کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
آج رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی‘ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ولادت مسعود کا جشن منایا جارہا ہے۔ حضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم خاتم الانبیا بن کر پوری انسانیت کے لیے خدا کا آخری پیغام لے کر
آئے تھی‘ یہ پیغام کسی دور یا عصر‘ یا کسی قوم یا نسل‘ علاقے یا کسی خاص
زبان بولنے والوں کے لیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے ہے۔ رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اس لیے قیامت
تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو
محفوظ کرنے کی ضمانت اللہ رب العزت نے لے لی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب قرآن
مجید اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حیاتِ طیبہ کی صورت اللہ
کا پیغام محفوظ کردیا گیا ہے۔ اس پیغام کی وارث امت مسلمہ قرار دی گئی ہے
اور امت مسلمہ کو روئے ارض پر امت وسط بناکر کل انسانیت کے سامنے اللہ کے
دین کی شہادت کا فرض ادا کرنا ہے اور دنیا کے تمام انسانوں کو بندگی رب کا
پیغام پہنچانا ہے کہ اس کے بغیر نہ دنیا کی نجات ممکن ہے اور نہ آخرت کی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہونے سے قبل حجتہ الوداع کے
عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو حاضر ہیں وہ اس پیغام کو
ان لوگوں تک پہنچادیں جو بعد میں آنے والے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کا انسانیت کے نام خدا کا پیغام یہی ہے کہ اللہ کی بندگی اور اس کے
دین کی اطاعت قبول کرلو اور خدا کے دشمنوں اور باغیوں کی غلامی‘ حکومت اور
اطاعت کا قلادہ اتار کر پھینک دو تو فلاح و کامیابی اور نجات تمہارا مقدر
ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی کلمہ طیبہ لاالٰہ الااللہ کی
شہادت تمہیں دنیا کا امام بنادے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار برس کی امت
مسلمہ کی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے دو مصرعوں میں عروج و
زوال کی حقیقت بیان کردی تھی۔ وہ یہ ہے کہ:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں
امت مسلمہ کا ہر صاحب شعور مسلمان اس تصور پر یقین و ایمان رکھتا ہے کہ مسلمانوں کے اور انسانیت کے تمام مسائل کا حل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے راستے پر چلنے اور آپ کی ذاتِ گرامی کو اپنے لیے نمونہ بنانے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی عظمت و رفعت کا احساس آپ کی ذات سے گہری محبت اور عقیدت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ احساس ہر مسلمان کے دل میں رہتا ہی‘ لیکن ہر سال ربیع الاوّل کی آمد مسلمانوں کے قلب و دماغ میں عجیب و غریب سرشاری پیدا کرتی ہے۔ دورِ زوال میںالمیہ یہ پیدا ہوا ہے کہ ہم محض آپ کی ذات سے اظہار محبت کو کافی سمجھنے لگے ہیں۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی جو صورت حال ہے وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمیں ایک بار پھر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے جھوٹے خداوں کی خدائی کا انکار کرکے خدائے واحد کی بندگی کی بنیاد پر نوع انسانی کی ازسرنو شیرازہ بندی کی تھی۔ یثرب کو مدینتہ النبی کا خطاب صرف اس لیے ملا تھا کہ اللہ کے دین کی بنیاد پر نظام حکومت قائم ہوگیا تھا جس نے وقت کے تمام ابوجہلوں کے سر کچل دیے تھی‘ قیصر و کسریٰ کی ہلاکت کی خبر دے کر انسانوں پر انسانوں کی غلامی کے خاتمے کی بشارت دی تھی‘ لیکن آج ڈیڑھ ارب کلمہ گو مسلمانوں اور 57 آزاد مسلمان مملکتوں کے باوجود کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جسے مدینہ کی اسلامی ریاست کے مطابق قرار دیا جاسکے۔ آج اللہ کی کتاب اور حکومت ایک دوسرے سے علیحدہ ہوچکے ہیں‘ پوری روئے ارضی اور دنیا کے ہر ملک پر ظلم اور فساد کا دور دورہ ہے۔ دنیا کے مرکزی جغرافیی‘ بری و بحری تجارتی شاہراہوں‘ زرعی و معدنی دولت کے باوجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے زوال وادبار کا حال یہ ہے کہ اہل کفر ٹوٹ پڑے ہیں۔ اس صورت حال کی خبر بھی مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی تھی اور خبردار کردیا تھا کہ وہ وقت بھی آئے گا جب کفر کی طاقتیں تم پر اس طرح ٹوٹیں گی جس طرح بھوکے دسترخوان پر ٹوٹتے ہیں۔ یہ صورت حال آچکی ہی‘ کفر کی طاقتیں متحد ہوکر عالم اسلام پر حملہ آور ہیں۔ ان کا اصل ہدف اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہی‘ عالم کفر عالم اسلام کے تمام معدنی‘ زرعی‘ اقتصادی وسائل پر حملہ آور ہی‘ مسلمانوں کا خون حلال کرلیا گیا ہی‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر لفظاً اور معناً عمل کرنے کو تنگ نظری‘ انتہا پسندی قرار دے دیا گیا ہی‘ تصور جہاد کو دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ اسلام کی ہر علامت‘ پردہ‘ اذان‘ مسجد کے مینار کو خطرہ بتایا جارہا ہی‘ یہاں تک کہ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پامال کرنے کی آزادی طلب کی جارہی ہے۔ ہر مسلمان کی نجات صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ہے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا یہ ہے کہ انفرادی‘ سماجی‘ معاشرتی اور حکومتی و ریاستی زندگی میں مکمل طور پر اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل کیا جائے۔ آج مسلمان صرف زبان سے حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان کررہا ہی‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو بدعنوانی‘ رشوت خوری‘ مالِ حرام مسلمانوں کی پہچان نہ ہوتی۔ آج مسلمانوں کے پست اخلاق اور بدعنوان افراد حکومت پر مسلط ہیں حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقویٰ کو معیار فضیلت اور حکمرانی بتایا تھا۔ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی پیغام یہی ہے۔ مسلمان نہ اپنوں کی ملوکیت کو قبول کرتا ہے نہ غیروں کی غلامی کو‘ آج سرمایہ دارانہ اور تہذیب مغرب کی کفر کی غلامی میں مسلمان صرف اس لیے جکڑا ہوا ہے کہ وہ سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام بھول گیا ہے۔ 12 ربیع الاوّل کا اصل پیغام اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا یہ ہے کہ اس کش مکش میں اپنا کردار ادا کیا جائے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو مٹانے کے لیے عالم کفر اپنی پوری طاقت سے کررہا ہے۔
No comments:
Post a Comment