Search This Blog

Wednesday 22 February 2012

پھیلتا کینسر غربت اور ہماری ذمہ داریاں

    پھیلتا کینسر غربت اور ہماری ذمہ داریاں
محفوظ الرحمن انصاری۔

    کرکٹ کھلاڑی یوراج سنگھ کو کینسر کی بیماری ہوگئی۔ کرکٹ بورڈ اور حکومت نے انہیں علاج کے لےے ہر ممکن تعاون دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ انہیں شفا عطا کرے تاکہ کینسر کے شکار دوسرے مریضوں کو حوصلہ ملے۔ موت تو ہر حال میں آئے گی مگر کینسر کا مریض اتنا درد اور تکلیف اٹھا کر دنیا سے جاتا ہے کہ جسے صرف وہ اور اللہ ہی جانتا ہے۔ کینسر کی بیماری کا پتہ چلتے ہی مریض کے لےے ساری دنیا تاریک ہوجاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں ممبئی کے ایک نوجوان کو جب پتہ چلا کہ اُسے کینسر ہوگیا ہے تو وہ اس قدر دہشت اور مایوسی کا شکار ہوا کہ اُس نے تِل تِل مرنے کی جگہ دوسرے ہی دن خودکشی کرلی۔ کینسر غریب، امیر، بچے، نوجوان، بوڑھے کسی کوبھی ہو سکتا ہے۔ سابق وزیراعظم وی پی سنگھ، سابق صدر جمہوریہ نیلم سنجیو ریڈی، فلم اسٹار نرگس، رحمن، راجکمار، فیروز خان، سمیت نہ جانے کتنے لوگ کینسر کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں چلے گئے۔ کینسر کی کئی قسمیں ہوتی ہےں جیسے پھیپھڑوں کا کینسر، گلے کا کینسر، منہ کا کینسر، خون کا کینسر اور جگر کا کینسر اور اس کا علاج چند ہزار روپے میں یا چھ مہینوں تک ہی نہیں کرناپڑتا بلکہ یہ بے حد مہنگا اور آخری سانس تک چلنے والا ایسا مرض ہے جو آدمی کو مرنے سے پہلے معاشی طور پر ماردیتا ہے۔ امیرلوگ تو کسی نہ کسی طرح علاج کرواتے رہتے ہےں مگر غریب آدمی کو کینسر ہوجائے تو اُس کے ساتھ پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ غریب آدمی اس مہنگائی میں اپنا اور اپنے بچوں کو پیٹ پالے یا اتنا مہنگا مسلسل چلنے والا علاج کرے ۔
    لہٰذا حکومت کو چاہےے کہ کینسر کے علاج کے لےے اچھے اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اسپتال قائم کرے اور ہر اسپتال میں کینسر کا علاحدہ اور خصوصی وارڈ اعلیٰ ترین مشینوں اور ماہر ڈاکٹروں کی رہنمائی میں قائم کرے اور اس کی دوائیاں غریبوں کو مفت دی جائیں۔ جس طرح حکومت نے پولیو اور ایڈز کے لےے مہم چلا کر اور علاج کے لےے ہر ممکنہ سہولیات مہیا کراکر اِن پر کسی حد تک قابو پایا ہے۔ اسی طرح کینسر کی بیماری کی روک تھام اور علاج و معالجہ کی بھرپور کوشش کرے۔ اس کے ساتھ ہی میں مسلمانوں سے بھی کہنا چاہوں گا کہ اپنے علاقے میں بیت المال قائم کرکے اُس سے کینسر، دل، گردے جیسی بڑی خطرناک اور مہنگے علاج والی بیماریوں میں مبتلا غریبوں کے لےے علاج اور امداد کا بندوبست کریں۔ سوچئے کتنی بڑی ناعاقبت اندیشی اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارے محلے میں مسلکی اجتماعات، کھچڑے کی نیاز کے لےے پچاسوں دیگ ، عید ملاد النبی پر سجاوٹ ، روشنی، جھانکیوں، گیٹ، اسٹیج ، جلوس و جلسہ، عرس کے موقع پر پروگراموں ، مزارات پر قیمتی چادریں چڑھانے اور شادی وغیرہ پر لاکھوں کروڑوں روپیہ خرچ کردیا جاتا ہے اور اُسی محلے یا شہر میں کوئی غریب مسلمان اللہ کے رسول کا اُمّتی کینسر، دل، گردے یا دیگر کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہے اور علاج کے پیسے کے لےے مارا مارا پھر رہا ہے یا پھر غیروں کے ٹرسٹوں جو کہ مندر میںقائم ہےں وہاں جاکر لائن لگا رہا ہے یا پھر ہر جگہ سے مایوس ہوکر موت کا انتظار کرتے ہوئے خاموشی سے گھٹ گھٹ کر وقت سے پہلے ہی ایک طرح سے اندر ہی اندر مر رہا ہے۔
     ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہمیں خدمت خلق کے لئے مختلف مواقع پر ابھارتا ہے اس کا بدلہ جنت ہے۔اسلام نے خدمت خلق کو کتنی زیادہ اہمیت دی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ روزے اورقسم کے کفارہ میں بھی وہ غریبوں مسکینوں کو کھانا کھلانے پر ابھارتا ہے چنانچہ قسم کے کفارہ کے لئے قرآن حکم دیتا ہے”اس کا کفارہ ہے دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا،جس شخص کو ان میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے“﴾المائدہ:۹۸﴿اسی طرح بیماروں کی عیادت کی بھی اسلام نے خاصی اہمیت دی ہے۔فرمایا اللہ کے رسول ﷺ نے ”جب کوئی مسلمان ،اپنے بھائی کی عیادت کے لئے جاتا ہے تو جب تک واپس نہیں آتا تو گویا جنت کے ایک کمرے میں رہتا ہے۔(صحیح مسلم)اسی طرح ایک دوسری حدیث ہے جس کے راوی حضرت انس بن مالکؓ ہیں ”جس شخص نے وضو کیا اور احسن طریقے سے وضو کیا ،اور اپنے بھائی کی عیادت کے لئے گیا اس کو جہنم سے ستر سال کی مسافت کے برابر دور کر دیا جائے گا۔(سنن ابو داﺅد)
    مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صرف اپنے بیمار بھائی کی عیادت کرنے پر ہی اتنی بشارتیں ہیں تو پھر انکے علاج ومعالجہ کے دور دھوپ وقت اور پیسے کی قربانی کا کتنا بڑا صلہ ملے گا ۔ہم اللہ رحمن و رحیم سے امید کر سکتے ہیں ۔جس نے چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بڑے بڑے صلوں کا وعدہ کر رکھا ہے اور بے شک اللہ کا وعدہ ہی سچا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے”یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں ۔ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔نہ ان کو خوف ہوگا اور نہ وہ غم میں مبتلا ہون گے“﴾البقرة:۲۶۲﴿
    ہمارے یہاں ویسے تو بہت سی تنظیمیں اور ٹرسٹ ہےں مگراکثر کی فلاحی خدمت ، چشمے اور کاپیاں باٹنے تک ہی محدود ہےں۔ چشمہ تو غریب آدمی فٹ پاتھ سے بھی بنوا سکتا ہے اور پندرہ بیس کاپیاں خریدنا تو کسی غریب کے لےے کوئی بڑامسئلہ نہیں ہے مگر بڑی و مہلک ترین بیماریوں کے علاج کے لےے وہ بے چارہ اتنا بے بس ہوتا ہے کہ اپنا سب کچھ بیچ کر بھی علاج نہیں کرواسکتا۔ اس بارے میں ایک سچی مثال دیتا ہوں۔ ہمارے ایک غریب مزدور رشتے دار سات آٹھ سال قبل علاج کے لےے ممبئی کے جے جے اسپتال میں داخل تھے، دل کی تین رگیں بند ہوچکی تھیں۔ ڈاکٹروں نے آپریشن کے لےے دو لاکھ کا خرچ بتایا اور خیراتی ٹرسٹوں کی ایک لسٹ تھما دی۔ اُن میں کچھ مسلم ٹرسٹ بھی تھے مگر سب جگہ یہی جواب ملا کہ فنڈ نہیں ہے۔ اس کے بعد میں انہیں لے کر اُن مسلم سیٹھوں کے پاس گیا جو بڑے بڑے دینی اجتماعات منعقدکراتے ہےں۔ عید میلاد اور محرم کی نیازوں پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہےں اور جن کے خاندان میں جب شادیاں ہوتی ہےں بیس سے پچیس لاکھ روپے سے کم خرچ کرنا اُن کی شان کے خلاف ہوتا ہے مگر اُن میں سے کچھ لوگوں نے بس اتنی ہی فیاضی دکھائی کہ 500 روپے نکال کر ہاتھ میں پکڑا دےے اور ایک سیٹھوں کے سیٹھ نے ایک ہزار روپے زکوٰة کہہ کر انہیں دیا۔ بالآخر وہ مایوس ہوکر وطن لوٹ گئے۔ اگر ہم سب مل کر بیت المال قائم کریں اور اُن میں دیگر خرچوں میں سے کٹوتی کرکے ، مثلاً شادی سادگی سے کریں، نیازوں میں 20ڈیگ کھچڑا پکانے کی جگہ صرف 5 دیگ ہی پکائیں۔ عرس اور عید میلادالنبی ، گیارہویں وغیرہ پر سجاوٹ پر بے دریغ پیسہ خرچ کرکے معمولی سجاوٹ کریں اور ان سب پیسوں سے اپنے کسی مسلمان غریب بھائی جو کہ کینسر، دل، گردے یا دیگر کسی مہلک مرض میں مبتلا ہے اُس کی مدد کریں۔ یا اسپتالوں میں اُس کی رہنمائی کریں اور اُس کے گھر والوں کا خرچ یا بچوں کی تعلیم کا خرچ ادا کریں۔ تو اللہ کے رسول اپنے اس اُمّتی کی مدد کرنے پر ہم سے کتنے خوش ہوں گے۔ اُن کے خوش ہونے سے ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائے گی۔یہی اصل خدمت خلق ہوگی اور یہی ہمارانصب العین ہونا چاہےے۔ قیامت کے دن جب کہ کہیں بھی کوئی سایہ نہیں ہوگا سوائے اللہ کے عرش کے اس دن جن سات لوگوں کو وہ سایہ نصیب ہوگا اس میں ایک خفیہ طور پر صدقہ کرنے والا شخص بھی شامل ہے۔ایک حدیث اور ہے جس کا مفہوم ہے جو شخص دنیا میں کسی کی کوئی تکلیف دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی تکلیفوں میں سے ایک تکلیف دور کر دےگا۔ امید ہے میری یہ باتیں صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوں گی بلکہ ہر صاحب دل اور سچا عاشقِ رسول اس کو عملی جامہ پہنانے کی اپنی سطح پر ضرور کوشش کرے گا۔
محفوظ الرحمن انصاری۔موبائل۔09869398281
   

No comments:

Post a Comment