جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار
از: محمد احمد ابن مولانا محمد شفیع قاسمی
رضیة الابرار، سلمان آباد، بھٹکل
ہندوستان کوطویل جدوجہدکے بعدآزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا،جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختہٴ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخر غیرملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔
غیرملکی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کوقائم رکھنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلیں، تدبیریں کیں، رشوتیں دیں، لالچ دیئے، پھوٹ ڈالوں اورحکومت کروکااصول بڑے پیمانے پر اختیار کیا،فرقہ وارانہ اختلافات پیداکیے، حقائق کوتوڑمروڑکرپیش کیا، آپس میں غلط فہمیاں پھیلائیں، تاریخ کومسخ کیا،انگریزوں نے ہندوستان کے معصوم باشندوں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے اورناحق لوگوں کوتختہٴ دارپرلٹکایا، ہندوستانیوں پرناحق گولیاں چلائیں، چلتی ریلوں پر سے اٹھاکرباہر پھینکا؛ مگر ان کے ظلم وستم کوروکنے اورطوقِ غلامی کوگردن سے نکالنے کے لیے بہادر مجاہدین آزادی نے ان کا مقابلہ کیااورملک کوآزادکرکے ہی اطمینان کاسانس لیا۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طورپربہت ممتازونمایاں رہا ہے،انھوں نے جنگ آزادی میں قائداوررہنماکاپارٹ اداکیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے چھیناتھا،اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کوہوا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی۔
انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر Diamond Harbourاور فورٹ ولیم Fort Williamانگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے پہلی منظم اورمسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔ علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے اور اس خطرہ کومحسوس کیا کہ انگریز ان کے ملک پرآہستہ آہستہ حاوی ہورہے ہیں اوران کو ملک سے نکالناضروری ہے۔اس نے حوصلہ اورہمت سے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛مگر انکا دربار سازشوں کا اڈہ بن گیاتھا؛ اس لیے انہیں شکست ہوئی اور1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔
تاریخ کے صفحات میں پلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764کی تفصیل موجود ہے،یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح حاوی ہوگئے۔
جنگِ آزادی میں حیدرعلی اورٹیپوسلطان کاکردار
دکن فرمانروا حیدرعلی(م1782ء) اوران کے صاحبزادہ ٹیپوسلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہوگی،جومستقل انگریزوں کے لیے چیلنج بنے رہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چارجنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے۔ انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔
مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمه الله لکھتے ہیں:
”سب سے پہلاشخص جس کواس خطرہ کااحساس ہواوہ میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان (۱۳۱۳ ھ۱۷۹۹ ء)تھا، جس نے اپنی بالغ نظری اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا؛ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے“۔
ٹیپوسلطان کی جدوجہداوراولوالعزمی
ٹیپونے ہندوستان کے راجوں،مہاراجوں اور نوابوں کوانگریزوں سے جنگ پرآمادہ کرنے کی کوشش کی، اس مقصدسے انھوں نے سلطان ترکی سلیم عثمانی، دوسرے مسلمان بادشاہوں اور ہندوستان کے امراء اورنوابوں سے خط وکتابت کی اور زندگی بھرانگریزوں سے سخت معرکہ آرائی میں مشغول رہے، قریب تھاکہ انگریزوں کے سارے منصوبوں پرپانی پھرجائے اوروہ اس ملک سے بالکل بے دخل ہوجائیں؛ مگر انگریزوں نے جنوبی ہندکے امراء کو اپنے ساتھ ملالیااور آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے ۴/مئی ۱۷۹۹ ء کوسرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہیدہوکرسرخروئی حاصل کی، انھوں نے انگریزوں کی غلامی اوراسیری اوران کے رحم وکرم پرزندہ رہنے پرموت کوترجیح دی، ان کامشہور تاریخی مقولہ ہے کہ ”گیڈرکی صد سالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی اچھی ہے“۔ جب جرنل HORSE کوسلطان کی شہادت کی خبرملی تواس نے ان کی نعش پرکھڑے ہوکریہ الفاظ کہے کہ:آج سے ہندوستان ہماراہے۔“(ہندوستانی مسلمان ص۱۳۷)
جنگ آزادی میں شاہ ولی الله اورانکے شاگردوں کاکردار
