Search This Blog

Saturday 18 February 2012

کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟ مجھے نہ جانے کیوں شبہ ہو نے لگتا ہے

کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟ مجھے نہ جانے کیوں شبہ ہو نے لگتا ہے
 ۔۔۔از شمس جیلانی
شمس جیلانی
 
 کیونکہ حضور (ص) نے فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا ؟ مگر ہم روز ڈسے جا تے ہیں اور پھر جب مفادات سامنے آتے ہیں تو انہیں سے دوبارہ عہد و پیمان باندھ لیتے ہیں۔ اور و ہ بھی کن سے جو کہ کہتے ہیں کہ وعدہ قر آن اور حدیث تھوڑی ہے جو کہ تو ڑا نہ جا سکے ؟ دوسری طرف ہوتے ہو تے رہ جانے والے امیر المو نین ہیں جن کے اسلام پر شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ رہتے ہی را ئے ونڈ میں ہیں جو جدید اسلام کا مر کز ہے؟ چند دنوں پہلے تک وہ کہہ رہے تھے اب صدر زر داری سے بات نہیں ہو سکتی کیو نکہ انہوں نے آج تک وعدہ کر کے ،کو ئی وعدہ وفا نہیں کیا ؟ اب وہ پھر وعدوں پر من گئے اور بیسویں ترمیم پر رضامند ہو گئے، جس میں اور شقوں کے علا وہ ایک شق یہ بھی ہے کہ جعلی ووٹوں کے ذریعہ منتخب ہو نے والے ان ٢٦نما ئندوں کو دستوری تحفط دید یا جا ئے جن کی رکنیت سپریم کورٹ نے معطل کر دی ہے۔ یہ میرے خیال میں جمہو ریت کی  معلوم تا ریخ میں، اس کے ساتھ بہت بڑامذاق ہے؟
 
 یہ تو معزز اور انسان ہیں، ہم نے یہ ہی صفت ایک اور شکا ری پرند میں بھی دیکھی جو آپ سب نے بھی دیکھی ہو گی اور وہ ہے گدھ جو کہ ہمیشہ مردار پر گزاراہ کر تا ہے، مگر اور شکا ری درندوں اور پرندوں کی طرح وہ آپس میں  زیادہ لڑتے نہیں ہیں، کیونکہ مل بانٹ کے کھا تے ہیں اور سامنے پڑے مر دے کی لا ش کے  چاروں طرف بیٹھے اس کی تکا بوٹی کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ اس کی ہڈیوں پر گوشت باقی رہتا ہے۔ ہمیں نہ جا نے کیو ں یہاں مماثلت نظر آئی؟ ایسا لگا کہ یہ سیاستداں بھی انہیں کی نقل کر تے ہیں ،جس پر اصل کا گمان ہو تا ہے۔ جیسے پہلے میثاق جمہوریت ،پھر اٹھارویں اور انیسو یں ترامیم ،اس کے بعد اب بیسویں ترمیم اور ہمیں یقین ہے کہ یہ آخری نہیں ہو گی ؟ انشااللہ وہی سلسلہ دراز جاری ہے گااور اسی طرح وعدہ خلافی کا نیا رونا بھی اور قوم کے لیئے ترامیم کا کھلونہ بھی ؟ کیا یہ واقعی مسلمانوں جیسے انداز ہیں ؟ جواب آپ پر چھوڑ تا ہوں؟
 
