سیدنا ابوبکر صدیق ؓ…ایمان وانفاق کا مجسم پیکر
-پروفیسر محمد شکیل صدیقی
کسی شے کی قدر و قیمت کا جو بھی اصول اور پیمانہ مقرر کیا جائے اس میں وقت، حالات اور ضرورت کے عامل و عنصر (Factor) کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک وہ شخص ہے جو داعیٔ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جواب میں اکیس سال بعد مکہ کی فتح کے موقع پر اسلامی تحریک میں شمولیت اختیار کرتا ہے، حسب توفیق انفاق بھی کرتا ہے، جب کہ ایک وہ شخص ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی پکار پر لبیک کہتا ہے، مکہ میں ابتلاء و آزمائش کی ہر گھڑی میں ثابت قدم رہتا ہے، اپنے مال سے مظلوموں کی مدد کرتا ہے، ہجرت کے پُرخطر سفر میں رفاقت کا حق ادا کرتا ہے اور تنگی و عسرت میں گھر کا سارا اثاثہ بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لاکر ڈھیر کردیتا ہے… ایسے شخص کی قدروقیمت کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فیصلہ دیا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم میں سے جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے مال خرچ کیا اور جہاد کیا، ان کا درجہ نہایت بلند ہے بہ نسبت اُن لوگوں کے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا۔‘‘ (الحدید 10) مفسرین اس آیتِ مبارکہ کو صدیق اکبرؓ کے ایمان و انفاق کی جانب اشارہ قرار دیتے ہیں، کیونکہ وہ اوّلین ایمان لانے والوں اور اللہ کے لیے مال خرچ کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے انفاق کی تحسین اس طرح فرمائی: ’’کسی کے مال نے مجھے ایسا نفع نہ دیا جیسا ابوبکر کے مال نے دیا۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت و شخصیت کے بے شمار پہلو اور فضائل و مناقب کی طویل فہرست ہے جو ایک مفصل مقالے کی متقاضی ہوسکتی ہے۔ زیرنظر مضمون میں ہم صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان و استقامت اور انفاق فی سبیل اللہ کے چند واقعات اور ان کی اہمیت کی جانب اشارہ کریں گے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مکہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پیش کی تو یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی تھے جنھوں نے یہ دعوت بغیر کسی حیل و حجت کے قبول کرلی۔ آپؓ کا قبولِ اسلام اپنے رفیق یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت پر یقین اور ایمان کا مظہر تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد 23 سال تک حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلامی تحریک کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ہر طرح سے ستائے گئے۔ مشرکینِ مکہ نے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہجرت سے پہلے 13 سال تک مکہ میں کفار اور مشرکین کے خلاف اسلامی تحریک کے ساتھ جرأت و استقامت کے ساتھ کھڑے رہے۔ ہجرت کا مرحلہ آیا تو تمام تر خطرات کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں سفر کیا، غار ثور میں قیام کیا اور مدینہ پہنچے۔ مدینہ پہنچ کر جب کفار و مشرکین اور یہود سے قتال و جہاد کا وقت آیا تو ہر معرکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ وصالِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نازک موقع پر دینی و ایمانی بصیرت کا ثبوت دیا، غم زدہ مسلمانوں کو تسلی دی اور ان کا ایمان و عقیدہ بھی بچایا۔ مرتدین نے جب اسلام کی بنیاد ڈھانے کی کوشش کی تو اس کے دفاع کے لیے میدان میں نکلے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت اور زکوٰۃ کے بارے میں تشکیک پیدا کرنے والوں کے سر کچل دیے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ قبولِ اسلام کے بعد اوّل روز سے تادمِ مرگ ایمان و اسلام پر نہ صرف قائم رہے بلکہ جرأت و استقامت کے ساتھ دین کی اشاعت و تبلیغ اور اس کی اقامت کے لیے سرگرم رہے۔ آپؓ کے اسلام و ایمان کا عرصہ کم و بیش ربع صدی پر محیط ہے، لیکن اس طویل عرصے میں اسلام اور اسلامی تحریک سے کمٹمنٹ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سیرت و شخصیت کا ایک اور وصف آپؓ کا اللہ کے راستے میں انفاق ہے۔ حق و باطل کی کشمکش میں ایمان و یقین کے بعد اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ وسائل ہیں۔ باطل قوتوں کے خلاف اور غلبۂ اسلام کے لیے مادی وسائل یا مال و دولت کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ یہ مال و دولت بھی اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کو دے کر آزماتا ہے کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں اس کے دیے ہوئے مال سے خرچ کرتا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ مال و دولت کی آزمائش میں بھی ہمیشہ سرخرو رہے۔ آپؓ کا شمار مکہ کے دولت مند تاجروں میں ہوتا تھا۔ آپؓ نے اپنی دولت کا بڑا حصہ مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو سردارانِ مکہ کی غلامی سے نجات اور رہائی دلانے کے لیے خرچ کیا۔ مشرکینِ مکہ مسلمان غلاموں اور باندیوں پر تشدد کرتے تھے جسے آپؓ برداشت نہ کرپاتے، چنانچہ انہیں بھاری رقم کے عوض رہائی دلاتے۔ روایات میں آتا ہے کہ قبولِ اسلام کے وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس 40 ہزار درہم تھے جنہیں آپؓ نے اسلام کی راہ میں خرچ کیا اور ہجرت کے موقع پر صرف پانچ ہزار درہم باقی رہے جنہیں لے کر مدینہ روانہ ہوئے۔ مدینہ ہجرت کے بعد کفارِ مکہ، یہودِ مدینہ اور شامی رومیوں کے خلاف جو جنگیں ہوئیں ان میں بھی آپؓ نے انفاق فی سبیل اللہ کی بے نظیر مثالیں قائم کیں، خصوصاً غزوہ تبوک کے موقع پر آپؓ نے اپنے گھر کا سارا اثاثہ لاکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ’’ابوبکر! اہل و عیال کے لیے کچھ چھوڑا؟‘‘ فرمایا ’’ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا ہے۔‘‘ مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد شاہانہ امارت و حکومت اختیار کرنے کے بجائے فقر و درویشی کو اختیار کیا۔ حکومت سے نہایت قلیل وظیفہ پر گزارا کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت‘ آپؓ کا جذبۂ ایمان و استقامت اور اللہ کی راہ میں جذبۂ انفاق مسلمانوں کے لیے، بالخصوص اسلامی تحریک کے علم برداروں کے لیے نمونہ ہے۔ آج جب کہ ہر جانب سے اسلام اور مسلمانوں پر حملے کیے جارہے ہیں، اسلام کی بنیادوں کو ڈھانے کی سازشیں ہورہی ہیںاور طاغوتی طاقتیں اسلام کے خلاف متحد ہورہی ہیں‘ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جذبۂ ایمان و انفاق کو اختیار کیا جائے۔ |
No comments:
Post a Comment