ٹیپوسلطان کی شہادت نیزہزاروں افرادکے قتل کے بعدملک میں برطانوی اثرات بڑھتے چلے گئے، انگریز سیاسی اثرات بڑھانے کے ساتھ ساتھ مشنری ورک بھی کررہے تھے،اس زمانہ میں دینی مدارس بڑی تعدادمیں تباہ کیے گئے،ان کوششوں کے ساتھ ساتھ دہلی میں ایک تحریک وجود میں آئی، جس کے بانی شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله (م1762ء )تھے،ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمه الله (م1824ء)نے اپنے والدکی تحریک کوبڑھایا، وہ انگریزوں کے سخت خلاف تھے۔انہوں نے1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی دیا،جس میں ہندوستان کودارالحرب قراردیاگیااورسیداحمدشہیدرائے بریلوی رحمه الله کولبریشن موومنٹ کا قائد مقرر کیا۔1831ء میں سیداحمدشہید رحمه الله اورشاہ اسماعیل شہید رحمه الله بالاکوٹ میں اپنے بے شمار رفقاء کے ساتھ اس ملک کے انسانوں کوآزادی دلانے کے لیے انگریزوں اوران کے اتحادی سکھ ساتھیوں کے خلاف جہادمیں شہیدہوئے؛لیکن یہ تحریک چلتی رہی،مولانانصیرالدین دہلوی رحمه الله نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔1840ء میں آپ کی وفات ہوئی۔انکے بعدمولانا ولایت علی عظیم آبادی رحمه الله (م1852ء)اورانکے بھائی مولاناعنایت علی عظیم آبادی (م1858ء) نے اس تحریک کوزندہ رکھنے میں اہم کرداراداکیا۔اس طرح یہ جہادکاقافلہ برابررواں دواں رہا؛ حتیٰ کہ سن ستاون 1857ء تک لے آیا۔علماء کی اس تحریک کوانگریزوں نے وہابی تحریک کے نام سے مشہورکیا جو نجد کے محمدبن عبدالوہاب نامی عالم کے نظریات پرمبنی تھی؛لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کے اکثر افرادہندوستان ہی کے مشہورعالم شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله کے تربیت یافتہ تھے،اوریہ تحریک انھیں کے نظریات پرمبنی تھی؛ اس لیے اسے ”ولی اللّٰہی“ تحریک کانام دیا جاناچاہئے۔
انگریزوں کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرنے میں علماء کرام کی خدمات
1857ء میں شاہ ولی الله اورشاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمه الله اورشاہ اسحاق محدث دہلوی رحمه الله اور انکے شاگردوں کی محنت رنگ لائی، اور 1857 ء میں علماء کرام کی ایک جماعت تیارہوئی۔ ان میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمه الله ، مولانا رحمت الله کیرانوی رحمه الله ، مولانافضلِ حق خیرآبادی، رحمه الله مولاناسرفراز رحمه الله ، حاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله ، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمه الله ، مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله ،حافظ ضامن شہید رحمه الله اور مولانا منیر نانوتوی رحمه الله خاص طور پر قابل ذکرہیں۔ غدر کے زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمه الله نے انگیریزوں کے خلاف فتوی مرتب کرایاجس پر علماء دہلی سے دستخط لیے گئے، اور یہی فتوی مولاناکی گرفتاری کاسبب بنا،جب مولاناپرمقدمہ چلااور جہاد کے فتوی کی عدالت نے تصدیق چاہی،تومولانا نے کھل کرکہاکہ فتوی میراہی مرتب کیاہواہے۔1857ء کے زمانہ میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمه الله سپہ سالارکی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ہومزلکھتاہے: ”مولوی احمدالله شاہ شمالی ہندمیں انگریزوں کاسب سے بڑادشمن تھا۔1865ء میں مولانااحمدالله عظیم آبادی رحمه الله ، مولانایحییٰ علی رحمه الله ، مولاناعبدالرحیم صادق پوری رحمه الله ، مولانا جعفرتھانیسری رحمه الله کوانڈمان بھیج دیا گیا جو کالاپانی کہلاتاہے۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمه الله ، مفتی احمدکاکوروی رحمه الله اورمفتی مظہرکریم دریابادی رحمه الله کوبھی انڈمان روانہ کیاگیا، جن میں مولانا احمدالله عظیم آبادی رحمه الله ، مولانایحییٰ علی رحمه الله ، اورمولانا فضل حق خیرآبادی رحمه الله وغیرہم کا وہیں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالرحیم صادق پوری رحمه الله اورمولانا جعفر تھانیسری رحمه الله اٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد 1883ء میں اپنے وطن واپس ہوئے۔ مولاناجعفرتھانیسری رحمه الله اپنی کتاب کالاپانی میں تحریرفرماتے ہیں:”ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریزہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا۔ مولانا جعفر تھانیسری رحمه الله نے جزیرہ انڈمان کی زندگی پربہت ہی مفصل آپ بیتی”کالاپانی“کے نام سے لکھی ہے۔تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں!
