Search This Blog

Friday, 17 February 2012

خشک سالی اور کم خوراکی سے متاثرہ افغان بچے

خشک سالی اور کم خوراکی سے متاثرہ افغان بچے

افغانستان کا شمال مغربی علاقہ خشک سالی سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وہاں ایسے بچوں کو شدید نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے جو پہلے ہی کم خوراکی کا شکار ہیں۔
افغانستان کا شمال مغربی علاقہ خشک سالی سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وہاں ایسے بچوں کو شدید نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے جو پہلے ہی کم خوراکی کا شکار ہیں۔
اس علاقے میں صحت کے شعبے میں کام کرنے والی بین الاقوامی امدادی تنظیم Save The Children کے زیر اہتمام ابھی حال ہی میں ایک طبی کیمپ لگایا گیا، جس میں اس تنظیم کی طرف سے علاقے کی خواتین اور بچوں کے تفصیلی طبی معائنے کا انتظام کیا گیا تھا۔
اس کیمپ میں موجود ایک 26 سالہ افغان خاتون سمیہ زبیدہ نے، جو اپنے دو سالہ بیٹے کو ساتھ لیے ہوئے تھی، ’سیو دی چلڈرن‘ کے کارکنوں کو بتایا، 'یہ سوتا نہیں ہے۔ نہ ہی کچھ کھاتا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں میرا بیٹا موت کے منہ میں نہ چلا جائے۔‘
اس کے بعد صرف دو گھنٹوں سے بھی کم وقت میں طبی کارکنوں نے وہاں کل 69 بچوں کا جسمانی معائنہ کیا، جن میں سے صرف 10 بچے ایسے تھے جن کو کھانے کے لیے کافی خوراک ملتی تھی۔ ان میں زبیدہ کا بیٹا شامل نہیں تھا۔
اس سلسلے میں ایک سماجی کارکن نے بتایا کہ گاؤں کے لوگوں کو کیمپ میں علاج کے لیے بلانا خاصا مشکل کام ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ عام لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ کم خوراکی اور اس کے انسانی صحت پر منفی اثرات کوئی طبی مسئلہ نہیں ہیں۔
اُوگم نامی افغان گاؤں کی ایک بزرگ شخصیت، قاری حمیداللہ کے مطابق ان کے گاؤں کے بچوں کی خراب صحت کے ذمہ دار عوامل میں غربت اور خشک سالی سب سے اہم ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بہت سے مقامی باشندے مجبور ہو چکے ہیں کہ خشک سالی کے نتیجے میں کھیتی باڑی چھوڑ کر اپنے لیے کوئی دوسرا ذریعہء معاش تلاش کریں۔
حمیداللہ نے بتایا کہ علاقے کے تمام دریا اور نالے سوکھ چکے ہیں۔ قالین بافی کی صنعت عام لوگوں میں بھوک اور غربت کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’لوگ بہت غریب ہیں۔ قالین سازی سے ہونے والی کمائی سے ان کی گزر بسر نہیں ہو سکتی۔ زیادہ تر افراد ملازمتوں کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ یہاں پر غربت ہی انسانی ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔‘
سید احمد شاہ قرار، جو Save The Children نامی تنظیم کے جوزجان صوبے میں علاقائی سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ وہاں خوراک کی قلت بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس علاقے میں بارش شاز و نادر ہی ہوتی ہے اور کھیتی باڑی کے لیے کوئی نہری نظام بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں خواتین اپنے بچوں کو سلائے رکھنے کے لیے افیون وغیرہ بھی دے دیتی ہیں تاکہ وہ دیر تک سوتے رہیں اور ان کی ماؤں کے پاس قالین بافی کے لیے زیادہ وقت ہو۔
اسی باعث بچوں کی صحت خراب سے خراب تر ہوتی جاتی ہے۔ کچھ بچے ایسی منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی مائیں بھی اتنی تندرست نہیں ہوتیں کہ انہیں پیٹ بھر کر دودھ پلا سکیں۔
افغانستان میں بچوں کو انتہائی سخت حالات کا سامنا ہے۔ ہر روز 265 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر دسواں بچہ اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے ہی انتقال کر جاتا ہے۔ اقوام متحدہ اور افغان وزارت صحت کے مطابق ان بچوں میں سے زیادہ تر کم خوراکی یا اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور طبی پیچیدگیوں کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتے ہیں۔
'سیو دی چلڈرن‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان کے زیادہ تر بچے انتہائی حد تک کم وزن ہیں۔ پچھلے برس تقریباﹰ 30 ہزار بچے خوراک کی کمی کے باعث ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے 59 فیصد بچے پانچ سال سے کم عمر کے تھے۔ ایسے بچوں کو زندہ رہنے کے لیے اکثر صرف تھوڑی سی روٹی اور چائے ہی دستیاب ہوتی تھی۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک

No comments:

Post a Comment