جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی
بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن میں جماعت اسلامی کی رجسٹریشن کو غیر قانونی قرار دے کر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی ہے۔ بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دو درخواستوں کی بنا پر سنایا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کا منشور بنگلہ دیش کے سیکولر آئین سے متصادم ہے۔ بنگلہ دیش کے متنازع اور جعلی جنگی جرائم کی عدالتوں سے جماعت اسلامی کے قائدین کو موت اور عمر قید کی سزائوں کے بعد دوسرا اہم فیصلہ آیا ہے۔ اس فیصلے سے بنگلہ دیش کے نظام عدل کی ساکھ بھی مجروح ہوگئی ہے۔ ایک طرف دنیابھر میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن عائد کرنے والے تمام قوانین کو ختم کرایا جاتا ہے اور اس سلسلے میں مذہبی اور سماجی اقتدار کا لحاظ بھی نہیں رکھا جاتا، لیکن اس حق سے مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں کو محروم رکھا جارہا ہے۔ جب سے بنگلہ دیش کی نام نہاد جنگی جرائم کی عدالتوں نے امریکی، مغربی، ایما پر حسینہ واجد کی عوامی غیر مقبولیت کے نتائج سے بچنے کے لیے جماعت اسلامی کے قائدین کے خلاف ظالمانہ اور استبدای فیصلے کرنے شروع کیے ہیں تب سے بنگلہ دیش میں ان اقدامات کے خلاف سیاسی ردعمل بھی تیز ہورہا ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے حق میں احتجاج میں تیزی آرہی ہے۔ یہ بات بنگلہ دیش کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے ہر مبصر کو نظر آرہی تھی کہ آئندہ انتخابات میں حسینہ واجد اور اس کی عوامی لیگ بری طرح شکست کھائے گی، اس لیے ایک متنازع درخواست کو بنیاد بنا کر بنگلہ دیش کی حکمراں سیکولر قوم پرست اقلیت نے کنگرو کورٹ کے ذریعے جماعت اسلامی کا جمہوری راستہ روکنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ بنگلہ دیش میں ریاستی دہشت گردی کی پشت پر جس طرح وہاں کی عدلیہ عدل وانصاف کا قتل عام کررہی ہے اس نے سیکولر جمہوریت اور انسانی حقوق کے مغرب زدہ علم برداروں کے چہروں پر سے نقاب الٹ دی ہے۔ اس وقت مختلف مسلم ملکوں کے حالات مختلف ہیں، لیکن تمام ممالک میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کا عوام سے رابطہ اور تعلق کمزور کیا جائے۔ مسلمانوں کا طویل سیاسی سفر یہ سبق دے چکا ہے کہ قوم پرستی اور وطن پرستی چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو امت کے کام نہیں آتی اور اسے کسی نہ کسی عالمی یا علاقائی یا مقامی طاقت کا غلام بننا پڑتا ہے۔ بنگلہ دیش تمام عالم اسلام کے لیے ایک مثال اور نمونہ بن چکا ہے جس کا سبق یہ ہے ہر قوم پرست تحریک اپنی ہی قوم کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔ امت واحدہ کا تصور ہی عالمی انسانی برادری کے خواب کو تعبیر عطا کرسکتا ہے اور پروفیسر غلام اعظم جیسی صاحب عزیمت ہستی اور ان کے ساتھی روشن چراغ بن گئے ہیں اور پھونکوں سے ان چراغوں کو نہیں بجھایا جاسکتا۔
crtsy: Jasarat
No comments:
Post a Comment