Search This Blog

Sunday, 5 February 2012

اسوہ ٴرسول کی پیروی کا عہد کریں!

daily jang editorial
 
اسوہ ٴرسول کی پیروی کا عہد کریں!
پوری ملت اسلامیہ آج رسالت مآب خاتم النبییّن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت پورے مذہبی جوش و جذبہ اور انتہائی عقیدت و احترام سے منا رہی ہے ۔ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال اس مقدس اور مبارک دن کے موقع نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں اس لئے کہ آپ کی ولادت باسعادت کے ساتھ ہی انبیاء و مرسلین کی آمد کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا اور آسمانی صحیفوں کا نزول بھی انجام پذیر ہو گیا ۔ آپ کے خاتم النبیّین ہونے کی حیثیت سے قرآن حکیم بھی وہ آخری کتاب قرار پائی جس میں نوع انسانی کے لئے قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل و مصائب کا جامع حل موجود ہے ۔ جس عہد جہالت میں آنجناب کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی اس وقت پوری انسانیت رشد و ہدایت کے راستوں سے بے خبر، ضلالت و گمراہی، معاشرے کے ظالم و جابر انسانوں اور حکمرانوں کے انسانیت سوز مظالم کا شکار اور زندگی کے ہر پہلو سے محرومیوں اور مایوسیوں کا شکار تھی یہاں تک کہ زمین پر اولین عبادت گاہ بیت اللہ شریف میں بتوں کا ایک انبار تھا جنہیں قریش اپنا خالق و مالک قرار دیتے ہوئے ان کی پرستش کرتے تھے ۔مختلف قبائل کے درمیان صدیوں پر محیط تصادم اور محاذ آرائی نے بھی عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ بقول مولانا الطاف حسین حالی #
بنی بکر اور تغلب کی باہم لڑائی

صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی
قبیلوں کی کر دی تھی جس نے صفائی

تھی آگ ایک ہر سُو عرب میں لگائی
نہ جھگڑا کسی مال و دولت کا تھا وہ

کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا

کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں

یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
مولانا حالی # کے ان اشعار کی روشنی میں عرب معاشرے کے خدو خال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں لیکن جب آپ نے سب سے پہلے اہل مکہ کے سامنے دین اسلام کی تعلیمات پیش کیں تو آپ کو انتہائی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ قریش مکہ نے آپ کو ،آپ کے اہل خانہ اور اسلام قبول کرنے والوں کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ جب آپ اہل طائف کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے تشریف لے گئے تو ظالموں نے آپ کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا ، آپ پر پتھروں کی بارش کردی۔ مکہ معظمہ میں قرآن حکیم کی جن سورتوں کا نزول ہوا ان میں صرف اسلام کی دعوت دی گئی دیگر اسلامی تعلیمات جن کا تعلق عبادات، معاشیات، اقتصادیات اور مختلف طبقوں کے درمیان تعلقات اور زندگی کے دوسرے مسائل سے ہے ان کا نزول مدینہ منورہ میں ہوا جب آپ کی ہجرت کے بعد وہاں باقاعدہ ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی اور اس کے قوانین کا نفاذ بھی عمل میں آیا۔ آپ کی تعلیمات تاقیامت انسانوں کی رہنمائی کرتی رہیں گی یہی ختم نبوت کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔
آپ نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق دین اسلام کو پوری انسانیت تک پہنچانے کا فریضہ ادا کیا اور حجة الوداع کے موقع پر کم و بیش ایک لاکھ 24ہزار کے لگ بھگ صحابہ کرام کی موجودگی میں آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ اے لوگو! کیا میں نے تعلیمات خداوندی یعنی دین الٰہی کو آپ تک پہنچا نہیں دیا تو اس پر تمام حاضرین نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں اے اللہ کے نبی آپ نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے تمام اسلامی تعلیمات کو ہم تک پہنچا دیا ہے۔ اس پر رسالت مآب نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ گواہ رہنا کہ میں نے آپ کا دین عوام تک پہنچا دیا۔ دشمنوں کے ساتھ بھی آپ کے حسن سلوک کا یہ عالم تھا کہ جن سردارانِ قریش کے مظالم سے تنگ آ کر آپ ہجرت مدینہ پر مجبور ہو گئے تھے فتح مکہ کے موقع پر آپ نے کمال عفو و درگزر کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں نہ صرف معاف کر دیا بلکہ حکم دیا کہ جو بھی شخص بیت اللہ یا ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے اسے کچھ نہ کہا جائے۔ رحم و کرم، محبت و شفقت اور بدترین دشمنوں کو بھی معاف کر دینا اور اپنے اوپر روزانہ کوڑا پھینکنے والی عورت کے بیمار ہونے پر اس کی بیمار پرسی کرنا آپ کے حسن اخلاق کا وہ بلند ترین نمونہ تھا جس نے اسلام کے بدترین دشمنوں اور مخالفین کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ آپ کے اس مثالی کردار کی بنا پر ہی آپ کے بدترین دشمنوں نے بھی آپ کی عالی ظرفی کا اعتراف کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ ترین حسن سلوک اور بلند ترین کردار کی بنیاد پر ہی رحمة للعالمین قرار دیا۔ آپ نے نبی آخر الزماں ہونے کے حوالے سے نوع انسانی کو وہ منشور عطا کیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ آج امت مسلمہ جن دنیاوی مصائب و مسائل سے دوچار ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر عمل کیا جائے کیونکہ اسی میں ہی ان تمام مسائل کا حل اور انسانیت کی بھلائی ہے۔ مسلم ممالک کے درمیان تصادم ، محاذ آرائی اور اختلافات کا خاتمہ بھی حیات طیبہ کے مطابق قرآن اور دین کی تعلیمات پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔ ہم جہاں اس مسعود و مبارک موقع پر اپنے ہم وطن بھائیوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں وہیں پاکستان کے سیاسی و مذہبی اکابرین سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کے یوم ولادت کے موقع پر ختمی مرتبت کے اسوئہ حسنہ پر عمل پیرا رہنے کے عہد کو تازہ کرتے ہوئے لوگوں کے مابین اسلامی اخوت و اتحاد کے جذبے کو بیدار کریں اور اپنی سیاست اور سیادت کو مسلمانوں کے مابین فروعی اختلافات کے خاتمے کے لئے وقف کر دیں تاکہ ہمارا ملک درپیش مسائل و مشکلات پر قابو پا سکے اور ہماری قوم ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

No comments:

Post a Comment