جنگ آزادی میں علماء دیوبندکاکردار
1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمه الله ، مولاناقاسم نانوتوی رحمه الله ، اورمولانامنیرنانوتوی رحمه الله کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن رحمه الله شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے، انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کے نام وارنٹ رہا؛لیکن گرفتارنہ ہوسکے،1880ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودئہ خواب ہیں۔حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ملک میں رہ کراب اپنے مشن کوبرقراررکھنا ممکن نہیں، مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے۔وہاں سے انھوں نے اپنے مریدین ومتوسلین کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے ہدایت وفیض کاسلسلہ جاری رکھا۔1899ء میں وفات پائی اورجنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ مولانارشیداحمدگنگوہی رحمه الله کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ میں رکھاگیا،پھرکچھ دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا۔چھ ماہ تک آپ کوقیدوبندکی مصیبتیں جھیلنی پڑی۔1905 ء میں وفات پائی۔گنگوہ کی سرزمین میں آسودہ خواب ہیں۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی، مگریہ شکست نہیں، فتح تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعدانگریزوں نے اسلام پرحملہ کیا اسلامی عقائد،اسلامی فکراوراسلامی تہذیب کو ہندوستان سے ختم کرنے کافیصلہ کیا، یہاں سے انگریزوں کازوال شروع ہوا،حکومت برطانیہ کا لارڈمیکالے جب وایسرائے بن کرآیا تواس نے مغربی تہذیب اورمغربی فکر،نصرانی عقائد قائم کرنے کاایک پروگرام بنایا،اس نے کہا:”میں ایک ایسانظام تعلیم وضع کرجاوں گاجوایک ہندوستانی مسلمان کاجسم توکالاہوگامگردماغ گورایعنی انگریزکی طرح سوچے گا“۔
ہندوستان میں اسلام کی حفاظت کے لیے الله تعالیٰ نے چندشخصیات کوپیداکیا،ان میں سے ایک اہم شخصیت حجة الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمه الله کی تھی،اس زمانہ میں اسلام کی بقاء، اسلامی عقائد،اسلامی فکر اوراسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله نے ایک تحریک چلائی،جس کوتحریک دیوبندکہاجاتاہے،جگہ جگہ مدرسہ قائم کیے،اس مقصدکے لیے انھوں نے اپنے رفقاء (حاجی عابدحسین دیوبندی رحمه الله ،مولاناذولفقارعلی دیوبندی رحمه الله ، مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمه الله اورمولانارفیع الدین رحمه الله وغیرہم)کی مددسے15 محرم 1283ھ مطابق 30مئی 1866ء جمعرات کے دن ضلع سہارنپورمیں واقع دیوبندنامی مقام پرایک دارالعلوم کی بنیادرکھی؛ تاکہ یہ مسلمانوں میں نظم پیداکرے، جوان کواسلام اورمسلمانوں کی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معین ہو،ایشیاکی اس عظیم درسگاہ کاآغازدیوبندکی ایک مسجد(چھتہ مسجدکے صحن میں آنارکے درخت کے سایہ میں ایک استاد(ملامحمود)اورایک طالب علم (محمودحسن)سے ہوا جو بعدمیں ”ازہرہند“کہلائی اورجسے دارالعلوم دیوبندکے نام سے شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی،بقول حضرت حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله ”دارالعلوم دیوبندہندوستان میں بقاء اسلام اورتحفظِ علم کاذریعہ ہے“۔
