Search This Blog

Friday 24 February 2012

وقت کا استعمال

وقت کا استعمال
  ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی
علامہ شبلی نعمانی نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ لندن کا سفر ایک آبی جہاز سے کر رہے تھے کہ اچانک طوفان آیا۔ شبلی نعمانی جس جہاز سے سفر کر رہے تھے ،اسی میں ایک مشہور مشتشرق اور علامہ اقبال کے اُستاد تھامس آرنلڈ بھی سفر کر رہے تھے ۔ مگر جب شبلی کی نظر تھامس آرنلڈ پر پڑی تو حسب سابق جہاز میں مصروف مطالعہ تھے ، حالانکہ باقی سب لوگوں کو طوفان کی وجہ سے بڑی پریشانی لاحق ہوئی تھی اور وہ اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے ، کیونکہ جہاز ہچکولے کھا رہا تھا ۔ شبلی نے آرنلڈ کے پاس جاکر اُن سے پوچھا کہ وہ کس طرح ان حالات میں بھی مطالعے میں مصروف رہ پارہے ہیں ؟ تو آرنلڈ نے جواب دیا ، اگر جہاز کو ڈوبنا ہوگا تو میں اس کو بچانے کے سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں، البتہ پریشان بیٹھ کر وقت ضائع کرنے سے بہتر تو یہی ہے کہ مطالعہ میں مصروف رہوں ۔

 اسٹیفن ہاکنگ کو ڈاکٹروں نے موٹر نیرون بیماری کا حامل بتاکر اس کی زندگی کا تخمینہ لگایا اور اعلان کیا کہ وہ مزید دوسال زندہ رہیں گے، مگر اسٹیفن ہاکنگ نے اُن دو سالوں کو کسی اور مشغلے میں ضائع کرنے کے بجائے اپنی شہرہ آفاق کتاب لکھی ۔

    جب ایک آدمی البیرونی کے گھر اس وقت آیا جب البیرونی موت کی آغوش میں جانے کےلئے بستر مرگ پر موت کی آمد کا انتظار کر رہے تھے تو البیرونی نے اس ملاقاتی شخص سے پوچھا کہ : وہ ایک وراثت کے مسئلے کو جانتے ہیں ، اس لئے اس کی وضاحت البیرونی کے سامنے کریں۔ ملاقاتی نے کہا کہ : اگرچہ وہ اس مذکورہ مسئلے کو خوب جانتے ہیں مگر اس وقت اس مسئلے کو البیرونی کو بتانے سے اُس نے ےہ کہہ کر معذرت چاہی کہ : موت قریب کھڑی ہے ، اب اس مسئلے کو معلوم کرکے کیا فائدہ؟ اس پر البیرونی نے کہا : کیا جان کر مرنے سے نہ جان کر مرنا بہتر نہیں ہے ۔ چنانچہ اس شخص نے بادِل ناخواستہ وہ مسئلہ البیرونی کو سمجھایا ۔ اور اُس کے بعد البیرونی سے رخصت لے کر باہر نکل رہا تھا کہ : اندر سے شور اُٹھا کہ: البیرونی کا انتقال ہوگیا۔
   ایک مشہور جرمن فسلفی ایموینل کانٹ روزانہ دن کے ساڑھے چار بجے جب شام کی سیر کرنے نکلتے لوگ اپنی گھڑیوں کا ٹائم ملاتے تھے اور اُس نے شادی بھی اسی لئے نہیں کی وہ ہر وقت اور ہمہ وقت مطالعے میں مصروف رہتے تھے۔
    ایسے سینکڑوں واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا میں جس کسی انسان نے جو کچھ کیا ہے ، وہ صرف اور صرف وقت کے صحیح استعمال اور محنت و مشقت سے کیا ہے۔کہتے ہیں حضرت عبدالحی فرنگی محلی کے زمانہ طالب علمی میں اُن کے مطالعے کے کمرے میں کئی دروازوں پر الگ الگ جوتے اور چپل ہمیشہ موجود رہتے تھے تاکہ اس طرح سے جوتا ڈھونڈنے کے عمل میں اُن کا وقت ضائع نہ ہو۔ ابن سینا نے نوح بن منصور کی لائبریری میں داخلہ حاصل کرکے دن رات ایک کرکے پوری لائبریری کی کتابوں کا مطالعہ کرکے اپنی علمی اور فلسفیانہ زندگی کا مواد حاصل کیا۔
 
   غرض اگر انسان کو وقت کے صحیح استعمال کا ہنر آجائے تو پھر اُس کے لئے دنیا میں کوئی بھی عظیم کام انجام دینا ناممکن نہیں رہ جاتا۔ خدا نے وقت کے معاملے میں بڑی مساوات قائم کی ہے ۔ ہر ایک انسان جو کہ اس دنیا میںایک دن قیام کرتا ہے اُسے گزارنے کےلئے ۴۲ گھنٹے دئے ہیں۔ ےہ پھر انسان کا کام ہے کہ وہ ان ۴۲ گھنٹوں میں کیا کام کرتا ہے۔
   
