البرادعی: یہودیوں کا براہِ راست ایجنٹ
…مسعود انور…
مصر میں آگ و خون کا کھیل پورے جوبن پر ہے۔ نہتے و بے گناہ شہریوں کو محض اس جرم میں روز گولیوں سے بھون دیا جاتا اور زندہ آگ میں جلادیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی حقِ خودارادیت کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔ مصر کی تمام ریاستی مشینری اس وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ مصری عوام کے احتجاج کو دبانے میں مصروف ہے۔ اس امر میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اسرائیل، امریکا، یورپ، روس، چین اور ان سب کی سیٹلائٹ عرب ریاستیں بھی مصری فوجی حکومت کی پشت پر کھڑی ہیں۔ عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت کے بعد الرابعہ العدویہ میں، اور پھر اس کے بعد پورے مصر میں موت کا جو خوفناک عفریت ناچا، اس کے بعد عبدالفتاح السیسی کی عبوری حکومت کے نائب وزیراعظم البرادعی نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اخوان کے احتجاجی کیمپوں پر تشدد کی پالیسی سے اختلاف رکھتے ہیں، اس لیے اس حکومت کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔ اس احتجاجی استعفے نے البرادعی کا ایک بااصول انسان کے طور پر امیج ابھارا۔ اس وقت البرادعی آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ چھٹیاں گزار رہے ہیں۔
محمد مصطفی البرادعی کا نام ایسا نہیں ہے کہ لوگ انہیں جانتے نہ ہوں۔ عراق پر امریکی حملے سے پہلے جو شخصیت عراق میں چوتھی چالے کررہی تھی وہ البرادعی ہی تھے۔ اُس وقت وہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب پر فائز تھے۔ اس کے بعد البرادعی کو ان کی انسانیت کے لیے بہترین اور ناقابلِ فراموش خدمات پر نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ البرادعی اس کے بعد مصر ی عوام کی خدمت کی جانب متوجہ ہوئے اور حسنی مبارک کے خلاف گیارہ جماعتوں کی مہم جس میں اخوان بھی شامل تھی، کے قائد ٹھیرے۔ حسنی مبارک کے خلاف احتجاجی مہم میں کارکنان تو اخوان کے پیش پیش تھے، مگر قیادت البرادعی کے ہی ہاتھ میں تھی۔ جب اخوان کے مقرر کردہ محمد مرسی مصر کے ایوانِ صدر میں داخل ہوئے تو البرادعی اخوان سے اپنا راستہ الگ کرچکے تھے اور اخوان کے حکومت میں آنے کے ٹھیک ایک برس بعد وہ مرسی کے خلاف احتجاج کی قیادت کررہے تھے۔ اس چار روزہ احتجاج کے بعد مصری فوج نے ایک منتخب صدر کو جیل میں ڈال دیا اور خود اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ منطقی طور پر البرادعی اس نئی حکومت کے بنیادی اراکین میں شامل تھے مگر حیرت انگیز طور پر ان کا نمبر پہلا نہیں دوسرا تھا۔ وزیراعظم کا قرعہ فال عدلی منصور کے نام نکلا۔ اخوان کی ویب سائٹ پر موجود ایک آرٹیکل کے مطابق جو اب ہٹادیا گیا ہے مگر اس کا حوالہ نیویارک ٹائمز نے بھی دیا ہے، منصور کا تعلق پروٹسٹنٹ عیسائیت کی شاخ سیونتھ ڈے سے ہے۔ اخوان کا یہ بھی کہنا ہے کہ منصور اصلاً کرپٹو یہودی ہے۔ کرپٹو یہودی وہ ہوتے ہیں جو اندر سے تو یہودی ہوتے ہیں مگر ظاہری طور پر اپنا مذہب تبدیل کرلیتے ہیں۔
