تاریخ کا خاتمہ نہیں ہوا
غلام اکبر
1990ءکی دہائی میں دو کتابوں نے غیر معمولی شہرت حاصل کی اور دُنیا بھر میں تجزیہ کاروں نے ان کتابوں میں پیش کی جانے والی تھیوریوں کو موضوع بحث بنایا۔ ایک تصنیف پروفیسر سیموئل ہنٹنگٹن کی تھی جس کا نام بہت سوچ سمجھ کر The Clash of Civilizationsیعنی تہذیبوں کا تصادم رکھا گیا تھا۔ دوسری تصنیف فرانسس فوکویاما کی The End of Historyتھی جو پہلی خلیجی جنگ کے اختتام پر سامنے آئی۔ فرانسس فوکو یاما اب کچھ پس منظر میں جاچکے ہیں مگر تب وہ واشنگٹن کے اس خفیہ پالیسی ساز ادارے سے منسلک تھے جس کا کام آئندہ پیش آنےوالے ممکنہ واقعات کا اندازہ لگا کر امریکہ کی جوابی حکمت عملی تیار کرنے کےلئے تمام قابلِ عمل آپشنز کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ نیوکون تحریک جس کے ” اکابرین “ نے جارج بش کے زمانے میں واشنگٹن کے تقریباً تمام اہم اداروں پر قبضہ کیا اس کے ایک پیشرو فرانسس فوکویاما بھی تھے۔
The End of History یعنی ”تاریخ کا خاتمہ “ میں فوکو یاما نے یہ فلسفہ پیش کیا کہ ” چونکہ سوویت یونین کی شکست و ریخت مکمل ہوچکی ہے‘ چین ایک موثر عالمی طاقت بننے کے ہدف سے کئی دہائیوں کے فاصلے پر ہے اور مشرق وسطیٰ پر امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کرنے کا حوصلہ دُور دُور تک کسی میں نظر نہیں آرہا اس لئے اس فیصلہ کن نتیجے پر پہنچنے کے راستے میں کوئی دلیل حائل نہیں کہ دُنیا بالآخر Unipolarبن چکی ہے اور اب تاریخ کی گاڑی جہاں آکھڑی ہوئی ہے اسکے آگے کوئی سفر نہیں۔مطلب اس تھیوری کا یہ تھاکہ ایک عالمگیرقوت کی بالادستی میں آنے کے بعد کرہ ِارض جھگڑوں اور جنگوں کے خطرے سے پاک ہوچکا تھا اور ایسے کسی واقعے کے رونما ہونے کاکوئی امکان یا احتمال نہیں رہا تھا جو کسی قابل ِذکر تبدیلی کا باعث بن کر تاریخ میں کسی نئے باب کا اضافہ کرسکے۔ فوکو یا ما کی اس تھیوری کے ساتھ نیوکون تحریک کے دوسرے کچھ بڑوں کا اتفاق نہیں تھا۔صدر بش کے دور میں پینٹاگون کے ڈپٹی سیکرٹری بننے والے پال وولفووٹز شروع سے ہی اس خیال کے حامی تھے کہ ” تاریخ کو اختتام تک پہنچانے کےلئے “ صدام حسین کا خاتمہ اور عراق پر امریکی قبضہ ضروری تھا۔پال وولفووٹزکے ” گُرو“ رچرڈ سٹیل نے تو واضح طور پر یہ ” ڈاکٹرائن “ پیش کردی تھی کہ جب تک تیل کے ذخائر پر امریکہ کا قبضہ براہ راست یا بلاواسط طور پر نہیں ہوجاتا اس وقت تک عرب عوام کی ” اسلامی اُمنگوں“ کی تلوار اسرائیل پر بھی لٹکتی رہے گی اور امریکی مفادات پر بھی۔نیوکون تحریک کے اکابرین نے تاریخ کو ایک ” حقیقی“ اختتام تک پہنچانے کا ہدف حاصل کرنے کےلئے اس صدی کا آغاز دنیائے ہلال پر دو ہلاکت آفرین اور تباہ کن جنگیں مسلط کرکے کیا۔گیارہ برس بعد آج دُنیا جہاں کھڑی ہے اس مقام سے دُنیا کے مستقبل کا اندازہ لگانے یا جائزہ لینے والا کوئی محقق یہ فتویٰ صادر کرنے کی کوشش یا جرا ¿ت نہیں کرےگا کہ تاریخ اپنا سفر مکمل کرچکی ہے اور پچاس برس بعد کے کسی ہیرو ڈوٹس ¾ ابن خلدون یا ٹائن بی کے پاس 2012ءسے آگے کے بارے میں لکھنے کےلئے کوئی مواد نہیںہوگا۔اب میں دوسری اہم تصنیف یعنی ” تہذیبوں کا تصادم “ کا ذکر کروں گا۔