انڈین نیشنل کانگرس کاقیام اوراس میں مسلمانوں کاحصہ
1884ء میں انڈین نیشنل کانگرس کاپہلااجلاس منعقدہوا،جس میں بعض ممتازاہل علم واہل فکرمسلمان بھی شریک تھے،اور اس کا قیام 1885 ء میں عمل میں آیا۔اس کے بانیوں میں مسلمان بھی شامل تھے، جن کے نام بدرالدین طیب جی اوررحمت الله سیانی تھے،کانگرس کا چوتھااجلاس 1887ء میں مدراس میں ہوا،جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی۔
جنگ آزادی میں دارالعلوم دیوبندکاکردار
جنگ آزادی میں اکابردیوبند(حاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله ،مولاناقاسم نانوتوی رحمه الله ، مولانارشیداحمد گنگوہی رحمه الله ) اور فرزندان دارالعلوم دیوبند(شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله ، مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله ، مولاناعبیدالله سندھی رحمه الله ، مولانا عزیز گل پیشاوری رحمه الله ، مولانا منصورانصاری رحمه الله ، مولانا فضل ربی رحمه الله ، مولانا محمداکبر رحمه الله ، مولانا احمدچکوالی رحمه الله ، مولانا احمدالله پانی پتی رحمه الله ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمه الله وغیرہم) کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ 1912ء میں ریشمی رومال تحریک کی ابتداء ہوئی،جس کے بانی فرزندِ اول دارالعلوم دیوبند تھے، جن کودنیاشیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله کے نام سے جانتی ہے، بقول مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی رحمه الله :”آپ(شیخ الہند)انگریزی حکومت اور اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے،سلطان ٹیپو کے بعدانگریزوں کاایسادشمن اورمخالف دیکھنے میں نہیں آیا“۔اس تحریک میں اہم رول آپ کے شاگردمولاناعبیدالله سندھی رحمه الله نے ادا کیا، افغانستان کی حکومت کومدد کے لیے تیارکرنااورانگریزوں کے خلاف رائے عامہ بنانا مولانا عبیدالله سندھی رحمه الله کامشن تھا۔ شیخ الہند رحمه الله کے نمائندے ملک کے اندر اور ملک کے باہرسرگرم اورفعال تھے، افغانستان، پاکستان، صوبہ سرحداورحجازکے اندرقاصدکاکام کررہے تھے،خلافتِ عثمانیہ کے ذمہ داروں سے مثلاًانورپاشاہ وغیرہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،اورترکی جانے کاشیخ الہند نے خودعزم مصمم کرلیا تھا، اس مقصدکے لیے پہلے وہ حجازتشریف لے گئے اوروہاں تقریباًدوسال قیام رہا،اس اثنا میں دوحج کیے،مکہ مکرمہ پہنچ کرحجازمیں مقیم ترک گورنرغالب پاشاسے ملاقاتیں کیں، اورترکی کے وزیر جنگ انورپاشاسے بھی ملاقات کی، جوان دنوں مدینہ آئے ہوئے تھے،انھیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیااوراپنے منصوبہ سے واقف کرایا،ان دونوں نے شیخ الہند رحمه الله کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے، ان کے منصوبے کی تائیدکی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنے اوراپنی حکومت کے تعاون کایقین دلایا، مولانا عبیدالله سندھی رحمه الله نے کابل سے ریشمی رومال پرجوراز دارانہ خطوط شیخ الہند مولانامحمودحسن رحمه الله کومکہ مکرمہ روانہ کیے تھے، ان کوحکومت برطانیہ کے لوگوں نے پکڑلیا، یہی شیخ الہند رحمه الله کی گرفتاری کاسبب بنی اورپورے منصوبے پر پانی پھیردیا۔1916 ء میں شریف حسین کی حکومت نے ان کومدینہ منورہ میں گرفتار کرکے انگریزی حکومت کے حوالہ کردیا۔