صہیونی ریاست کے مخالف یہودیوں کا نقطہ نظر (۱)
تحریر:سید اسد عباس تقوی
عمومی طور پر یہودی اور صہیونی ایک ہی قوم کے دو نام تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم یہودی اور صہیونی ایک ہی مذہب کے پیروکار ہونے کے باوجود عقیدتی اور نظریاتی طور پر زمین و آسمان کا بعد رکھتے ہیں۔ دنیا میں یہودیوں کی ایک کثیر تعداد اسرائیل کے حالیہ ریاستی وجود کی مخالف ہے اور اسے گناہ عظیم اور حکم خدا کی نافرمانی گردانتی ہے۔ یہ یہودی، صیہونیت کے چہرہ پر سے دین موسوی کا نقاب نوچنے میں سرگرم عمل ہیں۔ زیر نظر مضمون میں پیش کیے گئے تمام تر مطالب خود انہی یہودیوں کے افکار کی غمازی کرتے ہیں۔
یہودی کون۔؟
یہودی ہزاروں سال پرانی قوم ہے جو کہ حضرت موسٰی ع کی نبوت پر ایمان رکھتی ہے۔ اس قوم کا اپنا ایک مخصوص مزاج ہے اور وہ توریت کو اس مزاج کا ماخذ گردانتے ہیں۔ یہودیوں کے بقول توریت اور اس پر ایمان کے بغیر یہودیت کا کوئی وجود نہیں۔ دنیا میں بسنے والے اکثر غیر صہیونی یہودی اپنی زندگی کا مقصد خدا کی خدمت گزاری کو قرار دیتے ہیں۔ یہودی اس نظریے کے قائل ہیں کہ خدا نے ان سے عہد لیا ہے کہ وہ ایک مخصوص وقت تک حکومت نہیں بنائیں گے اور نہ ہی یروشلم کو بزور طاقت حاصل کریں گے۔ یہی وہ بنیادی اختلاف ہے جو یہودیوں اور صہیونیوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ ان یہودیوں کو آرتھوڈاکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
صہیونیت:
صہیونیت در حقیقت لفظ صہیون جسے صیہون بھی بولا اور لکھا جاتا ہے سے اخذ کردہ ہے۔ دراصل صہیون یروشلم کے قریب واقع ایک متبرک پہاڑی کا نام ہے، جس کے سبب بعد ازاں پورے یروشلم کو صہیون یا صیہون کہا جانے لگا۔ صہیونیت اصلاً یہودیوں میں اٹھنے والی ایک سیاسی تحریک ہے، جس کا بانی تھیروڈ ہرٹزل کو قرار دیا جاتا ہے۔ تھیروڈ ہرٹزل ایک صحافی تھا۔ اس سیاسی تحریک کی ابتدا کا اصل سبب یورپ اور روس میں سامی نسل کی مخالفت کو قرار دیا جاتا ہے۔ اسی مخالفت کو کم کرنے کے لیے کچھ سیکولر یہودیوں نے اس سیاسی تحریک کا آغاز کیا اور ایک یہودی ریاست کو اپنے مسائل کا حل قرار دیا۔ اس صہیونی ریاست کے وجوب کے لیے صہیونی تاریخی اور مذہبی حوالوں کا سہارا لیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل بائبل کے مطابق یہودیوں کا مسکن تھا، یہودیوں کو رومن افواج نے فلسطین کے علاقے سے بے دخل کیا اور اب دوبارہ ان علاقوں میں یہودیوں کی آبادکاری ان کا حق ہے۔ اسی مقصد کے لیے صہیونیوں نے یہودیوں کی حقیقی ترتیب و ساخت کو نئے سرے سے وضع کیا، جو کہ ان کے سابقہ مزاج سے بالکل مختلف تھی۔ صہیونی دنیا ایک مادی دنیا ہے۔ ان کی نجات اسی میں ہے کہ وہ ایک ریاست اور فوج قائم کریں۔ صہیونیت مخالف یہودی چار وجوہات کی بنا پر اس نظریہ ریاست کے خلاف ہیں۔
حقیقی موسوی تعلیمات سے متصادم نظریہ ریاست:
صہیونیت مخالف یہودیوں کے نزدیک نظریہ ریاست کی مخالفت کی پہلی وجہ اس نظریہ ریاست کا حقیقی یہودی تعلیمات کے خلاف ہونا ہے، کیونکہ یہودیوں کو ریاست کے قیام کی اجازت دو ہزار سال قبل دی گئی جبکہ خدا کی عنایات ان کے ساتھ تھیں اور اسی طرح مستقبل میں اس ریاست کے قیام کی اجازت تب ہو گی جب خالق کی عنایات ان کے ساتھ ہوں گی۔ موسوی تعلیمات کے مطابق اس ریاست کی بنیاد الہی خدمات پر ہو گی، اس ریاست کے حصول کے لیے کسی قسم کی انسانی حکمت عملی یا فوجی قوت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔
صہیونیت مخالف یہودیوں کے عقیدے کے مطابق دوسری اقوام کی مانند دنیاوی ریاست کا قیام حقیقی یہودی ماخذ کے خلاف ہے۔ جو شخص بھی اسرائیل کو یہودیوں کی حقیقی نجات قرار دیتا ہے وہ دنیاوی نجات کا قائل ہے، اسی سبب سے وہ ایک مادی ریاست کے قیام کو راہ نجات قرار دیتا ہے۔ اس ریاست کے حصول کے لیے کئے جانے والے اقدامات بھی مادی اور دنیاوی نوعیت کے ہیں۔ نیز یہ کہ یہودیوں کی حقیقی نجات خالق سے قرب میں ہے، زمین اور فوج کے حصول میں نہیں۔
الہی نمائندہ کی آمد سے قبل ریاست:
یہودیوں کے عقائد کے مطابق صہیونی ریاست کی مخالفت کی دوسری وجہ توریت کے وہ احکامات ہیں جن میں یہودیوں کو الہی نمائندہ کی آمد سے پہلے ریاست کے قیام اور فوج کی تشکیل سے منع کیا گیا ہے، چاہے اس ریاست کا انتظام توریت کے تعلیم کردہ قوانین کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ وایول موسح میں لکھا ہے:
اور روح القدس (اس پر رحمتیں نازل ہوں) نے ہم کو تنبیہ کی ہے کہ اگر ہم نے اس ہدایت سے تجاوز کیا تو وہ ہمیں دردناک عذاب میں مبتلا کر دے گا۔
جلاوطنی میں بغاوت:
یہودیوں کے نزدیک صہیونی ریاست کی مخالفت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ صہیونیوں نے جلاوطنی میں بغاوت کرتے ہوئے نہ صرف تورات کی نفی کی ہے بلکہ ان کے تمام تر معاملات تورات کی صریح نفی کرتے ہیں، یہودی عقائد کے مطابق تورات الہی کتاب ہے اور جو بھی تورات پر عمل کرے گا اس کے لیے انعام ہے اور جو تورات کی مخالفت کرے گا، خدا اس پر عذاب نازل کرے گا۔
تورات کی مخالفت پر اکسانا:
یہودیوں کے نزدیک صہیونی ریاست کی مخالفت کی چوتھی وجہ صہیونیوں کا تورات کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کو اس کی مخالفت پر اکسانا ہے، جو ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ نیز یہ کہ ان کا آزادی مذہب کا نعرہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
صہیونیت کی ابتدا سے ہی کئی یہودی راہبوں نے عوام اور خواص کو اس سیاسی فتنے کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے عوام و خواص کو مطلع کیا کہ وہ صہیونیت سے ایسے ہی دور رہیں جیسا کہ وہ آگ سے دور رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک صہیونیت وطن پرست اور نسل پرست تحریک ہے جس کا یہودیت سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ راہبوں نے عوامی سطح پر اس خدشے کا اظہار کیا کہ صہیونیت کے اثرات یہودیوں اور یہودی مذہب کے لیے انتہائی مضر ہوں گے۔ ان کا خیال تھا کہ صہیونیت کے سبب یہودیوں کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور یہودی اور غیر یہودی طبقات کے درمیان تمیز مشکل ہو جائے گی۔ یہودیت ایک مذہب ہے نہ کہ ایک نسل، اس سلسلے میں راہبوں کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔
ان یہودی راہبوں کا نظریہ ہے کہ خدا نے ہمیں مقدس سرزمین سے نوازا، تاکہ ہم توریت کے احکامات پر عمل کریں اور وہ اخلاص حاصل کریں جو مقدس سرزمین سے باہر ممکن نہ تھا۔ ہم نے ان اختیارات سے تجاوز کیا اور ہمیں مقدس سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا۔ وہ اس کے ثبوت کے طور پر ان الفاظ کا ذکر کرتے ہیں جو یہودی ہر تہوار کے موقع پر اپنی دعاﺅں میں پڑھتے ہیں:
ہمارے گناہوں کے سبب خدا نے ہم کو مقدس زمین سے بے دخل کیا۔
یہودیوں کی کتاب تلمود میں اسی موضوع کے ذیل میں درج ہے:
ہم وقت معین سے پہلے ایک جماعت کی صورت میں ارض مقدس میں داخل نہیں ہوں گے۔ قوموں کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے۔ وفادار شہری بن کر رہیں گے، کسی قوم سے انتقام نہیں لیں گے، کسی سے ہرجانہ نہیں مانگیں گے۔ وقت معین سے پہلے جلاوطنی ختم نہیں کریں گے۔ (۱)
یہودی عقائد کے مطابق خدا نے یہودیوں کو تنبیہ کی تھی کہ اگر انہوں نے اس عہد کی خلاف ورزی کی تو :
ان کا گوشت ہرن اور جنگل کے آہو کی مانند قابل شکار بنا دیا جائے گا اور ان کی نجات میں تاخیر ہو جائے گی۔ (۲)
صہیونت مخالف یہودیوں کا نظریہ ہے کہ صہیونیت کے بانیان نے نہ تو کبھی یہودی قوانین کو پڑھا ہے اور نہ ہی مذہبی روایات پر ایمان لائے ہیں۔ انہوں نے علی الاعلان راہبوں کی عملداری کو چیلنج کیا اور بزعم خود یہودی قوم کے راہنما بن بیٹھے۔ ان کے بقول یہودی تاریخ میں اس قسم کے اقدامات ہمیشہ بربادی لائے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
ماخذ
۱۔(تلمود تراکتیت قسوبوس ص۱۱۱) ماخوذ از http://jewsnotzionists.org
۲۔(تلمود تراکتیت قسوبوس ص۱۱۱)ماخوذ از http://jewsnotzionists.org
No comments:
Post a Comment