 ویسے وہ بھی مجبور ہیں کہ دنیا کا روبار ہی اعتبار پر چلتا ہے ۔ کسی نہ کسی مرحلے پر ہر ایک کو کسی ایک پر اعتبار کر نا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی دوکان پر جا ئیں تو یا تو ،آپ اس پر اعتبار کریں گے اور اس کو پہلے رقم دیں گے یا پھر وہ آپ پر اعتبار کر ے گا اور آپ کو مطلوبہ اشیاءپہلے دیگا؟ اسی لیئے میرے آقا (ص)  نےفرما یا کہ  “مسلمان میں سب عیب ہو سکتے ہیں مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہو سکتا “ ( کیونکہ جس پر جھوٹ کا ٹھپہ لگ جا ئے اس کا پھر کوئی دنیا میں اعتبار نہیں کرتا) اور یہ بھی حکم فرماد یا کہ  “جو ایک مرتبہ جھوٹا ثابت ہوجا ئے تو تا احیات اس کی گواہی نہیں مانی جا ئے “ مگر اس سلسلہ میں کچھ آیات ہیں جن کی بنا پر مفسرین میں تھوڑا  سا اس پراختلاف وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ توبہ کر لے تو اس کی شہادت بعد میں قابل ِ قبول ہو سکتی ہے  “ جبکہ توبہ کی شرط ِ اول یہ ہے کہ صدق دل سے توبہ کرے اور دوبارہ اس سے وہ گنا ہ سرزد نہ ہو؟ یہاں وہ بات ہی نہیں ہے یہاں تووہ کیفیت ہے کہ رات کو پیتے ہیں صبح کو توبہ کر لیتے ہیں؟ نتیجہ یہ کہ شرابی ہو نے کے با وجود ان کے ہاتھ سے جنت نہیں جا تی ہے؟ مگر ہم نے ایسے بھی دیکھے ہیں کہ وہ توبہ ، توبہ اسی وقت منہ سے کر تے جا تے ہیں اور گنا ہ با قی اعضاءسے ، تاکہ تقویٰ کا بھرم  بھی قائم رہے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارا ملک اور دستور اسلامی ہے ۔ جبکہ دستور میں نما یاں طور پر لکھا ہوا  ہےکہ یہاں بالا دستی اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہو گی؟  جبکہ عملی  طور پربالا دستی ہر اس شخص کی ہے جو کسی بھی ترکیب سے اقتدار میں آجا ئے مگر نام مسلمانوں جیسا ہو کیونکہ یہ بھی دستور میں لکھا ہوا ہے اور اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی ۔ اس  سے پہلے بھی دو اسلامی دستور بنےا یک ١٩٥٦کا تھا جس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا لفظ استعمال ہو اتھا۔ اس میں بھی یہ لکھا تھا کہ جو قانون غیر اسلامی رائج ہیں ان کو مشرف با اسلام کیا جا ئے گا؟ مگر بنانے والے کو وقت نہیں ملا۔ مگر ایوب خان کو وہ بھی پسند نہیں آیااور لہذادستور کی چند سالوں میں چھٹی ہو گئی ۔

اس کے بعد اب جو آئین چل رہا ہے وہ بھٹو صاحب کا عطا کر دہ ہے اس میں بھی یہ ہی شق تھی کہ جو قانون اسلامی نہیں ہیں وہ دس سال کے اندر مشرف با اسلام کرائے جا ئیں گے؟ ان کا بھی ایک ٹرم پو را ہوا مگر ان قوانین پر امت اکھٹا نہ ہو سکی، کہ اتنے میں مرد ِ حق، ضیاءالحق نے ان کا بھی تختہ الٹ دیا اور اس نے کہا کہ  پہلےلوگوں نے صرف وعد کیئے تھے، اب میں عملی طور پراسلام نا فذ کرکے دکھاؤنگا؟ اس کا دور بھی دس کیا بلکہ گیا رہ سال رہا، مگر اس کا عرصہِ حیات کم پڑگیا اور وہ ویسا کا ویسا ہی دستور چھوڑکر خالق حقیقی سے جا ملا؟ہاں انہوں نے سیاسی کا رکنوں کو اسلام کے نام پر کوڑے لگوا کر کا فی نام دنیا میں سر بلند کیا، چاہیں آپ انکا اپنا کہہ لیں یا اسلام کا۔ کیونکہ غیر مسلم میڈیا تاک میں رہتی ہے اور ہر وہ کام جو مسلمان کریں اسکی تشہیر بھی خوب کرتی ہے اور اس کا کریڈٹ بھی اسلام کے کھاتے میں ڈالد یتی ہے۔

اسی دستور میں ایک شق یہ بھی ہے کہ کچھ عہدیداروں کو امیو نٹی ملی ہوئی ہے۔ جبکہ اسلام  میں کسی کو امیونٹی حا صل نہیں ہے، وہاں حضرت عمر (رض) سے  مسجد میں کھڑے ہو کر ایک عام آدمی پو چھ لیتا ہے کہ یہ آپ کا پیرہن کیسے بنا جبکہ ایک چادر ہر ایک کے حصے میں آئی تھی اور کسی کانہیں بن سکا؟وہ اپنے صاحبزادہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) کو فر ما تے ہیں کہ تم ان کو جواب  دو؟ (جبکہ ہمارے اول تو حکمراں مسجد جاتے ہی نہیں اور چلے جا ئیں تو اتنے فرشتے ساتھ ہو تے ہیں کہ آواز نکالنے سے پہلے !بندہ اچک لیا جاتا ہے؟)