پروفیسر ہنٹنگٹن نے اس ممکنہ ” تصادم “ میں جن تہذیبوں کو سامنے رکھا تھا وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ایک مغربی تہذیب جسکی پیشر و صلیبی تہذیب تھی۔ اور دوسری وہ تہذیب جس نے اسلام کی کوکھ سے جنم لیا۔ پروفیسر ہنٹنگٹن کا سارا زور اس بات پر تھاکہ دُنیا بھر میں مسلمان جتنی شدت کےساتھ اپنا شاندار ماضی یاد کرتے ہیں اتنی ہی شدت کےساتھ انکے اندر احساسِ محرومیت کے ساتھ غم و غصہ بھی اُبھرتا ہے۔ساتویں صدی سے چودہویں صدی تک دُنیا پر تقریباً مکمل اور فیصلہ کُن غلبہ رکھنے والے مسلمان جب آج کے دور میں اپنی کسمپرُسی ¾محتاجی ¾ بے بسی اور ثانوی حیثیت پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اپنی عظمت ِرفتہ کو آواز دیں تو کیسے دیں۔ قعر مّذلت سے نکل کر اپنے مستقبل کو اپنے ماضی کے شایان شان بنانے کی جدوجہد شروع کریں تو کیسے کریں۔پروفیسر ہنٹنگٹن نے اس ضمن میں ایک اہم مسئلہ کا جائزہ بھی لیا جس کا عالم اسلام کو سامنا ہے۔
ساتویں صدی میں ظہور پذیر ہونےوالی تہذیب کو اکیسویں صدی کی تہذیب سے ہم آہنگ کیسے کیا جائے ؟ اسلام کو جدیدیت کے چیلنج پر پورا کیسے اتارا جائے؟ ان سوالوں کا ایک جواب پروفیسر ہنٹنگٹن نے ترکی کے اتاترک کی مثال سامنے رکھ کر دیا۔ یعنی مسلمان اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اسلام کو تاریخ کے کسی ایسے کباڑخانے میں پھینک دیںجہاں سے اسے دوبارہ دریافت کرکے واپس نہ لایاجاسکے۔دوسرا جواب پروفیسر ہنٹنگٹن کے پاس نہیں تھا مگر اشارتاً انہوں نے یہ بات لکھ دی کہ اپنے غم وغصے کے اظہار کےلئے مسلمان دُنیاکی بالادست تہذیب یعنی مغربی تہذیب کےخلاف تخریب کاری ¾ تشدد اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔
یہاں میں پروفیسر برنارڈلیوس کی ان کتابوںکا ذکر بھی کرنا چاہوں گا جو گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں بڑی کثرت کےساتھ سامنے آئیں اور جن کا مرکزی خیال ایک اور صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ جو تہذیبیں ایک مرتبہ گرتی ہیں وہ پھر کبھی نہیں اُٹھ پاتیں۔آپ سو چ رہے ہونگے کہ میں نے فوکویاما اور پروفیسر ہنٹنگٹن کی متذکرہ تصانیف کو آج اپنا موضوع قلم کیوں بنایا ہے۔ میں صرف یہ بات قارئین کے سامنے لانا چاہتا ہوں کہ مغرب کے دانشوروں‘ تجزیہ کاروں اور حکمت سازوں کے تحت الشعور میںکہیں نہ کہیں یہ خوف یقینی طور پر چھپا ہو ا)یا دبا ہوا ہے (کہ کہیں وہ ” سوچ “ پھر ” عزم “ کے سانچے میں ڈھل کر دنیائے ہلال کے کسی کونے میں ” حکمت “ کا رُوپ نہ دھار لے جس نے جبّلِ الطارق کے راستے اوقیانوس عبور کیا تھا اور سرزمین یورپ پر قدم رکھنے کے بعد کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مغرب کے کچھ محققین گزشتہ صدری کے اوائل سے ہی ” اسلام کی واپسی “ کو ”ممکنات “ میں شامل کرتے چلے آرہے ہیں۔اس ضمن میں اپنے گزشتہ کالم میں میں نے جوزف ہیل کی تصنیف The Arab Civilizationمیں کی جانےوالی پیشگوئی کا ذکر کیا تھا۔ متذکرہ کالم کی اشاعت کے بعد نوائے وقت کے ایک قاری جناب صلاح الدین نے مجھ سے رابطہ کیا اور مصنف کے نام کی تصحیح کرتے ہوئے بتایا کہ لگ بھگ ایک صدی قبل لکھی جانےوالی یہ کتاب انکی آن لائن لائبریری میں موجود ہے۔ میں نے وہ کتاب تقریباً نصف صدی قبل پڑھی تھی اس لئے مصنف کا نام جوزف ہیل کی بجائے ذہن میں حافظے کی غلطی سے جوزف کیل رہ گیا۔ بہرحال وہ کتاب جناب صلاح الدین نے مجھے بھجوا دی ہے اور مجھے دوبارہ اس کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس مطالعے نے میرے اس موقف اور یقین کو تقویت دی ہے کہ مسلم نشاة ثانیہ یا اسلام کی واپسی کی سوچ نہ صرف یہ کہ حقیقت میں ڈھلنے والی ہے بلکہ یہ بھی کہ مغرب کے اسلام دشمن حلقے اس امکان سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اسکا راستہ روکنے کےلئے تمام ممکنہ حربے اختیار کررہے ہیں۔ پہلا حربہ تو ان حلقوں کا یہی ہے کہ اسلام کو امن دشمنی دہشت گردی اور قتل و غارت سے نتھی کردیا جائے اور اس مقصد کےلئے جہاد کے ” اسلامی تصور “ کی نہایت مسخ شدہ تشریح سامنے لائی جائے۔ دوسرا حربہ یہ ہے کہ اہل مغرب کی صفوں میں اس خطرے کی گھنٹیاں بجا دی جائیں کہ اگر ” فتنہءاسلام“ کو بروقت روکا اور کچلا نہ گیا تو مغربی تہذیب اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرےگی۔اس قسم کے خطرے کی گھنٹیاں بجانے والوں میں سیموئل ہنٹنگٹن جیسے مسلمہ محقق بھی شامل رہے ہیں اور آج کے دور میں یورپ اور امریکہ دونوں سے اسلامی شناخت کی تمام علامات کو بے دخل کرنے کی تحریک چلانے والے ” گیرٹ وائلڈرز (Geert Wilders) جیسے خون آشام مہم جُو بھی ہیں۔ ہالینڈ میں انتہا پسند دائیں بازو کی نفرت انگیز مسلم دشمن بلکہ مسلم کُش جماعت قائم کرنےوالایہ شخص امریکہ میں بھی بھرپور انداز میں سرگرم عمل ہے۔ وہ ببانگِ دہل کہتا ہے ” جب میں کوئی مسجد دیکھتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ ہماری تہذیب اور شناخت کا مقتل ہو۔“
یہ تو ایک انتہا پسند عیسائی جنونی کی بات ہے۔ سیکولرزم کے پلیٹ فارم سے بھی اسلام پر بڑے بھرپور حملے ہورہے ہیں۔ ان حملوں میں پیش پیش the End of Faithعقیدے کا خاتمہ(کا مصنف سیم ہیرس ہے جس کا کہنا ہے کہ ” ہماری ترقی یافتہ سیکولر تہذیب کا اصل دشمن اسلامی دہشت گرد نہیں وہ اعتدال پسند مسلمان ہے جو ہمیں بے وقوف بنانے کےلئے اپنے دین کو امن کا دین ثابت کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نفرت کی دستاویز ہے۔ اور جب تک مسلمان اس سے دستبردار نہیں ہوتے ہم ان پر اعتماد نہیں کرسکتے )نعوذباللہ(۔“
گیرٹ وائلڈرز اور سیم ہیرس صرف نام نہیں ایسی حقیقتیں ہیں جن سے نظریں چرانے کی عیاشی کے متحمل ہم ہر گز نہیں ہوسکتے۔ ایسے لوگوں کو سامنے رکھ کر ہی میں کہا کرتا ہوں کہ تصادم تہذیبوں کے درمیان نہیں سوچوں کے درمیان ہے۔ اس ضمن میں کیرن آرمسٹرانگ کا ذکر کرنا میرے لئے ضروری ہے ۔ یہ خاتون تقریباً چار دہائیوں سے سچ کی تلاش میں مصروف ہے۔ پہلے وہ عیسائی نن تھی ۔ پھر وہ منکرِ خدا بن گئی اور مشہور و معروف کتاب ” ہسٹری آف گاڈ“ لکھی۔ تحقیق و تجربے کے وسیع سمندر کو عبور کرنے کے بعد اس نے دو کتابیں اسلام پر بھی لکھیں۔ موصوفہ کی آخری کتاب The Prophet of our timeیعنی ” عہدِ حاضر کا پیغمبر“ تھی۔ اس کتاب میں موصفہ نے لکھا۔
” اگر دُنیا میں امن قائم کرنا مقصود ہے تو محمد ﷺ کی زندگی اور تعلیمات کو مشعلِ راہ بناناہوگا۔“
میرے اگلے کالم کا موضوع یہ سوال ہوگا کہ کیرن آرمسٹرانگ نے اتنا بڑا خراجِ تحسین اسلام کے پیغمبر کو کیوں دیا۔۔۔
No comments:
Post a Comment