پیغام
-(یوم حیا کی مناسبت سے ایک تحریر)
وہ ایک نامورمصورتھا۔ مغربی ممالک میں مصوری کے میدان میں اس کانام مثال بن
چکاتھا۔ آنکھ کے پردے پرآنے والی ایک جھلک کو اس کی مکمل خوبصورتی کے ساتھ
تصویرکی شکل دینا اس کے لیے معمولی کام تھا۔وہ کم عمری میں ہی مغربی
سرزمین کا غرور قراردیے جانے والے حسن کو اس کی مکمل خوبصورتی اور رعنائیوں
کے ساتھ کاغذ پر منتقل کرکے اپنی مہارت کا ثبوت دے چکا تھا۔ ایسا کرنے کے
بعد اس کے چہرے پر ایسا اطمینان آتا جیسے کسی ناقابل تسخیر شاہکارکو اپنے
قدموں تلے روندنے والے فاتح کے چہرے پرہوسکتاہے۔ اس کے شاہکار حقیقت کے
عکاس تھے۔ اس کے وہ فن پارے عالمی نمائشوں میں ہمیشہ پہلا انعام حاصل کرتے۔
لوگ انتظارکرتے تھے اس کے آئندہ شاہکارکا۔ اسے اپنی صلاحیتوں کا اندازہ
بھی تھا اور ان پر فخربھی۔ لوگوں کی ستائشی نظریں اسے اچھی لگتی تھیں۔ وہ
دنیابھرمیں پہچانا جاتاتھا۔ عزت‘ شہرت‘ نام دولت سب اس کے پاس موجود تھا۔
وہ خود کو دنیا کا کامیاب ترین انسان سمجھتا تھا اور اسی لیے وہ اپنے دل
ودماغ میں پیدا ہونے والے ان خیالات کو خاطرمیں نہیں لاتا تھا جو مغربی
غرور قراردیے جانے والے چہروںکو برش سے کاغذ پر منتقل کرنے کے بعد بھی اسے
چین نہ لینے دیتے تھے۔ یہ شاہکاراس کی کامیابی کے ضامن تھے مگر وہ خود اپنے
بنائے ہوئے ان فن پاروں سے کبھی مطمئن نہیں ہواتھا۔ اس کا دل بے چین رہتا
تھا اور اس کے اپنے بنائے ہوئے فن پاروں کو شاہکارتسلیم کرنے سے انکار کرتا
تھا۔ کبھی کبھی اسے محسوس ہوتاکہ اس کا دل بھی اس شخص کے ساتھ ہے جو ہمیشہ
اسی کی تصویروں کو معمولی سی بھی اہمیت نہیں دیتا تھا۔
بس وہ ایک شخص تھا جسے دیکھ کر وہ تذبذب کا شکارہوجاتاتھا۔ اس کے چہرے سے
کامیاب شخص کا غرور اور فاتح کا گھمنڈ غائب ہوجاتاتھا۔ اس کے فن پاروں کی
نمائش یورپ کے معروف ترین آڈیٹوریمز میں ہوتی تھی اور وہ شخص باقاعدگی سے
ہرنمائش میں آتاتھا۔ لاکھوں ستائشی نظروں کے ساتھ ساتھ بس ایک اسی کی
تنقیدی نظروں کا سامنا اسے کرناپڑتا۔ وہ ہمیشہ اس کا سامنا کرنے سے
کتراتاتھا۔ وہ اس کے ہرشاہکارکی نمائش میں ضرورآتا اور جاتے ہوئے بس اس سے
ایک جملہ کہتا جو چند لمحوں کے لیے اس کے جسم پر لرزہ طاری کردیتا۔ اس
باربھی یہی ہوا۔ اس نے دنیا میں جنت قراردی جانے والی سرزمین کے ایک چہرے
کو کاغذ پرمنتقل کیاتھا۔وہ تصویریورپی شاہکارتھا۔ تمام شرکاءاس کو داد دے
رہے تھے اور اس کی گردن فخرسے اکڑتی جارہی تھی کہ اچانک وہ ہال میں داخل
ہوا۔ اسے دیکھتے ہی اس کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا اور اس باربھی ہال میں
کئی چکرلگانے کے بعد وہ اس سے ملا اورہمیشہ کی طرح ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے
ساتھ اسے اپنا تعارفی کارڈ دیا اور مخصوص جملہ دہرایا۔
جو خود نمائی کے لیے تمہارے برش کے ذریعے کاغذ پر آجائے وہ شاہکارنہیں
ہوسکتا۔ ”جس دن قدرت کا حقیقی شاہکار دیکھ لیا تو کینوس پر منتقل کرنا تو
دورکی بات ہے‘ تاب بھی نہ لاسکوگے“۔ مگر مجھے یقین ہے تم ضرورحقیقی
شاہکارکو ڈھونڈلوگے کیونکہ رب نے جو تمہیں صلاحیتیں دی ہیں وہ خود نمائی کے
پیاسے ان چہروں کو دنیا میں متعارف کرانے کے لیے نہیں ہوسکتی۔ تمہاری
صلاحیتیں ضرورپیغام پہنچانے کے لیے استعمال ہوں گی۔ اورپھر یہی ہوا۔
وہ لاکھوں ستائشی نظروں کو بھول گیا اور اس ایک شخص کی چبھتی ہوئی نظروں