وہ جواب دیتے ہیں کہ میں نے اپنے حصے کی چادر بھی ان کو دیدی تھی اس لیئے ان کا پیرا ہن بن گیا؟ اور ان کا کردار یہ بھی سنتے چلیئے کہ انہوں نے بطور خلیفہ خدمات انجام دیتے ہو ئے جو مال بیت المال سے لیا تھا جس سے بمشکل دال روٹی چلتی تھی، وہ بھی بستر مرگ پر حساب کر کے اپنا مکہ کا آبائی مکان بیچ کر ادا کردیا۔ کیونکہ اس سے پہلے والے خلیفہ حضرت ابو بکر (رض) نے بھی ایسا ہی کیاتھا؟
 یہ تو ان کی باتیں تھیں جن کا اتباع کر نا ہم مسلمان ہو تے ہو ئے اپنے لیئے کسرِ شان سمجھتے ہیں ۔ مگر ان کے یہاں بھی جن کا ہم اتباع کر تے ہیں اس شق کو ان معنوں میں استعمال نہیں کیا جا تا جس میں ہمارے یہاں یہ استعمال ہو رہی ہے۔ کہ مجرموں کو کوئی اپنے اختیار ِ خصوصی سے کام لیتے ہو ئےمعاف کر دے یا خود کو بچا ئے۔ بلکہ یہ شق اس لیئے ہے کہ اگر کوئی نیک نیتی سے کام کر تے ہو ئے غلطی کر بیٹھے تو اس وقت تک اس کے خلاف کو ئی مقدمہ درج نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے عہدے پر فا ئز ہے۔ جب کہ اس کے بعد اس کا بھی ٹرا ئیل ہو سکتا ہے۔( مگر ان کی بڑھی ہوئی غیرت بات کو یہاں تک پہونچنے نہیں دیتی ہے ،کل کی ہی خبر دیکھئے کہ جرمنی کے صدر کا نام ایک اسکینڈل میں آگیا اور انہوں نے استعفیٰ دیدیا) مگر ہمارے یہاں اس دفعہ کا بھی وہی مسئلہ ہے کہ سب اس پر متفق ہیں کہ اس کو آئین کا حصہ رہنا چا ہیئے، کہ کل کلاں کو اقتدار کسی کے حصے میں  بھی آسکتا ہے؟ اسی لیئے اس پر نہ حزب ِ اختلاف کے کسی رہنما نے مطالبہ کیا اور نہ کسی مو لانا نے کہ ہم بیسویں تر میم کو جب پا س ہونے دیں گے، جبکہ اس دفعہ کی حدود معین کی جا ئیں یا اسے دستور سے ہی نکالدیا جا ئے ۔ جبکہ الیکشن کمیشن پر بات ہو گئی اور بھی بہت سی چیزوں پر بات ہو ئی، اور ان میں ترمیم حسب مرضی کرالی گئیں۔ جس پر عمل کا جو چارسالہ معیار ہے ویسا ہی آئندہ بھی متوقع ہے۔ اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ گدھ سب متفق ہیں ۔ لہذا مل بانٹ کر کھا تے ہیں ۔

 یہ تو تھیں لیڈروں کی باتیں اب عوام پر آتے ہیں ۔ ا نکا بھی عالم یہ ہے کہ جب بھی کو ئی تحریک چلی دانشوروں نے کہا کہ یہ تو دیکھ لو جن کو راہنما بنا یا ہے یہ تمہیں وہ دے بھی سکیں گے جس کی تم امید رکھتے ہو؟ مگر سب نے ہمیشہ اپنا مفاد پہلے دیکھا پھر کسی اور کا؟ پاکستان بننے کے بعد بھی قومیت نام کی کو ئی چیز ہم میں پیدا نہیں ہو سکی ؟ وہ ووٹ اس پر دیتے ہیں ، کہ ہماری برادری وغیرہ کا ہے یا نہیں؟ جبکہ مسلم قومیت میں سب مسلمان بھا ئی بھا ئی ہیں اور ترجیح تقویٰ کو ہے ؟ پھر ان کی دوسری  ترجیح یہ ہے کہ امید وار نقد پیسے کتنے دے رہا ہے، سواری مہیا کر رہا ہے یا نہیں اور کھانے پینے کو کس کے کیمپ میں افراط سے ہے۔ ا نکی بلا سے امید چور ہو، ڈاکو ہوقاتل ہو اگر انکے لیئے اچھا ہے تو ووٹ حاضر ہے۔ پھر دوسری ترجیحات یہ ہیں کہ یہ آکر سستی روٹی دیگا، جیسے پہلے دی تھی ،تندور دیگا جس کا کوٹا ملا کریگا یا، پیلی ٹیکسی دیگا یا پھر کراچی یا اسلام آباد میں پلا ٹ دیگا؟ اب اسی میں ایک اور اضافہ فر ما لیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم اسی کے دم  سےجا ری ہو ئی ہےوہ جا ری ہے گی اور لیب ٹاپ جب بٹیں گی تو پہلے کی طرح ہما رے ہی حصے میں پھر آئیں گی۔

