Search This Blog

Thursday, 1 August 2013

بابا پیر بخش مبارک ہو۔۔۔BABA PEER BAKSH MUBARAK HO

قیادت

عبدالرحمن متوکل
’’بابا پیر بخش مبارک ہو! پورے گاؤں نے آپ کو مسجد کا پیش امام بنایا ہے۔‘‘
’’بس جی، آپ کو بھی مبارک ہو۔‘‘
’’بابا پیر بخش یہ خوشی کا موقع ہے، اس موقع پر آپ چپ ہیں!آپ کے چہرے پر دوردور تک خوشی نظر نہیں آرہی۔‘‘
’’نہیں جی! ایسی کوئی گل نئیں۔‘‘
’’بابا جی آپ بتائیں گے کہ گاؤں کے سب لوگوں نے آپ کو مسجد کا امام بنانا کیوں پسند کیا؟‘‘
’’او جی اللہ بھلا کرے،گاؤں کے بڑوں سے تو اپنا عرصے سے میل ملاپ ہے۔ رہے گاؤں والے، تو جی گاؤں کا بچہ بچہ مجھے جانتا ہے، پر مجھے مسیت کا امام بنادیا… یہ بات تو جی میری وی سمجھ میں نئیں آرہی ہے‘‘۔
’’بابا پیر بخش، اس کی وجہ آپ کا تقویٰ تو نہیں؟‘‘
’’تقویٰ… یہ کیا ہوتا اے جی؟پہلی واری سنا اے‘‘۔
’’مطلب آپ بہت نمازی پرہیزگار ہو۔‘‘
’’نئیں جی! ایہہ وی گل نئیں اے۔ اللہ کو منہ دکھانا ہے، میں نے تو آج تک عید کی نماز بھی نہیں پڑھی‘‘۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں جی، مجھے تو وضو کرنا بھی نہیں آتا‘‘۔
’’لگتا ہے آپ انکسار سے کام لے رہے ہیں یا پھر آپ ان اللہ والوں میں سے ہیں جو اپنے آپ کو خلق خدا سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔‘‘
’’پتا نئیں جی!آپ کیا کہہ رہے او۔ میں نے تو جو سچی گل تھی آپ کو بتادی۔ پہلے کی بات اور تھی اب بندہ مسیت کا پیش امام بن کر جھوٹ تو نہیں بول سکتا ناں‘‘۔
’’اچھا یہ بتائیے کہ آپ پہلے کیا کرتے تھے؟آپ نے زندگی کا آغاز کس کام سے کیا؟‘‘
’’دیکھو جی، بات بتانے کی تو نہیں ہے لیکن اللہ کے گھر میں بیٹھے ہیں۔ کوئی مارے یا چھوڑے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ بچپن میں مَیں اور اکبر نکّا مل کر مسیت سے جوتیاں چرایا کرتے تھے‘‘۔
’’جی…ی…ی…ی‘‘
’’ہاں جی! میرا پیو بچپن میں مرگیا تھا۔ ماں نے دوسرا ویاہ کرلیا۔ سوتیلا پیو مجھے بہت مارتا تھا۔ ماں کو خرچہ وی نئیں دیتا تھا۔ ایک دن میں روتا روتا مسیت چلاگیا۔ نمازیوں نے جھڑک کر مجھے پیچھے کھڑا کردیا۔ پیچھے کھڑے کھڑے میں نے دیکھا تو مسیت کے در پہ نئی جوتی رکھی تھی۔ میں نے سوچا، بیچوں گا کچھ روپے تو مل جائیں گے۔ پھر میں نے مسیت سے جوتیاں چرانا شروع کردیں۔اکبر نکّا جاکر انہیں دوسرے گاؤں میں بیچ آتا۔ پَر جی یہ دھندا چنگا نئیں تھا۔ بدنامگی زیادہ تھی آمدن کم تھی۔ پکڑا جاتا تو شور مچ جاتا۔ نمازیوں کے ساتھ ساتھ راہ چلتے بھی مل کر مارتے۔ اکبر نکّا وی بیچ میں پیسے مارنے لگا تھا۔ میں نے یہ دھندا چھوڑ کر چھوٹی موٹی چوری چکاری شروع کردی۔ ایسے ای بچپن گزر گیا پتا وی نئیں چلا‘‘۔
’’پھر بڑے ہوکر تم نے کیا کیا؟‘‘
