Search This Blog

Friday 17 February 2012

مغربی ثقافتی سامراجیت

مغربی ثقافتی سامراجیت

آصف جیلانی 
- 14فروری کو پاکستان کے بازاروں اور ٹیلی وژن چینلز پر عجب عالم تھا۔ سرخ گلابوں کی بھرمار تھی اور ٹیلی وژن چینلز پر ویلنٹائن ڈے ایسے منایا جارہا تھا جیسے یہ پاکستان کے مسلمانوں کا اہم ترین مذہبی تہوار ہو۔ اس دن کے تاریخی پس منظر سے یکسر نابلد ہر ایک، ویلنٹائن ڈے کی ایسے مبارکباد پیش کررہا تھا جیسے عید ہو۔ ٹیلی وژن چینلز پر خاص پروگرام برپا کیے گئے اور موسیقاروں اور فنکاروں کو بلاکر ایسی بچکانہ حرکتیں کی گئیں کہ لوگوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ اس کے مقابلے میں یہاں برطانیہ میں خاموشی سے نجی طور پر تو لوگوں نے ایک دوسرے کو تحفے تحائف پیش کیے اور ہوٹلوں اور ریستورانوں میں ضیافتوں کا اہتمام کیا، لیکن ٹیلی وژن پر اتنا ہنگامہ نہیں تھا جتنا کہ پاکستان میں نظر آرہا تھا۔ بڑی عمر کے لوگوں کو اس بات پر سخت تاسف تھا کہ انگریزوں کی غلامی کے دور میں برصغیر کے مسلمانوں نے یہ دن اتنی وارفتگی اور جوش و خروش سے کبھی نہیں منایا تھا جتنا کہ آزادی کے بعد اب لوگوں نے منانا شروع کردیا ہے۔ غلامی کے دور میں ہم ذہنی طور پر آزاد تھی، اور اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے حصول کے بعد ہم ذہنی طور پر غلام ہوگئے ہیں۔ معاملہ صرف ویلنٹائن ڈے کا نہیں جس کے پس پشت بنیادی طور پر تجارتی مفادات کے فروغ کی کاوش کارفرما ہی، بلکہ دراصل یہ مغربی ثقافتی سامراجیت کی علامت ہے۔ وہ دور گزر گیا جب جنگی جہازوں کے بیڑوں کے بل پر اور تجارت کی آڑ میں کمزور ممالک پر قبضہ کیا جاتا تھا اور انہیں اپنی نوآبادیاں بناکر ان پر تسلط جمایا جاتا تھا۔ اب سامراجیت کا نیا دور اور نیا انداز ہے۔ مغرب اب ایک نہایت منظم اور مو ¿ثر طریقے پر ثقافتی سامراجیت مسلط کررہا ہی، دنیا کے لوگوں کی شناخت مسخ کرکے ان کے ذہنوں کو اپنا غلام بنارہا ہے۔ سوویت یونین کے زیر حصار ہنگری میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف 1989ءکے کامیاب انقلاب کے فوراً بعد میں بڈاپیسٹ میں تھا۔ ابھی عبوری صدر ماتیاس سیروش نے ملک کو جمہوریہ قرار دینے کا اعلان کیا ہی تھا کہ بڈاپیسٹ میں امریکیوں نے میکڈانلڈ کا پرچم لہرا دیا۔ بڈاپیسٹ کے عوام کے نزدیک یہ کمیونزم کی شکست اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی فتح کی علامت تھی۔ میکڈانلڈ میں فش برگر اور فرائیز کا آرڈر دیتے وقت بڈاپیسٹ کے لوگوںکے چہروں پر جو طمانیت تھی وہ اس سے کہیں زیادہ تھی جو ہیرو چوک میں کمیونسٹ دور سے ہنگری کی آزادی کے اعلان کے وقت عوام کے چہروں پر تھی۔ اسی طرح سوویت یونین کی مسماری کے بعد جب وسط ایشیا کی جمہوریائیں آزاد ہوئیں تو اس کے فوراً بعد میں 1992ءمیں نوآزاد وسط ایشیا کے دورے پر تھا۔ابھی آزادی کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ قازقستان کے دارالحکومت الماتی کے قریب الی الاتا ¶ جھیل کے کنارے پر مَیں میکڈانلڈ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پھر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں دیکھا کہ شہر کے جنوب میں یاکا سرائے میں کے ایف سی اور میکڈانلڈ کے ریستوران لوگوں سے کھچاکھچ بھرے ہوئے تھے اور ان کے قریب فٹ پاتھ پر امریکی جینز پر لوگ ٹوٹے پڑرہے تھے۔ ایسا محسوس ہوا کہ وسط ایشیا میں امریکی، ثقافتی تسلط کا بہت پہلے سے منصوبہ بنارہے تھی، اور جیسے ہی یہ ملک سوویت یونین کی محکومی سے آزاد ہوئے امریکیوں نے یہاں بھرپور چھاپہ مارا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی نظریاتی تبلیغ کے بجائے عوام کے ذہنوں کو میکڈانلڈ، کے ایف سی، پیپسی اور کوکاکولا کے نشے کا غلام بنایا جائی، اور یوں ان کو ان اشیاءکا عادی بناکر ان پر تسلط جمایا جائے۔ ہالی ووڈ بھی اس حکمت عملی میں شریک ِکار رہا ہی، اور یہی وجہ ہے کہ امریکا سے لے کر چین تک امریکی فلموں نے اس وسیع پیمانے پر ثقافتی حملہ کیا ہے کہ ان فلموں کی وجہ سے نئی نسل کی زندگی کی طرز بدل گئی ہے۔ امریکی فاسٹ فوڈ، امریکی لباس، حتیٰ کہ انگریزی کے امریکی لہجے نے اس نسل کی شناخت مسخ کردی ہے۔ پاکستان میں بھی مغربیت اس بری طرح سے مسلط ہوتی جارہی ہے کہ پاکستان کی نئی نسل اپنی شناخت کھورہی ہے۔ نوجوان مغربیت کو اپنانے کو آزاد خیالی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اونچے گھرانے کا کہلانے والے نوجوانوں کا اپنی مادری زبان اردو کے ساتھ نہایت ہتک آمیز رویہ ہے۔ ان میں سے بہت سے نوجوان یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ اردو تو ہمارے گھر میںصرف ” ماسی“ بولتی ہے۔ یہ جانے بغیر کہ کولہے پر ٹکی ہوئی، زمین پر جھاڑو دیتی ہوئی پتلونیں مغرب میں صرف نرے جاہل پہنتے ہیں، اور محض ایک کان میں ٹاپس صرف ہم جنس پرست پہنتے ہیں، پاکستان میں نوجوانوں نے یہ اندھی تقلید ایسے اختیار کی ہے کہ جیسے یہ اعلیٰ تہذیب کی نشانی ہے۔ جسموں پر tattoo کرانے (جسم کو گودنی)کا بھی رواج اب پاکستانی نوجوانوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ مغربی تہذیب سے سرشار ہورہے ہیں۔ یہ نوجوان مغرب کی یہ تقلید تو کررہے ہیں، لیکن مغرب کی جو اعلیٰ قدریں ہیں اُن کے قریب بھی یہ نہیں پھٹکتے۔ بڑی قدروں کی بات تو الگ رہی، چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی یہ اپنانے سے گریزاں ہیں۔ مثلاً شکریہ ادا کرنا، کسی کے لیے دروازہ کھولنا، کسی بوڑھے یا خاتون کو سڑک پار کرانا، یا راستے میں کسی معذور کی مدد کرنا، کسی نے سڑک پر کوئی کاغذ پھینکا ہے تو اسے خاموشی سے اٹھاکر کوڑے کے ڈبے میں ڈالنا۔ یہ قدریں ہماری تہذیب کی بھی قدریں رہی ہیں، لیکن کیا کیا جائے ”کوّا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا“۔ بلاشبہ امریکی کلچر یورپ کے ملکوں میں بھی درانداز ہورہا ہے۔ کوکاکولا، میکڈانلڈ اور امریکی فلمیں مقبول ہیں، لیکن اس کے باوجود یورپیوں نے اپنے کھانی، اپنی موسیقی اور اپنی فلمیں ترک نہیں کی ہیں۔ اپنی زبانوں کا ان میں تقدس مذہب کے مانند ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح وہ پارلیمنٹ میں تقریر انگریزی میں نہیں کرتی، اور نہ پاکستانی ٹیلی وژن چینلز پر سیاسی مباحثوں میں شرکت کرنے والے سیاست دانوں کی طرح وہ اپنی رائے انگریزی میں ظاہر کرتے ہیں۔ ایک بار رات کے بارہ بجے وزیراعظم گیلانی ریڈیو اور ٹیلی وژن پر نہایت اہم مسئلے پر خطاب انگریزی میں کررہے تھے۔ اتفاق سے ایک فرانسیسی صحافی ہمارے گھر پر بیٹھے تھے۔ ٹیلی وژن کھلا تھا، انہوں نے جب گیلانی کو انگریزی میں خطاب کرتے دیکھا تو بڑی حیرت سے مجھ سے پوچھا ”کیا پاکستان میں سارے عوام انگریزی سمجھتے ہیں؟“ مجھ سے سچ نہ چھپایا جاسکا۔ میں نے کہا کہ ”یہ خطاب پاکستانی عوام کے لیے نہیں ہے بلکہ واشنگٹن کے حکمرانوں کے لیے ہے“۔ امریکیوں سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ میکڈانلڈ، کوکاکولا اور امریکی فلمیں ثقافتی سامراجیت کا مظہر ہیں تو یہ جواب دیا جاتا ہے کہ یہ امریکی ثقافتی نمائندہ نہیں بلکہ امریکی تجارتی پروڈکٹس ہیں، یہ ثقافتی سامراجیت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اشیاءامریکی اقتصادی سامراجیت کی علامت ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقتصادی سامراجیت کے کندھوں پر ثقافتی سامراجیت درانداز ہورہی ہے اور دنیا بھر کے ملکوں پر مسلط ہورہی ہے۔

No comments:

Post a Comment