شریف حسین نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت اور غداری کی تھی، وہ برطانوی حکومت کاوفاداردوست تھا اورخلافت عثمانیہ اورمسلمانوں کی تحریک آزادی کاشدید مخالف تھا۔1917ء میں شیخ الہند رحمه الله اور ساتھوں کوبحیرئہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلاوطن کیاگیا۔ مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله ،مولاناعزیزگل پیشاوری رحمه الله ،مولاناحکیم نصرت حسین رحمه الله ،مولاناوحیداحمد رحمه الله وغیرہم نے مدتوں اپنے استاذشیخ الہند رحمه الله کے ساتھ مالٹا کے قیدخانہ میں سختیاں برداشت کیں،مالٹاکے قیدخانہ میں انگریزوں نے شیخ الہند رحمه الله کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا، سخت سے سخت سزائیں دی گئیں؛چنانچہ مولانا حسین احمدمدنی رحمه الله فرماتے ہیں کہ جب شیخ الہند رحمه الله کو مالٹا جیل میں نظربندکیاگیاتو انگریزمیرے استادکوایک تہہ خانہ میں لے گئے اور لوہے کی گرم تپتی ہوئی سلاخیں لے کرکمرپرلگاتے رہے اور ساتھ میں یہ فرماتے رہے کہ ”اے محمودحسن! انگریزکے حق میں فتوی دے“جب شیخ الہند رحمه الله ہوش میں آتے توصرف یہی فرماتے تھے کہ ”اے انگریز!میرا جسم پگھل سکتاہے، میں بلال کاوارث ہوں، میری جلدادھیڑسکتی ہے؛ لیکن میں ہرگز ہرگز تمہارے حق میں فتوی نہیں دے سکتا۔“شیخ الہندکی تحریک میں مولانامنصورانصاری رحمه الله ، مولانا فضل ربی رحمه الله ، مولانافضل محمود رحمه الله ،مولانامحمداکبر رحمه الله کاشماراہم ارکان میں تھا۔مولانا عبدالرحیم رائے پوری رحمه الله ، مولانا محمداحمدچکوالی رحمه الله ، مولانامحمدصادق کراچوی رحمه الله ، شیخ عبدالرحیم سندھی، مولانا احمدالله پانی پتی، ڈاکٹراحمدانصاری وغیرہ سب مخلصین بھی مخلصانہ تعلق رکھتے تھے،ان کے علاوہ مولانا محمدعلی جوہر رحمه الله ، مولاناابواکلام آزاد رحمه الله ،مولانااحمدعلی لاہوری رحمه الله ،حکیم اجمل خان وغیرہ بھی آپ کے مشیر ومعاون تھے ۔
1919ء میں جمعیة علماء ہندکاقیام عمل میں آیا،جس کے بنیادی ارکان میں شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمه الله ،مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله ، مولاناعطاء الله شاہ بخاری، مولانا ثناء الله امرستری رحمه الله ، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله ، مولانامحمدعلی جوہر،مولاناشوکت علی،مولانا ابوالمحاسن سجاد، مولانا احمدعلی لاہوری رحمه الله ، مولاناابوالکلام آزاد، مولاناحفظ الرحمن سیورہاروی رحمه الله ، مولانا احمدسعید دہلوی رحمه الله ، مولانا سیدمحمدمیاں دیوبندی رحمه الله جیسے دانشوران قوم تھے۔شیخ الہند رحمه الله کی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29جولائی 1920ء کوترکِ موالات کافتوی شائع کیاگیا۔
آپ کی وفات کے بعدآپ کے جاں نثارشاگردمولاناحسین احمدمدنی رحمه الله نے آپ کے اس مشن کو جاری رکھا، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله کی وفات کے بعد1940ء سے تادم آخیرجمعیة علماء ہند کے صدررہے،کئی باربرطانوی عدالتوں میں پھانسی کی سزاسے بچے،آپ انگریزوں کی حکومت سے سخت نفرت رکھتے تھے،آپ دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث کے منصب پربھی فائز تھے۔ آزادی کے بعداصلاحی کاموں میں مصروف ہوگئے،دینی خدمت وتزکیہ نفوس کے مقدس مشن میں لگے رہے،5ڈسمبر1957ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودہ خواب ہیں۔
