Search This Blog

Thursday, 22 August 2013

مصر میں نیٹو فوج کب اترے گی When Nato Troops are arriving in Egypt

مصر میں نیٹو فوج کب اترے گی

مصر میں نیٹو فوج کب اترے گی
 مصر کے نئے فرعون جنرل السیسی کو ایک اسکرپٹ دے دیا گیا ہے، اس کی ڈیوٹی یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کردے جن پر قابو پانے کے لئے بیرونی فوجی مداخلت کو لوگ خوش آمدید کہیں۔
تیونس اورلیبیا میں یہ ڈرامہ کامیابی سے کھیلا جا چکا ہے ، یہی کھیل شام میں جاری ہے۔ شامی باغیوں کو امریکہ اور یورپ کی کھلی حمائت حاصل ہے،لیبیامیں تو نیٹو طیارے بمباری میں حصہ لیتے رہے ہیں ، شام میں بھی نیٹو کے رکن کی حیثیت سے ترک فضائیہ اور توپخانہ بار بار دخل اندازی کر رہی ہیں۔
نئے ورلڈ آرڈر میں امریکہ نے دنیا میں تھانیداری جمانے کا فریضہ برطانیہ عظمی کو سونپ دیا ہے، اس ملک کو نیٹو میں بالادستی حاصل ہے، افغانستان اور عراق میں بھی نیٹو نے ظلم اور جبر کی انتہا کر دی ۔ پاکستان کو افغانستان کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا ہے ، ان میںنیٹو سپلائی سر فہرست ہے، ایک تو نیٹو کے بھاری بھر کم کنٹینروںنے ہمارا روڈ نیٹ ورک اکھاڑ پھینکا ہے، دوسرے ان کنٹینروں کا ا سلحہ راستے میں چوری ہو جاتاہے یا ہونے دیا جاتا ہے اور اس اسلحے سے اہل پاکستان کو موت کی نیند سلایا جارہا ہے۔
 جب نائن الیون ہوا اور صدر بش نے نئی صلیبی جنگ کا اعلان کیا تو یہ ہم لوگ تھے جنہوںنے امریکہ سے کہا کہ وہ ان اسباب کو ختم کرے جن کی بنا پر لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں، امریکہ کو ہم نے بتایا کہ وہ عالم اسلام کے طول وعرض میں جابر اور آمر حکومتوں کا سر پرست ہے، اس ضمن میں ہم نے خاص طور پر لیبیا ، شام ، مصر، ارد ن وغیرہ کا نام لیا جہاں ہمارے بقول جمہوریت کا نام ونشان نہیں اور یہاں یا تو فوجی آمر کئی عشروں سے حکومت پر قابض ہیں یا شاہی خاندانوں کی فرمانروائی ہے۔
امریکہ نے پہلے لیبیا کا رخ کیا جہاں کرنل قذافی کے بارے میں کوئی بھی یاد داشت کے سہارے نہیں جانتا کہ اس نے حکومت کب ہتھیائی۔اس کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانے کے لئے القاعدہ کو استعمال کیا گیا اور اس کی بغاوت کو کامیاب کرانے کے لئے ہر طرح کی فوجی امداد دی گئی۔امریکہ کی پالیسیوں کی سمجھ نہیںا ٓتی، وہ ساری دنیا میں القاعدہ کے خلاف جنگ کر رہا ہے لیکن لیبیا میں اس نے القاعدہ کے کندھے سے کندھا ملا کر کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹا اورا ٓخر میں کرنل قذافی جان بچانے کے لئے کہیں چھپ گئے تو نیٹو طیاروںنے اسے ڈھونڈھ نکالا اور ایک سیدھا میزائل مار کر اس کاکام تمام کر دیا، ہم نے اس پر خوشیاں منائیں اور عرب بہار کے جھونکوں کے ساتھ جھوم جھوم اٹھے۔اسی دوران عرب بہار تیونس کے حکمران کو تنکوں کی طرح اڑا کر قعر مذلت میں پھینک چکی تھی۔تبدیلی کی ہواﺅں نے ہلکے سے تھپیڑے اردن اور سعودی عرب کے رخساروںپر بھی رسید کئے لیکن ان متمول اور فلاحی ریاستوںنے جلد ہی عرب بہار کو سرحدوںسے باہر دھکیل دیا مگر شام میں عرب بہار جہنمی شعلوں کی زبان بن کر لپکی۔
