاشرے کے جمال اور کمال کا ایک مظہر۔ چنانچہ انہوں نے تن تنہا وہ کام کیا جو بڑے بڑے مکاتبِ فکر انجام نہ دے سکے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ برصغیر کے مذہبی مکاتبِ فکر کے اثرات کبھی برصغیر سے باہر نہیں گئے لیکن مولانا نے برصغیر کے معاشرے پر جو اثر ڈالا ہے اس سے کہیں زیادہ اثرات برصغیر سے باہر ہیں۔ فرق یہ ہے کہ برصغیر میں ان کا علمی اثر بھی ہے اور عملی اثر بھی، جب کہ بیرونی دنیا میں ان کا اثر بیشتر صورتوں میں علمی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھا جائے تو جہانگیر کا زمانہ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ جہانگیر کے عہد میں مسلم معاشرے میں قوت کے دو مراکز تھے: خانقاہ اور ریاست۔ خانقاہ کی علامت حضرت مجدد الف ثانیؒ تھے اور ریاست کی علامت جہانگیر تھا۔ خانقاہ کی قوت صرف روحانی اور اخلاقی تھی۔ اس کے مقابلے پر ریاست کی قوت میں سیاسی، عسکری اور معاشی قوتیں جمع تھیں، لیکن حضرت مجدد الف ثانیؒ جہانگیر کی قوت سے مرعوب نہیں ہوئے اور انہوں نے ریاست کی قوت کو چیلنج کردیا اور کہا کہ ریاست کو اپنے بعض معاملات درست کرنے ہوں گے ورنہ برصغیر میں اسلام کا جداگانہ تشخص اور اس کی شوکت متاثر ہوگی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کہنے کو ایک فرد تھے اور ان کی آواز ایک فرد کی آواز تھی، مگر چونکہ ان کی آواز حق کی آواز تھی اس لیے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی قوت ریاست کی قوت سے بڑھ گئی اور جہانگیر کو بالآخر وہی کرنا پڑا جو حضرت مجدد الف ثانیؒ چاہتے تھے۔ عصرِ حاضر میں مسلم معاشرے کی قوت جس شان سے ظاہر ہوئی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت ِراشدہ کے بعد اس کی مثال نہیں ملتی۔ مسلمانوں پر نوآبادیاتی طاقتوں کی غلامی کا ایک اثر یہ تھا کہ مسلمان سمجھتے تھے کہ معاذاللہ اب پورے اسلام پر عمل ممکن نہیں، خاص طور پر اسلام کے تصورِ جہاد کا احیاء تو اب ممکن ہی نہیں۔ لیکن افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت نے جہاد کے تصور کو زندہ بھی کیا اور وہ نتیجہ خیزی بھی عطا کی جس کی توقع اچھے اچھوں کو نہیں تھی۔ بلاشبہ سوویت یونین کے خلاف جہاد کو ریاستوں کی سرپرستی حاصل تھی، مگر کوئی ریاست جہاد میں خود شریک نہ تھی اور جہاد کا پورا عمل ریاست کی قوت کے بجائے معاشرے کی قوت سے انجام پایا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس جہاد میں پندرہ لاکھ افغانی شہید اورکم و بیش اتنے ہی زخمی ہوئے۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد نے ریاست کی قوت کو مزاحمتی عمل سے یکسر خارج کردیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسانی تاریخ میں طاقت کا ایسا ہولناک عدم توازن کبھی نہیں دیکھا گیا جیسا امریکہ اور مجاہدین کے درمیان دیکھنے میں آیا۔ چنانچہ یہ معرکہ ایک سطح پر ایمان اور ٹیکنالوجی کا معرکہ تھا، دوسری سطح پر شوقِ شہادت اور سیاسی طاقت کی پنجہ آزمائی تھی، تیسری سطح پر یہ جذبۂ جہاد اور معاشی طاقت کی رزم آرائی تھی۔ ایمان اور ٹیکنالوجی کے معرکے میں ایمان فتح یاب ہوا۔ شوقِ شہادت اور سیاسی طاقت کی جنگ میں شوقِ شہادت غالب رہا۔ جذبۂ جہاد اور معاشی طاقت کی کشمکش میں جذبۂ جہاد سرخرو ٹھیرا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے عہد میں معاشرہ اور ریاست ایک نامیاتی کُل یا Organic Whole تھے اور ریاست معاشرے کی توسیع یا حصہ تھی، لیکن ملوکیت نے اس نامیاتی رشتے کو متاثر کیا اور ان کے فطری اور برجستہ تعلق میں رخنہ ڈال دیا۔ یہاں تک کہ جدید ریاست کے تجربے تک آتے آتے ریاست معاشرے کا ایسا بالائی ڈھانچہ یا Super Structure بن گئی جو معاشرے سے برآمد نہیں ہوا بلکہ معاشرے پر خارج سے مسلط کیا گیا ہے۔ اس صورتِ حال نے معاشرے اور ریاست کے درمیان ایک مغائرت اور کشمکش کو جنم دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید مسلم ریاستیں اکثر مواقع پر اسلام کے مقاصد کے لیے بروئے کار نہیں آتیں، لیکن مسلم معاشرے اپنے بہت سے نقائص کے باوجود اسلام کے مقاصد کے لیے بروئے کار آجاتے ہیں۔ ریاستوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی فرد، خاندان، گروہ یا طبقے کے مفادات کی ترجمان اور نگہبان بن جاتی ہیں اور وہ اس مفاد کو اسلام کے مفاد پر ترجیح دینے لگتی ہیں۔ لیکن معاشرے میں بے غرض اور مخلص لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے، یہ لوگ مفادات سے بلند ہونے کی وجہ سے اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ اسلام کے مقاصد اور مفادات کیا ہیں اور ان کے تحفظ کے سلسلے میں کس قسم کی جدوجہد ضروری ہے۔ ریاست کی گزشتہ تین چار سو سال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ریاست پیشہ ورانہ یا Professional ذہنیت کی گرفت میں ہے اور ریاست کو چلانے کی نوعیت تقریباً ’’تیکنیکی‘‘ ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس معاشرے کے بہت سے لوگوں میں رضاکارانہ طریقے سے کام کرنے کی نفسیات موجود ہوتی ہے جو ان کی محنت، لگن اور قربانی کے جذبے کو بہت بڑھا دیتی ہے۔ اسلام کا نام آتے ہی اس نفسیات کا دائرہ بھی وسیع ہوجاتا ہے اور اس میں شدت بھی بہت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم معاشروں کے مسائل کا بہترین حل معاشرے اور ریاست کی حقیقی معنوں میں یکجائی ہے۔ یہ یکجائی اتنی اہم ہے کہ بدترین قیادت کی موجودگی کے باوجود اس نے آج کل کے دور میں بھی بہترین نتائج پیدا کیے ہیں۔ |
No comments:
Post a Comment