 کیونکہ ہما رے یہاں یہ بھی رواج ہے کہ کو ئی کتنا ہی اچھا کام کر  کےگیا ہو، آنے والا اس کو بند کر دیتا ہے؟ دوسرے دینے والے بھی اپنے بندے دیکھ کر دیتے ہیں،اس سے قطع نظر کہ جنہیں لیپ ٹاپ ملی ان کے گھر انٹر نیٹ ہے بھی یا نہیں؟ اور انٹر نیٹ والوں کو ادا کر نے کے لیئے اس کے پاس رقم بھی ہے ؟ جبکہ اچھی والی انٹرنیٹ کمپنیاں کم از کم تین ہزار روپیہ مہینہ لیتی ہیں ۔ جہاں ہر ایک کے پانچ سے لیکر سات بلکہ اور بھی زیادہ بچے ہوں اور تنخواہیں اکثریت کی چھ ،سات ہزار ہوں عام آدمی تین ہزار کہاں سے دے سکتا ہے ؟ اگر دینے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم چیک کر کے دیں گے کہ لینے والے کے پاس یہ سب چیزیں موجود ہیں یانہیں ؟ پھر  تودینے والے ظاہر ہے  کہ اپنے جیسوں کو ہی دیں گے؟ اس پر دو رائیں نہیں ہوسکتیں؟

جب  ہم وہاں تھےاورقوم اتنی نہیں بگڑی تھی ؟اس وقت الیکشن کے ٹائم پر ہم نے عجیب و غریب مطالبات دیکھے ؟جبکہ اب تو اس میں بہت ترقی ہوگئی ہے ۔ ہمارے شہر کے ایک محلے کے کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے ہم آپ کے امید وارکی حمایت  کر یں گے ،مگر اس شرط پر کہ آپ ان سے کہیں کہ ہما ری مسجد میں پنکھے لگوادیں ؟ہم نے کہا کہ یہ تو معمولی بات ہے ثواب کاکام ہے ہم خود ابھی کردیتے ہیں ۔ میں نے پنکھے والوں کو فون کیا اور کہا کہ ان کی مسجد میں پنکھے لگوا دو اور چلاکے بھی دکھا دینا۔ جب وہ بل لینے آیاتو ہم نے ان سے پو چھا کہ چلا کے بھی دکھا دیئے! کہنے لگا وہاں تو سر جی! ابھی بجلی ہی نہیں آئی ہے ؟ اس سے بھی اور دلچسپ قصہ سنا تے ہیں ایک گاؤں میں پہونچے تو دیکھا کہ وہاں کےرئیس کے پاس کتوں کی فوج ہے اور قسم قسم کے کتے اس کے چاروں طرف بطور درباری تشریف فر ما ہیں ۔ اس سے ووٹ کے لیئے کہا تو اس نے کہا کہ میں ووٹ نہیں دونگا ؟ کیونکہ اس امیدوار کے چچا زاد بھا ئی سے میں ایک کتا مانگنے گیا تھا اس لیئے کہ اس نسل کا کتا مرے پاس نہیں تھا ۔ اس نے نہیں دیا، اسی وقت خصوصی طور پر جیپ بھیجی گئی اور اس کو کتا منگواکر دیاگیا؟ اب آپ خود ہی بتا ئیے کہ جب عوام کی تر جیحات یہ ہوں تو اچھے امید وار کیسے آئیں گے اور جو آئیں گے آپ ان سے کیا امید رکھتے ہیں۔

 یہ ہی بات میں نے پہلے بھی کہی تھی اب دہرا رہا ہوں کے چہرے بدلنے سے کو ئی انقلاب نہیں آئے گا ، یہ کھیل یو نہیں چلتا رہے گا، جب تک کے عوامی انقلاب نہ آئے؟ جب تک ووٹر اس قسم کے امیدواروں کوووٹ دے رہے ہیں، اپنے ذاتی مفاد اور اپنی بہتری کے لیئے دے رہے ہیں، بجا ئے قوم اور ملک کی بہتری کے، اگر انکی ترجیحات یہ ہی رہیں تو چہرے بھی وہی رہیں گے ،مہرے بھی وہی رہیں گے، صرف جھنڈے بدلتے رہیں گے، چونکہ جھنڈے بدلنے سے نظام نہیں بدلا کرتے۔ آنے والے الیکش  کےبعد بھی ملک کے حالات ایسے رہیں گے۔ جہاں ذہنی انقلاب کی ضرورت ہو، وہاں عمل کی ضرورت ہو تی ہے، صرف با توں سے کام نہیں چلتا؟ اسی لیئے  قرآن نے عمل کرنے والوں کو مسلمان اور عمل نہ کرنے والوں کو منا فق کہا ہے؟

No comments:

Post a Comment