 اب شام میں ہر سو لاشے بکھرے ہوئے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہاں بھی القاعدہ یا اس کے حلیف گروپ انقلاب کا پرچم لہرا رہے ہیں اور امریکہ اور اس کا حلیف نیٹو ان انقلابی گروپوں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ترکی کے طیارے اور توپخانہ تو باقاعدہ اس جنگ میں کود چکا ہے اور شامی فوج کے ہاتھوں نقصان بھی اٹھا چکا ہے۔
شام شاید سخت ہڈی ثابت ہوا ہے، اس لئے عرب بہار نے مصر کی طرف ہجرت کر لی ہے، یہاں ایک سال پہلے ایک انقلاب نے کامیابی کا بگل بجایا تھا، اور حسنی مبارک کو لوہے کے پنجرے میں بند کر دیا گیا تھا۔پھر آزادانہ الیکشن ہوئے اور ایک جمہوری دور شروع ہوا مگر اس حکومت کو فوج نے یہ کہہ کر چلتا کر دیاکہ یہاںخانہ جنگی کا اندیشہ تھا، اس وقت خانہ جنگی تو نہیں ہوئی لیکن اب فوجی حکومت کے دور میں یہ خانہ جنگی عروج پر ہے،ہر روز لاشیں گر رہی ہیں، ٹینکوں کے گولے نہتے شہریوں پر برس رہے ہیں ، مشین گنوں سے مسجدوں کے نمازیوں کے سینے چھلنی کئے جا رہے ہیں۔اس قدر خونریزی پر اب ڈرامے کے پروڈیوسر امریکہ کو بھی فکر لاحق ہو گئی ہے مگر یہ سب کچھ اسکرپٹ کے عین مطابق ہے اور حالات کو اس نہج پر پہنچانا مطلوب ہے جب امریکہ اپنا دم چھلہ بننے والے نیٹو کو بزن کا اشارہ کرے یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مصر میںمداخلت کی ایک مبہم سی قرارداد منظور کرا لی جائے۔
 یہ ہماری بھول ہے کہ امریکہ اور نیٹو نے تیونس ، لیبیا، شام اور مصر میں اب تک جو ڈرامہ رچایا ہے، اس کے براہ راست کوئی اثرات پاکستان پر مرتب نہیں ہوتے، اسلامی کانفرنس کا خاموش تماشائی بننا بھی ایک تکلیف دہ امر ہے، اور مجھے یہ کہنے دیجیے کہ جب پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی تھی تو میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوںنے مستی میں یہ نعرہ لگایا کہ پاکستان عالم اسلام کا قلعہ ثابت ہو گا اورایٹمی قوت سے پوری اسلامی دنیا کا دفاع کرے گا مگر آج ہم ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں یا یہ سمجھ لیں کہ گونگے ہیں ، بہرے ہیں اور اندھے ہیں۔ہم کسی کی حفاظت کیا کریں گے ،اپنی بھی حفاظت نہیں کر پائے، الٹا جس طاقت نے ہمیں بچانا تھا، اس کو بچانا ہماری سر دردی بن گیا ہے۔اغیار تو اغیار ہیں ، انہوںنے تو طعنے دینا ہی تھے، اب تو ہمارے ہی اینکر ہمیں طعنے دے رہے ہیں ، انہوںنے مجھ جیسے جہادیوں اور جذباتی پاکستانیوں کا جینا حرام کر دیا ہے کہ کدھر گیا آپ کا ایٹمی اسلحہ جو عالم اسلام کے لئے ڈیٹرنٹ تھا۔

No comments:

Post a Comment