میں اپنے لیے تعریف دیکھنے کے لیے کسی ایسے شاہکارکو تسخیرکرنے کا تہیہ
کربیٹھا جو اس شخص کی نظروں کو بدل دے۔ تلاش کے جنون میں وہ نکل کھڑا ہوا۔
پھرجب وہ خود کو پہلی بارناکام تصورکرکے واپسی کا ارادہ کررہاتھا تو اس نے
آسمان کی جانب نگاہ کرکے اپنی کامیابی کے لیے مدد مانگی۔ اور جب وہ واپسی
کا سفر شروع کرچکا تھا تو اچانک ایک عکس اس کی آنکھوں کے پردے پرلہرایا۔
حقیقت کا عکس تھا یا خیال۔ اس نے آنکھیں بندکرکے اس خیالی عکس کو آنکھوں کے
پردے سے ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کی اور اسی کو شش میں وہ ہوش میں نہ
رہا۔ جب اسے ہوش آیا تو کچھ لوگ اس کے اردگردمیں موجود تھے جو اس کے ہوش
میں آنے پر اطمینان کا اظہارکررہے تھے۔
اس نے واپسی کا سفرشروع کیا تو اس کے ذہن ودل میں جنگ جاری تھی۔ دل کہتا
تھا کہ اس کے ذہن میں محفوظ ہونے والے اس عکس یا خیال کو کینوس پر منتقل
کرنا ناممکن ہے جبکہ ذہن اسے کہتا تھا کہ یہ تیرے فن کی توہین ہوگی۔ وہ
واپس پہنچا اور اپنے تمام سابقہ فن پاروں کو غورسے دیکھا۔
آنکھیں شخصیت کی عکاس ہوتی ہیں۔ اس کے ذہن میں اس شخص کے الفاظ گونجے۔وہ
مغرب کے بہترین حس قراردیے جانے والے ان چہروں پر موجود آنکھوں کو دیکھتا۔
اس نے پہلی تصویرکی آنکھوں میں دیکھا‘ پھردوسری ‘پھر تیسری‘ چوتھی‘ مغربی
مقابلوں میں حسن کا شاہکارقراردیے جانے والے ان چہروں پرآنکھیں توتھیں
مگر‘مغربی ثقافت کا پرچارکرتی ان تصویروں کو دیکھ کر اسے متلی ہونے لگی۔ اس
نے پہلی تصویرفرش پرپھینکی اورآگ لگادی اوریکے بعددیگرے تمام تصویریں اپنے
انجام کو پہنچ گئیں جبکہ تصویرمیں دکھائی دینے والے حقیقی وجودکو بھی
بالآخراسی انجام سے دوچارہوناہے۔ اس کاریکارڈ روم خالی ہوگیا تھا۔ اس نے طے
کرلیا تھا کہ وہ خیالی عکس کو ضرورکاغذپرمنتقل کرے گا اور پھر وہ اس کام
میں مگن ہوگیا۔ اس نے کئی ماہ کی سخت محنت کے بعد اپنے خیالی عکس کو کینوس
پر منتقل کیا مگر اس کا دل اس کی نمائش کی اجازت نہیں دے رہاتھا۔ اس نے وہ
تصویراپنے اسٹڈی روم میں رکھ دی اور اس پر چادر ڈال دی ۔ اسے یہ خوف محسوس
ہوتا تھا کہ اگرکوئی نظر اس تصویرپر پڑی تو یہ میلی ہوجائے گی۔
وہ روزانہ اس تصویرکودیکھتا اور پھر اس کو ڈھانپ دیتا۔ اس کا دل مطمئن تھا
کہ جیسے اس نے حقیقی شاہکاربنالیاہو۔ معمول کے مطابق آج بھی اس نے پردہ
اٹھایا تو اس کے ذہن میں اس شخص کے الفاظ گونج رہے تھے ‘تمہاری صلاحیتیں
ضرورپیغام پہنچانے کے لیے استعمال ہوں گی۔ وہ اپنے خیالی شاہکارکو دیکھنے
لگا۔
کینوس پر ایک چہرہ تھا‘ اطراف میں صبح کا اجالا پھیلا ہوا تھا‘ چہرے
پرکرنیں ایسے پڑرہی تھیں جیسے نورسحرنے چہرے پرپردہ کردیا ہو صرف دوآنکھیں
تھیں‘ ادھ کھلی آنکھیں‘ کسی نومولودکی مسکراہٹ کی پاکیزہ‘ بندہوتی پلکیں
آنکھوں میں موجود شرم وحیاءکو بھی ڈھانپناچاہ رہی تھیں۔ آنکھوں کے کناروں
پر موجود وشفاف قطرے دل میں موجزن عشق کے سمندرکے گواہ تھے‘ عشق حقیقی کے
گواہ‘ آنکھوں میں مطلوب کی رضاکی طلب تھی اوربھرپوراطمینان‘ خودسپردگی کا
اطمینان۔ یہ اطمینان اسے اپنے دل میں اترتا محسوس ہورہاتھا۔ وہ کافی دیرتک
تصویرکو دیکھتا رہا اور پھر اس نے تصویرکو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ
کرلیا۔ عزت یا شہرت کے لیے نہیں‘ پیغام پہنچانے کے لیے۔
courtesy Jasarat
courtesy Jasarat
No comments:
Post a Comment