’’بڑے ہوکر کیا کرنا تھا جی۔ ایک دن میں چوری کے ارادے سے اللہ وسایا کے گھر میں گھس گیا۔ اللہ وسایا چوہدری کا کرندہ ہے جی۔ اس نے پکڑ کر شور مچادیا۔ پورا محلہ جاگ گیا۔ سب نے مل کر بہت مارا۔ پھر چوہدری کے پاس لے گئے۔ چوہدری نے اپنی جیل میں ڈال دیا۔ وہاں جی مردوں اور عورتوں کی علیحدہ علیحدہ جیل تھی۔ قیدیوں کو جوار کی روٹی کے ساتھ ساگ دیا جاتا تھا۔ گندم کی روٹی ہفتے میں ایک بار دی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ پتلی دال ہوتی تھی۔ مگر اس کھانے پر جو خرچ ہوتا وہ قیدیوں کے رشتے داروں سے لیا جاتا۔ اپنا تو کوئی رشتہ دار تھا نہیں، اس لئے زیادہ تر فاقے کرنے پڑتے تھے۔ مرنے جیسی حالت ہوگئی تھی۔ چوہدری کے کچھ بندے رسّا گیری کرتے تھے۔ انہوں نے چوہدری سے میری سفارش کردی۔ پھر جی میں وی ان کے ساتھ مل کر رسّا گیری کرنے لگا۔ رسّا گیری میں وڈا نام کمایا۔ جس گائے بیل پر ہاتھ رکھ دیا ساتھ ساتھ چلی آتی تھی۔ ایک دو دفعہ جی اونٹھ وی چوری کیا۔ چوہدری میرے کام سے بہت خوش تھا۔ پَر جی چوہدری کا اس کام سے دل بھر گیا تھا۔ وہ کوئی وڈا کام کرنا چاہتا تھا۔ فیر چوہدری لہور چلا گیا۔ وہاں اس نے سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔ وڈا وزیر بن گیا۔ لہور میں چوہدری کی بہت وڈی کوٹھی ہے لیکن میں گاؤں کی حویلی میں ہی رہا۔ اس مرتبہ چوہدری الیکشن لڑنے گاؤں آیا ہوا تھا کہ مسیت کا پیش امام مرگیا۔ بابا دینو نام تھا جی اس کا۔ ہر ویلے اسلام اسلام کرتا رہتا تھا۔ چوہدری کو اس پہ بہت غصہ آتا تھا۔ چوہدری نے اس کی جگہ مجھے امام بنادیا۔ میں نے کہا چوہدری صاحب ’’میں اور مسجد کا پیش امام…‘‘ چوہدری ہنس کر بولا: ’’موج کر پیر بخش۔ اب تُو نے کچھ نہیں کرنا۔ بس ٹُکڑ توڑنے ہیں۔ مسیت میں جھاڑو دینا، پانچ وقت اذان دینا… لیکن دیکھ گلے میں موٹی سی مالا ضرور ڈال لینا اور ہر وقت منہ میں بڑبڑ کرتے رہنا۔ سال بھر کے دانے حویلی سے مل جائیں گے، لیکن دیکھ عصر مغرب کے بیچ مسجد میں رہنا، لوگ مرنے والوں کی فاتحہ درود کرتے ہیں تو سب سے پہلے مولوی کو روٹی بھیجتے ہیں۔ کچھ نماز، کلمے، دم درود بھی سیکھ لینا‘‘۔ بس جی اس کے بعد چوہدری نے گاؤں والوں کے سامنے اعلان کردیا۔ گاؤں والوں نے پہلے تو منہ بنایا پھر چوہدری کے کرندوں نے انہیں سمجھایا کہ گاؤں کا پرانا آدمی ہے۔ بڈھا ہوگیا اے لیکن اب بھی اس پر چوری چکاری کا شبہ رہتا ہے، مسیت کا امام بن جائے گا تو اس شک شبہ سے بھی جان چُھٹے گی۔ یوں جی گاؤں والے بھی راضی ہوگئے، سب نے خوشی خوشی مجھے مسیت کا امام بنادیا‘‘۔
’’پھر بابا پیر بخش تم اتنے پریشان اور فکرمند کیوں ہو؟‘‘
’’فکر کی بات تو ہے نا جی! اپنے ہی گناہ کیا کم ہیں کہ اب مجھے چوہدریوں، سرداروں، ان کی اولادوں، رشتہ داروں کی بدمعاشیاں، بدکاریاں اور ظلم و ستم بھی معاف کرانا پڑیں گے‘‘۔

No comments:

Post a Comment