جن لوگوں کو زندگی سے محبت ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ وقت کو برباد نہ کریں۔ کیونکہ اس وقت کا نام زندگی ہے اور ایک ساعت کی بربادی سے جو نقصان ہوتا ہے بقائے دوام بھی اس کی تلافی نہیں کرسکتی اور ےہ کمی کبھی پوری نہیں ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ وقت کو ضائع کرنا خودکشی ہے ۔ خودکشی کا لفظ جو عام معنوں میں استعمال ہوتا ہے وہ تو پوری زندگی کی ہوتی ہے لیکن وقت کا ضائع کرنا اُن مخصوص لمحات میں خودکشی ہے جنہیں ضائع کیا گیا ہے۔
    اس حقیقت کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک فرد کو ہم ےہ فرض کرتے ہیں کہ اس کی عمر تیس سال ہے اور اسے کہا جائے کہ تمہاری زندگی سے پانچ سال کم کردیئے جاتے ہیں تو اس کی ذہنی کیفیت کا ایک اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ مگر آپ اس تیس سالہ زندگی کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ ۴۲ گھنٹوں میں سے چار گھنٹے یا تو ضائع کرتا ہے یا ان کا مناسب استعمال نہیں کرتا ےہ روز کے چار گھنٹے ۵۶۳ دن میں ۶۴۱ گھنٹے ہوتے ہیں اور ۰۳ سال میں ۰۰۸۳ گھنٹے اگر آپ اسے سالوں میں دیکھیں تو پانچ سال بن جاتے ہیں۔ باالفاظ دیگر وہ اپنی کل زندگی کے فطری اختتام سے ۵ سال قبل خودکشی کرچکا ہے اور وہ صرف وقت ضائع کرکے اور اس کا اسے دنیاوی اور اخروی نقطہ ¿ نظر سے کوئی احساس نہیں۔
 
   وقت کو ضائع کرنے والے لوگ اور فارغ بیٹھنے والے اور لہوولعب میں مبتلا ہونے والے افراد رفتہ رفتہ متزلزل، بے عملی ، پشیمانی، احساس کمتری اور حسد کا شکار ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ شاہراہ حیات کو چھوڑکر اِدھراُدھر کے کونوں کو تلاش کرکے زندگی کے بقیہ لمحات گزارتے ہیں۔ وہ لوگ اس دنیا میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ےہ دنیا ، دینی اور دنیاوی دونوں نقطہ ¿ نظر سے ایک مقابلہ کا میدان ہے ۔ اس میں ہر وقت روانی اور باعمل ہونا ضروری ہے۔ جو لوگ وقت ضائع کرتے ہیں وہ ایک جگہ ٹھہر جاتے ہیں ، جب لوگ آگے بڑھتے ہیں تو عام آنکھیں انہیں پیچھے ہی دیکھتی ہیں، جب وہ اپنے آپ کو پیچھے محسوس کرتے ہیں تو شکست خوردگی اور منفی اندازِ فکر کا شکار ہوجاتے ہیں۔
  
  ہمارے ہاں تضیع اوقات کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ ان میں سے ایک کا تعلق انسان کی ذات سے ہے۔
 
   بعض شخصیات کا مطالعہ کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے ان کی تضیع اوقات کی اصل وجہ ان کا نقطہ نظر ہے کہ دنیا میں ہر کام کا تجربہ خود ہی کرنا چاہیئے کسی سے کچھ سیکھنا اور کسی کے تجربات سے مدد لینا ذلت ہے۔
   
کچھ افراد کو بہت ہی زیادہ مقبولیت کا شوق ہوتا ہے۔ وہ گھر میں بھی اور دفاتر میں ، اسکول و کالج میں بھی ، محلے میں بھی ہر جگہ اپنی بڑائی اور مقبولیت چاہتے ہیں اور ہر وقت ہر قسم کا وعدہ کر لےتے ہیں۔ نتیجتاً نہ وہ کوئی کام اپنا کرسکتے ہیں اور نہ دوسروں کا کوئی کام بنا سکتے ہیں۔
   