تحریک خلافت اورہندومسلم اتحاد
1919 ء میں جلیاں والاباغ سانحہ جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے،انھیں ایام میں تحریکِ خلافت وجودمیں آئی،جس کے بانی مولانامحمدعلی جوہر تھے، اس تحریک سے ہندومسلم اتحادعمل میں آیا۔گاندھی جی،علی برادران(مولانامحمدعلی جوہر ومولانا شوکت علی)اورمسلم رہنماوٴں کے ساتھ ملک گیردورہ کیا،اس تحریک نے عوام اورمسلم علماء کوایک پلیٹ فارم پرکھڑاکردیا،جن میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله ،مولانا عبدالباری فرنگی محلی رحمه الله ، مولاناآزادسبحانی،مولاناثناء الله امرتسری رحمه الله ، مفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله ، مولاناسیدمحمدفاخر،مولانا سید سلیمان ندوی رحمه الله ، مولانااحمدسعیددہلوی وغیرھم شریک تھے،الغرض ہندوستان کے اکابرعلماء نے سالہاسال کے اختلافات کو نظرانداز کرکے تحریکِ خلافت میں شانہ بشانہ کام کیا۔1931ء میں مولانامحمدعلی جوہرگول میز کانفرنس (Round Table Conference) لندن میں شرکت کے لیے گئے اوروہیں انتقال کرگئے،حکومت نے اپنے خرچ پر انکی لاش کوبیت المقدس بھیجا،اسی مقدس سرزمین میں آسودئہ خواب ہیں۔
تحریکِ ترک موالات
1920ء میں گاندھی جی اورمولاناابوالکلام آزادنے غیرملکی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن(ترک موالات)کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیارتھا، جواس جنگ آزادی اورقومی جدوجہدمیں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کاپوراپورانوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کاخطرہ پیداہواکہ پوراملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے، آثارانگریزی حکومت کے خاتمہ کی کی پیشینگوئی کررہے تھے۔(ہندوستانی مسلمان،ص۱۵۷)
1921ء میں موپلابغاوت،1922ء میں چوراچوری میں پولیس فائرنگ،1930ء میں تحریک سول نافرمانی ونمک آندولن، 1942ء میں ہندوستان چھوڑوتحریک(Quit India Movement)، 1946ء میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پرپولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہیدہوئے۔انگریزوں کی قیدوبندکے مصائب جھیلنے اورانکی گولیوں کانشانہ بننے والوں کی تعدادتوشمارسے باہرہے۔عام مسلمانوں کے علاوہ شہیدعلماء کی تعدادبیس ہزار سے پچاس ہزارتک بتائی جاتی ہے؛مگران اہم لیڈروں اوران اہم واقعات کے بغیرپوری تاریخ ادھوری اورحقیقت سے کوسوں دورہے،جن میں مذکورہ بالا شخصیتوں کے علاوہ بہادرشاہ ظفر،بیگم محل،نواب مظفرالدولہ،امام بخش صہبائی، مولانابرکت الله بھوپالی، مولاناحسرت موہانی، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،ڈاکٹرسیف الدین کچلو، مولانا مظہرالحق، ڈاکٹرسیدمحمودوغیرہم نے جنگ آزادی میں بھرپورحصہ لیا۔ان کے علاوہ بھی ایک بڑی تعداد کاذکرتاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے؛جس کی یاد دلوں میں تازہ اورتاریخ کی نئی کتابوں میں محفوظ رہنی چاہیے؛ غرض ہرطرح ہرموقع پرمسلمان جنگِ آزادی میں برابرشریک رہے ہیں، جن کوآج فراموش کیاجارہاہے،کسی شاعرنے کیاخوب کہاہے:
جب پڑاوقت گلستاں پہ توخوں ہم نے دیا
جب بہارآئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں
No comments:
Post a Comment