ربیع الاول کا حقیقی پیغام
محمد یعقوب شاہق
ماہ ربیع الاول اس بابرکت ہستی کی یاد دلاتا ہے جس نے
زمانہ قبل از نبوت چالیس برس کفر و شرک کے ماحول میں گزارے۔ ایسا ماحول
جس میں انسان شجر و حجر کے سامنے سجدہ ریز تھا۔ قبائل کے درمیان لڑائی
جھگڑے روزانہ کے معمولات تھے اور پورا سماج اخلاقی رزائل سے متعفن ہو رہا
تھا۔ بُت پرستی بے حیائی اور بداخلاقی کے اِس گندے ماحول میں آنجناب کا
دامن ہر قسم کی برائی سے پاک رہا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ
تعالیٰ کی خصوصی نظر کرم آپ کی حفاظت کر رہی تھی۔ اِس فسادزدہ معاشرہ کی
طرف سے آپ کو ”امین“ اور ”صادق“ کے القابات دیئے گئے۔بعثت کے بعد اسلامی
دعوت کا آغاز ”لا اِلہ ٰ اِلاَ اللہ محمد رسول اللہ “ سے ہوا جو لفظی
اعتبار سے مختصر لیکن معانی کے اعتبار سے بےحد عمیق تھا۔ اِس دعوت کا مفہوم
یہ تھا کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو غیراللہ غلامی سے نکال
کر خدائے واحد کی غلامی میں دےدیا جائے‘ جب اِس دعوت کی حزب نفسانی
خواہشات، خاندانی رسوم و رواج، نسلی اور قبائلی روایات اور بالادست طبقوں
کے مفادات پر پڑی تو مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ آپ کی راہوں میں
کانٹے بچھائے گئے۔ آوازے کسے گئے، گالیاں دی گئیں، غلاظت پھینکی گئی، معاشی
بائےکاٹ کا حربہ استعمال کیا۔ ترغیب و تحریص کا بازار گرم کیا گیا اور آپ
کو قتل کرنے کی منصوبے بنائے گئے لیکن پورے تیرہ برس کی مکی زندگی میں
نہایت نامساعد حالات کے باوجود دعوت کا سلسلہ جاری رہا اور کوئی حربہ بھی
آپ کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکا۔ اس دعوت کے اہداف و مقاصد اس
کتاب میں بیان کر دیئے گئے۔ جو ”قرآنِ مجید“ کی ضرورت میں آپ پر نازل ہو
رہی تھی۔ فرمایا گیا کہ ”ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلائل دےکر جس مقصد
کےلئے بھیجا ہے اور جس غرض کےلئے اُن پر کتابیں نازل کی ہیں اور اُن کو
ضابطہ حق کی جو میزبان عطا کی ہے وہ یہی ہے کہ لوگ اِنصاف پر قائم ہو
جائیں (الحدید: 25)اور یہ کہ ”وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو دین برحق اور
ضابطہ حیات دے کر بھیجا تاکہ یہ دِین دنیا کے تمام مروجہ طریق ہائے
زندگی پر غالب آجائے۔ اگرچہ ایسا ہونا مشرکوں پر کتنا ہی شاق گزرے“ (الصّف :
9) اہلِ کفر کی چیرہ دستیوں اور ظالمانہ کارروائیوں کی وجہ سے اہلِ ایمان
کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور آخر میں آپ کو بھی ہجرت کرنا پڑی۔ ہجرت کے وقت
اہلِ یثرب کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کر چکی تھی اور انہوں نے پیغمبر
اسلامﷺ کےلئے اپنا دامن پھیلا دیا۔ آپ کی تشریف آوری کےساتھ ہی ”یثرب“
”مدینة النبی“ کے نام سے موسوم ہو گیا اور یوں اُسے ”دارالاسلام“ ہونے کا
اعزاز حاصل ہوا
10ھ میں رسول خدا نے آخری حج ادا کیا۔ اِس موقع پر آپ نے جو خُطبہ ارشاد فرمایا اِس میں اسلام کی دعوت کا خلاصہ بیان فرما دیا۔ یہ خُطبہ اسلامی ریاست کا منشور ہے جو اپنی دُنیا تک اُمت مُسلمہ کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ آپ نے عہدِ جاہلیت کے سودی لین دین کو کالعدم قرار دیا اور اِسکا آغاز گھر سے کیا۔ اِس خطاب کا ایک جملہ یہ تھا کہ میں تم میں ایک چیز چھوڑے جارہا ہوں۔ اگر تم نے اُسے مضبوطی سے پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہو گے، وہ کتاب اللہ ہے“۔ محسنِ انسانیت، سرور عالمﷺ کی دعوتی زندگی میں اس مختصر مضمون میں تفصلی قلمبند کرنا ناممکن ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس دعوت کی حقیقی قوت تلوار نہ تھی بلکہ وہ اخلاقی قوت تھی جس سے دِل مسخر ہوتے ہیں۔ حضورﷺ نے جو جماعت تیار کی اُسکا ہر فرد خدا کا سچا پرستا شمع رسالت کا پروانہ، نیکی کا نقیب، بھلائی کا داعی اور بدی کا دشمن تھا۔ ایک صدی بھی نہ گزری تھی جب اُس زمانہ کی دو سوپر طاقتیں اسلامی قوت کے سامنے سرنگوں ہو گئیں اور پھر پورے سات سو برس تک اسلام کا پرچم مغرب میں ہسپانیہ اور اندلس تک اور مشرق میں وسطِ ایشیاءاور ہندوستان کے اکثر علاقوں تک لہراتا رہا۔ اُس زمانہ میں اسلام کے ماننے والے ہیں علوم و فنون کے لحاظ سے سب سے ترقی یافتہ قوم تھے اور اِسی وجہ سے ووہ ساری دنیا کے لیڈر اور امام تھے پھر جب اُمّتِ مُسلمہ نبی برحق کی تعلیمات سے کٹ کر فرقوں میں بٹ گئی اور علُوم و فنون پر تحقیق سے اپنا رشتہ کاٹ دیا۔ قرآن و سنت پرغوروفکر کرنا اور اُن پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو اسلام کے دشمنوں کو کبھی رنگ و نسل اور لسانی تعصبات کے نام پر اور کبھی علاقائیت کے عنوان سے مِلی وحدت کے حصار پر شب خون مارنے کا موقع مل گیا اور یوں وہ اختلافات کی شکار ہو کر رفتہ رفتہ اغیار کی غلام بن گئی۔ آج 12 ربیع الاول میں آنےوالی ہستی کی یادمیں مسلمان جلوس نکالتے ہیں۔ بڑے بڑے اجتماعات اور سیرت النبی کی محافل میں فانوس روشن کرتے اور گھروں کو قمقموں سے سجاتے ہیں ۔ اسوہ حسنہ کو حرز جاں نہیں بناتے۔ ہمارا حکمران طبقہ مِلی مفادات کے بجائے امریکی مفادات کا محافظ بن چکا ہے۔ ان حالات کوو دیکھتے ہوئے دل سے ایک ہوک سی اُٹھتی ہے کہ ....
وہ جو سربلند تھے ہر جگہ ہوئے سرنگوں وہ جگہ جگہ
جہاں روشنی تھی چمن چمن وہاں چار دانگ ہیں ظُلمتیں
10ھ میں رسول خدا نے آخری حج ادا کیا۔ اِس موقع پر آپ نے جو خُطبہ ارشاد فرمایا اِس میں اسلام کی دعوت کا خلاصہ بیان فرما دیا۔ یہ خُطبہ اسلامی ریاست کا منشور ہے جو اپنی دُنیا تک اُمت مُسلمہ کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ آپ نے عہدِ جاہلیت کے سودی لین دین کو کالعدم قرار دیا اور اِسکا آغاز گھر سے کیا۔ اِس خطاب کا ایک جملہ یہ تھا کہ میں تم میں ایک چیز چھوڑے جارہا ہوں۔ اگر تم نے اُسے مضبوطی سے پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہو گے، وہ کتاب اللہ ہے“۔ محسنِ انسانیت، سرور عالمﷺ کی دعوتی زندگی میں اس مختصر مضمون میں تفصلی قلمبند کرنا ناممکن ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس دعوت کی حقیقی قوت تلوار نہ تھی بلکہ وہ اخلاقی قوت تھی جس سے دِل مسخر ہوتے ہیں۔ حضورﷺ نے جو جماعت تیار کی اُسکا ہر فرد خدا کا سچا پرستا شمع رسالت کا پروانہ، نیکی کا نقیب، بھلائی کا داعی اور بدی کا دشمن تھا۔ ایک صدی بھی نہ گزری تھی جب اُس زمانہ کی دو سوپر طاقتیں اسلامی قوت کے سامنے سرنگوں ہو گئیں اور پھر پورے سات سو برس تک اسلام کا پرچم مغرب میں ہسپانیہ اور اندلس تک اور مشرق میں وسطِ ایشیاءاور ہندوستان کے اکثر علاقوں تک لہراتا رہا۔ اُس زمانہ میں اسلام کے ماننے والے ہیں علوم و فنون کے لحاظ سے سب سے ترقی یافتہ قوم تھے اور اِسی وجہ سے ووہ ساری دنیا کے لیڈر اور امام تھے پھر جب اُمّتِ مُسلمہ نبی برحق کی تعلیمات سے کٹ کر فرقوں میں بٹ گئی اور علُوم و فنون پر تحقیق سے اپنا رشتہ کاٹ دیا۔ قرآن و سنت پرغوروفکر کرنا اور اُن پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو اسلام کے دشمنوں کو کبھی رنگ و نسل اور لسانی تعصبات کے نام پر اور کبھی علاقائیت کے عنوان سے مِلی وحدت کے حصار پر شب خون مارنے کا موقع مل گیا اور یوں وہ اختلافات کی شکار ہو کر رفتہ رفتہ اغیار کی غلام بن گئی۔ آج 12 ربیع الاول میں آنےوالی ہستی کی یادمیں مسلمان جلوس نکالتے ہیں۔ بڑے بڑے اجتماعات اور سیرت النبی کی محافل میں فانوس روشن کرتے اور گھروں کو قمقموں سے سجاتے ہیں ۔ اسوہ حسنہ کو حرز جاں نہیں بناتے۔ ہمارا حکمران طبقہ مِلی مفادات کے بجائے امریکی مفادات کا محافظ بن چکا ہے۔ ان حالات کوو دیکھتے ہوئے دل سے ایک ہوک سی اُٹھتی ہے کہ ....
وہ جو سربلند تھے ہر جگہ ہوئے سرنگوں وہ جگہ جگہ
جہاں روشنی تھی چمن چمن وہاں چار دانگ ہیں ظُلمتیں
No comments:
Post a Comment