کچھ لوگ اکملیت کے فریب کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہر کام کو اس انداز سے کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے اس میں اس جیسا کسی نے نہ کیا ہو ۔ ےہ معاملہ نہ صرف ان کے کاموں تک رہتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اپنی ذات میں بھی تکمیل کے خواہشمند ہوتے ہیں جو کہ یقینا ایک مشکل اور ناممکن صورت ہے اور ان کا اس بات کا میلان ان کا اکثر وقت ضائع کرتا ہے۔
    کچھ لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں بھی ، اپنے دفتر میں اور مختلف معاشرتی معاملات میں ہر کام اپنی مرضی کا چاہتے ہیں اور اپنی ”مرضی“ کے باعث وہ اپنے آپ کو بہت سے ان کاموں میں مصروف کرلےتے ہیں ۔ جو ان کے بغیر بھی بحسن و خوبی سر انجام پاسکتے ہیں، بالآخر ان کا اس قسم کا مشغول ہونا ان کے وقت کو ضائع کرتا ہے۔
    کچھ لوگ بغیر مقصد کے ، بغیر سمجھ کے اور بغیر صلاحیت کے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور غیر ضروری کاموں کو بھی اپنے اوپر لے لےتے ہیںنتیجہ ےہ ہوتا ہے کہ ضروری کاموں کو ترک کرنا پڑتا ہے اور وقت کا جو بہتر استعمال ہوسکتا تھا وہ نہیں کر پاتے۔ سستی کے علاوہ دو اور الفاظ کا عمومی استعمال بھی وقت کے زیاں پر منتج ہوجاتا ہے ۔ وہ ہے ”پھر کبھی“ اور ”کل“ انسان کی زبان میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو ”کل“ کے لفظ کی طرح اتنے گناہوں ، اتنی حماقتوں ، اتنی وعدہ خلافیوں ، اتنی خشک امیدوں ، اتنی غفلتوں ، اتنی بے پرواہیوں اور اتنی برباد ہونے والی زندگیوں کے لئے جوابدہ ہو ۔ کیوں کہ اس کی آنے والی ”کل“ یعنی فردا نہیں آتی۔ وقت ایک مرتبہ مرگیا تو اس کو پڑا رہنے دو ، اب اس کے ساتھ اور کچھ نہیں کرنا ہے ۔ سوائے اس کے کہ اس کی قبر پر آنسو 
بہاؤ اور آج کی طرف لوٹ آؤ۔ داناؤں کے رجسٹر میں ”کل“ کا لفظ کہیں نہیں ملتا۔ البتہ بے وقوفوں کی جنتریوں میں ےہ بکثرت مل سکتا ہے۔ کامیابی کی شاہراہ پر بے شمار اپاہج سسکتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنی تمام عمر ”کل“ کا تعاقب کرتے ہوئے کھودی اور اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودلی۔
    تضیع اوقات کا ایک اور سبب اپنے کاموں کو ادھورا چھوڑنا ہے ۔ کیونکہ ایک تو لو ہر کام کو مثالی انداز میں کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہ ناممکن ہے ۔ آدمی کو دیکھنا چاہیئے کہ کن حالات میں اور کتنے وقت میں اس کام کو کرنا چاہیئے ۔اس لحاظ سے ایک پروگرام بنائیے ایک وقت میں ایک ہی کام مکمل طور پر کرنا کسی نامکمل کاموں کا خون کردینے سے بہتر ہے۔
    ہر ملنے والا فرد دوست نہیں ہوتا اور نہ ہر فرد سے خوش گپیاں کی جاسکتی ہیں ۔ اس سلسلے میں بعض افراد کی ناسمجھی تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے ۔ بے مقصد لٹریچر اور ناولوں کو پڑھنے کا شوق بھی تضیع اوقات میں شامل ہے۔
    ٹی وی دیکھنے کا غیر اعتدال پسندانہ شوق ، کرکٹ میچوں سے بے حد شغف آفسوں اور فیکٹریوں سے ملازمین اور کارکنوں کی رہائش گاہوں کا زیادہ فاصلہ اوقات کے ضائع ہونے کا ذمہ دار ہے۔
    ایک اور بات جس کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں ۔ ہمارے معاشرے کی غیر ضروری رسوم اور تقریبات ہیں ،جن میں خاندانی تقاضوں کے مطابق شرکت ضروری ہے اس کے علاوہ دعوتوں میں شرکت جہاں ۲۱ بجے دن کا وقت دے کر ۶ بجے شام کے قریب دعوت شروع کی جاتی ہے جو کہ مدعوئین کے مشترکہ طور پر ہزاروں گھنٹوں کو ضائع کردیتی ہے۔ ےہ صحیح ہے کہ اس طرح لوگوں کو ملنے جلنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن یہاں تو ہر فرد اپنے سوٹ اور ٹائی کو ہی ٹھےک کر رہا ہوتا ہے اور خواتین کو کیمرے اور ویڈیو ہی سے فرصت نہیں ملتی ۔ بہرحال وقت تو ضائع ہوتا ہے ۔ اگر ٹائم اور دعوت میں صرف آدھ گھنٹے کا فاصلہ ہو تو بھلائی ہوگی۔

No comments:

Post a Comment