البرادعی کی شخصیت صرف اتنی نہیں ہے جتنی اوپر بیان کی گئی ہے۔ ذرا سی چھان بین کی جائے تو البرادعی کی شخصیت کے جو پہلو سامنے آتے ہیں، اس سے مصر میں عالمی سازش کاروں کا پورا کھیل واضح ہوجاتا ہے۔ البرادعی کی ماں ایک یہودی تھی اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ یہودی مذہب اب تبلیغی مذہب نہیں رہا ہے۔ یہ ایک نسلی مذہب تک محدود کردیا گیا ہے، اور اس نسلی مذہب میں بھی اگر ماں یہودی ہو تو بچے کو یہودی مذہب میں داخلے کی اجازت ہے ورنہ نہیں۔ البرادعی کی بیوی کا تعلق ایران سے ہے اور اس کے بارے میں بھی شبہات ہیں کہ وہ ایرانی یہودی خانوادے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تو ہے البرادعی کا خاندانی پس منظر۔
اب ذرا البرادعی کا کیریئر دیکھیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کوفی عنان، جنرل ویسلے کلارک اور البرادعی میں کیا قدر مشترک ہے؟ یہ تینوں حضرات مشہور ترین این جی او یا تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس سینٹر کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن ہیں۔ اس انٹرنیشنل کرائسس سینٹر کو فنڈز ملتے ہیں عالمی سازش کاروں کے کلب کے رکن اور بدنام زمانہ صہیونی جارج سوروز کے اوپن سوسائٹی گروپ سے۔ اب کہانی کچھ واضح ہونا شروع ہوتی ہے۔ البرادعی کا کیریئر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی سربراہی کے بعد ختم نہیں ہوگیا تھا۔ بس ان کی پوسٹنگ تبدیل ہوگئی تھی اور ان کی نئی تعیناتی مصر کے اندر ہی تھی۔ وہ پہلے بھی عالمی سازش کاروں کے ایجنٹ تھے اور اب بھی ہیں۔ چونکہ اِس وقت مصر میں عبوری اور عارضی حکومت قائم ہے جو اپنا ٹاسک مکمل کرنے کے بعد ہٹادی جائے گی اور کہا جائے گا کہ عالمی دباؤ کے بعد مصر میں فوجی حکومت کو رخصت ہونا پڑا۔ اس وقت البرادعی کی اس ڈرامے میں دوبارہ انٹری ہوگی۔ البرادعی، جنہیں اِس وقت مستعفی کرواکر نیک نام اور بااصول قرار دے دیا گیا ہے، اُس وقت ایک غیر جانبدار حیثیت سے داخل ہوں گے اور پھر ایک طویل عرصے تک مصر کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہوگی۔
البرادعی کے مہرے مرسی کی حکومت میں بھی شامل تھے اور السیسی کی حکومت میں بھی شامل ہیں۔ صرف اور صرف البرادعی مستعفی ہوئے ہیں، ان کی ٹیم کے دیگر ارکان نہیں۔ کسی بھی ڈرامے میں تماشائی ڈائریکٹر کی مرضی کے مطابق ہی جذبات میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ ولن اور ہیرو، دونوں کے ہیروئن کے بارے میں یکساں جذبات ہوتے ہیں۔ مگر ولن ذرا ہیروئن کے قریب آکر تو دیکھے، تماشائیوں کا بس نہیں چلتا کہ خود ہی اٹھ کر اس کا قلع قمع کردیں۔ ہیرو جو چاہے کر گزرے، تماشائی مطمئن رہتے ہیں۔ یہی حال ہماری حقیقی زندگی کا بھی ہے۔ اب یہ ڈائریکٹر پر منحصر ہے کہ وہ کس اداکار کو ہیرو کا اور کس کو ولن کا کردار تفویض کرتا ہے۔ چاہے جو بھی ہیرو ہو یا ولن، یا سائیڈ اداکار… چلنا سب کو ڈائریکٹر کی ہدایت کے مطابق ہی ہوتا ہے، اور مکالمات بھی صرف وہ ادا کرنے ہوتے ہیں جو اسکرپٹ میں دیے گئے ہوتے ہیں۔
مصر کے ڈرامے میں السیسی کا کردار مختصر دورانیے کا اور البرادعی کا کردار طویل دورانیے کا ہے۔ السیسی ولن ہے اور البرادعی ہیرو۔ رہ گئے مرسی اور ان کے حامی، تو ان کا کردار اس پورے ڈرامے میں عوام کو احمق بنانے سے زیادہ کا نہیں ہے۔ ڈراما پورے جوبن پر ہے۔ کلائمیکس سے پہلے تماشائی ڈائریکٹر کے سحر میں ہی ڈوبے رہیں گے۔ مگر جان لیجیے کہ عالمی سازش کاروں کے کٹھ پتلی تماشے کا مقصد کیا ہے؟ سارے کردار کہانی کو آگے بڑھارہے ہیں، چاہے یہ ولن ہو، ہیرو ہو یا سائیڈ کے کردار۔ یہ سب کہانی کا لازمی جزو ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
No comments:
Post a Comment